بدھ، 2 نومبر، 2016

قطبی ستارہ

اگر دنیا کی تاریخ نکالیں تو سب سے پرانی تاریخ قطب ستارے  کی ملے گی اسے شمالی ستارہ بھی کہا جاتا ہے  کیو نکہ  یہ  شمال کی طرف سمت بتاتا ہے ،یہ ستارہ سب سے زیادہ چمکدار ہے  لوگ اس کی مدد سے اپنا سفر کرتے تھے۔ ہماری زندگی کے دوحصے ہیں  ایک حصے میں ہم  سیکھتے ہیں اور دوسرے حصے میں سکھاتےہیں ۔  ماضی  میں جھانک  کر دیکھا جائے  تو ہمیں  بےشمار ایسے لوگ  ملیں گے  جو پیشے  کے لحاظ سے استاد نہیں تھے  لیکن پھر بھی  ہم نے سے سیکھا  کسی سے وضو کرنا سیکھا،  کسی سے جوتی پہننا، کسی سے چلنا ، کسی سے بیٹھنا، کسی سے کھانا  ، کسی پینا وغیرہ۔
ہم میں سے ہر کوئی یہ چاہتا ہے  کہ وہ قطبی ستارہ بن جائے قطبی ستارے سے مراد  ٹرینر،استاد، مرشد، رہبر یا  پیر جو سمت نمائی کرے ۔جب تک طلب نہ ہو  تو تب تک کوالٹی کی چیز پیدا نہیں ہوتی جب طلب ہوتی ہے تو نئے نئے لوگ  پیدا ہو تے ہیں ۔ بابا اشفاق احمد  کی فکری مجلس زاویہ کو   یا حضرت واصف علی واصفؒ کی فکری مجلس کو دیکھا جائے   تو ان میں  آٹے میں نمک کے برابر  نوجوان ملیں گے  زیادہ تر  ان میں سب سفید بالوں والے لوگ  ہی ملیں گےجبکہ  اس کے مقابلے اگر آج  کی فکری مجالس  کو دیکھیں تو  ان میں  نوجوانوں کی بہت  بڑی  تعد اد ہوتی ہے اس کی وجہ  ہے آج  کا نوجوان ان فکر ی مجالس  سے متاثر ہونے لگا ہے لیکن اس کا ایک نقصان یہ ہوا ہے کہ  جب بندہ متاثر ہوتا ہے تو اپنا بہاؤ کیے بغیر  خود کو توپ سمجھنے لگ پڑتا ہے ،  جیسے بخار چڑھ کر اترتا ہے اسی طرح موٹیویشن  ہوتی ہے جو اٹھا کر اوپر لے جاتی ہے مگر کچھ دیر رہنے  کے بعد جب اترتی ہے  تو بندہ وہیں  ہوتا ہے  ۔ خطبہ سنتے وقت حالت کچھ اور ہوتی ہے ، مجلس میں کچھ اور  ہوتی ہے، پیرصاحب کے پاس کچھ اور ہوتی ہے ، سٹیج ڈرامے  میں  بیٹھے کچھ اور ہوتی ہے ان ساری کیفیات    کے بعد  بیٹھ کر بندہ  یا تو رہ رہا ہوتا ہے   یا ہنس رہا ہوتا ہے  جب کوئی پوچھتا ہے کہ ایسا کیوں ہے  تو جواب  ہوتا ہے  کہ بس کیفیت ہی ایسی  ہے ۔  مجالس میں بیٹھ کر جب  موٹیویشن پیدا ہوتی ہے تو ہر بندہ چاہتا ہے کہ وہ ٹرینر بن جائے   مگر وہ ٹرینر نہیں بن پاتا اس کی  وجہ ہے   بندہ قابل نہیں ہوتا  پہلے  بندہ اس قابل بنے  کہ  اس  کی نصیحت کارگر ہو سکے ۔
قطبی ستارہ بننے کا سفر  اصل میں وہ طشت ہے جوکانٹوں کا سفر ہے ، جو تکلیفوں کا سفر ہےفقط دو چا ر کتابیں پڑھ لینے یا دو چار لیکچر سن لینے سے  بندہ قطبی ستارہ  نہیں بن جاتا ۔  مچھیرے کو پتا  ہوتا  ہے  کہ مچھلی  کن پانیوں میں مچھلی پائی جاتی ہے  بند ہ جب تجربے  کرتا ہے ، کتابیں پڑھتا ہے ،  لوگوں سے ملتا  ہے ،  سیکھتا ہے، سنتا ہے   تو پھر جا کر آہستہ آہستہ  غلطیوں سے آزاد ہونا شروع ہوتا ہے  پھر پتا چلتا ہے کہ کونسی بات کب ، کہاں اور کیسے کہنی ہے ۔ دنیا کھلی کتا ب ہے ہر شخص کتاب ہے  جب آپ ہزاروں لوگوں سے ملکر کر علم  اکھٹا کرتے ہیں  اور پھر بھی کہتے ہیں  کہ ابھی پیاس نہیں بجھی  تو اس کا مطلب ہے آپ طالب علم ہیں۔
حضرت علی بن عثمان  الحجویرؒ ان سے بڑے استاد کیا  ہوں گے  جن  کے متعلق بڑے بڑے اولیائے کرام نے  کہا کہ اگر ہم ان کےزمانے میں ہوتے تو بیعت کرتے حضرت بابافرید گنج شکر ؒ گھٹنوں کے بل چل کر جایا کرتے تھے یہ ادب  تھا۔ حضرت علی بن عثمان  اپنی کتاب کشف المحجوب میں فرماتے ہیں "اس سفر میں میرا ساڑھے چار ہزار استادوں سے واسطہ پڑا ہے"بیعت ایک سے ہوتی ہے جبکہ فیض  بہت سے استادوں سے جڑا ہوتا ہے۔ آپ کبھی ڈینٹسٹ کا کام موچی سے نہیں کرواتے یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی بندے سے سارا کچھ مل جائے  مگر یہ تب ہو سکتا ہے جب ذات گرامی حضور اکرم ﷺ کی ہو وہاں تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ  کے پاؤں پر سانپ  ڈستا ہے تو تب لعاب  دہن مبارک علاج دے دیتا ہے وہاں تو انگلی اٹھتی ہے تو چاند دو ٹکڑے ہو جاتا ہے  ، وہاں تو شہر کے باہر ایک خوفنا ک آواز آتی ہے  پورا شہر سہم جاتا ہے رات کے پچھلے پہر میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہما دور سے دیکھتے ہیں کہ بغیر لگام کے کوئی گھوڑے پر آ رہا ہے جب پاس دیکھتے ہیں  تو وہ رسول اللہ ﷺ ہوتےہیں آپﷺ فرماتے ہیں تحمل سے بیٹھ جاؤکوئی قافلہ آیا تھا  چلا گیا  ہے تمہیں ڈرنے کی  ضرورت نہیں ہے ۔ بحیثیت والد، استاد، دوست، جنگجو، تاجر  غرض  کسی بھی جگہ پر دیکھیں ایسی مثال نہیں ملتی  اور کوئی بندہ کیسے دعوہ کر سکتا ہے کہ میں کامل ہوں اس لیےپیرکامل صرف ایک ہی ہیں اور  وہ سرکار ﷺ کی ذات گرامی ہےباقی سارے اس ذات گرامی ﷺ کے پرتو ہیں  اس چشمہ ہدایت سے کسی نے کوئی مٹکہ  بھر لیا ، کسی نے شیشی بھر لی ، کسی نے ڈول بھر لیا ، کسی نے بالٹی بھر لی۔سمندر کے سامنے قطرے کودیکھیں کہاں سمند ر اور کہاں قطرے کی اوقات  "کتھے مہر علی  کتھے تیری ثنا"ان کے قدموں کی خاک ہو جائیں بڑی بات ہے ۔
زندگی میں واضح فارمولا بنا لیں  کہ اپنے قطبی ستارہ بننے تک طشت ضرور کاٹیں  نہیں تو آپ میں سنجیدگی نہیں آئے گی آپ کو بہت سے ایسے لوگ ملیں گے  جن پر  بڑی چھوٹی عمر میں کر م ہوگیا ان کی آنکھ کھل گئی  مگر ان سے سنبھالا نہیں جا سکا روحانیت میں ویسے ہی کشش بہت زیادہ ہوتی ہے بندہ  سامنے سے ہل نہیں  سکتا عورت ویسے فد ا ہو جاتی ہے   اس لیے چاہے عمر کوئی بھی ہو سر پہ گھڑا ہو یا بچہ پیٹ میں ہو قدم دھیان سے رکھنا پڑتا ہے۔ جس طرح ایک عورت دوسری عورت کو برداشت نہیں کر سکتی  کعبے میں تین سو سے زائد بت مٹے تو پھر اللہ کا نام آیا اسی طرح جب  آپ اپنے اندر کے بت نکالو گے تو وہ آئے گا اگر اپنا آپ آئینہ نہیں بنتا تو وہ عکس نہیں آ سکتا ۔ اگر آپ  کے آئینے پر گرد ،مٹی ، پتے، زمانے کے ٹھڈے پڑے ہیں جب یہ سارے ہٹیں گے  تو تعلق  بنے گا ۔
  حضرت علی بن عثمان الحجویرؒ  نے خود  کو داتا گنج بخش نہیں کہا تھا یہ تو لوگوں نے انہیں عقیدت سے کہا ،غریب نواز تو اللہ تعالیٰ کی ہی ذات ہے  لیکن اگر کوئی  غریبوں کو نوازنے والا آجائے تو  اس کو عقیدت اور محبت سے کہا جائے گا کہ یہ تو غریبوں کو نوازتا تھا۔ ایک لمحے کے لیے عقیدہ اور عقیدت کا فرق محسوس کریں یہ بہت بڑا فرق ہوتا ہے مثال کے طور پر آپ کہیں کہ امی جی آپ میر ی جان ہیں  آپ میرا سب کچھ ہیں یہ عقیدت ہے جبکہ عقیدے  کا مطلب ہے کہ ہے سب کچھ اللہ ہی  ہے، کسی کی محبت کو غلط معانی نہ  دیں ،حضرت واصف علی واصف ؒ  سے کسی نے کہا میں داتا صاحب گیا تو وہاں دیکھاکہ شرک ہو رہا ہے آپؒ نے کہا" تم شرک دیکھنے گئے ہو گے"جو بندہ جو  دیکھنے یا لینے جاتا ہے اس کو وہی نظر آتا ہے جو اللہ  کے راستے پر نکلتا ہے  اسے صرف  یہ  یقین ہوتا  ہے  کہ یہاں سے وہ ہستی گزری ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا کرم ہوا تھا۔
 ہزاروں  سال میں کتنے بادشاہوں کے نام غرق ہو گئے مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کا نام نہیں مٹنے دیا ہم اللہ کی محبت میں ان کا ادب کرتے ہیں ،کبھی ان کے  طشت  کودیکھیں کسی نے گھڑے میں پانی ڈال کر سر پہ رکھا کہ سر پر نشان پڑگیا ،کسی کے پاؤ ں کو مچھلیوں نے کھا لیا ، کسی کا پیدل چلنا ہی اتنا زیادہ تھا کہ پاؤں کی جوتی  نہیں رہی پاؤں ہی جوتی بن گئےوہ کتنے کتنے طشتوں کے بعد آخر کار رہنما  اور  سمت دینے والے  کے مقام تک پہنچے اور ایک ہم  ادھر پودا لگائیں  اور ساتھ ہی کہیں کہ آم لگ جائیں یہ ممکن نہیں ہے۔
ایک بندہ دعوے دار ہو کہ میں قطب ہوں تو قطب کا کونسا سرٹیفیکیٹ ہے  جو کسی بورڈ سے لینا پڑتا ہے روحانیت دکھانے والے چیز نہیں ہے یہ محسوس ہوتی ہے یہ واحد چیز ہے جو دل سے نکلتی ہے اور دل تک جاتی ہے، یہ واحد چیز ہے جو آپ کو وقت کی قید سے آزاد کر دیتی ہے ، یہ واحد چیز ہے جو آپ کے دل کو قبلہ راست  کر تی  ہے آپ کا دل اللہ کی یاد میں غرق ہونے لگ پڑتا ہے، آپ کے اندر سے سجدے ہوتے ہیں ، آپ کا دل روتا ہے ، آپ اس کی یاد میں مست ہو جاتے ہیں ۔ جب تک یہ احساس طاری نہیں ہوتا ، جب تک شکر گزاری کے آنسو آپ کی آنکھوں سے نہیں برستے ، جب  تک آپ خدا کی محبت میں کسی کے لیے اپنے آپ کو کاٹنے کے لیے تیار نہیں ہوتے  تب تک محبت نہیں ہو گی ۔
ایک محفل میں حضرت شیخ عبدا لقادر جیلانی ؒ  بادشاہ والا لباس پہنے بیٹھے ہو ئے تھے کسی صاحب کے دل میں خیال آیا کہ آپؒ اللہ والے ہیں اور لباس بادشاہوں والا ہے آپ ؒ ایک دم بات کاٹ کر سے فرمانے لگے کہ" میری بات سنو یہ وہ نہ پہنائے  تو میں پہنتا نہیں ہوں یہ اس کی  مہربانی ہے  جو میں پہنتا ہوں تم سمجھ رہے ہو میں تمہارے لیے پہنتا ہوں میں تو اس کے لیے پہنتا ہوں "جب آپ کے کاموں کا حوالہ خالص اللہ ہے پھر آپ اللہ والے ہیں اگر آپ کا حوالہ دنیا ہے پھر آپ اللہ والے نہیں ہیں۔ آپ خود دیکھیں کسی سے سند لینے کی ضرورت نہیں ہے اپنی سند خودہی لگانی ہے اگر آپ کے زیادہ تر حوالوں میں اللہ تعالیٰ شامل ہو گیا آپ اللہ والے بن جائیں گے  اگر پچاس فیصد سے نمبر کم ہیں تو کوشش جاری رکھیں پچاس سے زیادہ کریں ۔اگر آپ کے کاموں کے حوالے ، سوچ کے حوالے ،معاملات کے حوالے اللہ والے ہیں  توپھر آپ عام انسان نہیں ہیں آپ خوش قسمت ہیں۔
ایک  صاحب  فرماتے ہیں میں نے کسی کا قرض دینا  تھا  قرض دینے میں تھوڑی سی دیر ہو گئی قرض لینے والے نے عین چوراہے میں میر ی بے عزتی کر دی اس سے پہلے کہ میرے اندر کا خون کھولتا مجھے یاد آیا کہ ایسا تو میرے رسولﷺ کے ساتھ بھی ہوا تھا  میرے رسول ﷺ نے تو معاف فرمادیا تھا  وہ کہتے ہیں کہ میرے پاس حوالہ   اتنا خوبصورت تھا  کہ میں نے معاف کر دیا  غور کریں اگر حوالہ رسول کریم ﷺ ہیں  پھر تو معافی ہو جائے گی اور اگر نہیں ہے تو پھر لڑنے میں دیر نہیں لگتی ۔
قطبی ستارہ بننے کے لیے سب سے پہلے اپنے اندر اتنا اخلاص لائیں پھر آپ اس مقام پر بیٹھیں جہاں  طمع اور لالچ نہ ہو ۔ اپنے آپ کو چیک کرتے رہا کریں  کہ روٹی کا لالچ کتنا ہے اس کا پتا آپ کو تب لگے جب روٹی کھلتی ہے ، کبھی دیکھیں عورت کی حوس کتنی ہے یہ آپ کو تب پتا لگے جب آنکھ اور دل کہہ رہا ہو دیکھولیکن آپ کہیں کہ نہیں دیکھنا۔ محاسبہ خودہی کرنا پڑتا ہے کبھی لوگوں کی آنکھیں پڑا کریں ان میں طلب ہوتی ہے اگر آپ نے ترقی کرنی ہے تو حوس اور نفس کو قابو کریں نہیں تو یہ چیزیں   چوراہوں میں الٹا ٹانگ دیتی ہیں۔ صوفی برکت صاحبؒ فرماتےہیں "جس قبر کے اندر کھربوں سال کی تنہائی تم نے برداشت کرنی ہے ذرااس کے بارے میں سوچووہ وقت آنے والا ہے "۔ اصل درویشی جوانی کی  درویشی ہے ، اصل درویشی طاقت کے ساتھ درویشی ہے، جیب میں مال ہو تب درویشی ہے، حوس کا دور ہو اور حوس کو سلا دو  یہ درویشی ہے ۔ اگر مثال بننا ہے  تو  ایک پروفائل اندر ضرور ہونی چاہیے ساری راتیں یاد ہو نی چاہییں جو لگائیں ہوں ، پیدل چلنے کا سفر یاد ہو، اپنے سجدے یاد  ہوں جو اللہ تعالیٰ کی یاد میں لگائیں ہوں اگر یہ نہیں ہے تو پھر فقیر ی کا ڈرامہ کیا جاسکتا ہے فقیر ی نہیں  کیا جاسکتی کیونکہ فقیر ی تو خالص ہونے کا نام  ہے۔
 کبھی چیک کیا کریں جو آپ کی اپنے ساتھ گفتگو ہے  وہ کس معیار کی ہے کیا وہ اس قابل ہے  اگر آپ کی تنہائیوں کی باتیں بتانے کے قابل ہیں تو پھر آپ رہبر ہیں ۔کبھی کبھی اکیلے  بیٹھ کر چیک کیا کریں  کہ جوخیال اور حسن خیال  چل رہا ہے وہ لکھنے کے قابل ہے اگر ہے   پھر تو آپ مرشد ہیں اور اگرآپ کی تنہائی کے خیال لوگوں کے سامنے کھول دیئے جائیں  اور لوگ جوتے اتار لیں تو پھر قطبی ستارہ بننے سے توبہ کر لیں ۔ آپ پک  کر بازار میں جائیں گے توپھر مہنگے  داموں بکیں گےکچا سیب مربہ بنتا ہے جبکہ پکے سیب کی منہ مانگے قیمتی لگتی ہے جب آپ قابل بن جائیں گے تو پھر دام عزت، محبت، لوگوں کی جستجو ،لوگوں کی آرزو اور تمنا کی شکل میں ملے گا ۔
کم ازکم اللہ تعالیٰ کے راستے کا پہلا قدم اخلاص سے ہونا چاہیے یہ سچے بندوں کا راستہ ہے ، یہ طشت کاٹنے والوں کا راستہ ہے، یہ رونے والوں کا راستہ ہے، یہ التجاء کرنے والوں کا راستہ ہے ، یہ عاجز ہوکر سجدہ کرنے والوں کا راستہ ہے، بے بس ہو کر  التجاء کرنے والوں کا راستہ ہے اگر یہ راستہ آپ نہیں کاٹ سکتے تو پھر یہ خیال دل سے نکال دیں  کہ میں نے قطبی ستارہ بننا ہے ۔جو انسان اچھا شاگرد نہیں ہے وہ اچھا استاد بھی نہیں بن سکتا  اور جو اچھا مرید نہیں ہے وہ اچھا پیر بھی نہیں ہوتا جس بندے نے خود طشت نہیں کاٹا  وہ دوسروں سے طشت کاٹنے کا کہہ نہیں سکتا ۔پہاڑ پر جانے والا بندہ کوئی اور ہوتا ہے   اورنیچے آنا والا کوئی اور ہوتا ہے  اس میں اعتماد ہوتا ہےبغیر محنت کے صرف تمنا   خطرناک ہے  وہ آ پ کو تبلیغی تو  بناسکتی ہےمگر باتوں میں اثر نہیں ہوگا ۔
 قطبی ستارہ سب سے پہلے آپ اپنوں کے لیے بنا جاتا ہے  جبکہ  ہم قطبی ستارہ دوسروں کے لیے  بن رہے  ہوتے ہیں۔سب سے پہلے نور اردگرد پھیلنا چاہیے اگر اپنوں میں نور نہیں پھیلاتو کسی اور علاقے میں جاکر آپ جتنی مرضی تبلیغ کرتے رہیں  تبدیلی نہیں آئے گی ۔ رسول کریم ﷺ نے سب سے پہلےاپنوں کو دعوت دی  اٹھنے   والے اٹھ گئے جبکہ بیٹھنے والے بیٹھ گئے  بیٹھنے والوں کو کیا پتا تھا کہ تاریخ میں  ایسے  لوگ بھی آئیں گے جو آپﷺ کے لے روئیں گے  جو کہیں گے کہ کتنے  خوش نصیب  تھے حضرت  ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ، کتنے خوش نصیب تھے  حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ ، کتنے خوش نصیب تھے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور کتنے خوش نصیب تھے حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ  جو آپ ﷺ کے ساتھی بنے ۔آپ کے ایک لمحے کے لیے سوچیں اس زمانے کے بندے کو گمان ہو گا کہ  آج میں منکر ہوں  میرا نام بھی نہیں ہوگا اور آج جو ماننے والا ہے تاریخ میں اس کا نام  ماتھے  کا جومر  بن جائےگا ۔ سب سے بڑے قطبی ستارے  وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہما ہیں  جن کے بارے میں  حضوراکرم ﷺ نے فرمایا  "میرے صحابہ نجوم ہیں یہ جہاں ملیں ان سے ہدایت لے لو "وہ رسول کریم ﷺ کے تربیت یافتہ تھے اس لیے انہیں یہ حسن ملا کہ انہیں ستارے کہا گیا ، انہیں قطب کہا گیا  ،انہیں بتایا گیا کہ یہ ہیں قطبی ستارے۔
(Weekly Sitting topic “Qutab” Syed Qasim Ali Shah)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں