جمعرات، 1 جون، 2017

اہداف و مقاصد

اہداف  و مقاصد
اہداف  و مقاصد  کا مطلب یہ ہے کہ کسی خواب  کو  دیکھ کر  اس کی  تعبیر  کو طے کر   لیا جائے   دوسرے  لفظوں میں  یوں  کہہ  لیں  کہ کسی  بھی ٹارگٹ کو  وقت کے ساتھ منسلک کر دینا مقصد کہلاتا ہے ۔ ہر شخص کے  مقاصد مختلف ہوتےہیں ۔مقاصد  کی دو اقسام ہیں  پہلی کا  تعلق  وقت کے ساتھ ہے   اس میں  قلیل  مدت،  درمیانی مدت  اور طویل  مدت کے مقاصد آتے ہیں ۔ جو قلیل  مدت کے  مقاصد ہوتے ہیں ان  کا  تعلق  دنوں ، ہفتوں  اورمہینوں  سے  ہوتا ہے۔ درمیانی  مدت   کے مقاصد  کا  تعلق  ایک  سال  یا اس سے تھوڑا زائد ہوتا ہے  جبکہ  جو طویل مدت کے مقاصد ہوتے ہیں  ان  کا دورانیہ  پانچ سال سے زائد ہوتا  ہے۔  زندگی  کے جتنے  شعبے  ہیں وہ  مقاصد کے  ساتھ جڑے ہوتے ہیں  جیسے مالی  مقاصد ہیں،  صحت  کے مقاصد ہیں اور  گھر  بنانے کے مقاصد ہیں وغیرہ وغیرہ۔
انسان  دنیا کی واحد مخلوق ہے  جس  کا رجحان بدلتا رہتاہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ انسان  ایک جگہ  پیدا ہوا ہو  اور وہ اسی جگہ پرفوت ہو  جائے۔ انسان  سفر کرتا ہے  ،سیکھتا ہے اس  سیکھنے  کی  وجہ سے اس  کا رجحان بدلتا رہتا ہے۔ اسلام میں پامسٹری  منع ہے  لیکن  دنیا میں  جو پامسٹر ی  کے ایکسپرٹ ہیں  وہ یہ بات  مانتےہیں کہ جیسے  ہی کسی کا رجحان بدلتا ہے   یا  اس کی زندگی میں رجحان بدلنے والے  بندے آتےہیں  تو اس   کے ہاتھوں کی  لکیروں میں  تبدیلی آ جاتی ہے۔ انسان  کے رجحان کے ساتھ اس کے   مقاصد بھی تبدیل ہوتے رہتےہیں۔ مقاصد  سے پہلے رجحان کو دیکھنا بہت ضروری  ہے۔  بعض اوقات  بندہ   بڑی محنت  سے  گول سیٹنگ سیکھتا  ہے  اور مطلوبہ  منز ل  پر پہنچتا ہے لیکن بعد  میں پتا  چلتاہے کہ  یہ  تو  میری  منزل نہیں ہے یہ   اس وجہ  سے  ہوتا ہے کہ رجحان  نہیں ڈھونڈا ہوتا ۔ پہلے اپنے آپ کو تلاش کیا جائے پھر مقصد   کی تلاش کی شروع  کی جائے۔ہر شخص کے لیے  کچھ چیزیں  اہم  ہوتی ہیں  جبکہ  کچھ اہم  نہیں  ہوتیں۔
ایک خواہش ہوتی ہے اور ایک مقصد ہوتا ہے دونوں میں  بہت فرق ہے ۔ خواہش  کوئی بھی  ہو سکتی ہے  اور وہ  پوری  بھی  ہوسکتی ہے  اور نہیں  بھی  لیکن جو مقصد  ہوتا  ہے  وہ متعین شدہ ہوتا ہےانسان  ہر حال میں اس  کو پورا کرنے  کی کوشش کرتا  ہے ۔ مقصد  کی سب سے خوبصورت بات یہ ہوتی ہے کہ ہر خواہش کے بعد بھی   مقصد یاد رہتا ہے ۔ دن کی شروعات بھی مقصد کے ساتھ ہوتی ہیں اور دن کا اختتام بھی  مقصد کے ساتھ ہوتا ہے۔ خواہشوں  کی عمر  لمبی نہیں ہوتی  اور یہ  وقت کے ساتھ  بدلتی  رہتی ہیں۔ وقت  ہزار خواہشیں  لے کر آتا ہے اور ہزار  خواہشیں  لے کر جاتا ہے لیکن مقصد کو چھیننا بہت مشکل ہوتا ہے ۔آج تک دنیا میں   مقاصد کو صولی  پر  نہیں لٹکایا گیا ،دنیا  میں آج  تک ایسی  پھانسی  نہیں بنی  جو  کسی کے خواب پر لگ سکے ۔  کوئی شخص  اگر مقصد بنانا چاہے تو چاہے جتنے  مرضی برے حالات   کیوں نہ ہوں  وہ اپنے مقصد  کو بنا سکتا ہے ۔
مقاصدکے حوالے  سے خواب  کا بہت اہم  کردار ہے ۔ خواب    بندے کو زندہ رکھتے ہیں یہ  ذہن کو  منفی  سوچوں کی طرف  نہیں جانے دیتے ۔ جو  شخص  یا  جو قومیں خواب دیکھتی ہیں  وہ زندہ رہتی  ہیں  اور ان کی زندگی لمبی ہوتی ہے۔ امریکہ میں ذہنی طور پر اپ سیٹ لوگوں  پر تجربہ  کیا گیا  انہیں چھوٹے چھوٹےٹاسک د یئے   گئے حیران  کن  طور پر  صرف  ایک ماہ    میں ہی ان کے نفسیاتی  مسائل  کم ہو  گئے ۔ انہیں  پتا  لگا  کہ  مقصد  میں اتنی طاقت ہوتی ہے   کہ اگر  کسی  ابنارمل انسان کو مقصد دے دیا جائے  تو  وہ بھی نارمل زندگی  کی طرف آ سکتا ہے  ۔  وہ لوگ بہت خوش نصیب ہوتے ہیں  جنہیں  مقصدِ حیات مل جاتا ہے۔ لوگوں کی بہت بڑی تعداد ایسی  ہے جن  کی زندگیاں گزر جاتی ہیں  لیکن  انہیں پتا ہی  نہیں چلتا کہ ان کا مقصدِ حیات  کیا ہے ۔ اگر بندے  کی اپنے ساتھ شناسائی ہو  اسے اپنی قوتِ ارادی کا پتا ہو، اپنے نفس کا پتاہو، اپنے  ذہن کا پتا ہو، اپنے ضمیر کے بارے  میں جانتا ہو،  اپنے  رجحان  کا علم ہو ،  اپنی  صلاحیتوں کو  جانتا ہو اور  اپنی  کمزوریوں کے بارے میں بھی علم  ہو تو  پھر اس کے لیے مقصدِ حات  کو تلاش  کرنا بڑا آسان ہو جاتا ہے ۔ مقصدِ حیات  کا مطلب   یہ  ہے کہ ایسا کام جس پر  پوری زندگی نثار ہوجائے ۔ دنیا کے  جتنے بڑے لوگ  تھے انہوں نے اپنے مقصدِ حیات  کو پالیا  اور پھر پوری زندگی  اس  مقصد کی نذر  کر  دی ۔ایکسٹرا آڈنری  بننے کے لیے  مقصدِ حیات  کا ہونا بہت ضروری ہے ۔ چھوٹے  چھوٹے مقاصد  تو پورے ہو جاتےہیں   لیکن کچھ نیا کرنے کے لیے مقصدِ حیات کی ضرورت ہوتی ہے  اگر مقصدِ حیات مل  جائے تو زندگی کو بھی  معنی مل جاتے ہیں ۔
اہم بات  یہ  ہے کہ   مقاصد اپنے ہونے چاہییں،ان کا کنڑول اور  کوشش بھی اپنے پاس ہونی چاہیے اگر مقاصد  کا اختیار  کسی اور  کے پاس ہے  تو پھر محنت  کا  کوئی فائدہ  نہیں ہوگا۔انسان دنیا کی واحد مخلو ق ہے  جوکام  کے دوران  غلطیاں کرتی ہے اورپھر ان غلطیوں سے سیکھتی ہے ۔ بڑے بڑے قابل لوگوں   کی ناکامیوں کی وجہ  یہ ہوتی ہے  کہ  وہ اپنی غلطیوں سے نہیں  سیکھتے جس نے اپنی غلطیوں سے سیکھا ہوتا ہے  وہ دوبارہ ان غلطیوں سے بچ جاتا ہے۔  اصل اثاثہ کامیابی  نہیں ہوتی بلکہ  اصل اثاثہ    وہ  تجربہ ہوتا ہے جو  غلطیاں  کر کے  آتا  ہے۔ جو بھی بندہ  چھوٹے چھوٹے گولز بناتا ہے اور   ان کو حاصل  کرنے   کی  کوشش کرتا ہے اگر  وہ حاصل نہیں بھی ہوتے  لیکن  تجربہ ضرور حاصل ہو جاتا ہے۔  بعض اوقات  مقصد میں ناکامی  بتاتی  ہے آپ اس   کام  کے لیےپیدا نہیں ہوئے ، بعض اوقات ناکامی بتاتی ہے   ابھی اور کوشش  کی ضرورت  ہے ۔بندے کو  شناخت کرنا ہوتا ہے  کہ  کیامیں  اس کام  کے لیے بناہوں  یا نہیں اگر نہیں بنا  تو پھر وہ کونسا کام  ہے  جو مجھے  کرنا چاہیے اور اگر میں اس  کام  کے لیے  بنا  ہوں تو پھر   مزید  کتنی  کوشش   درکارہے ۔
  لوگوں کی بہت بڑی تعداد  بے مقصد زندگی  گزار رہی ہے ،بے مقصد زندگی گزارنا  اتنا مسئلہ  نہیں ہے  جتنا   مسئلہ  بے مقصد زندگی  کے ساتھ احساس  کا نہ  ہونا ہے یہ بہت  خطرناک بات ہے ۔ احساس کا ہونا  مقصد کو پیدا کرتا ہے  یہی احساس  بندے کو  مقصد کی تلاش  کی طرف  بھگاتا ہے ۔ لوگوں کی بہت بڑی تعداد  کمفرٹ زون  میں رہنا چاہتی ہے ، وہ  رسک نہیں  لینا چاہتی، وہ  کوئی  کام  نہیں  کرنا چا ہتی لیکن  وہ لوگ جن  کے  شعور  میں پختگی   ہوتی  ہے   وہ اپنے مقصد کے متعلق سوچتے ہیں  کیونکہ شعور کی سب سے بڑی  نشانی  یہ ہے کہ اس  کو مقصد  چاہیے ہوتا ہے ۔ اگر انسان کے پاس  ہر  قسم  کی صلاحیتیں  ہیں لیکن اس کے پاس مقصد نہیں ہے  تو پھران صلاحیتوں کا  کوئی فائدہ نہیں ۔ میسلو کہتا ہے  کہ جب بندہ چھوٹے چھوٹے  مقاصد سے گزر جاتا ہے  تو پھر بڑے مقصد کی  طرف آتا ہے  کیونکہ اس  کے پاس صلاحیت  آ جاتی ہے  ۔ بعض  اوقات انسان میں جن   جتنی صلاحیت ہوتی ہے  لیکن   اس نے اپنے آپ کو چھوٹے چھوٹے  کاموں  میں مصروف رکھا ہوتا ہے  ایک وقت آتا ہے وہ چھوٹے چھوٹے  کام  کر کےخود چھوٹا  ہو جاتا ہے ۔ بڑ ا سوچنا یا  بڑے مقاصد بنانا اس کا سب  سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ  بندہ مقامِ انسانیت پر رہتا ہے   اور اس سے بڑی بات یہ ہے کہ  جب بندے  کے  مقاصد  بڑے ہوتے ہیں تو اس میں انرجی  رہتی ہے ۔ جن  لوگوں  کے پاس جذبہ جنون ہوتا ہے  کہ  ہم نے  حاصل  کر کے رہنا ہے  وہ بڑا سوچتےہیں ۔
مقصد حاصل  کرنے کے لیے دو چیزوں  کا ہونابہت ضروری ہے  پہلا    ذرائع اور دوسرا وقت ۔ جب مقصد  طے ہو تو پھر  لوگ اثر اندازنہیں ہوتے  کیونکہ پتا ہوتا ہے کہ  وقت  اور ذرائع کو استعمال کرنا ہے ۔ جس  کو مقصد کی اہمیت  کا  پتا نہی ہوتا  وہ اپنی زندگی ضائع  کر تا ہے و ہ اپنے وقت   اور ذرائع  کو  ایسی جگہ پر لگاتا ہے جہاں  اسے کچھ حاصل نہیں ہونا ہوتا۔   جن  نوجوانوں  کے مالی  مقاصد نہیں  ہیں  وہ آگے  نہیں  جا سکیں گے  کیونکہ  جب خوشحالی ہوتی ہے تو  پھر ذہن بھی نیا سوچتا ہے اور  زیادہ  بہتر طریقے سے  کام  کرتا ہے ۔ باہر کی دنیا میں ایسے ایسے ایکسپرٹ  موجود ہیں  جنہوں نے اپنی زندگیاں لگا  کر کتابیں  لکھیں ان میں انہوں نے   لکھا  کہ مقاصد  کیا ہوتے ہیں ان کو  کیسے بنایا  جاتا ہے  اور پھر ان کو کیسے پورا کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں  یہ کلچر  نہیں ہے یہ تعلیمی اداروں سے شروع  ہو سکتا ہے۔ ہمارے اساتذہ کرام ہیں  جنہوں نے  قوم کو لے کر چلنا ہے  انہیں چاہیے کہ وہ خود مقاصد کی اہمیت  کو جانیں اور  پھر  طالب علموں کو بتائیں ۔
مقصد کو  واضح کرنے  کے لیے  سب سے پہلے  جتنی  بھی خواہشیں  ہیں  ان  کی  فہرست بنائیں  اس  کے بعد  ان خواہشوں کا تجزیہ  کریں  اس  میں  کچھ خواہشیں رہ  جائیں گی  اور کچھ مقاصد نکل  آئیں  گے ۔   ان میں  کچھ مقاصد قلیل مدت  کے ہوں گے،  کچھ درمیانی مدت  اور کچھ  طویل مدت  کے ۔  بعض  لوگ یہ بھی  کہتےہیں کہ  جو  لوگ ڈائری لکھتے ہیں ان کے لیے   اپنے رجحان کو نکالنا بہت آسان ہوتا ہے  اس کی وجہ یہ  ہے کہ ان کو  لکھنے کی عادت  ہوتی ہے ۔ لکھنے کی عادت اصل میں بندے کو  آئینہ دکھاتی ہے  اور  بندے  کی اپنی ذات  اس کے اپنے سامنے کھلتی ہے ۔ جب مقاصد واضح ہو جائیں  تو پھر ان کو لکھا جائے کیونکہ انسان نسان سے  بنا ہے  اور نسان کا مطلب  بھول جانا  ہے ۔بہتر  یہ ہے کہ  مقاصد کو  لکھ  کر اپنے پرس  میں رکھ  لیا جائے  اس  کے  علاوہ گھر میں ایسی جگہ پر  رکھا جائے جہاں پر بار بار نظر پڑے اس  کے علاوہ اپنے آپ  سے  ان مقاصد کا بار بار تذکرہ کرنا چاہیے  اور یاد کراتے رہنا چاہیے ۔ جب بندہ اپنے آپ سے بات  کرتا ہے  تو  مقاصد  سامنے رہتے ہیں  اس طرح  پھر کسی کی بات  بھی اثر نہیں کرتی  دوسرے کی بات ہمیشہ اس وقت  اثرکرتی ہے  جب  کوئی  مقصد نہ ہو ۔ اگر اردگرد رہنے والے لوگوں  کا  مزاج منفی ہو تو پھر  بہتر ہے کہ مقاصد  کا  ان  سے تذکرہ نہ  کیاجائے۔ جب  مقاصد  کا بار بار تذکرہ ہو تا ہے  تو لاشعور   میں پیغام جانا شروع ہو جاتا ہے اور لاشعور  کسی بھی چیز کو ایک بار پکڑ لے  تو پھر وہ اس  کو نہیں چھوڑتا وہ اس کو حاصل  کر  کے رہتا ہے ۔

 بعض لوگ ان باتوں کو  کتابی باتیں کہتے ہیں  لیکن جنہوں نے  مقاصد  بنائے اور انہیں حاصل کیا ہے وہ  اس کو پر یکٹکل   مانتے ہیں ۔ بڑےبڑے  کاروباری  افراد لاشعوری طور پر ان  چیزوں کو  فالو کرتےہیں ۔    کمپنیاں  اپنے  مقاصد  کو فریم  کرا کر  اپنے دفاتر  میں لگاتی ہیں ان کے مطابق اگر ٹارگٹس واضح ہی  نہیں ہوں گے  تو ان  کو  کیسے حاصل  کیا جا سکے گا۔ زندگی کا اصل رنگ مقاصد  میں  ہے  اور رنگینی  ان لوگوں  کے گرد ہی گھومتی  ہے جن کے  مقاصد  ہوتےہیں ۔ آج انسانیت  جہاں تک پہنچ  گئی ہے یہ مقصد والے  لوگوں کے کمال کی وجہ سے ہے  اگر وہ   اپنے مقاصد نہ بناتے  تو آج بھی انسان غاروں میں   زندگی گزار  رہا ہوتا۔آج  دنیا  کا سارا حسن مقصد  والے لوگوں کے  مرہونِ منت ہے ۔حضرت واصف علی واصف ؒ  فرماتے ہیں "بے مقصد لوگ زندگی میں مر جاتے ہیں  اور مقصد والے لوگ مر کے بھی  نہیں مرتے۔"دنیا کے جتنے  کامیاب ترین لوگ ہیں ان  کی زندگیوں  کے مشاہدے  سے پتا چلا کہ اگرانسان نے کچھ کر کے دکھا نا ہو تو ایک زندگی  ہی  کافی ہے  اور اگر  کچھ  کرنا نہ ہو تو  پھر سو زندگیاں بھی  کسی کام  کی نہیں ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں