دنیا میں ہر اچھی چیز ، ہر اچھا فلسفہ ، ہر اچھا نظریہ ، ہر اچھا علم اپنی جگہ خود بناتا ہے مثال کے طور پر ایک علاقے میں ایک اچھا بندہ رہتا ہے وہ
اپنی اچھائی کی وجہ سے جگہ خود بنا
لیتا ہے۔ گھر میں ایک بندہ ہے جو عمر میں شائد دوسروں سے چھوٹا ہے
لیکن وہ اپنی زہانت کی وجہ سے جگہ خود بنا لیتا ہے اورسربراہ بن جاتا ہے اسی طرح گھر میں
پڑی ہوئی چیزیں بھی اپنی وقعت بناتی ہیں ہم ایک اچھا صوفہ لے کر
آتےہیں اور اسے ایک مخصوص جگہ پر رکھتےہیں اور یوں وہ اپنی جگہ بنا لیتا ہے ۔
بے شمار علوم، بے شمار فلاسفی ، بے شمار چیزیں ، بے شمار باتیں ، بے شمار
کتابیں ، بے شمار آئیڈیاز اور بے شمار
دانشور دنیا میں آئے انہوں نے اپنی جگہ خود بنائی یہ اس
لیے ہو ا کہ ان کے اندر پوٹینشل ہی
اتنا تھا کہ باد ل چھٹے اور ان کی جگہ بن گئی ۔ ایسا بہت کم
ہوتا ہے کہ کوئی کتاب مارکیٹ میں آئے اور چند مہینوں میں بیسٹ سیلر ہو جائے ، لوگ دنیا کے کونے کونے سے اسے منگوائیں اور چند مہینوں میں 46 زبانوں میں ترجمہ بھی ہو
جائے ۔
دنیا میں یا تو بات نئی ہوتی
ہے یا پھر انداز بیاں نیا ہوتا ہے اس کتاب کا کمال یہ ہے کہ اس کا انداز
بیان نیا ہے ۔ جس طرح اچھی فلم ، اچھا انسان ، اچھا لیکچر سننے
والے یا دیکھنے والے کو پکڑ
لیتا ہے اس کے ساتھ جذبا ت جڑ جاتےہیں بلکل یہ
کتاب بھی ایسی ہی ہے اس کو کہیں سے بھی
کھول کر پڑا جا سکتا ہے ۔
دنیا میں کچھ
چیزیں ایسی ہیں جن میں کشش ہے
وہ کشش فور ی طور پر نیم بے ہوشی
میں لے جاتی ہے ۔ چور جیب اس وقت کاٹتا ہے
جب بندے کا دھیان کسی اور طرف ہوتا
ہے ، جب بندہ بہت زیادہ گھم ہوتا ہے گھم کا
مطلب وہ نیم بے ہوشی میں ہوتا ہے ۔ قدرت نے سانپ کے اندر کشش رکھی
ہے بندہ جتنی دیر میں نیم بے ہوشی میں جاتا ہے اتنی دیر میں وہ ڈس لیتا ہے وہ اس لیے ڈس لیتا ہے ۔تیز بہتے
ہوئے پانی کو نہیں دیکھناچاہیے کیونک سر چکرانا شروع ہو جاتا ہے اور گرنے کا چانس بڑھ جاتا ہے ۔زمین پرچار انچ
کا ایک چھوٹی سی دیوار بنائیں اور اس پر چلیں
تو نہیں گریں گےلیکن اگر وہی
چار انچ کی دیوار انچائی پر ہو
گی تو گر
جائیں گے یہ اس وجہ سے ہوگا کہ
انچائی میں کشش ہے اس لیے پوچھا جاتا ہے
کہ لوگ اتنی پستی میں کیوں چلے جاتےہیں تو
اس کی وجہ ہے کہ پستی میں کشش ہے۔
کسی بھی علم کو
استعمال کرنےکا اصول یہ ہے کہ پہلے
اس کے متعلق واضح ہونا چاہیے اگر واضح نہیں ہے کنفیوزن ہے تو پھر
اس سے فائدہ نہیں ملے گا جیسے کشش کا قانون ہے
زمین چیزوں کو اپنی طرف کھینچتی
ہے جن لوگوں کو کشش کی سائنس کا پتا
ہے وہ بتاتے ہیں کہ اس کیوجہ سے گاڑی چلائی جاسکتی ہے ، ایجادات کی جاسکتی
ہیں بلکل اس کتاب سے بھی اسی طرح فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے ۔
دنیا کی سب سے پرانی فلاسفی یہ ہے کہ انسان کی دو دنیا ہیں، ایک باہر کی دنیا اور ایک اندر کی دنیا، باہر کی
دنیا وہ دنیا ہے جو ہمیں نظر آتی ہے جبکہ اندر
کی دنیا وہ دنیا ہے جس میں خیالات
ہیں ، سوچیں ہیں، تصویریں ہیں ، عقائد ہیں ، نظریات ہیں ۔ کوئی ایسا وقت نہیں ہوتا
جب بندہ سوچ نہ رہا ہو حتی کہ جب بندہ سو رہا ہوتا ہے تب بھی وہ سوچ رہا ہوتا ہے ۔ انسان کے خیالات حقیقت میں بدل جاتےہیں ، سوچیں اشیاء میں بدل
جاتی ہیں بلکہ یہ کہاجاتا ہے کہ جو خیال میں آتا ہے وہ ہاتھ میں آجاتا ہے یعنی حاصل وہی ہے جو خیال ہے اگر خیالات اچھے نہیں ہیں تو پھر
حاصل بھی ٹھیک نہیں ہوگا۔ مثال کے طور پر ہم اپنے قریبی
عزیز کی موت کے متعلق سوچیں جیسے ہی یہ سوچیں گے ہاتھ میں غم آ جائے گا اس کا مطلب ہے جو ہم سوچتے ہیں وہ سوچ
ہمیں ایک نتیجہ دیتی ہے ہمارے
خیالات ہمیں نتیجے کے طور پر کچھ احساسات دیتےہیں ۔جس طرح موت کے
متعلق سوچنے سے غم کے احساسات آئے
پھر اس کے جواب میں اسی طرح کے
خیالات آئیں گے نتیجہ خیالات سے احساسات جنم لیتےہیں اور احساسات سے پھر
خیالات جنم لیتے ہیں اور وہ خیالات وہی
ہوتے ہیں جو ہم نے سوچے ہوتے ہیں
یہ دائرے کی شکل میں چلتے رہتےہیں ۔ ہم اچھے
خیالات لائیں گے تواچھے
احساسات آ ئیں گے جب اچھے احساسات آئیں گے تو پھر اچھے خیالات بھی آئیں گے ۔
ہم زندگی میں جو خواب دیکھتے ہیں اگر ان کی ایوریج نکالیں تو ان میں زیادہ
تر منفی ہوتےہیں کیو نکہ خواب سوچ کی وجہ سے آتے ہیں اس کا مطلب ہے
ہم زیادہ تر منفی سوچتے ہیں اس میں کسی کا قصور نہیں ہے کیو نکہ ہم نے سیکھا نہیں ہوتا کہ خیالات کو
کیسے کنٹرول کرنا ہے۔ شرو ع میں بچے کو چلنا نہیں آتا لیکن چند سالوں میں
چلنا آ جاتا ہے ، چند سالوں میں لکھنا
آجاتا ہےلیکن کئی سال گزر جاتےہیں سوچنا
نہیں آتا یہ المیہ ہےہم باہر کی دنیا کی
ہر چیز کو پکڑنا چاہتےہیں جبکہ اندر کی
دنیا کی سب سے معمولی چیز خیال جس نے سارا کچھ بنانا ہے اس
کو نہیں پکڑتے ۔ دنیا کے جتنے ذہین لوگ
ہوتےہیں وہ سمجھ جاتےہیں کہ اس وقت تک باہر کی دنیا کو کنٹرول نہیں کیا جا
سکتا جب تک اندر کی دنیا
کو کنٹرول نہ کیا جائے ۔
ہربندے کی سمجھ
بوجھ اپنی ہوتی ہے
اکثر لوگوں کا ڈرائینگ روم
چھوٹا ہوتا ہے جہاں لوگوں کو جگہ دینی ہوتی ہے ان کا صرف گیراج ہی بڑا ہوتا
ہے اگر
زندگی گھر ہےتو بہت سارے لوگ
گیراج سے آگے گھر میں ہی نہیں جاتے
ان کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ ہم نے
پورے گھر کو دیکھنا ہے اللہ تعالیٰ
نے ہمیں اتنا بڑا انعام دیا ہے
اور یہ انعام کیا ہے کہ ہمارے اندر کا چھوٹا سا گھر بہت بڑا ہوسکتا ہے ۔ انسان کے اندر نہ سمانے
پہ آئے تو سوئی کا سرا نہیں سما سکتا لیکن
سمانے پرآئےتو پوری کائنات سما سکتی ہے
مزید یہ کہ اس میں اللہ تعا لیٰ کی
محبت سما جاتی ہے ۔ اندر میں تنگی ہو تو ساری دنیا تنگ نظر آتی ہے اندر
وسعت ہوتو ساری دنیا وسیع نظر آتی ہے بندہ اندر سے
مثبت ہوتو اسے ساری کائنات مثبت نظر آتی ہے لیکن
بندہ اگر منفی ہو تو ساری کائنا ت
منفی نظر آئے گی ۔
ہر بندے کے اندر
کوئی نہ کوئی صلاحیت ہوتی ہے جس کی وجہ سے
اپنے کام سر انجام دے رہا ہوتا
ہے کوئی دفتر مینج
کر رہا ہے ، کوئی کاروبار کو مینج کر رہا ہے ۔ ہمیں
اچھی باتیں پتا ہوتی ہیں لیکن عمل میں نہیں ہوتیں کیو نکہ یقین نہیں ہوتا ۔ لوگ بہت اچھے بنتے ہیں لیکن
وہ معاملا ت میں اچھے نہیں ہوتے
بڑے بڑے لوگ بظاہر بہت نیک ہوتے
ہیں لیکن
جب ان سے واسطہ پڑتا ہے تو پتا لگتا ہے
یہ تو بہت چھوٹا انسان ہے کیو نکہ جو وہ کہتا ہے
اس کا اس پریقین ہی نہیں ہوتا ۔ جس
کا اللہ تعا لیٰ پر یقین ہوتا ہے اس کے
معاملات بتاتے ہیں وہ سخی ہے ، تنگ دل
نہیں ہے ، وہ معاف کرنے والا ہے ، آسانیاں پیدا کرنے والا ہے، عزت دینے والا ہے، علم کو پھیلانے والا ہے ، اس کی حرکتیں بتائیں گی وہ اس دنیا سے جانے والا بھی ہے ۔ یہ ایمان بولتا ہے کہ
بندہ کتنا اچھا ہے ایمان ہماری حرکات و سکنات سے بولتا ہے ، ہمارے انداز بیاں سے بولتا ہے،
ہمارے اندازے معاملہ سے بولتا ہے، ہم
جس طر ح معاملہ کرتے ہیں اس سے پتا
چلتا ہے کہ ہم کتنے ولی ہیں ۔ بابا جی
اشفاق احمد فرماتےہیں ہو سکتا ہے ایک بند ہ برف بیچ رہا ہو لیکن ہو سکتا
ہے وہ ولی ہو کیو نکہ
وہ جتنا کماتا ہے اس پر راضی رہتا ہے اور سکون سے سوتا ہے اللہ
کا شکر ادا کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ سے راضی ہے اس سے بڑا ولی کون ہو سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے را ضی ہے۔
سوچ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ آپ وہی ہیں جو
آپ کے خیالات ہیں حضرت واصف علی واصف ؒ فرماتے ہیں "تمہارا
حال وہی ہے جو تمہارا خیال ہے" کوئی
ماننے کو تیار ہی نہیں ہے کہ خرابی میرے اندر ہے ،
اچھا ہونا اور اچھا ہونے کی ایکٹنگ کرنے میں
بڑا فرق ہے ۔ایک پودے کی ٹہنی زمین
پرلگائی جائے وہ تین دن تک سبز رہے گی
پھر اس کے بعد مرجھاجائے گی لگانے والے کو
واہمہ ہوگا کہ کہ اس نے پھوٹ پڑنا ہے لیکن کیو نکہ اس کی بنیاد نہیں ہے تو وہ
نہیں پھوٹے گی
لیکن اگر بیج لگا دیاجائے اس سے
ایک کونپل نکلے گی پودا بنے گا درخت بنے گا اور وہ درخت
پھل دینے لگ پڑے گا اس عمل سے بیج
لگانے والے کا یقین پختہ ہو جائےگا کہ وہ
جو بیج ہے اس کے اندر کشش کا
قانون موجود ہے وہ کشش یہ ہے کہ
ایک بیج میں پھل کی پوری نسل موجود ہے ۔ بیج کو ہاتھ پر رکھ کر دیکھا جائے وہ
نسلوں کا امین ہے اس
کو جیسے
ہی زمین پر لگا یا جاتا ہے وہ
گراوٹی کے قانون کو توڑتا ہے سارے نمکیا ت اور پانی اوپر کی
طرف جاتے ہیں جبکہ گراوٹی
کے مطابق ا نہیں نیچے جانا چاہیے
لیکن ایسا نہیں ہے کیو نکہ اس کی
بنیاد بیج ہے۔ جس طرح پودے کی بنیاد بیج ہے اسی طرح ہماری بنیاد سوچ ہے اگر ہم چھاؤں نہیں دے رہے اور پھل دار درخت نہیں ہیں تو اس
کا مطلب ہے وہ
بیج نہیں لگا یا گیا جو پھل دیتا ہے ۔
زندگی میں اس سے
بڑی کوئی کامیابی نہیں ہے کہ مدد
لینے والا مدد دینے والا بن جائے۔ہم کتنے
عجیب لوگ ہیں چیز تو حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن
کیمیا گری کو حاصل نہیں کرتے ، سونا بنانا چاہتے ہیں لیکن
اپنے آپ کو وہ بندہ نہیں بنانا
چاہتے جو سونا بناتا ہے ۔ ہمارے میں یہ
خرابی بھی ہے کہ ہم اللہ تعا لیٰ سے مانگتے نہیں ہیں زندگی میں یہ واضح ہونا چاہیے جو چاہیے
وہ لینا ہے اور وہ کائنات کے مالک
سے مانگ کر لینا ہے ۔
جس سے چیز کو ئی غرض نہیں اس کی فکر نہیں ہونی چاہیے ایک
صاحب کہیں جا رہے تھے راستے میں
ایک عورت کو دیکھا جو
بہت حسین تھی وہ بھی کہیں جا رہی تھی وہ جس طرف جا رہے تھے
انہوں نے اس کو چھوڑااور اس کے
پیچھے پیچھے چل پڑے
عورت نے تھوڑا سا
پیچھے دیکھا اسے
پتا لگ گیا یہ میرے پیچھے آر ہا ہے
لیکن وہ پھر بھی چلتی رہی چلتے
چلتے دریا کا کنارہ آ گیا عورت نے ایک دم اس میں چھلانگ لگا دی اور تیرنا شروع کر دیا اس شخص نے بھی اس کے پیچھے دریا میں چھلانگ لگا دی لیکن اسے تیرنا نہیں آتا
تھا لیکن پھر
کسی طرح دریا کے کنارے پہنچ گیا
عورت آگے آگےاور وہ اس کے پیچھے پیچھے پھر اس نے
ایک دم سے عورت سے کہا ذرا رکیں
میری بات سنیں عورت نے کہا کیا بات
ہے اس نے کہا مجھے آپ سے محبت
ہے عورت نے کہا مجھے
چھوڑ وہ دیکھ میرے سے بھی
زیادہ خوبصورت عورت پیچھے آ رہی ہے اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو
عورت نے تھپڑ مارا اور کہا جیسے واقعی محبت
ہوتی ہے اس کے پاس دوسری آپشن نہیں ہوتی۔ دوسری آپشن
ہمیشہ اس کے پاس ہوتی ہے جو اپنے ارادے میں پختہ نہیں ہوتا ہمارے
ساتھ یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ ہم ایک دن وزیراعظم بننا چاہتے ہیں اور اگلے دن ایس ۔ایچ ۔او ، ہم ایک دعا میں ولی مانگنے کی
التجاء کرتے ہیں جبکہ دوسری میں سلمیٰ
سے شادی یہ بہت
بڑا تضاد ہے قدرت کہتی ہے سیکنڈ آپشن
نہیں ہے سارے بت گرتے ہیں تو کعبہ بچتا ہے حضرت علامہ اقبال ؒ فرماتےہیں
"بچا کے بتوں سے دامن اپنا۔۔۔غبار
راہ حجاز ہو جا"۔
حضرت علا
مہ اقبالؒ فرماتے ہیں "نہیں
بدلتا تو پتھرنہیں بدلتا ۔۔۔انسان بدل
جاتا ہے" یہ وہ مخلوق ہے اگر اس کادل پتھر بھی ہو جائے تواند رسے چشمہ پھوٹتا ہے اور پتھر ریز ہ ریز ہو جاتا ہے یہ وہ مخلوق ہے جو توبہ کرے
تو فر شتے بھی حیرت زدہ ہو جاتے ہیں حضرت واصف علی واصف ؒ
فرماتے ہیں " نالہ نیم شب تقدیر
پہ اثر انداز ہونے والی چیز ہے دنیا اور آخرت دونوں کو بدلنے والی چیز ہے۔
اللہ
تعالیٰ سے مانگتے وقت شرمانا نہیں
کیو نکہ جو شرماتا ہے وہ کامیاب
نہیں ہو سکتا ، شرمانے والے کا ساتھ یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ اس کے پاس مانگنے کا حوصلہ ہی نہیں ہوتا ۔
مثال کے طور ایک ادارے کا سربراہ کہتاہے کہ کسی کو
کوئی مسئلہ ہو تو بغیر رکاوٹ کے
میرے پاس آجانا ، کوئی کام ہو تو
مجھے کہہ دینا لیکن جس شخص کا مسئلہ ہوتا ہے
وہ بجائے صاحب کے پاس جانے کے اس کے چپڑاسی سے دوستی کر لیتا ہے سوچنے والے
بات ہے جب صاحب کو پتا چلے گا کیا وہ
اچھا محسوس کر ے گا ۔۔۔ نہیں ۔ کائنات کے
مالک نے کہا تم مانگو میں دوں گا ہمارے خیا ل میں یہ
آنا ہی نہیں چاہیے کہ وہ کیسے دے گا ہمارے ساتھ یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ ہمارا
یقین بہت چھوٹا ہوتا ہے اور
ہم سوچتے ہیں کہ یہ کیسے ہوگا۔ اس کا قانون ہے کہ مانگو
تمہیں ملے گا یہی بات دنیا کی تمام
مذہبی کتابوں میں ہے ، دنیا کے تمام بڑے دانشور یہی بات کہتے ہیں حضرت
شیخ سعدی ؒ فرماتے ہیں کبھی اپنی اوقات دیکھ کر نہ مانگو اس کی شان دیکھ کر مانگو ہمیشہ دیکھنا چاہیے کہ کائنات کا مالک کتنا بڑا ہے اگر اللہ تعالیٰ
سارے انسانو ں کو بادشاہ بنا دے
پھر بھی اس کی بادشا ہت میں فرق
نہیں آنے والا وہ پھر بھی سب سے
بڑا بادشا ہ ہے اگر وہ سارے خزانے بانٹ دے
پھر بھی اس کے خزانو ں میں کمی
نہیں ہو گی جب اتنی وسعت ہے تو پھر ہمیں بھی چیز ڈالنے کے لیے اپنا برتن بڑا کرنا چاہیے ۔
کشش کے قانون کے تین مراحل ہیں پہلا
مانگنا، دوسرا یقین اور تیسرا
لینے کے لیے تیار ہونا۔ ہم جیسے ہی خوش بختی لینے کی طرف جاتے ہیں زندگی بدلنا شروع ہو جاتی ہے ، رحمت
کو لینے کے لیے ہمیں تیار رہنا چاہیے
کیو نکہ اس نے کئی شکلوں میں آنا ہے
بعض اوقات اللہ تعالیٰ کسی
مصیبت یا غم کی شکل میں بھی رحمت
بھیج دیتا ہے سرفراز اے شاہ صاحب
فرماتے ہیں نعمت کی تعریف یہ ہے کہ نعمت دینے والے کے لیے
استعمال ہو ۔ اگر نعمت اللہ تعالیٰ نے دی ہے تو پھر
اسے اللہ تعالیٰ کے راستے میں استعمال ہونا چاہیے آپ مزید
فرماتے ہیں بعض اوقات اللہ تعالیٰ
گداز دے کر آپ کے اندر تاثیر پیدا کر دیتا
ہے ۔ ہماری زندگی میں کوئی نہ کوئی ایسا
شعبہ ضرور ہوتا ہے جس کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا کئی لوگوں
کی اولاد بگڑ جاتی ہے ، بیمار ہو جاتی ہے، گھر کے حالات
خراب ہو جاتے ہیں۔ جس کے اندر
تھوڑا سا درد ہوتا ہے اللہ تعالیٰ
اس کی بہت سنتا ہے کیو نکہ درد بھی
اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوتا ۔
ہم کہتے ہیں مالک مجھےقطب بنا دے ذرا غور
کریں ہم کیا مانگ رہے ہیں یہ بہت
بڑی ذمہ داری والی بات ہے کیو نکہ مقام کا نام ذمہ داری ہے۔
مانگنے کے بعد، یقین کے بعد، صبر
اگلا امتحان ہے ہم کہتے ہیں فوری مل جائے وہ ذات ہمیں
کیسے دے دے پہلے اس قابل تو بنا جائے ۔ قدرت اتنی کارساز ہے کہ
بندہ بزنس کی تعلیم حاصل
کرنے جاتا ہے وہاں
کسی کی تقریر سن لیتا ہے نصیب کی گھڑی ہوتی ہے فیصلہ کر کے وکالت میں
داخلہ لے لیتا ہے وکالت کرنے
کے بعد واپس آتا ہے اور بر صغیر کا سب سے
چھوٹا وکیل بن جاتا ہے ایک مہینے کی پندرہ سو روپے تنخواہ مقرر ہوتی ہے وہ کہتا ہے اتنے پیسے میں ایک دن میں کماؤں گا لوگ پوچھتے ہیں یہ کیسے ہوگا اسے
اپنی صلاحیت کا پتا ہوتا ہے کچھ
سالوں بعد اس لڑ کے پاس جو گاڑی ہوتی ہے وہ اس وقت کے وائسرائے کے پاس
بھی نہیں ہوتی
چالیس سال کی عمر میں برصغیر کا وکالت کا بے تاج بادشاہ بن جاتا ہے قدرت
اس کے اندر اتنی صلاحیت پیدا کر کے اسے برصغیر کا سب سے بڑا لیڈر بنا دیتی ہے ۔ جو
آج اپنی ذمہ داری قبول نہیں کر رہا قدرت
اس پر
بڑی ذمہ داری نہیں ڈالتی کیو نکہ
جس نے پچھلا کا م نہیں کیا وہ اگلا کام
نہیں کرسکتا ۔
ہم جیسے ہوتے ہیں ویسے ہی خیالات کھینچ رہے
ہوتےہیں منفی انسان کےسا رے
خیالات منفی ہوتے ہیں ۔اپنے ساتھ کچھ صفات جوڑیں ، پہلے یہ طے کر لیں
کہ ہم مقنا طیس ہیں بھی کہ
نہیں ہیں اگر نہیں ہیں تو
پیدا کر یں۔ دو طرح کے لوگ ہوتےہیں
ایک خوشگوار اور دوسرے غمگین ہر بندہ خوشگوار
انسان کو ملنا چاہتاہے جبکہ غمگین
کو ملنا نہیں چاہتا کیونکہ جو بندہ
غمگین ہوتا ہے اس کی
سوچیں کنٹرول نہیں ہوتیں ایسے بندے کی زندگی میں گلہ زیادہ ہوتا ہے گلہ کا
مطلب وہ زندگی ہنس کر
نہیں رو کرگزار رہا ہے ۔شکر گزار انسان کنٹرول ہوتا ہے وہ بری سے بری حالت میں سو چتا ہے کہ اس میں اچھا کیا ہے ۔ مخالفت آپ کی صلاحیت کو باہر نکالتی ہے جبکہ ہم مخالفت سے بچتے ہیں اس کا مطلب ہے
"تو بچا بچا کر نہ رکھ
اسے تیرا آئینہ ہے وہ
آئینہ۔۔۔ جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں "اللہ تعالیٰ چا ہتا ہے اس
کی نگا ہ ہم پر ہی رہے لیکن ہم
چاہتے ہیں کہ نہ رہے ۔
سب سے پہلے
سوچوں کو کنڑول کرنا
سیکھنی چاہییں یہ کنٹرول تب ہو
نگی جب ہم زندگی سے گلہ نکالیں گے، بے مقصد گفتگو ختم کریں کیو نکہ
گفتگو سوچ پید ا کرتی ہے اور سوچ
گفتگو ،جیسی گفتگو ہوتی ہے ویسے
خیالات آنے لگ پڑتے ہیں اس لیے کہا جاتا ہے اچھا سوال اچھے جواب کی طرف لے کر جاتا ہے جتنی اچھی طلب ہو گی اتنا اچھا
جواب پیدا ہو گا حضرت واصف علی
واصف ؒ فرماتے ہیں " میں نے شعوری زندگی میں ایک جملہ بے معانی نہیں بولا" ایک بندہ ساری زندگی
آپ کی مخالفت کرتا رہا وہ فوت ہو گیا آپؒ کو پتا
چلا تو کہاچلو اس کاجنازہ پڑھتے ہیں
کسی نے کہا وہ تو مخالفت کرتا رہا ہے آپ ؒ نے
فرمایا " جس کا جنازہ نہیں چھوڑ سکتے اس سے لڑائی نہیں کرنی" کسی نے
کہا میں شادی پر جا رہا ہوں میرے پاس
کپڑے نہیں ہیں آپ ؒ فرمانے لگے کہ
"اگر اپنوں کی تو کپڑوں کی
ضرورت نہیں ہے اور
اپنے نہیں ہیں تب بھی کپڑوں کی ضرورت نہیں ہے بہتر ہے خوشی
میں شامل ہو جاؤ" کسی نے کہا کیسے
پتا چلے گا کہ اللہ تعالیٰ راضی ہے
آپؒ نے فرمایا" جتنا تم اللہ
تعالیٰ پرراضی ہو اتنا وہ تم پر راضی ہے" کسی نے
کہا خوش نصیبی کیا ہے آپؒ نے کہا
"جتنے تم نصیب سے راضی ہو اتنے خوش
نصیب ہو" پریشانی کہاں سے آتی ہے آپ
ؒ نے فرمایا "حالات سے نہیں آتی
خیالات سے آتی ہے"۔
حضرت واصف علی واصف ؒ فرماتے ہیں "جس کو بات آتی
ہے وہ آسان کر کے بتاتا ہے " جس کو
نہیں آتی
وہ بات کو ادھر سے ادھر لے کر جائے
گا ،جس بندے کے اندر کچھ ہوتا ہے لوگ اس کے پیچھے پیچھے ہوتے ہیں
درویش جنگل میں بیٹھتا ہے وہاں پر
پگڈنڈیاں بن جاتی ہیں
لیکن اگر اندر کچھ نہیں ہے تو پھر عین بازار کے وسط میں بیٹھ کر
بھی حکمت بانٹیں تو کوئی نہیں سونے گا ۔حضرت بابا فرید گنج شکر ؒ نے اجودھن میں ڈیرا لگایا وہ اجودھن سے پاکپتن شریف بن گیا
اگر اعلیٰ انسان گزر جائے تو جگہ بھی پاک صاف ہو جاتی ہے
یعنی ایک بندہ ایسا آیا ہے اس نے
علاقے کا سارا کفر مٹا دیا سو بتوں کی طرف
سے ہٹا کر اللہ تعالیٰ کی طرف لگا دیا۔
زندگی میں شکر
گزاری کو شامل کرنا چاہیے اللہ تعالیٰ نے
اولاد سے نوازہ ہے تو اولاد
کا شکر ، گھر دیا ہے تو گھر کا شکر، چھت دی ہے تو چھت کاشکر ،رزق
دیا تو رزق کا شکر ، اچھے استاد دیئے ہیں تو اساتذہ کا شکر، علم دیا ہے تو علم کا شکر، اچھی کتابیں دی ہیں
تو کتابوں کا شکر، اس چیز کابھی شکریہ جس
چیز میں بظاہرگلہ نظر آ رہا ہے ۔جوبندہ
کامیابی کے راز کو جان لیتا ہے پھر وہ
دوسروں کی مدد کرنے لگ پڑتا ہے ، چھوٹے
چھوٹے لوگ زندگی میں بہت کردار ادا کر جاتے ہیں ذرا غور
کریں ان چھوٹے لوگوں کی زندگی میں کتنی اہمیت ہے کیونکہ وہ بتا دیتےہیں کہ ہم ہیں
ایک کھک جب آنکھ میں
پڑتا ہے تو بتاتا ہے کہ میں ہوں
اس لیے چھوٹی چھوٹی چیزوں کا بھی شکر گزار ہونا چاہیے ۔
مراقبہ سیکھنا چاہیے
اس کی سب سے آسان شکل یہ ہے کہ
کبھی کبھی سکون سے بیٹھ کر اپنے آپ کو
سوچوں سے آزاد کرنا اورباہر کی
دنیا سے رابطہ ختم کرنا ہے، اندر کی دنیا
سے رابطے کےلیے ضروری ہے کہ مراقبہ کیا
جائے ۔ اپنے آپ کو بار بار کہنا شروع
کریں کہ میں اپنی سوچوں کا مالک ہوں ایک ہی وقت میں ہم دو چیزیں ہیں، ہم دے رہے
ہوتے ہیں اور لے بھی رہے ہوتےہیں
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک اچھی محفل چل
رہی ہوتی ہے ایک بندہ داخل ہوتا ہے سارا ماحول خراب ہو جاتا ہے اس کی وجہ ہے کہ جو منفی شعاعیں اس کے اندر سے نکل رہیں ہوتی ہیں
وہ سب میں چلی جاتی ہیں ۔ وہ مائیں
جوبچے کے رونے پردھیان نہیں دیتی وہ بچہ بڑاہو کربے حس ہو جاتا ہے اور بے حسی روح کی بیماری ہے ۔ اپنے غم کبھی
لوگوں کے ساتھ شیئر نہیں کرنے چا ہییں وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شیئر کرنے چاہییں
جوبندہ اکثر اپنے رونے دھونے
دھوتارہتا ہے لوگوں کے ذہن میں تاثر بیٹھ جاتا ہے
یہ اچھا بندہ نہیں ہے اس میں ٹیسٹ نہیں ہے ، ہم خوشگوارلوگوں سے ملنا چاہتے ہیں اگر ہم
خوشگوارہونے کااحساس نہیں رکھتے تو پھر زندگی میں خوشیاں نہیں آئیں گی کیونکہ
خوشیوں کے ساتھ خوشیاں جوڑی جاتی ہیں اور
خوشیاں کمائی جاتی ہیں ۔
چیزوں قیمتی بنانا سیکھیں ہم گھٹیا چیزوں کوقیمتی بناتے ہیں اورقیمتی چیزوں کی اہمیت کم کر دیتے ہیں جیسے لوگ وقت ضائع کرتےہیں ان کو
پتا نہیں ہوتا انسان کی قدر کیا ہے کسی کی ویلیو کتنی ہے ۔ ہم سے لوگوں کوجوتاثر ملتا ہے اس کومحسوس کرنا چاہیے اس کے
لیے اپنے اندر جھانکنا چاہیے اور
دیکھنا چاہیے کو میں جو کر کے آیا ہوں
کیا وہ صحیح تھا
اسی طرح جولوگوں سے لیتے ہیں
اس کو بھی محسوس کرنا چاہیے ہمیں
کئی لوگ ایسے ملتے ہیں جو اخبار کی صرف
گھٹیا خبر ہی سناتے ہیں کیو نکہ ان کی سوچ
میں گھٹیا پن ہوتا ہے ۔ نیا سوچنے کے ذرائع بڑھاہیں یہ تب ہی ہوں جب مطالعہ زیادہ ہوگا ،سیکھنے کے لیے مووی زیادہ
دیکھی ہوں گی،نئے نئے تجربات کئے ہوں گے۔ اپنی معلومات بڑھائیں کیو نکہ ہر شخص کتاب ہے کتنا عجیب لگتا ہے کہ ہر دفعہ ہمارے پاس صرف گوبھی کی باتیں ہوں
جس کے پاس نئی باتیں ہیں وہ مزے کا بندہ ہوگا اس لیے جن لوگوں کا سر کل
بڑا ہوتاہے اس میں رنگ رنگ کےلوگ ہوتےہیں
ان لوگوں کے پاس نئے ذرائع ہوتے
ہیں وہ نئی بات کر سکتے ہیں، سن سکتےہیں
، بول سکتےہیں۔ ہمارے پاس بولنے کو کیو
نکہ کچھ نہیں ہوتا اس لیے گلے شکوئے شروع
ہو جاتےہیں اگر کرنے کو باتیں نہیں ہیں تو
پھر رونا ہے اور وہ ہم نے بچپن سے سیکھا ہے مزے کی بات یہ ہے کہ کرنے کو نئی بات ہو ۔
زمانے کی حکمت سے
زندگی کو معانی دیں حضرت بابا بلھے
شاہ ؒ فرماتے ہیں "بلھے شاہ اسی مرنا
ناہی ۔۔۔گور پیا کوئی ہور" حضرت علامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں "اپنے من میں
ڈوب کے پا جا سراغ زندگی " مزیدفرماتے ہیں کہ "خود ی کا سر
نیہاں ۔۔۔لا الہ اللہ" جب معبود ایک ہو ، عبادت اور عشق کے لائق ایک ذات
ہو تو سارے معبود خود ہی مٹ جاتے ہیں۔انداز فکر انسان کو بڑا انسان بناتی ہے ، طائف کے مقام پر
گلیوں کے لڑکے میرے رسولﷺ پر پتھر پھینکتے ہیں خون سرمبارک سے پاؤں مبارک تک جاتا ہے حضرت جبرائیل ؑ آتے
اور کہتے ہیں کہ حکم فرمائیں پہاڑوں کو
جوڑ دوں آپﷺ کا حسن خیال یہ تھا
کہ انہیں معاف کردو
آپ ﷺ نے فرمایا میں رحمت بن کر آیا
ہوں ان کی آنے والی نسلیں سمجھ جائیں گی ۔
ہمارے اردگرد کی
کھڑکیاں ہمیں باہر کا منظر دکھاتی ہیں ہماری آنکھیں کھڑکیاں ہیں ہمیں کبھی دوسروں کی آنکھوں سے بھی دیکھنا
چاہیے مثال کے طور پر ایک بندہ ہے وہ گلاب کو دیکھتا ہے اور کہتا
یہ گلاب محبوب کے بالوں میں ہونا
چاہیے ، حکیم صاحب
دیکھتےہیں اور کہتےہیں کہ اس کی گلقند بہت
اچھی بن سکتی ہے جبکہ ایک گائے اسے دیکھتی ہے اور کہتی ہے کہ میں نے اسے کھانا ہے نتیجہ یہ کہ زاویہ نگاہ بدلنے معانی بدل جاتے ہیں ۔
زندگی میں غموں اور
خوشیوں کو نئے معانی دیں حضرت واصف علی واصف ؒ فرماتے ہیں
"خوشی تمہارے گھر آتی ہے پیسے مٹھائی
والے کے گھر جاتے ہیں" دوست کامعانی بدلنا
چاہیے پہلے دوست کامعانی تھا وہ میرے پر پیسے خرچے جبکہ نیا معانی یہ ہونا چاہیے دوست
وہ جس پر میں اپنا آپ لگایا جائے اس پر نثار ہواجائے۔ اگر ہم چیزوں کے معانی
بدلتےہیں تو ہماری سمجھ بوجھ اچھی ہوجاتی ہے اورپھر کشش کا قانون حرکت میں آجاتاہے ۔سندیپ کہتا ہے جب تک آپ خود
اچھے انسان نہیں بنے گے
اچھی چیزیں آپ کی طرف حرکت نہیں کریں گی صرف سوچنے سے بات نہیں بنتی اس لیے اچھے
انسان بنیں تاکہ اچھائیاں ہماری طرف آنا شروع ہوں۔
جو بندہ ہنس نہیں سکتا
وہ مزےدار بندہ نہیں ہوسکتا ، جس
بندے کو خوش ہونا نہیں آتا وہ چھوٹا بندہ
ہے کسی دانا شخص نے کہا اس گھر میں
رشتہ نہ کرو جس گھر میں
مسکراہٹیں نہیں ہیں ۔ خوش رہنے والے بندے
کی طرف خوشیاں حرکت کرتی ہیں ، خوشیاں بانٹنے والے کی طرف خوشیاں آتی ہیں اور سکون بانٹنے والے کی طر ف سکو ن آتاہے ۔
ہمیں ایک دن میں ساٹھ ہزار خیالات آتے ہیں ان خیالات کوکنٹرول نہیں کیا جاسکتا مگر یہ خیالات
جہاں سے آرہے ہوتے ہیں اس سوچ کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے مثال کے طور پر دروازہ کھولا بو آنی شروع
ہو گئی ایک یہ ہے کہ اس بو کو کنڑول کیا جائے جو کہ ممکن نہیں
ہے اور ایک یہ کہ
دروازے کو ہی بند کر دیا جائے ۔ دنیا کا
سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ خیالات کہاں سے
آتے ہیں جواب یہ خیالات کسی استاد
سے آتے ہیں، مشاہدے سے آتے
ہیں، روحانی انسان سے آتے ہیں ، فلم کو دیکھ کر آتےہیں، کسی واقعے
سے بھی آتے ہیں اور اگر غور کیا
جائے تو یہ سارے خیالات احساسات سے آتے
ہیں کیو نکہ جیسے احساسات ہوں گے ویسے خیالات آئیں گے مثال کے طور پر ایک بندے کو بہت زیادہ شک محسوس ہوتا ہے اس کو جو خیالات آئیں گے وہ بھی شک والے ہوں گے، ایک بندے کو ڈروالا احساس ہے اس کو ڈروالے
خیالات آئیں گے ، ایک بندے کے احساس میں
شکر ہے اس کو خیالات بھی شکر والے آئیں گے پتا لگا اصل کھڑکی احساس کی کھڑکی ہے اور دو کھڑکیاں ہوتی ہیں مثبت احساسات
اور منفی احساسات۔ ہم سوچوں کو
کنڑول نہیں کر سکتے مگر ہم اپنے احساسات کو کنڑول کر سکتے ہیں کیو نکہ احساسات بدلنے سے سوچیں بدل جاتی
ہیں اس لیے کسی بھی طرح ہمیں اچھا محسوس
کرنا چاہیے ۔
کبھی اپنے آپ کومحسوس کرایں کہ ہم بھی ہیں ہم محسوس ہی نہیں کرتے مردہ لاش کی طرح پڑے
رہتےہیں جاوید چوہدری کہتے ہیں جوبندہ
چائے کے کپ کوانجوائے نہیں کر سکتا وہ
ترقی نہیں کر سکتا جوجو چیزیں اچھا محسوس کراتی ہیں ان کی فہرست
بنالیں اوراس پر کام کریں
مثال کے طور پر والدین کےساتھ بیٹھ کرباتیں کرنا،
بچوں کے ساتھ وقت گزارنا۔ ہمیں بحثییت
والدین معاشرے کو اچھی نسل دینی
چاہیے کیو نکہ اس
معاشرے کو اس کی بہت ضرورت ہے ۔
کبھی کبھی دوسروں کی توقع کے برخلاف اس کی باتیں مان
لینا بھی اچھا محسوس
کراتی ہیں کیو نکہ جب کسی کو توقع
نہیں ہوتی اور آپ اس کے لیے اچھا کرتے ہیں تو اس
کو بہت خوشی ہوتی ہے جواب کے طور پر ہمیں بھی خوش ملنا شروع ہو جاتی ہے ۔ یہ دیکھنا چاہیے کہ ہمیں کس طرح سرشاری مل سکتی ہے ہمیں اپنے خوشی کے آنسوتلاش کرنے چاہییں سندیپ کہتا ہےکہ ایسی خوشی ہونی چاہیے کہ بندہ مرتے وقت بھی خوش
ہو کہ میں کچھ کر کے جا رہاہوں ، جیناتوایساتھا ، جو میں
سب سے اچھا کر سکتا تھا وہ
کیا، اپنے بہترین وسائل استعمال کئے اگر ایسا
ہے تو پھر موت خوشی بن جائے گی لیکن اگر ایساکیا
نہیں ہے تو بڑے لوگوں کے لیے اس لیے موت ہوتی ہے
کہ وہ کر کے نہیں گئے ہوتے۔
زیادہ تر ایسے کام کرنے چاہییں جن سے اچھے احساسات آتے ہیں زندگی
میں کبھی مسئلے آ جاتے ہیں ، کبھی دکھ آ
جاتےہیں ، تکلیفیں بھی آجاتی ہیں لیکن
واپس اسی طرف جانا چاہیے جہاں پر خوشیاں ہیں اندھیروں کی بستی سے نکل کر دیا والی کٹیا میں جانا چاہیے یہ دنیا
اندھیر نگری ہے اس میں دیئے والی کٹیا ہمارے خوشگوار احساسات ہیں ۔ اگر کسی کا بہت پیارا دنیا
سے چلا جائے تو اس کو قبرستان
سے محبت ہو جاتی ہے اس کاخوف بھی
ختم ہو جاتا ہے کیو نکہ خوف ہمیشہ تب ختم
ہوتا ہے جب اپنا نہ ہو۔ جب بندہ کچھ
بھیجتا ہے تو اس سے احساسات جڑجاتےہیں ہم اپنی سوچوں کو نہیں پکڑ سکتے
مگر احساسات کو پکڑ سکتے ہیں اگر
ہم نے اپنے احساسات کو پکڑ لیا تو پھر
ہمیں زندگی گزارنی آ جائے گی ، اس کو مینج کرنا آ جائے گا اور ہم اچھے نتائج دینے کے قابل ہو جائیں گے ۔
جو بننا چاہتے ہیں
ویسا ہی محسوس کریں کہ میں بن چکا
ہوں ہماری سوچ بےکاری والی ہوتی ہے جبکہ ہم بادشاہ بننا چاہتے ہیں سوچ اوراحساسات بڑی ہونی چاہییں جب ہم اچھا محسوس کرائیں گے تو کشش کے قانون
کے مطابق کامیابیاں ہماری طرف آنا شروع ہو
جائیں گی ۔ ایک دفعہ حضرت واصف علی واصفؒ کی محفل ہورہی
جیسے ہی آپ ؒ نے گفتگو شروع کی تو
اندر سے آواز آئی آپ ؒ اٹھے
اور کہا ہاں بھئی تو بیٹی نے کہا مونگ پھلی کھانی ہے انہوں نے جواب دیا کہ آ رہی ہے
جب محفل کو ہوتے ہوئے
آدھا وقت گزر گیا ایک صاحب آئے انہوں
نے مونگ پھلی کا بورا اٹھا
یا ہوتا تھا وہ محفل میں آکر بیٹھ گئے
جب محفل ختم ہوئی تو اس نے کہا میں آپ کے لیے مونگ پھلی لایا ہوں آپؒ نے کہا یہ تو مجھے اللہ تعالیٰ کے گھر سے پورا یقین تھا اگر میری زبان سے یہ نکلا ہے
کہ آ رہی ہے تو پھر ضرور آئے گی لیکن میں سوچ رہا تھا کون خوش نصیب ہے
جو لے کر آ رہا ہے اس شخص نے جواب دیا میں آرہاتھا
میرے ذہن میں خیال کہ کیوں نہ
میں مونگ پھلی لے جاؤں ۔ سارا
کائنات کا نظام آپس میں منسلک
ہے اسی کے ذریعے ہم اس کائنات
کے مرکز و محور ہیں ادھر محسوس ہوتا ہے ادھر پوری کائنات
جواب دینا شروع کر دیتی ہے
اسی وجہ سے یہ کائنات ہماری سب سے
اچھی دوست ہے ہم جیسا محسوس کرتے ویسا ہی کائنات ہمیں
جواب دیتی ہے ہم اچھا محسوس کریں
گے اچھا جواب آئے گا برا محسوس کریں گے برا جواب آ ئےگا۔
دوسروں کو اچھا محسوس کرانا چاہیے ہم جب اللہ تعالیٰ کے لیے کسی کے
ساتھ اچھا کر رہے ہوتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ بھی برہم رکھتا ہے حضرت
واصف علی واصف ؒ اپنی مجلس
میں فرمایا کرتے تھے کہ اپنا
مسئلہ یہاں رکھ کر جایا کرو۔ جب ہم کسی کو اچھا محسوس کراتے ہیں پھر قدرت انعام دیتی ہے جو بانٹتا ہے اس کابڑتا ہے
ہم اچھا بانٹ کر بندے سے اچھا
چاہتے ہیں یہ غلط ہے
صحیح یہ ہے کہ اچھا بانٹا جائے
پھر اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا جائے
نیکی کر کے آزاد ہو جانا چاہیے ۔ کبھی کبھی کسی محروم کو خوشی دیں ، جس کے
گھر کبھی مٹھائی نہیں گئی اس کے گھر مٹھائی لے کر جائیں ، پھل
نہیں گئے
پھل لے کر جائیں ، چھوٹی چھوٹی نیکیاں بے لو ث کریں، ایسے بندے کے ساتھ نیکی
کریں جس کے ساتھ دوبارہ کبھی ملاقات نہیں ہونی حضرت علی المرتضیؒ رضی اللہ عنہ فرماتےہیں "اس کے ساتھ احسان ضرور کرو جوشکریہ ادا کرنے کے بھی قابل نہیں " کیو
نکہ بندہ جب دینے کے مقام پر جاتا ہے اصل میں وہ لینے کے مقام پر چلا جاتا ہے یہی وجہ ہے کنجوس اپنا مال جمع کرتا ہے اصل میں
وہ مال اس کا نہیں
ہوتا وہ کسی اور کا ہوتا ہے ۔ اگر کسی برے کے
لیے دعا کرنی شروع کر دی تو سمجھو
روحانیت آنا شروع ہو گئی ۔
ہماری شناخت ہونی
چاہیے یہ نہیں ہونا چاہیے کہ بندہ آیا
گم نام تھا جب گیا پھر بھی گم نام ، ہماری پرفارمنس کے نتیجے
میں نام بنتا ہے حضرت علی بن عثمان الحجویر ؒ کشف المحجوب
میں فرماتےہیں"مصنف کاحق ہے کہ تصنیف کے ساتھ نام زندہ رہے"۔ زندگی میں جو بھی تصانیف
لکھی ہیں لازمی نہیں وہ کتا بیں ہو
ں بلکہ جو لوگ تیا رکیے ، جو کام کیے، جو خدمات دیں
وہ خدمات بولنی چاہییں۔آج سے شروع کریں
رات ہونے تک دس لوگوں کو اچھا محسوس کرائیں ، چھوٹے بندے کو
عزت دیں ، مسکرا کر دیکھیں ، جو اچھا محسوس کر رہا ہے اس کے ساتھ شامل ہوں ، کوئی اچھا کام کر رہا ہے اس کو شاباش دیں۔
ہمارے پاس کرنے کو باتیں ہونی چاہییں ہم نے ساری دنیا
کو ویٹر ر بنایا ہوتا ہے اوراصل میں خود ویٹرر بن جاتےہیں ہم بادشاہ تب بنیں گے جب دنیا کو بادشاہ بنائیں گے کیو نکہ جیسا دیں گے ویسا آناشروع ہو گا۔
گھر میں ایک برتن رکھ لیں
جو سکے بچ جائیں اس میں ڈالتے جائیں اپنا ٹارگٹ لکھ کر اس کے نیچے رکھیں ایک دن وہ بھر جائے گا جیسے ہی وہ
بھرے ا یک مٹھی بھر کر کسی
ضرورت مند دے دیا کریں ، جیسے ہی دینے کا احساس آتا ہے ویسے ہی
لینے کی وسعت آجاتی ہے ، دینے
کو بے حساب رکھا کریں تاکہ لینا بھی بے حساب ہو کیو نکہ جس
نے ہمیں دینا ہے اس نے بے حساب دینا
ہے ۔ نیکی ایسے کریں کہ کسی کو پتا نہ چلے ، جس کی کمائی یہی ہے کہ کسی طرح مجھے لوگ دیکھ لیں تو پھر لوگ دیکھ لیتے ہیں پھر وہ
انعام کا مستحق نہیں رہتاجبکہ جس کی کمائی
یہ ہے کہ میرا مالک دیکھے پھر وہ لوگوں سےچھپے گا ، وہ نیکی چھپ کر
کرے گا اوریوں کشش کا قانون
متحرک ہو جائے گا۔
(Workshop on
Book “The Secret” Syed Qasim Ali Shah)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں