ہفتہ، 10 جون، 2017

شاگرد کی تربیت میں استاد کا کردار


جس  طرح رزق کا دانہ پانی ہوتا ہے اسی طرح علم  کا  بھی دانہ پانی  ہوتا ہے  یہ  جس کی قسمت میں لکھا ہوتا ہے  یہ اس کو مل کر رہتا ہے ۔ اگر  سیکھنے  کے اعتبار سے  دیکھا جائے تو جس  استاد  کے  ساتھ نصیب جڑا ہو وہ  استاد اچھا بھی  لگتا ہے اور  اس سے سیکھنے  والا اس سے  متاثر   بھی ہوتا ہے۔ بعض اساتذہ بچوں کے  لیے  آئیڈیل ہوتے ہیں  لیکن ہر استاد بچوں کے لیے  آئیڈیل  نہیں ہو سکتا۔ ایک بچے   کی نظر میں  بعض اساتذہ کی مثبت تصویر ہوتی ہے اور بعض کی منفی۔ ایک اچھے استاد کو پڑھانے کا شوق ہوتا ہے  اسے   ناصرف اپنی  بات  کی سمجھ ہوتی ہے  بلکہ اپنی بات  کو سمجھانا بھی آتا ہے۔ایک استادکی تربیت  بچے  کی زندگی   کی تبدیلی  میں اہم  کردار ادا کرتی ہے۔ دنیا کی تاریخ  میں سب سے بڑی  تبدیلی رسول پاک ﷺ سے  آئی،آپﷺاستاد تھے ۔آپﷺ کی  شان ہے  کہ آپﷺ نے ان لوگوں کے  کردار  کو بدل دیا جو  بیٹیوں کو زندہ دفن  کر دیتے تھے۔ آج انہیں لوگوں   کا ادب سے  نام  لیا  جاتا ہے اور انہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کہا جاتاہے ۔آج ہر  کوئی ان  صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کے قدموں کی  خاک بننا چاہتا ہے یہ  ایک استاد  کا کمال  تھا ۔مائیکل ہارٹ  جب “The Hundred” کتاب لکھتا ہے  تو حضور اکرمﷺ  کے نامِ  مبارک  کو پہلے  نمبر پر رکھتا ہے۔ تاریخ  میں بڑی  بڑی تبدیلیاں  اساتذہ   کی وجہ سے آئی ہیں  یہ  ان کے کردار ہی  تھے   جو تبدیلیوں کے  باعث بنے۔ایک بندے کا ویثر ن ہوتا ہے  اور پورا زمانہ  بدل جاتا ہے  ایک اقبال ؒ کا خواب ہوتا ہے اور پاکستان  بن جاتا ہے ۔
استاد کاایک پیکج ہوتا ہے  اس   کی ایک  متاثرکن شخصیت  ہوتی ہے۔اس میں اخلاقیات ہوتی ہیں۔اس میں برداشت  ہوتی ہے۔ اس میں ظرف ہوتا ہے۔ اس کے پاس علم  ہوتا ہے۔ اپنے مضامین  پر عبور  ہوتا ہے۔ اس کو انسانی نفسیات کا اور انتھرا پالوجی کا پتا ہوتا ہے۔وہ انسانی مزاج سے واقف ہوتا ہے۔اسے علم  ہوتا ہے کہ کن بچوں کو دیکھنے سے سمجھ آتی ہے کن کو سننے سے سمجھ آتی ہےاور کن کو محسوس کرنے سے سمجھ آتی ہے۔ اس  کی شخصیت سے لوگوں کو فائدہ  ملتا ہے  باباجی اشفاق احمد  فرماتےہیں" شخصیت  کے چبنے  والی خامیوں کو گول  کریں  تا کہ کسی  کو نقصان نہ پہنچے  اور وہ خوبیاں  جن سے دوسروں کو فائدہ ہو  ان کو  پالش کریں ۔" استاد ایک اچھا موٹیویٹر  اور کونسلر ہوتا ہے اس  کی  باتیں  سن کر  لوگوں   کی سوچ  میں تبدیلی آتی  ہے اور  وہ لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتا ہےحضرت مولانا روم ؒ  کے آخری آیام  میں  کسی نے  آپؒ سے  کہا  کہ" آپ تو رخصت ہو رہےہیں"  آپؒ نے جواب دیا  "  نہیں  میں  دنیا کی  مسند  سے اتر کر  لوگوں  کے دلوں  کی مسند پر بیٹھنے  جا رہا ہوں ۔"
انسان کی نفسیا ت  میں ہے کہ  جب وہ کوئی  کام کرتا ہے   تو وہ چاہتا ہے کہ اس کے عوض  اسے  معاوضہ ملے اگر  معاوضہ  زیادہ ہو تو  موٹیویشن کا  لیول  ہائی  ہو جاتا ہے اور اگر  معاوضہ کم  ہو   تو  موٹیویشن  کا لیول  کم ہو جاتا ہے۔آج ایسے  بہت سارے اساتذ ہ ہیں جو  لاکھوں میں  معاوضہ  لے  رہیں ہیں جبکہ ایسے  بھی  ہیں جن  کا بڑی مشکل  سے  گزرا ہوتا ہے۔  وہ  بھی اساتذہ  ہیں  جنہوں نے  بہت  کم معاوضے سے پڑھانا شروع  کیا  لیکن اپنے کام  میں کوالٹی  اتنی پیدا  کی  کہ ٹھیک ٹھاک   معاوضہ  ملنا شروع ہوگیا۔ جب تک  کوئی اپنے آپ کو  مہنگا نہیں  بنائے گا تب تک  مہنگا بک نہیں سکے گا۔  پڑھانا  ایک صلاحیت ہے اگر وہ صلاحیت  نہیں ہوگی  تو پھر  چاہےجنتی  مرضی تعلیم ہو  اچھا  معاوضہ  نہیں  ملے گا۔ بعض ایسے پڑھے لکھے اساتذہ ہوتے ہیں   جو  پڑھانے  کے لیے سلائیڈز کا سہارا لیتےہیں ، بعض غصے کا سہارا  لیتے ہیں جب بچے  پڑھانے  کے اس طرح  کے طریقہ کار  کو دیکھتےہیں تو ان کے ذہن میں تاثر بیٹھ جاتا ہے  کہ استاد ایسے ہی ہوتے ہیں ۔ایک استاد کا  یہ کام ہوتا ہے   کہ  وہ پروڈکٹ  کو آسان  کرکے بچے  کی سمجھ  تک لے کر  جائے ۔ آئن سٹائن  نےجب سپیشل تھیوری آف ریلیٹوٹی  پیش کی تو د نیا میں تہلکہ  مچ گیا   ۔ کسی نے آئن سٹائن  سے کہا  کہ مجھے یہ تھیوری سمجھا دو اس نے  جواب دیا "اگر آپ ایک خوبصورت  لڑ کی  کےساتھ بیٹھے باتیں کر رہے ہوں  اورآپ کو باتیں  کرتے ہوئے  کافی وقت گزر جائے  اور جب آپ سے  پوچھا جائے  کہ  کتنا وقت گزرا تو تمہار ا جواب ہوگا کہ تھوڑا وقت  ہی گزر ا ہے لیکن اگر آپ گرم توے پر ایک منٹ  کے لیے بیٹھیں  اور پھر آپ سے پوچھا جائے کہ کتنا وقت گزرا ہے  تو آپ کا جواب ہوگا  کہ صدی گزر گئی  ۔ جب ماحول  خوشگوار ہو تو وقت گزرنے  کا احساس  نہیں  ہوگالیکن  اگر ماحول  تکلیف دہ ہو تو ایک پل  بھی صدیوں  پر محیط  لگےگا۔ سمجھانےوالے کے پاس  کوئی مثال ، کوئی جملہ یا طریقہ کار  ایسا ہو  کہ بڑی سے بڑی بات بھی آسانی سے سمجھ  آ سکے ۔ ایک شخص حضرت واصف علی واصفؒ کے  پاس آیا اور پوچھا "سر ہمیں کیسے پتا چلے گا کہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہے " آپ ؒنے جواب دیا "جتنے تم اللہ تعالیٰ سے راضی ہو اتنا  اللہ تعالیٰ تم سے راضی ہے۔" اگر سمجھانے والے کو طریقہ آتا ہو  تو وہ دریا کو  کوزے میں  بند  کر دے گا  اگر نہیں پتا تو پھر سمجھانے کے  لیے دن بھی   کم  ہوگا۔  
حضرت علامہ اقبالؒ  اپنے دوستوں میں بیٹھے باتیں  کر رہے  تھے  کہ ایک دم اٹھے  اور  بھاگ کر  دور کھڑےشخص کے  سامنے ہاتھ   باندھ کر کھڑے ہو گئے   پھر تھوڑی دیر بعد ان کو گھر تک چھوڑ کر واپس دوستوں  میں آ گئے، دوستوں نے پوچھا" یہ کون تھے"  آپ نےجواب دیا  "یہ  مولوی میر حسن تھے  یہ میرے استاد ہیں "  دوست کہنے لگے   کہ " ان  کو دیکھ تو آپ جو تا پہننا بھی بھول  گئے "  آپ فرمانے لگے کہ "ان کو دیکھ کر مجھے ہوش ہی  نہیں رہا ۔"اگر استاد مولوی  میر حسن ہو تو پھر شاگر د اقبال بنتا ہے  ۔  آج کا استاد نہ تو   مولوی  میر حسن   ہے  اور نہ ہی آج کا شاگرد اقبال  ہے۔ برصغیر کے کلچر میں  کلرک  کوبادشاہ کہاجاتا ہے  اس  کے فائل تلاش  کرنے  یا اس کے دستخط  کرنے سے ہی مسئلہ حل ہوتا ہے   بلکل اسی طرح بے شمار  اساتذہ  ایسے  ہیں جو   کلرک بادشا ہ ہیں   یہ  وہ لوگ ہیں  جن  کے ہاتھ  میں وائیوا  چلا جاتا ہے  ، نمبر چلے  جاتےہیں  وہ  بجائے طالب علموں  کے  لیے  آسانی پیدا  کرنے کے  وہ   مشکل پیدا  کر دیتےہیں ۔ اگر ان کے ہاتھ  میں حاضری چلی جائے  تووہ  چاہیں گے   کہ اسی سے طالب علم کی جان نکالی جائے  ، اگر ان کے ہاتھ میں نمبر چلے جائیں  تو  وہ  اس  کو حرفِ آخر بنا لیتے ہیں جب  یہ اپروچ ہوگی تو پھر  طالب علم بھی ان کی عزت نہیں کرے گا۔
ہر  کامیاب شخص کے پیچھے بلعموم  کسی استاد کا ہاتھ ہوتا ہے جتنے بھی  کامیاب لوگ  ہوتے ہیں  وہ کسی نہ  کسی  سے متاثر ضرور ہوتے ہیں ۔ انسان  پرکسی  کی  اتنی  نصیحتیں   اثر   نہیں  کرتیں  جتنا رویہ  اثرکرتاہے ۔حضرت مولانا رومؒ اپنی درسگاہ  میں پڑھا رہے تھے کہ ایک مجذوب(حضرت شمس تبریزؒ)  آگیا  آپؒ نے پوچھا " کیا بات ہے"  اس نے کہا"  یہ کیا  کر رہے ہو؟" آپؒ نے  کہا" صرف ونحو پڑھا رہا ہوں  مگر تمہیں  کیا لگے  " مجذوب کو اس بات  پرغصہ آ  گیا اس نے الماری  میں  آپ کی پڑی  ہوئی کتا بوں کو قریبی تالاب  میں پھینک  دیا جب  آپ  نے دیکھا تو  کہا "تم نے تو میری زندگی  کی ساری محنت ضائع کر دی "یہ سن کر مجذوب نے  تالاب میں  ہاتھ ڈالا اور کتابوں کو نکال کر جاڑا تو اس میں گرد  نکلنا شروع ہو گئی یہ  دیکھ  کر  آپؒ نے مجذوب سے پوچھا  "یہ کیا ہے" مجذوب نے کہا "تم صرف ونحو پڑھاؤ تمہیں  کیا  پتا  کہ یہ کیا ہے۔" یہ  کہہ  کر  وہ مجذوب چل دیا۔مجذوب کے چلے جانے کے بعد  مولانا روم پر ایسی کیفیت  طاری ہوئی کہ  انہوں نے اپنا مدرسہ چھوڑدیا اور اس  مجذوب کو  تلاش  کرنا شروع  کر دیا  ۔ اس  مجذوب کو تلاش  کرنے  میں آپؒ کو 3 سال  لگ گئے    جب تین سال بعد وہ مجذوب ملے تو آپؒ ان کے قدموں میں گر گئے اور کہا کہ  "  مجھے آپؒ کو تلاش  کرنے میں تین سال لگ گئے " یہ سن  کر مجذوب نے جواب دیا " مجھے   تجھے تلاش کرتے ہوئے تیس سال  لگ  گئے  اور تم  کہہ رہے  ہو کہ  تین سال لگ  گئے ۔" انسان کی طلب صادق  ہو  تو  اس کو  منزل  تلاش کرنے  کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ  منزل خود  اس کو تلاش  کر تی  ہے ۔سچے انسان کے  لیے ہر قدم راستہ ہے  جھوٹے انسان کے  لیے  ہر قدم گمراہی ہے ۔
آج  المیہ  یہ ہے کہ آج استاد ، ادارے ، اکیڈمیاں ، سکولز صرف نمبر دلا  رہے ہیں ان کے لیے فخر کی بات  یہ ہوتی   ہے کہ ہمارے  طالب علموں کے A+   گریڈ ہیں   لیکن وہ طالب علم زندگی  میں  کتنے افیکٹو ہیں ، ان کا مورال کیا ہے،  وہ  کتنے اچھے پاکستانی ہیں ،  کتنے اچھے انسان ہیں، کتنے اچھے بیٹے ہیں یا  کتنے اچھے شہری   ہیں  ان کی طرف ان کا دھیان  ہی نہیں ہوتا۔نمبروں کی اہمیت سے انکار  نہیں کیا جا سکتا  کسی اچھے ادارے میں داخلے  کے لیے  نمبر بہت ضروری  ہیں  لیکن  نمبروں  کے ساتھ  گرومنگ  کرنا بھی استاد  کا کام ہے۔ اگر استاد  اپنے شاگردوں  کی اچھی گرومنگ  کر رہا ہے تو پھر وہ بہت بڑا کام کر رہا ہے ۔طالب علم  نے یاد کر کے  جو نمبر  لیے  ہیں یا  جو ڈگریاں  لی ہیں  وہ اس  نے بھول جانی ہیں  لیکن جو اس  کی شخصیت بننی ہے  وہ  ساری زندگی  اس کے کام آنی ہیں ۔ اگر استاد شاگرد کا اچھا  مزاج بنا دیتا ہے ، اس  کو اچھا اخلاق دے دیتا ہے ،اس کے اندر خوبیاں پیدا  کر دیتا ہے  تو  یہ سب  خوبیاں  اس کے  نصیب  میں بدل  جاتی ہیں ۔ نگاہِ  مردِ مومن سے  بد ل جاتی  ہیں  تقدیریں اس  کا  مطلب یہ  ہے کہ  استاد کی نگاہ کسی شاگر د میں ایسی خوبیاں پیدا  کر دیتی  ہے  کہ اس  کا نصیب  بدل جاتا ہے ۔بھارت کے صدر عبدالکلام  کہتے ہیں  کسی انسان کا  مستقبل  نہیں بدلا جاسکتا لیکن  اس کی عادات  بدلی  جا سکتی ہیں  اور وہ عادات اس کے  مستقبل کوبدل دیتی ہیں ۔
کسی  بھی سسٹم کو  ہر وقت  اچھے لوگوں  کی ضرورت ہوتی ہے اگر  اچھے لوگ نہ ہوں  تو سسٹم نہیں چلتا ۔ ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ  جس  کو کوئی کام نہیں ملتا   وہ  پڑھانا شروع  کر دیتا ہے  اس سے  تعلیم کا   معیار  متاثر ہو رہا ہے ۔ بہت  کم  لوگ  ایسے ہیں  جنہوں نے اپنے شوق کے مطابق   اس  شعبے  کا انتخاب کیا ۔  اس   شعبے میں وہ لوگ آ گئے ہیں  جنہیں اپنے  شعبوں میں کامیابی نہیں  ملی اور جن کے خواب ٹوٹ چکےہیں  یہی وجہ ہے کہ ایک یونیورسٹی  میں  پڑھنے والا بچہ  اپنے استاد   سے متاثر ہوتانظرنہیں آتا اسے  اپنے استاد کے لیکچر سے اکتاہٹ محسوس ہوتی ہے  اسےنیند آتی ہے ۔ جب کوئی طالب علم  لیکچر کے دوران سوئے گا  تو ناصرف وہ  سوئے گا بلکہ اس  کا نصیب  بھی سو جائے گا۔ آج  پڑھنے والا طالب علم  اپنے استاد سے   اس لیے بھی  متاثرنہیں  ہے کیونکہ اسے اپنا استاد  پرانے زمانے کا لگتا ہے ۔ اگر ایک  استاداپنے جسم پر  شیروانی پہنے ، سر پرترکش  ٹوپی  رکھےاور پاؤں میں  کھوسہ پہنے  کلاس  میں آئے گا تو آج کا ماڈرن  طالب علم  جو   کمیو نیکیشن  پڑھ رہا ہے  اس کے ایک ہاتھ  میں لیپ ٹاپ  ہے دوسرے ہاتھ میں   موبائل ہے تو وہ  متاثر  نہیں ہوگا ۔ استاد کو  اپنے لبادے سے ، اپنے لباس سے استادلگنا چاہیے۔شعبہ تدریس  میں بہتری تب آئے گی  جب  اس  میں اچھے لوگ آئیں گے ۔




1 تبصرہ: