قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ میرے ولی
لاخوف ہیں وہ فر ماتا
ہے کہ جو میرے بندے ہیں انہیں نہ کوئی خوف
ہوتا ہے اور نہ کوئی فرسٹریشن ہوتی ہے
فرسٹریشن کا مطلب ہے اندیشہ۔ خوف کے ساتھ ہمارا واسطہ بچپن سے ہوتاہے قدرت ہمیں کچھ خوف دے دیتی ہے جو
ہمارے زندہ رہنے کے لیے بہت ضرور ی ہوتے ہیں اسی خوف کی وجہ سے
ہم احتیاط سے زندگی گزارتے
ہیں ہمارے سارے فیصلوں میں احتیاط شامل ہوتی ہے ۔ یہ خوف ہمیں بتاتا ہے کہ ہم انسان
ہیں ہم خدا نہیں ہیں سو فیصد خوف کے بغیر اگر کوئی ذات ہے تو وہ اللہ تعالیٰ
کی ذات ہے ۔ کچھ معروف خوف جو زندگی میں
ہمارے ساتھ چلتے رہتے ہیں:
1۔ پیدائشی خوف
بچے کے پیدا ہونے
کے ساتھ ہی کچھ خوف
بھی آ جاتے ہیں جن میں بلندی سے
گرنے کا خوف ، سانس بند ہونے کا خوف، خوفناک آواز کا خوف ۔جیسے جیسے انسان بڑا
ہوتاہے اس کے ساتھ مزید خوف آنا شروع ہو جاتے
ہیں جیسے غریب ہونے کا خوف، موت کا خوف،
چیز وں کے چوری ہونے کا خوف، دوستوں کے چھوڑ دینے کا خوف، حالات کی بے رحمی کا
خوف، حادثات کا خوف، روزگار نہ ملنے کا خوف، میرا مستقبل کیسا ہوگا اس کا خوف، بے
عزتی کا خوف، ناکام ہونے کا خوف۔
ہمیں بچپن میں
غریب ہونے کو کوئی خوف نہیں ہوتا کیونکہ
اس دور میں یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ امیر
کیا ہوتا ہے اور غریب کیا ہوتا ہے پھر ایک
ایسا دور آتا ہے جس میں زندگی میں حاصل اور محرومی داخل ہوتی ہے جس میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے میں نے کچھ حاصل
کرنا ہے یہ میرے پاس کیوں نہیں ہے جیسے ہی
یہ خواہش آ تی ہے ساتھ ہی خوف بھی آنا شروع ہو جاتا ہے ۔
2۔ خواہشوں کا خوف
گوتھم بدھ کہتا ہے
کہ دنیا میں خواہش سب سے بڑا مسئلہ ہے آپ خواہش سے آزا د ہو جائیں آپ غموں سے آزاد
ہو جائیں گے ۔ہماری بچپن سے ہی خواہشیں بڑھنا شروع ہو جاتی ہیں بچپن کی خواہشیں
کھلونے ہوتے ہیں اس میں کھلونوں کا ٹوٹ جانا خوف ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے
خواہشیں بڑھتی جاتی ہیں جتنی زیادہ خواہشیں ہوتی ہیں خوف کی مقدار بھی اتنی زیادہ
ہو جاتی ہے ۔ بے شمار لوگ ایسے ہیں جنہیں
اللہ تعالیٰ نے بہت دیا ہے لیکن ان کے پاس خوف بھی بہت زیادہ ہے جتنا زیادہ مال
ہے اتنا زیادہ خوف ہے ، جتنی زیادہ بلندی ہے اتنا بڑا خوف ہے،وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کو نہیں مانتے وہ اپنی محنت کو مانتے ہیں وہ
سمجھتے ہیں کہ میں نے محنت سے سب
کچھ بنایا ہے جب وہ یہ سب کچھ کرتے
ہیں ساتھ ہی سزا شروع ہو جاتی ہے اور اس سزا کا نام خوف ہے۔ جس نے نوازہ ہے اگر
اس کو بھو ل جائیں اور اپنے حاصل کو سامنے رکھیں گے تو پھر خوف پیدا ہو جاتا
ہے جبکہ دوسری طرف نوازنے والے کو سامنے
رکھیں گے تو پھر خوف کم ہونا شروع ہو جاتا ہے کیونکہ یہ یقین ہوتا ہے کہ جس نے
پہلے نوازا ہے اس نے پھر بھی نواز دینا ہے ۔عمر کے ساتھ ساتھ یہ خوف خواہشوں کے ساتھ جڑ کر آنے لگ پڑتے ہیں جیسے
کئی پودوں کے پولن مکھی کے پاؤ ں کے ساتھ لگ کر دوسری جگہ چلے جاتے ہیں ایسے ہی
خواہش کی مکھی کے ساتھ خوف کے پولن بھی لگ
کر آ جاتےہیں ۔
3۔ تجرباتی خوف
بعض اوقات ہمارا
ایسے عجیب و غریب تجربات سے واسطہ پڑتا ہے
جس کی وجہ سے ہم خوف زدہ ہو جاتےہیں وہ خوف شائد وقت کے ساتھ ختم ہو جانا
چاہیے لیکن ہم اس خوف کو اصلی خوف سمجھ
لیتے ہیں جیسے بعض لوگ جنہوں نے بڑی زندگی گزاری ہوتی ہے ان کے بال سفید ہو چکے ہوتےہیں لیکن ان کے
اندرسے جانور کا خوف نہیں جاتا اگر غور کیا جائے تو اصل میں یہ بچپن کی کہانیاں جو
اس نے سنی ہوتی ہیں یہ اس کا خوف ہوتا
ہے جو اندر بیٹھا ہوتا ہے ۔ہمارا خوف وقت
کے ساتھ ساتھ بڑا ہوتا جاتا ہے یاختم ہو جاتا ہے ۔ اپنے بچوں کو فرضی خوف نہ دیا
کریں کیونکہ اس فرضی خوف کی وجہ سے بچے کی
شخصیت متاثر ہوتی ہے خوف نظر نہیں
آتا مگریہ اندر سے دباتا رہتا ہے ۔
4۔ دوسرے لوگوں کا خوف
کچھ لوگ ایسے ہوتےہیں جو ہمیں بتا تےہیں سمجھاتے ہیں جس کی
وجہ سے ہمارے اندر خوف پیدا ہو جاتا ہے ایسا خوف
زیادہ تر بادشاہ اپنی رعایا کو دیتا ہے وہ کہتا ہے کہ نہیں مانوں گے تو گردن اڑا دوں گا ، پھانسی دے دوں ،
جیل ہو جائے گی ۔ اس طرح کا خوف سسٹم سے
آتا ہے ، معاشرے سے آتاہے، اردگرد کے مشاہدے سے آتا ہے ۔ اس طرح کے خوف جگہ جگہ سے ملتے رہتےہیں
کئی لوگ خوف بیچ کر کاروبار چلا رہے ہیں
جیسے بیما پالیسی بیچنے والا کہتا ہے کہ اگر آپ مرجاؤ گے تو آپ کے بچوں کا
کیا ہوگا اسی طرح ڈاکٹر خوف دے رہے ہیں ،دوائیاں
خوف سے بک رہی ہیں ۔ زکام اچھی چیز ہے اگر یہ نہ ہوتو دماغ خراب ہو سکتا ہے اسی طرح کبھی کبھی پیٹ بھی خراب ہونا چاہیے اس
سے پیٹ کی صفائی ہو جاتی ہے ہماری صحت کے
لیے اللہ تعالیٰ نے اس طرح کا نظام بنایا
ہواہے لیکن اس کے باوجود خوف پیدا کر کے
ان بیمارویوں کی بھی دوائیوں کو بیچا جا رہا ہے ۔
اللہ تعالیٰ وعد ہ کر رہا ہے کہ اگر تم میرے بندے ہو تو پھر لاخوف ہو جاؤ، اگر انسان کو دس جگہ
جواب پڑے
تو وہ خوف میں مبتلا ہو جائےگا
لیکن جب وہ اپنے ذہن میں یہ بات
رکھے گا کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے سامنے
جواب دہ ہونا ہے تو پھر سارے دوسرے خوف ختم ہو جائیں گے۔ جب انسان کو یقین ہو جاتا ہے کہ اس کائنات کا اصل محافظ
اللہ تعالیٰ ہے تو پھر وہ لاخوف ہو جاتا
ہے۔ ہمارے سارے خوف فرضی ہوتےہیں جب اللہ تعالیٰ کی ذات پیش نظر ہوتی ہے تو وہ سارے فرضی خوف بہت چھوٹے ہو جاتےہیں
۔ ہمیں اپنی چیز پر یقین ہوتا ہے کہ یہ
ٹھیک ہے یہ زیادہ دیر چلے گی اسی طرح ہمیں اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھی یقین
ہونا چاہیے ۔
سائیکالوجی کی تحقیق کے مطابق انسان کے98 فیصد خدشات جھوٹے
ہوتےہیں رات کو لیٹے ہوئے جب آپ پنکھے کو دیکھیں تو ایسے لگے گا کہ یہ شائد گر
جائے گا مگر وہ نہیں گرتا اسی طرح ہم کئی کام کر رہے ہوتےہیں اور ایسا لگتا ہے کہ یہ خراب ہو جائیں گے مگر وہ ٹھیک ہو جاتےہیں ۔ 2 فیصد خدشات ٹھیک
ہوتے ہیں مگر وہ اتنے چھوٹے ہوتےہیں کہ ان سے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا ۔اگر اس تحقیق
کو بھی مان لیا جائے تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ خوف بذات خود پیدا کردہ ہے یہ اتنا
اہم نہیں ہے جتنا ہم نے اس کو اہم بنایا ہوا ہے ۔
لاخوف والے جتنے بھی لوگ ہوتےہیں ان کا تعلق اللہ تعالیٰ کے
ساتھ ہوتا ہے ان کی خوشی اور غم کے معیار
کا تعلق بھی اللہ تعالیٰ سے ہے ۔ ہمار ا خوف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عذاب دے
گا مارے گا جب کہ ان کا خوف یہ ہے کہ کہیں ہم اللہ تعالیٰ سے دور نہ ہو جائیں ،
کہیں اس کا قرب ختم نہ ہو جائے ، کہیں وہ
ناراض نہ ہو جائے ، کہیں میں اس کی رضا پہ راضی رہنا ہی نہ چھوڑ دوں ، میں اس کی
مرضی کے سامنے اپنی مرضی نہ رکھ دوں حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں "اپنی
مرضی اور اللہ تعالیٰ کی مرضی میں فرق کا نام غم ہے" اللہ والاسمجھ جاتا ہے
کہ جو اس کی مرضی ہے وہی میر ی مرضی ہے وہ اپنی مرضی نہیں چلاتا اسے سمجھ آ جاتی
ہے۔ کبھی غور کریں زندگی میں کئی جگہ بے شمار دفعہ اللہ تعالیٰ کی مرضی سامنے آ
جاتی ہے جہاں پر زور لگایا بھی جائے تو
نہیں لگتا وہ مقام گلے کا نہیں ہے وہ قبول
کرنے کا مقام ہے جو اسے قبول کر لیتا
ہے وہ لا خوف ہو جاتا ہے کیونکہ قبول کرنے والا دوست بن جاتا ہے ۔اللہ
تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس کا بھی میرے ساتھ دوستی اور محبت کا رشتہ ہے میں اسے لاخوف
کر دیتا ہوں ۔ موت کے خوف سے ہسپتا ل بھر ے پڑے ہیں ، دنیا خوف سے بھری پڑی
ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کی عطا ہو جائے تو
خوف سے آزاد ی مل جاتی ہے ۔
جس کا اللہ تعالیٰ کی ربوبیت پر یقین ہے
اسے غریب ہونے کا کوئی خوف نہیں ہوسکتا
اس شخص پر سوال ہے جو اللہ تعالیٰ
کو اپنا رب بھی مانتا ہے اور اسے غریب
ہونے کا بھی خوف ہے یہ بہت بڑا تضاد ہے
ایسے لوگ اپنی حرکتوں کی وجہ سے پہچانے جاتےہیں
ایسے بندے کنجوس ہوتےہیں، لوگوں کی
امانتیں وقت پر نہیں لوٹاتے وہ اپنے کام کو اپنا رب سمجھتےہیں وہ سمجھتے ہیں شائد
میر ی دکان کا نام میرا رب ہے حالانکہ یہ سراسر غلط ہے اللہ تعالیٰ کی ذات وہ
ہے کہ اگر وہ کرم کر ے تو سلسلے چلتےہیں ۔
جب بھی بندے کا ایمان پختہ ہوتا ہے وہ
اپنا حق چھوڑدیتا ہے وہ دوسروں کا حق ادا کرناشروع کر دیتاہے ۔ جو حق
دار کا حق لٹکاتا ہے وہ رب کی ربوبیت پر یقین نہیں رکھتا ایسے لوگ پھر خوف بھی
بھانٹتے ہیں اس کی وجہ ہے کہ ایمان والا
ایمان دیتا ہے خوف والا خوف دیتا ہے ۔ بعض لوگوں کے ساتھ بیٹھنے سے خوف ختم ہو جاتا
ہے جبکہ آپ کسی ایسے بندے کے ساتھ بیٹھ
جائیں جس کے پاس خوف ہی خوف ہے آپ کو بھی
خوف محسوس ہونا شروع ہو جائے گا ۔
بچپن میں ہم مقناطیس کو لوہے کے ساتھ رگڑتے رہتے تھے پھر وہ
مقناطیس بن جاتا تھا اسی طرح ہماری سوچیں بھی ہمیں رگڑ رہی ہوتی ہیں ہم خوف
کو سوچ سوچ کر خوف زدہ ہو جاتے ہیں ۔جو ایمان والا ہے وہ توکل پر یقین کر
کر کے ایمان والا بن جاتاہے ۔ ہم جب بھی لاخوف ہوتے ہیں ہمارے دوسروں کے ساتھ
معاملات اچھے ہو جاتے ہیں پھر دوسروں کے
خوف کو دور کریں گے ۔ دنیا میں کئی لوگ
ایسے ہوتے ہیں جو خوف بڑھانے کے بڑے ایکسپرٹ ہوتےہیں وہ چھوٹی سی چیز کو بہت بڑ ا
کردیتےہیں جبکہ بعض بڑے مسئلے کو بہت چھوٹا کر دیتےہیں وہ کہتے ہیں کہ اللہ
تعالیٰ سے ہمت مانگیں مسئلہ خود بخود
چھوٹا ہو جائےگا اس لیے زندگی میں لاخوف
کا مظاہرہ کیا کریں اور وہ مظاہرہ یہ ہے
کہ رب کی بوبیت پر یقین کریں ۔
قبر میں پہلا سوال
یاداشت کے زور پر نہیں دیا جائے
گا اس وقت آپ کی پوری زندگی کی حرکات کی اوسط نکلنی ہے ۔
ہر کام کےپیچھے جو آپ کی نیت تھی اس میں اگر اللہ تعالیٰ کی ذات تھی تو پھر جواب آئے گا کہ "میرا
اللہ وہ ہے "اور اگر ہر کام کی نیت کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی ذات نہیں
تھی تو پھر یہ حافظہ جواب نہیں دے سکے گا چاہتے نہ چاہتے منہ سے نکل
جائے گا کہ میری دکان ، چاہتے نہ چاہتے منہ سے نکل جائےگا کہ میرا
کاروبار ،میری نوکری۔ قبر کے تینوں سوالوں کے جواب حافظے پر مبنی نہیں ہیں وہ
پوری زندگی کی حرکات پر ہیں ۔ رسول اکرم ﷺ سے عشق کرنے والا وہ اپنے ہر کام میں
سوچے گا کہ اگر بیٹی کا ادب ہے تو میرے رسولﷺ نے کیسے کیا تھا ، اگر کسی بچے پر
شفقت ہے تو پھر میرے رسول ﷺنے کیسے کی تھی ، اگر یتیم کا حق دینا ہے تو پھر میرے
رسول ﷺ نے کیسے دیا تھا، اگر کسی کو راستہ بتانا ہے تو پھر میرے رسول ﷺ نے کیسے
بتا یا تھا ، اگر وعدہ پورا کرنا ہے تو پھر میرے رسولﷺ نے کیسے وعدہ پورا کیا تھا،
اگر آسانی پیدا کرنی ہے تو پھر میرے رسول ﷺ نے کیسے پیدا کی تھی، اگر معاف کرنا ہے
تو پھر میرے رسولﷺ نے کیسے معاف فرمایا تھا۔
علامہ اقبالؒ فرماتے
ہیں "بے خطر کود پڑا آتش
نمرود میں عشق۔۔۔۔۔ انہوں نے فرمادیا کہ لاخوف ہونے والا ایک اور بھی اور وہ ہے عاشق۔ جس کے پاس عشق ہے اس کے پاس
خوف نہیں ہوگا ، جس کے پاس کوئی مستی ہے ، کوئی جذبہ ہے اسے کوئی خوف نہیں ہوگا ۔
اگر ہمارے سفر کا نام پیسے کماناہے تو پھر خوف ہوگا "چلے ہو ساتھ تو ہمت نہ
ہارنا واصف ۔۔۔۔ کہ منزلوں کا تصور بھی میرے
سفر میں نہیں ہے"منزل نہیں حاصل کرنی بلکہ اس کی رضا حاصل کرنی
ہے چلتے
رہنے کا نام سفر ہے اگر حاصل کانام سفر رکھا تو پھر خوف ملنا شروع ہو
جائےگا ۔
آج سے ہی یہ اسائنمنٹ
پکڑ لیں غوروفکر کریں ہمارے خوف
کہاں سے آتے ہیں ان وجوہات کو تلاش
کریں اور ایک ایک کو پکڑ کر آہستہ آہستہ
ختم کریں۔ اگر خوف بھی ہے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق بھی ہے تو پھر دو نمبری ہے اور
اگر خوف نہیں ہے تو پھر اسے ٹیسٹ کریں تو
پھر بغیر جیب کر پھر کر دیکھیں وہ آپ کو اس حالت میں بھی پالے گا ، وہ بغیر تمنا
کے بھی آپ کو روٹی دے گا،ایسی رحمتیں ہونگی کہ آپ کو حیرانی ہو گی ۔پچھے زندگی میں
مڑ کر دیکھیں کتنی عطائیں بغیر حق کے ملی ہیں ۔ رب کی ربوبیت پر ویسے یقین نہیں
آتا کیونکہ دیکھانہیں ہے ہم اس کی عطاؤں کو دیکھ سکتےہیں وہ عطاؤں کے پیچھے
ہے ہم پیچھے مڑ کر دیکھیں ہمیں جگہ جگہ اس
کی نوازشیں نظر آئیں گی جیسے ہی ان
نوازشوں کو دیکھنا شروع کریں گے لاخوف ہونا شروع ہو جائیں گے ۔
فقر کی منزلوں میں ایک بہت بڑا مقام لاخوف کا مقام ہے ہم
قطب ابدال بننے کا سوچتےہیں ، غوث بننے کا سوچتےہیں جبکہ لاخوف
قطب ابدال سے بڑا درجہ ہے لاخوف کا
مطلب ہے کہ اس ذات کریم کے علاوہ مجھے اور کوئی خوف نہیں ہے اگر وہ ساتھ ہے تو پھر
دنیا کے خوف کی کیا مجال پھر کسی چیز کی
کیا مجال کہ وہ میرے آگے کھڑی ہو ۔ اگر اس
ذات کی محبت دل میں آگئی تو یہ محبت ویسے
ہی لاخوف کر دیتی ہے اس کی محبت پالنے
والا انسان لاخوف کے مقام پر آ جائے گا وہ
فقر کے مقام پر آجائے گا ایسے بند ے
کو کسی چیز کے آنے سے بھی کوئی فرق
نہیں پڑے گا اور نہ کسی چیز کے جانے سے کوئی فرق پڑے گا۔
ایک جگہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ تشریف فرما تھے آپ ؒ کا ذریعہ معاش کاروبار تھا
کسی نے کان میں آکر کچھ بتایا آپؒ نے نیچے
دیکھا اور مسکرائے کچھ گھنٹے گزرنے کے بعد
پھر کوئی بندہ آیا اس نے آکر پھر کان میں کچھ کہا
آپؒ نے نیچے دیکھا اور پھر مسکرائے
کسی نے پوچھا آپؒ دو بار مسکرائے ہیں ہوا کیا ہے آپؒ نے فرمایا پہلا بندہ
آیا تھا اس نے کہا تھا آپ ؒ کے کاروبار میں بڑا نفع ہوا ہے میں نے دل کی حالت دیکھی دل یاد خدا میں گم تھا میں نے شکر ادا کیا کہ مالک نفع ہوا ہے دل یاد تب بھی تجھے کر رہا
ہے پھر دوسرا آیا اس نے آ کر کہا بڑا نقصان ہوا ہے میں نے پھر دل کی حالت کو دیکھا وہ اس
حالت میں بھی یاد خدا سے غافل نہیں تھا ۔ جو اچھے وقت میں اللہ تعالیٰ
کو دوست سمجھتا ہے اور برے وقت میں بھاگ جاتا ہے یا پھر برے وقت میں اللہ
تعالیٰ کو دوست سمجھتا ہے اور اچھے وقت
میں بھول جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا دوست
کہلانے کے لائق نہیں ہے دوستی تو ہر طرح کی صورتحال میں ہوتی ہے ، تعلق تو پھر
ہر طرح کے سفر میں ساتھ ہوتا ہے پھر مشکل کیا
تو آسانی کیا اس کا ساتھ ہے تو ہے ۔ نفع نقصان ایک ہی ہے نفع یہ ہے کہ وہ میرے ساتھ ہے
نقصان یہ ہے کہ میں اس سے دور ہوں
۔ دنیا میں نفع روٹی روپیہ پیسہ ہے جبکہ
نقصان یہ چیزیں نہیں ہیں اصل نفع کائنات
کے خزانوں کے مالک کے ساتھ دوستی ہے ڈاکٹر اظہر وحید سے کہتےہیں کہ "دنیا دار کا مال اس کی تجوری
میں پڑا ہوتا ہے اور سخی کا مال غائب میں
پڑا ہوتا ہے "۔
(Weekly
Sitting topic “Laa Khouf” Syed Qasim Ali Shah)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں