منگل، 1 نومبر، 2016

واصف یار نے نظر جو کیتی


  ہمارے ہاں تصوف میں  "نظر" کو کرم کی نگا ہ کہا جاتا ہے ایک ایسی نگاہ جو آپ میں بہتری چاہےاس کو فیض بھی  کہا جاسکتا ہے ۔ جب بھی کسی صوفی  یا بزرگ  کو پڑھنے کے بعد محبت پیدا ہو جائے تو  یہ بہت بڑی علامت  ہوتی ہے کہ آپ کا اس ہستی کے ساتھ تعلق ہے حضرت واصف علی واصف ؒ فرماتے ہیں "وہ جگہ جہاں پر تمہیں رقت طاری ہو ، تمہاری آنکھ میں نمی ہو اس جگہ سے تمہار ا کوئی فیض  یا حصہ ضرور جڑا ہوا ہوتا ہے"آپؒ فرماتے  "ہر وہ مزار ، ہر وہ بزرگ  اور ہر وہ جگہ جہاں پر آ پ کی آنکھ میں نمی  آگئی اس مقام کے ساتھ آپ کی روحانیت ضرور جڑی  ہوتی ہے " قدرت ہمیں کام کرنے کی مکمل آزادی دیتی ہے لیکن اس کا نتیجہ اپنے پاس رکھتی ہے ۔
ہر صوفی  اس نظریے کے ساتھ بیٹھا ہوتا ہے اگر میر ا کوئی چھوٹا سا عمل  بھی بارگاہ الہی میں قبول ہو جاتا ہے تو وہ بڑا نتیجہ  بنے گا ۔ انسان اپنی اوقات دیکھے اور  اپنا دنیا میں رہنے کا وقت دیکھے کہ ممکن ہے یہاں صدی گزری ہے اور کائنا ت کے کسی نظام میں شائد ایک لمحہ گزرا ہو  ہم زمانوں و مکاں کی قید میں اتنے چھوٹے ہیں کہ اگر ہم اپنی پوری زندگی میں دیکھیں تو  ہم پیدا ہوتے ہیں ، جوان ہوتے ہیں ، شادی ہوتی ہے، بچے ہوتے ہیں اور ایک دن فوت ہو جاتے ہیں   حضرت صوفی برکت علی ؒ فرماتے ہیں" ائے اللہ اگر یہی زندگی ہے تو پھر واپس لے لے اور اگر کسی جذبے کا نام زندگی ہے تو وہ دے"اللہ والے کو اس بات پر یقین ہوتا ہے کہ اتنی وسعت والی کائنات  میں  اگر میرا قدم سیدھے راستے پر ہے تو  وہ بہت چھوٹا ہے  لیکن اس کے وعدے کے مطابق تو ایک قدم چل کے آ تو میں تمہاری طرف  دس قدم چلوں گا  اللہ تعالیٰ کا قدم انسان والاقدم  نہیں ہے اس کی تو  کوئی حد ہی نہیں ہے ۔
صوفی کا یقین ہوتا ہے کہ میر ی کاوش  جو میں کر رہا ہوں وہ اگر قبول ہوگئی تو وہ بہت بڑا نتیجہ لائے گی ۔ چھوٹی سی کاوش  ممکن ہے کہ چند افراد تک آسانی پہچانا ہو  لیکن ان آسانیوں کا سفر  آنے والے وقت  میں پہاڑ کے برابر نتیجہ دے ، ممکن ہے بچنے والا ایک فرد ہو لیکن اس سے پوری انسانیت بچ رہی ہو ، ممکن ہے کہ ایک کے شر کو لگا م دی جائے  لیکن اس کے شر کو لگا م دینے سے کتنے لوگ نقصان سے بچ جائیں۔ اللہ والا اس نگا ہ پر ہوتا ہے وہ بیج سے درخت اور درخت سے پھل  کے سفر کو دیکھ رہا ہوتا ہے وہ جانتا ہے  کہ شائد ایک بندہ اگر اپنی کاوش پر دعوے دار  ہے تو پھر کوئی نتیجہ  نہیں ہے لیکن اگر قدرت کے اسلوب میں دیکھے تو دنیا کا کوئی بندہ آج تک ایک بیج کو اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھ کر یہ نہیں ڈھونڈ نہیں پایا کہ کتنی نسلیں بننی ہیں اس سے کتنے سیب دنیا میں آنے ہیں۔
جب کوئی دانشور سٹیج پر بول  رہا ہوتا ہے اصل میں  وہ خود نہیں بول رہا ہوتا  اس کا یقین بو ل رہا ہوتا ہے اگر آپ کی بات میں یقین نہیں بول رہا تو پھر اس کا اثر نہیں ہوگا  یہ ایسے ہی  جیسے ایک دفعہ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی  ؒ  کی طبیعت ناساز تھی  آپؒ خطبہ نہیں دے سکے آپؒ کی جگہ آپ ؒ کے فرزند  نے خطبہ دیا جب وہ بات کر رہے تھے تو وہ کیفیت  نہیں بن رہی تھی  سب لوگوں نے درخواست کی کہ آپ ؒ تھوڑا سا ہی بول لیں  آپؒ نے ان کی درخواست کو قبول  کیا  آپ ؒ ممبر تک آئے  اور صرف اتنا کہا  کہ "آج میر ی طبیعت ناساز ہے " لوگوں کا اتنا سننا تھا کہ کئی غش کھا کر گر پڑے  اس کی وجہ یہ تھی کہ جو بولنے والا تھا   اس کا روحانی مقام بول رہا تھا ۔اگر ہم کہیں کام ، کام  اور کام  تو اس بات کو اہمیت نہیں ملے گی  لیکن اگر حضرت قائداعظم محمد علی جنا ح ؒ کہیں تو  یہ جملہ  بن جاتا ہے کیونکہ جس مقام سے یہ جملہ بولا جارہا ہے وہاں چھوٹی سی بات بھی بہت بڑی بات  ہے ۔ حضرت واصف علی واصف ؒ آنے والے زمانے کو دیکھ رہے تھے  اللہ والا بھی ایک بھید ہوتا ہے اس تک آسانی سے نہیں پہنچا جا سکتا  ایک مجلس میں کسی نے آپ ؒ سے پوچھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ آپؒ کی گفتگو  کسی بڑی جگہ پر ہو  جہاں پر زیادہ لوگ ہوں  آپؒ نے فرمایا  دیکھویہ تمہار ے کہنے اور سوچنے سے تو نہیں ہے اگر یہ چند افراد میں کی ہوئی گفتگو قبول ہوگئی تو پھر یہ خود ہی پہنچ جائے گی جو مجھ سے گفتگو کروا  رہا ہے وہ اس گفتگو کا بھی محافظ ہے اور اگر وہ محافظ ہے تو پھر وہ آگے بھی پہنچا دے گا اگر یہ گفتگو قابل نہیں ہے تو پھر اس کو اپنے زمانے سے آگے نہیں جانا چاہیے  یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ  کہتے ہیں ہم واصفؒ صاحب کو ملے نہیں ہیں مگر ان کے افکار متاثر ضرور ہوئے  ہیں ۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اگر مالک نگاہ کر دے تو یہ ہی دنیا آپ کو بدلی بدلی ہوئی لگتی ہے پھر  اسی دنیامیں واقعات  اور  حادثات  کے معانی بدل جاتےہیں ۔ایک پھو ل جو بہت اچھی خوشبو دے رہا ہے اور اس کا رنگ بہت اچھا ہے اس کو اگر ایک بندہ دیکھے گا تو وہ تعریف کرے گا دوسرا دیکھے گا  تو وہ کہے گا اگر میں اس کو اپنے محبوب کو دوں  تو کیا بات ہے  تیسرا  دیکھ کر چاہے گا کہ میں اس کو اپنے کوٹ میں لگاؤں اسی طرح کوئی اسے کان میں لگائے گا ، کوئی  اس کی گلقند بنائے گا  اور کوئی جانور اسے اپنا چارہ سمجھ کر کھاجائے گا  ایک ہی نظارہ  ایک ہی چیز ہر ایک کے لیے جدا جدا ہوتی ہے ہم جس سوچ سے نکلتے ہیں اسی سوچ کے تحت چیزوں کو دیکھتے ہیں ۔ کسی نے بانو قدسیہ سے پوچھا  کہ ہم میں اور واصف ؒ صاحب میں کیا فرق تھا انہوں نے جواب دیا کہ صوفی میں اور عام  انسان میں  یہ فرق ہوتا ہے کہ وہ تمام واقعات جو ایک عام انسان کی زندگی میں ہوتے ہیں وہی واقعات صوفی کی زندگی میں بھی ہوتےہیں  لیکن صوفی کا جواب  مختلف ہوتا ہے وہ  جواب اللہ کی منشا کے حوالے سے دیتا ہے۔ حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں "اگر عام بندے کو پتھر پڑاہے تو جس نے پتھر مارا ہے وہ اس سے لڑے گا اگر اللہ والے کو پتھر پڑا ہے تو وہ اوپر دیکھے گا " وہ   کہے گا کہ میر ا اس سے واسطہ ہےجو خیال کو پیدا کرتا ہے جو پتھر اٹھانے کی طاقت کو بھی پیدا کرتا ہے جو پتھر اٹھانے والے کو بھی پیدا کرتا ہے اور پھر خیال ڈالتا ہے کہ اس کے سر پر مار اوراس کا یقین ہے کہ وہ خیال نہ ڈالے یا وہ طاقت چھین لے  تو وہ پتھر اٹھانے کے قابل  ہی نہ  رہے۔
اگر آپ  کوواقعی ہی کسی اللہ والے سے سچی محبت ہے تو پھر مرنا بڑا آسان ہے وہ ایسے کہ اگر اللہ والا دوسری پار ہے تو آپ کہتے ہیں کہ اگر میری محبت دوسرے پار ہے تو پھر موت کیا چیز ہےموت تو میرے اور محبوب کے درمیان حائل  ہوئی ہوئی ہے ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ہماری محبت سچی نہیں ہوتی آپؒ فرماتے "جو رسول کریم ﷺ کا عاشق ہے اس کے لیے موت کیا مسئلہ ہے" مو ت اس کے لیے مسئلہ ہے جس کا پار کوئی نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ آپ ؒ کی زندگی میں سب سے بڑا جو حسن ہے وہ یہ ہے کہ آپؒ انسانوں میں عام بن کر رہے آپؒ فرماتے "دل کی بیعت ہوتی ہے" مزیدفرماتے "حکم اس کے لیے ہے جو حکم ماننے کے قابل ہے  سب پر برابر حکم نہیں  لگتا "۔آپؒ نے تعلق کے بغیر  تبلیغ سے بھی منع فرمایا  کیونکہ آپ ؒ فرماتے تھے کہ بغیر تعلق کے تبلیغ ایسےہی ہے جیسے غیر زبان میں تقریر پہلا کام تعلق بنانا ہےپھر تبلیغ ہے ۔آپؒ نے سارے لوگوں کو اپنی نشست میں نہیں بیٹھایا کچھ لوگ اکیلے میں ملتے تھے، کچھ مجلس کے لوگ تھے ۔
آپؒ فرماتے "جو تم سے کھانا مانگتے ہیں انہیں تم کلمہ نہ پڑھانااسے کھانا دینا ڈوبنے والے سے اس کا عقیدہ  پوچھنے والا ظلم کرتا ہے کیونکہ ایسے موقع پر بچانا حکم ہے" ۔ اگر بادل برستا ہے ، سورج چمکتا ہے ،دریا کی روانی ہے اسی طرح اللہ والا تمام انسانوں پر  مہربان ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ مہربان ہے اگر اللہ تعالیٰ سب انسانوں پر یکساں مہربانیاں کرتا ہے تو  پھر اللہ والا تعصب کیوں لائے  کسی میں تعصب ہو اور دعویٰ بھی کرے کہ میں اللہ والا  ہوں وہ اللہ والا نہیں ہے  کیونکہ تعصب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا تعلق نہیں۔  تعصب والا ہمیشہ تقسیم کرے گا  میں تو کے جھگڑوں میں جائے گا جبکہ اللہ والا کہے گا کہ کیا پتا آج کا گناہگار  کل کا ولی ہو ۔کسی کشتی میں ایک اللہ والے سفر کر رہے تھے اسی کشتی میں  کچھ نوجوان شوروغل کر رہے تھے  جو مرید تھے انہیں بہت غصہ آرہا تھا کسی مرید نے کہا ان کے لیے بددعا کریں ان کو تو ادب بھی نہیں کرنا آتا ان بزرگ نے ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی پھر تاریخ نے بتایا کہ وہ تمام لوگ وقت کے ولی بنے  یہ ہے اللہ والے کا جواب  عام بندہ اس طرح نہیں سوچ سکتا  وہ تو ان جیسے لوگوں  کو مارنے کے بارے میں سوچے گا ۔
اگر آپ کسی سے منسلک ہیں اور زندگی میں حسن خیال نہیں ہے تو پھر آپ منسلک نہیں ہیں  کیونکہ جب کسی منسلک ہوں گے تو  روشن ہو جائیں گے اور یہ روشنی اندر کی ہو گی اندر کی روشنی کا مطلب ہے آپ کے پاس چمکنے والا خیال ہو گا اس لیے بندہ نہیں چمکتا اس کا خیال چمکتا ہے  حضرت علامہ اقبال ؒ  فرماتے ہیں "تو غنی ازہر دوعالم  من فقیر"آپ ؒ فرماتے ہیں ائے مالک تو کائنات کا مالک ہے ، بخشنے والا ہے میر ی صرف ایک التجاء ہے روز محشر جب میرا نامہ اعمال   کھلیں   تو آپﷺ کی ذات گرامی کے  سامنے نہ کھلیں  میں سامنا نہیں کر سکوں گا ، یہ حسن خیال بتاتا ہے کہ اقبال ؒ کتنا بڑا عاشق رسول ﷺ ہے، جس کی اتنی محبت رسالت ماب ﷺ کے ساتھ ہو اس  کو اپنی عاجزی کا پتا ہو ، اس کو اپنے گناہوں کا پتا ہو  جو شرمسار ہو  اور وہ اپنا نامہ اعمال  کے متعلق بات  کر رہا ہو یہ ہے حسن خیال۔
اگر یار واقعی ہی نظر کردے تو پھر خیال  حسن کا خیال بن جاتا ہے وہ مستی کا سبب بن جاتا ہے ، وہ تنہاہیوں میں میلے لگانے لگ پڑتا ہےحضرت واصف علی واصف فرماتے ہیں "عین ممکن ہے کوئی محفل میں اکیلا ہو اور عین ممکن ہے کسی کی تنہائی میں رونق ہو "آپ ضرور دیکھیں کہ آپ کے پاس خیال کی آسانی کتنی ہے. اللہ تعالیٰ سے دعا مانگا کریں  کہ ائے میرے مالک تو نے مجھےاچھے رزق سے نوازہ ہے تو نے مجھے اچھی شکل دی ہے  میرے مالک مجھ پر کرم فرما مجھے  اچھی سوچ  بھی عطا فرما، مجھے ایسی سوچ دے کہ میری تنہائیوں میں میلہ لگے ، میری روح سجدہ کرے ، میں اندر  سےجھکوں ۔ اگر غور کیا جائے تو سارے انسان برابر ہیں مگر یہ کہنے کو تو برابر ہیں مگر برابر نہیں ہیں یہی کائنا ت کا  حسن ہے  یہ صرف صوفی سوچتا ہے ایک عام آدمی نہیں سوچ سکتا ۔ صوفی کہتا ہے کہ تضاد حسن ہے  کیونکہ پستیاں بلندی کو ظاہر  کرتی ہیں ، دن کی قدر رات کی وجہ سے ہے ، سردی گرمی کا بتاتی ہے ، بہار خزاں کا بتاتی ہے  کوئی نہ کوئی تعلق ضرور ہوتا ہے۔
 ایک  نیک شخص کی حضرت بابا فرید گنج شکر ؒ سے بڑی محبت تھی ایک دفعہ کچھ لوگ اس شخص کی امامت میں پاکپتن گئے  جب وہ وہاں  پہنچ گئے اور کھانا لگ گیا  تو وہ سارے دسترخوان پر بیٹھ گئے جبکہ نیک شخص مزار کی دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھ گئے کسی نے کان میں آکر کہا کہ کھانا گرم ہے یہ ادب کے خلاف ہے کہ ہم آپ کے بغیر شروع کریں آپ آجائیں تاکہ کھاناشروع کیا جا سکے ا نہوں نے کہا کہ انتظار کریں اس کے بعد پھر وہ مراقبے میں چلے گئے بڑی دیر گزر گئی  اب کسی کے بلانے کی جرات نہ ہو  جبکہ کھانا ٹھنڈا ہو گیا بڑی دیر کے بعد اٹھے اور کھانا  کھانا شروع کر دیا  بعد میں کسی نے پوچھا آپ نے کھانا کیوں ٹھندا کروایا انہوں نے جواب دیا کہ پہلے تو میں نے باباجی کی بارگاہ میں تم لوگوں کو قبول کروایا میں نے سوچا اگر یہ لوگ اس بارگاہ میں قبول  ہوں تو پھر کھانا بنتا ہے  ویسے تو روٹی گھر میں بھی مل جاتی ہے  وہ  لوگ کہنے لگے کچھ دنوں بعد پتا چلا ہم بدلے بدلے سے ہیں ۔ خوش قسمتی یہ ہوتی ہے کہ آپ مانگنے دنیا جائیں اور اللہ کی محبت مل جائے  "ہم ان کے پاس گئے حرف آرزو بن کر۔۔۔حریم ناز میں پہنچے تو بے نیاز ہوئے" خوش قسمت وہ ہے جو اس بارگاہ میں پہنچے  او ر اس بارگاہ کاجلال دیکھ کر کہے کہ میں نے کچھ نہیں مانگنا ، خوش نصیب وہ ہے جو اللہ یا اللہ والے کی بارگاہ میں بے نیاز ہو جائےحضرت واصف علی واصف ؒفرماتے "خواہش پوری کرنے والا بزرگ ایک ہوتا ہے جبکہ خواہش سے نجات دلانے والا کوئی اور ہوتا ہے" خوش قسمتی یہ ہوتی ہے کہ دعائیں بدل جائیں ، طلب اور سوچ بدل جائے ۔  
حضرت واصف علی واصف ؒ اپنی کتاب حرف حرف حقیقت میں فرماتے ہیں "اپنے ہاں میں  بھی جو لوگ عظیم ہیں ان کی زندگی کا بغور مطالعہ کیا جائے جس شعبے میں اور جس مقام میں وہ عظیم ہیں ان کو سلام پیش کیا جائے اور جہاں ان کی زندگی معذرت سے گزری ہے وہاں سے گریز کیا جائے ہمارے ہاں دقعت یہ ہے  کہ جو علما  صاحبان وقت کے تقاضوں  کی عظمتوں سے بے خبر ہیں اور جو لوگ عظیم ہیں وہ احکام شریعت سے غافل نظر آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قوم جب کسی ہیرو کی تقلید کرتی ہے تو دین سے بے راہ ہو جاتی ہے اور اگر دینی طور پر پابند زندگی گزرے تو وقت کے تقاضے نظر انداز ہو جاتے ہیں ہم یہاں تک  متعصب ہیں کسی بڑے آدمی کا نام بھی نہیں سننا چاہتے کہ وہ دینی معاملات میں کمزور تھا ہم اس کی خوبی کے  پرستار ہیں عظمت کی پرستش کے دوران اس کی زندگی کے غافل حصو ں کی بھی تقلید کر جاتے ہیں  مثلا کوئی عظیم مفکر قوم کو عظمتوں سے آشنا کرانے والا دین کے کسی فرض کی ادائیگی میں ذرا کمزور تھا تو کہنے کی بھی جرات نہیں ہوتی کہ یہاں وہ صحیح نہیں ہے ۔ ہماری قوم ایک مثالی اور عظیم آدمی کی تلاش میں ہے اور یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہم لوگ سمجھ نہیں سکتے کہ دنیا کے عظیم انسانوں میں صرف ایک یا چند صفات عظمت کی ہیں واحد عظیم ہستی حضور اکرم ﷺ کی ہے جن کی زندگی کا ہر شعبہ مثالی ہے ، ہر عمل بے مثال ہے جن کی ہر صفت  جن کی نشت و برخاست  جن کا جاگنا سونا جن کا بولنا سننا باعث تقلید ہے جن کے نقش قدم پر چلنا ہی فلاح راہ ہے باقی تمام عظیم ہستیوں کا ان کی صفا ت کے مطابق جائزہ لینا چاہیے جس شعبے  میں وہ عظیم ہیں  ہر آدمی خواہ کتنا ہی عظیم ہو تقلید کے قابل نہیں ہے اگر ہم ہر ایک کو قابل تقلید رہنما بنا رہے ہیں تو قوم ایک بے سمت سفر میں غم ہو سکتی ہے ۔اکابرین ملت کو آفتاب رسالتﷺ کی کرنیں ہی مانا  جائے بس نور ظہور  سب حضورﷺ کا ہے باقی سب عظمتیں دیکھنے کے لیے ہیں تقلید  کے لیے نہیں ہیں تقلید صرف اس ذات جسے اللہ کی تائید حاصل ہے ۔

(Wasif Yaar ney Nazar Jo Kiti, Syed Qasim Ali Shah)

1 تبصرہ: