اتوار، 14 فروری، 2021

برعکس ۔۔۔۔۔۔ طارق بلوچ صحرائی

 

طارق بلوچ صحرائی

برعکس

زندگی کبھی کبھی مجھے اُس بے ربط کہانی کے ادھورے کردار جیسی لگتی ہے۔ جس میں طلسمی سرگوشی سے پیچھے مُڑ کر دیکھنے والا پتھر ہو جاتا ہے۔ کبھی مجھے لگتا ہے میں زرد کلائی میں پہنا وہ کالا دھاگہ ہوں جس کی اُمیدمیں بھی یاسیت نہیں جاتی اور جس کے بخت میں روشنی کو بھی سیاہ لکھ دیا گیا ہے۔ سوکھے ہونٹ، سلگتی آنکھیں خشک شاخ جیسا جسم اور سرسوں جیسا رنگ، میں نے موت کو زندگی میں پنہاں دیکھا ہے۔
کبھی کبھی میں اپنے جسم سے باہر نکل جاتا ہوں۔ اُس لمحے میں زمان و مکاں سے ماورا ہو جاتا ہوں۔ پھر میں تاریخ کی مشعل پکڑ کر ماضی کی سیاحت کو نکل جاتا ہوں۔ تاریخ کے ساتھ بھی ایک بڑا ظلم ہوا ہے اُس کی کتاب میں جہاں وفا اور محبت کا ذکر تھا بچے کی سچی مُسکراہٹ جیسے احساس کا تذکرہ تھا، مامتا کی تڑپ اور قربانی کے حسن کا بیان تھا، پھولوں، پرندوں، تتلیوں، جگنوئوں اور دھنک کی تصویر کشی تھی، دُکھ سُکھ میں ساتھ جینے ساتھ مرنے کا عہد و پیمان تھا رومانوی شاعری کا طلسم اور غزل کا حسنِ بیاں تھا اُن سب صفحات کو کوئی پھاڑ کر ساتھ لے گیا تھا اور صرف زمین بوس ہوئی عمارتوں کے گردو غبار، ملبوں میں دبی آخری سانس لیتی لاشوں کی چیخیں، جنگ و جدل کے الائو ہیرو شیما ناگاساکی کی قیامت، قبرستان کی ویرانیاں نفرت اور لہو کے ذکر والے صفحات چھوڑ گیا تھا۔ جیسے جیسے انسان ’’سیانا‘‘اور دھاتوں کا پجاری ہوتا گیا اُس کے اندر غلام بنانے کی پیاس بڑھتی گئی۔ اُجالے سِمٹتے چلے گئے اور اندھیروں کا وجود پھیلتا گیا۔ تاریخ، تاریخ نگار کو کبھی معاف نہیں کرے گی کیونکہ اُس نے آنے والے زمانوں کو تعصب، نفرت اور زہر کے سوا کچھ نہیں دیا۔
بہت پہلے کی ایک صدی میں جب میرا بے جسم وجود تاریخ کی مشعل اُٹھائے ماضی میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا جس صبح بھروسے کی موت ہوئی اُسی شام تالا ایجاد ہو گیا اور جس شام انسانیت کا گلا دبا کر اُسے سپردِ خاک کیا گیا۔ اُسے اگلی صبح بارود ایجاد ہو گیا اور جس گرم دوپہر کو کارواں کی آنکھ میں گرد سفر کی چبھن محسوس کرنے کی بجائے اُن کے مال و متاع کو نظر میں رکھا گیا اُس ڈھلتی شام کو احساس کی موت واقع ہو گئی تھی۔ جس روز محبت نے آخری ہچکی لی جینے کا مقصد فوت ہو گیا۔ بوڑھے برگد سے ٹیک لگائے کوئی مجنوں کہہ رہا تھا۔ محبت ایک ایسی اکائی ہے جو تقسیم ہو کر بھی اکائی رہتی ہے۔ جس دن اللہ کے رب ہونے کا انکار کیا گیا اُسی دن معیشت کو نابود کرنے کے لیے سود کو داخل کر دیا گیا۔ جس دن لوگ ظلم عظیم دیکھ کر بھی خاموش رہے اور دریا کی کم ظرف موجیں مقدس پیاسوں کو چند گھونٹ پانی بھی نہ پلا سکیں۔ اُس دن زمین کے نقشے میں خاموش اُمت یعنی ’’کوفہ‘‘ کو شامل کر دیا گیا اور پھر سوال کی موت ہو گئی اور ہر سوال اُٹھانے والا غدار، جنونی اور دہشت گرد کہلایا اور پھر سہرے اور قصیدے نہ لکھنے والا ہر شخص سانحہ بن گیا۔ میں نے بغداد کے بازار میں ایک خالی پنجروں والے بوڑھے سے پوچھا تمھارے پرندے کہاں گئے؟ مسکرا کر بولا اگر پنچھی کسی غیر کے دانے کے عادی ہو جائیں تو انھیں آزاد کر دینا چاہیے میں نے اپنے اندر جھانکا اور گھبرا کر آسمان کی طرف دیکھا۔ فلک میں پھیلی سُرخی کو دیکھ کر میرا وجود کانپنے لگ گیا۔
میں نے ایک پرانے خستہ بوسیدہ صحیفے کے دیمک زدہ ورق کے ٹکڑے جوڑ کر بمشکل پڑھا اُس پہ لکھا تھا کبھی زمین پر محبت کی حکمرانی تھی اب میں سوچتا ہوں جب سے الگ اور جدا ہو کر جینے کی خواہش نے عروج پایا ہے شہروں کے عذاب مسلط کر دیے گئے ہیں۔ پکی سڑکیں بھی اندر کے کچے پن کو بھی پکا نہ کر سکیں۔ میرے دادا کو پکی سڑکوں سے شدیدنفرت تھی اُس کے تین بیٹے شہر میں پڑھنے گئے تھے مگر گائوں کی پگڈنڈیاں آج تک اُنکی راہیں دیکھ رہی ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام نے زندگی کو گراں اور اجل کو ارزاں کر دیا ہے یہ موت بھی عجیب بدمزاج نئی نویلی دلہن ہے پہلی رات ہی اپنا گھر علیحدہ کر لیتی ہے۔
کچھ دن پہلے میرا بے جسم وجود چاند پر بھی گیا تھا وہاں ایک بڑھیا بیٹھی چرخہ کات رہی تھی۔ اُس کی عمر کی کلائیوں سے جوانی کی چوڑیاں اُتر چکی تھیں۔ اُس کے چہرے پر صدیوں کی جھریاں نمایاں تھیں۔ میں نے پوچھا ماں جی آپ کی عمر کیا ہے۔ مسکرا کر بولی میں تو اُس دن سے ہوں جس دن انسان نے سرِ شام جاگتی آنکھوں سے پہلا خواب دیکھا تھا اور جب تک انسان کے اندر کا بچہ بوڑھا نہیں ہوتا اور روئے زمین پر خواب دیکھے جاتے رہیں گے،مجھے موت نہیں آ سکتی۔
میں نے کہا آسمان کی کہانی میں چاند کا ذکر ضرور ہوتا ہے شاید اسی لیے میں نے اپنے شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں سے آپ کا ذکر بہت سنا ہے۔ میری زمین کی نانیاں دادیاں تو آپ کی دیوانی ہیں۔ اُن کی اُنگلیاں چاند نشیں یعنی آپ کی طرف اور محبت بھری نظریں پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں کے معصوم چہروں کی طرف ہوتی ہیں۔ بچے کی سوچ کا پہلا خواب آپ ہیں میںنے جس دانشور اور ادیب سے آپ کا ذکر پڑھا تھا کل اُسے گولی سے مار دیا گیا ہے۔ بڑھیا نے اپنے اُجلے دوپٹے سے میرے آنسوں پونچھے اور بولی ’’دانشور صرف دلیل سے مرتے ہیں بندوق سے تو امر ہو جاتے ہیں۔‘‘ اُس لمحہ مجھے حکیم سعید بہت یاد آئے بیٹا میں اُس دن بہت روئی تھی جب سقراط نے زہر کا پیالہ پیا تھا، مگر صدیوں بعد مجھے یہ آگہی عطا کی گئی کہ سقراط اگر زہر کا پیالہ نہ پیتا تو مر جاتا۔ سقراط کو علم و حکمت کا روگ تھا بیٹا کسی بھی شعبے میں امر ہونے کے لیے روگی ہونا پڑتا ہے۔ میں نے کہا ماں جی میں نے چاند پر سنگلاخ چٹانیں بڑی بڑی بے آباد، ویران خشک غاریں دیکھی ہیں۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے میرے اندر بھی دُکھ کی بڑی بڑی غاریں ہیں اور کبھی مجھے لگتا ہے میں ریگزار کا بے برگ و باد پودا ہوں۔ میں دُکھ اور آزمائش سے کیسے نکل سکتا ہوں۔ بڑھیا نے چرخے کو روک دیا سوت کو سمیٹتے ہوئے بولی تم بھی سلطان باہو کی طرح بڑے سوال کرتے ہو۔
ایک دن مجھ سے کہنے لگا مجھے سمجھائو علم کیا ہے؟ میں نے اُسے کہا سلطان تو اتنی جھوٹی سی بات بھی نہیں جانتا ’’علم وہی ہے جو تمھیں اللہ تک پہنچائے وگرنہ یہ صرف ایک حجاب ہے۔‘‘
پھر بڑھیا نے میرے چہرے اور پھر دھوپ کے شعلوں میں لپٹے سورج کو دیکھا اور کہنے لگی سنو براہیمی مزاج کائنات کو گلزار بنا دیتا ہے۔ اپنے رب کا ذکر کثرت سے کیا کرو۔
پروردگار عالم فرماتا ہے:
’’
یونس قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں رہتا اگر وہ ذکر کرنے والوں میں نہ ہوتا۔‘‘
سنو دل سے دنیا نکال دو دنیا ایک مردار ہے دل میں مردار ہوگا تو خوشبو کہاں سے آئے گی خوشی اور سکون کیسے ملیں گے۔
میں نے کہا تو یہاں تنہا کیوں رہتی ہے زمین پر کیوں چلی نہیں جاتی۔ اُس کی مسکراہٹ نے راستے ہی میں دم توڑ دیا۔ زمین کی طرف دیکھ کر بولی تیری زمین کی دنیا اب رہنے کے قابل نہیں رہی، نفرت اور زندگی ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔ محبت کی وادی میں ہر جُرم کی سزا جدائی ہے میں اب امر ہو گئی ہوں یاد رکھنا جو درد کے رومان سے آشنا ہو جاتا ہے، امر ہو جاتا ہے۔ پھر اُس نے زمین پر بُلھے شاہ کی نگری میں ایک چھوٹی سی قبر جس پر زینب نام کا کتبہ تھا کی طرف دیکھا اور بڑے دُکھ سے بولی مجھے تیری زمین کی ایک بات بہت غم دیتی ہے۔ جب میں لڑکیوں کو اپنے جسم پر ان گنت آنکھوں کا بوجھ اُٹھائے، تھکے تھکے، سہمے ہوئے بھیڑ میں چلتا ہوا دیکھتی ہوں تو میرا کلیجہ کٹ جاتا ہے۔ اب تیری زمین پر نفرت کا دھواں بہت گہرا ہے اب مجھے بچوں کی آنکھوں میں رقص کرتے سپنے دُھندلے دُھندلے نظر آتے ہیں۔ جلتا ہوا کشمیر اہل زمین کے لیے بد دعا ہے۔ جب بھی خون کسی کا بیچو گے سزا کے طور پر قیامت صغریٰ آپ کا مقدر بن جائے گی۔ کیونکہ جس نے آنکھ بنائی ہے وہ خود بھی تو دیکھتا ہو گا۔
پھر اُس نے اپنے آنسو اپنے پلو سے صاف کئے اور بولی:
تنہائی کے علاوہ بھی میرے کئی دُکھ ہیں میرے چاند پر کوئی درخت نہیں۔اشجار تو زمین کی رونق ہیں یہ نباتات، جمادات کے درویش ہیں۔ یہ پرندوں کے ’’ماپے‘‘ ہوتے ہیں۔ ان کو سرسبز رکھو تو دعا دیتے ہیں۔ تم زمین والے کتنے خوش بخت ہو تمھارے پاس جنگل ہیں۔ اللہ کا ذکر کرنے والے پودے ہیں اُن کے عیال پرندے جگنو اور تتلیاں ہیں میرے پاس زندگی چھیننے کا اختیار ہوتا تو زمین پر کوئی لکڑ ہارا زندہ نہ رہتا۔ آپ دُینا والے کتنے خوش قسمت ہو تمھارے پاس سرسبز پہاڑ ہیں۔ جھرنے، سمندر، دریا اور جھیلیں ہیں کبھی کبھی ایک ننھا سا شرارتی کنکر تالاب کے خاموش اور حیراں پانی کے اندر بھونچال پیدا کر کے اُس کی لہروں کو ہنسا دیتا ہے۔ لیکن کبھی کبھی ایک پرندے کی ہجرت سے جھیل کا منظر، ویراں اور اُداس لگنے لگتا ہے۔
میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
مجھے دیکھ کر بڑھیا مسکرائی اور کہنے لگی مجھے تمھاے اشکوں کے موتی اچھے لگے اللہ کو ایسے ہی نرم دل لوگ پسند ہیں جن کے دل پرندوں کی مانند ہوتے ہیں جو جلدی روپڑتے ہیں جلدی روٹھ جاتے ہیں۔ مگر جلد ہی مان جاتے ہیں جن کے دل شکوے اور شکایت سے خالی ہوتے ہیں دراصل یہی شکر ہے۔
جب میں لوٹنے لگا تو بولی آتے جاتے رہتا بلکہ اپنی موت کے بعد بھی میںنے حیرانی سے بڑھیا کی طرف دیکھا۔
وہ مسکرائی اور بولی:
مرنے والا اپنی بازگشت میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے اور محبت کی وادی میں آواز لگانے والے کی بازگشت ابد تک سنائی دیتی رہتی ہے۔ وہ لوگ بھی ہمیشہ زندہ رہتے ہیں جو ہر طرح کے ظلم استحصال کے خلاف آواز اُٹھاتے ہیں۔ ظلم کے خلاف اُٹھائی جانے والی آواز کی گونج صدیوں سنائی دیتی رہتی ہے۔
جب میں نے اپنے جسم میں واپس آتا ہوں تو مجھے لگتا ہے میں نے جسم کا لباس اُلٹا پہن لیا ہے۔ مجھے ہر شے اُلٹی نظر آتی ہے۔ مجھے یوں لگتا ہے جیسے میں اپنا رزق خود کماتا ہوں جیسے میں ناگزیر ہوں میرے بغیر زندگی کا کاروبار نہیں چل سکتا۔ جیسے کوئی سائل مجھ سے کچھ لینے آتا ہے جیسے تقسیم کرنے سے اپنے لیے کچھ بھی نہیں بچتا۔
کبھی کبھی میرا دل چاہتا ہے میں اب آرام کروں کائنات کے اسرار و رموزپر غور کروں اللہ کی ثنائی پر تدّبر کروں اللہ کا ذکر کثرت سے کروں۔ مگر میرا بیٹا نہ جانے کب اتنا سمجھدار ہو گا کہ میں اپنا سارا کاروبار اُسے سونپ کر اپنے جینے کا حق ادا کرو۔ میرا بیٹا ماشاء اللہ اپنی عمر کی اکیس بہاریں دیکھ چکا ہے۔ مگر اُسے دنیا کی سمجھ نہیں ہے وہ وہی سمجھتا ہے جیسے دنیا کی سوچ ہے اُس کے پاس عمل کی ایک ہزار دلیلیں ہیں۔ اُس کے پاس دلائل اور الفاظ کا جنگل ہے۔ میں چاہتا ہوں وہ سمجھدار ہو جائے تاکہ میں اُسے اپنے کاروبار کی ساری کنجیاں دے دوں مگر نہ جانے وہ کب بڑا ہو گا اُسے اس دنیا کا فہم کب ہو گا۔ اُسے ذہنی بلوغت کب نصیب ہو گی۔
بعض اوقات وہ میری باتیں سن کر خاموش ہو جاتا ہے اور میں ہار جاتا ہوں کیونکہ مجھے ابھی اتنا علم عطا نہیں کیا گیا کہ میں اُس کی خاموشی کو سمجھ سکوں کیونکہ خامشی کے ایک لمحے کو پڑھنے کے لیے صدیوں کا علم اور ریاضت چاہیے ہوتی ہے۔ شاید وہ دُکھ کے رومان سے آشنا ہو چکا ہے۔ میں اُسے جب بھی کوئی بات سمجھاتا ہوں وہ اُداس آنکھوں سے مسکرا دیتا ہے اور میں پھر ہار جاتا ہوں کیونکہ جو اُداس آنکھوں سے مسکرا دے اُسے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔
تین ماہ بیرونِ ملک گزار کر جب میں وطن واپس لوٹا تو میرا بیٹا بہت خوش تھا میں نے محبت سے اُسے گلے لگا لیا اور کہا بیٹا جب تم سمجھدار ہو جائو گے اور زندگی کی حقیقت جان لو گے تو میں اپنے کاروبار کی چابیاں تمھیں سونپ کر خود خدمت خلق اور ذکر الٰہی کے راستے کا مسافر بن جائوں گا۔
بیٹا صرف اُداس اور خاموش آنکھوں سے مسکرا دیا۔ کہنے لگا۔
بابا جب آپ ملک میں نہیں تھے تو میں نے انسان، کائنات اور رب کی مثلث کے بارے میں بہت غور کیا۔ بابا جب ہم کوئی بھی کام کرتے ہیں تواُس میں کوئی غرض، لالچ یا خوف شامل ہوتا ہے اور کچھ نہ سہی کم از کم لالچ تو ہوتا ہے کہ میرا رب مجھ پر راضی ہو جائے۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں میرا رب کتنا عظیم اور ظرف والاہے۔ وہ تو بے نیاز ہے۔ اُس کو نہ تو کوئی خوف ہے نہ کوئی لالچ اور نہ ہی وہ کسی کو جواب دہ ہے۔ مگر وہ پھر بھی اپنی لا محدود طاقت کے باوجود اپنی مخلوق سے ستر مائوں سے زیادہ پیار کرتا ہے۔ میرا رب بھی کتنی عظمتوں والا ہے نا، مجھے اُس کی باتیں بہت اچھی لگی تھیں۔میں نے پوچھا میری غیر موجودگی میں کوئی سائل آیا تھا؟
جی بابا!
کیا لینے آیا تھا؟ میں نے پوچھا۔
بیٹا مسکرانے لگا اور بولا بابا سائل تو ہمیشہ دینے آتا ہے لینے کے لیے تو نہیں۔
میں اُٹھ کر اپنے کمرے میں آیا اور اپنے سارے کاروبار کی چابیاں لا کر اُس کے حوالے کر دیں۔ بیٹے نے حیرانی سے میری طرف دیکھا بیٹا مجھے اسی دن کا انتظار تھا۔ اب تم سمجھدار ہو گئے ہو سائل ہمیشہ دینے ہی آتا ہے لینے نہیں بیٹا تمھیں معلوم ہے زندگی اور دنیا کی حقیقت کیا ہے؟
اُس نے مسکراتے ہوئے اقدار میں سر ہلایا اور بولا:
’’
جو نظر آتا ہے نا بابا حقیقت عین اُس کے برعکس ہے۔‘‘
سوائے محبت کے، خصوصاً ماں باپ کی محبت کے میں نے اُس کو گلے لگاتے ہوئے اُس کی بات میں اضافہ کیا۔
طارق بلوچ صحرائی

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں