کائنات
لامحدود ہے اس کو چلانے کے لیے
قدرت نے قوانین بنائے ہیں ۔ صدیوں سے سورج
اپنے وقت پر طلوع ہوتا ہے اور وقت
پر غروب ہوتا ہے ، صدیوں سے چاند کی حرکت
ایک مخصوص اندازمیں جاری ہے، صدیوں سے دریا اپنی مخصوص سمت میں
چل رہے ہیں ۔ جس طرح اس کائنات کو چلانے کے اصول وضوابط ہیں اسی طرح ہار
اور جیت کے بھی اصول وضوابط ہیں۔ قدرت واحد ذات ہے جو
بندے کی محنت کو سنبھال
کر رکھتی ہے اور اس کی محنت کو ٹھکانے لگاتی ہے۔ انسان کے اندر توانائی پائی جاتی ہے
جس کی فزیکل شکل کامیابی
کی صورت میں دکھائی دیتی ہے۔دولت،
پیسہ ، جائیداد یہ سب نتائج ہیں جبکہ اس کے
پیچھے ایک فلسفہ اور سوچ ہوتی ہے جو
نتائج پیدا کرتی ہے ۔اگر سوچ کامیاب ہونے والی ہو تونتائج بھی کامیابی والے ہوں گے اگر سوچ ناکامی والی ہو تو نتائج
بھی ناکامی والے ہوں گے۔
زندگی
کے کئی میدان ایسے ہوتے ہیں جہاں پر ہارنا کامیابی بن جاتا ہے
۔تاریخ کو اگر دیکھا جائے تو سقراط کی موت اس کی جیت بن گئی۔واقعہ کربلا میں
بظاہر لگتا ہے کہ یزید کی جیت
ہوئی لیکن حقیقت میں اصل جیت حضرت امام حسینؑ کی ہوئی ۔ہار اور جیت رویے
پر منحصر ہوتی ہے رویہ بتاتا ہے کہ ہار ہو گی یا جیت ہوگی۔رویہ شعوری طور پر بھی اور لا شعور
ی طور پر بھی بنتا ہے ۔ دنیا میں جتنے میچ کھیلے جاتے ہیں ان
کا تعلق چاہے کسی کھیل سے ہی
کیوں نہ ہو اس میں دونوں ٹیموں
میں ہار اور جیت کا تعلق
ان کے رویے کے ساتھ ہوتا ہے ۔ کامیاب ہونے والی
ٹیموں میں جیت کا رویہ
ہوتا ہے ۔ جیت کے لیے جتنا رویہ اہم ہے اتنی کوئی اور چیز اہم نہیں ۔ انسان میں کئی قسم کے رویے پائے جاتےہیں اس
میں کامیابی والے رویے بھی ہوتے ہیں اور ناکامی والے بھی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ کامیاب لوگوں
کے رویوں کو اپنایا جائے ۔ جیتنے
والے لوگ کسی نہ کسی قانون کے تحت چل رہے ہوتےہیں انہیں پتا ہوتا ہے کہ ہمیں اس رویے کی وجہ سے کامیابی مل رہی ہے ۔ اچھے سیلز مینوں کامخصوص رویہ اور مزاج ہوتا ہے جو ان
کی سیل کو بڑھاتا ہے۔عام طور پرجو لوگ وقت کے پابند ہوتے ہیں وہ زیادہ کامیاب ہوتےہیں، جو لوگ وعدے کے پابندہوتےہیں
وہ زیادہ کامیاب ہوتے ہیں، جو لوگ دوسروں
کا فائدہ سوچتے ہیں وہ زیادہ کامیاب
ہوتےہیں۔ جن رویوں کا انجام کامیابی ہوتا
ہے اگر ان رویوں کو اپنا لیا جائے تو کامیاب ہونا آسان ہو جاتا ہے۔
جولوگ
اپنے کام کے انجام کومدِنظر رکھ کر چلتےہیں وہ کامیاب
ہوتےہیں اور جو لو گ اپنے انجام کو مدِ نظر رکھ کر نہیں چلتے وہ کامیاب
نہیں ہوتے۔ہارنے والے اپنے راستے کی
رکاوٹ خود ہوتےہیں ان کا رویہ ، ان
کا انداز ان کے راستے کی رکاوٹ ہوتا ہے۔
کامیا ب وہ ہوتا ہے جو اپنے اندر تبدیلی لے کر آتا ہے ۔ حضرت علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں :
تم
خود کو بدلتے ہو
بدلنے
والا تمہاری تقدیر بدل دیتا ہے
اگر بندہ خود کو نہیں بدلتا تو حالات نہیں بدلتے،
واقعات نہیں بدلتے ، زمانہ نہیں بدلتاحتی کہ کچھ نہیں تبدیل ہوتا۔ اگر اپنی سوچ،
اپنی اپروچ،ا پنا رویہ ، اپنا انداز بدل لیا جائے تو کامیابی ممکن ہو جاتی ہے ۔ کچھ لوگوں
کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے کام خود بخود ہو جائیں ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ صرف انتظار کرتے رہیں کام کبھی نہیں ہونے والے ۔ جو لوگ چانس پر
بیٹھے ہوتے ہیں ان کا کبھی چانس نہیں آتا چانس ان لوگوں کا آتا ہے جو
کوشش کرتےہیں ۔ ہارنے والے بھاگتے نہیں اور جو بھاگنے والے
ہوتے ہیں وہ
جیتتے نہیں ۔جیتنے کے لیے سب
سے ضروری چیز مستقل مزاجی ہوتی ہے
۔
جتنے
بھی ہارنے والے لوگ ہوتےہیں وہ مسائل کا شکار رہتے ہیں ۔ نفسیات کے مطابق بعض
لوگ اپنے مسائل کا حصہ بن کر رہ
جاتےہیں اور ساری زندگی ان کے
ساتھ لڑتے رہتے آخر کار وہ ہار
جاتے ہیں اور مسئلے جیت جاتے ہیں۔ بہت تھوڑے لوگ ایسے ہوتےہیں جو سمجھد ار ہوتےہیں اور وہ
اپنی ساری توانائی مسائل کے حل پر لگاتےہیں ۔ بعض لوگ
مسئلے زدہ ہوتےہیں وہ خود مسئلہ
بنے ہوتےہیں وہ اپنے رویے کو تبدیل نہیں کرتے
جس کی وجہ سے ان کے مسئلے حل نہیں ہوتے۔ حضرت واصف علی واصف ؒ
فرماتے ہیں "جب ہم پریشان ہوتےہیں تو پریشانی کے عالم میں پریشانی کو حل کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ "جب کسی سے مشورہ لیا
جاتا ہے تو فوری طور پر مسئلہ حل ہو جاتا ہے اس کی وجہ
یہ ہے کہ جس سے
مسئلے کا حل پوچھا جاتا ہے وہ
مسئلے کا شکار نہیں ہوتا اور وہ مسئلے سے
باہر ہو کر سوچتا ہے ۔ دنیا ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے
جہاں پر لوگوں نے کئی کئی دفعہ ہار کا
سامنا کیا لیکن اس کے باوجود انہوں نے
جیت کر دکھایا ۔امریکہ کے سابق صدر ابراہم
لنکن کی کہانی کو اگر پڑھا جائے
تو معلوم ہوگا کہ اس
کی زندگی میں ناکامیاں ہی ناکامیاں
تھیں لیکن اس کے باوجود اس نے کامیاب ہو کر دکھایا۔ ہار
بندے کو سکھاتی ہے ۔ ہار بندے کو میچور
بناتی ہے۔ ہار بندے کو جینیس بناتی ہے۔ بہت سارے
مسئلوں سے گزرنے کے بعد جب بندے کو تجربہ حاصل ہوتا ہے تووہ جینیس بن جاتا ہے
۔
کامیابی کامیابی
کو کھینچتی ہے ۔ کامیابی
میں اتنی کشش اور طاقت ہوتی ہے کہ ایک
بار کا کامیاب ہونا بندے کو دوبارہ کامیاب کر دیتا ہے ۔ جو بندہ ایک بار کروڑ
روپیہ بنا سکتا ہے وہ دوبارہ بھی کروڑ روپیہ
بنا سکتا ہے۔ کامیابی بندے کے اندر یقین پیدا کرتی ہے یہ
ایسے ہی ہے جیسے شیر کے منہ کو خون
کا لگ جانا۔اگر ایک بار کا
تجربہ کامیاب ہوگیا تو پھر دوسری دفعہ
کا تجربہ بھی کامیاب ہو سکتا ہے۔
کامیاب ہونے کا طریقہ یہ ہے کہ بندہ
اپنی پچھلی کامیابی کو یاد رکھے،
پچھلی کامیابی کو یاد رکھنے سے
اعتماد پیدا ہو تا ہے ۔ ہم بار
بار ناکامیوں کو یاد کرتے ہیں جس کی
وجہ سے یاداشت میں غم ہی غم
رہتا ہے جس کی وجہ سے کام کے
لیے قوت ارادی پیدا نہیں ہوتی۔
جو لوگ
جیتنے والے ہوتےہیں وہ اقدار کے حامل ہوتے
ہیں اقدار کا مطلب ہے ترجیحات
۔ اگر ترجیحات میں کامیابی اورجیتنے
کا جذبہ ہو تو جیتنا آسان ہو جاتا ہے۔اگر کچھ کر کے دکھانے کا جذبہ نہ
ہو تو پھر جیت ممکن نہیں ہو سکتی۔ جس
طرح کھانا پکتا ہے ، چیزیں بنتی
ہیں اسی طرح ہماری اقدار بھی بن رہی ہوتی
ہیں ان اقدار کے بننے میں بعض اوقات کئی واقعات ہوتے ہیں ، چیزیں ہوتی ہیں،
ماضی کے تجربات ہوتےہیں ، کتابیں ہوتی ہیں، دوسروں کے جملے ہوتے ہیں، بچپن کی گرومنگ ہوتی ہے، بچپن
کے حالات ہوتےہیں یہ ساری چیزیں مل
کر ہماری
اقدار کو بناتی ہیں اور ان
اقدار کا انجام کامیابی
کی صورت میں نکلتا ہے۔
جیتنے کے لیے خواب
کا ہونا بہت ضروری ہے خواب دیکھے بغیر کامیابی
ممکن نہیں ہوتی ۔ دنیا کے ہر بڑے
کام کا آغاز خواب سے ہوتا ہے ۔ جو بندہ خواب دیکھتا ہے وہ آغاز کر لیتا ہے ۔
جو بندہ خواب دیکھ سکتا ہے ، جو آگے بڑھنے کا سوچ سکتا ہے وہ کامیاب
ہو جاتا ہے:
میں
ایسے شخص کو زندوں میں کیا شمار کروں
جو
خواب دیکھتا بھی نہیں اور سوچتا بھی نہیں
خواب بندے کو جیتنے پر اکساتا ہے ، بھاگنے پر مجبور
کرتا ہے، نہ تھکنے پر اکساتا ہے ۔ا یک بار کی ہار کوئی چیز
نہیں ہے لیکن اگر مسلسل ہار
رہے تو پھر رک کر سوچنا چاہیے ۔لوگ اپنی ذات پر غوروخوض نہیں کرتے ،
وہ اپنی جیت کی تیار ی نہیں کرتے جو
لوگ اپنی جیت کی تیاری رکھتےہیں وہ کبھی نہ کبھی
منزل پر پہنچ جاتے ہیں۔ ایک
مقابلے میں باکسر محمد علی نے اپنے
مخالف کو ایک مکے میں ہی چت کر دیا ،صحافی اس کے پاس آئے
اور کہا "آپ ایک مکے سے کیسے
جیت گئے" اس نے جواب
دیا " مجھےاس ایک مکے کو بنانے میں اکیس
سال لگے"۔ دس بارہ سا ل کی محنت کے
بعد میٹرک کی سند ملتی ہے اسی طرح کئی سالوں کی محنت کے
بعد کاروبار میں کامیابی ملتی ہے ، کئی
سالوں کی محنت کے بعد بندہ رائٹر بنتا ہے ،
کئی سالوں کی محنت کے بعد
بندہ تھینک ٹینک بنتا ہے، کئی سالوں کی محنت بعد بندہ دانشور بنتا ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا ریس
جیتنے والا نہیں ہے جو پیدا ہوا ہو
اور اس نے دوڑ لگا دی ہو۔ جیت کی تیاری
اور خواب بہت ضروری ہیں ۔
جیتنے
والا اپنی ہار کو
ہار نہیں مانتا، وہ ہار سے سیکھتا
ہے اور آگے چلا جاتا ہے ۔ جیتنے والے لوگ پریکٹکل لوگ ہوتےہیں وہ تیار
یوں میں وقت ضائع نہیں کرتے
وہ میدان میں اتر جاتےہیں ۔
جیتنے کے لیے بڑا بنیادی فلسفہ ہے اگر یہ فلسفہ سمجھ آجائے تو پھر
کامیابی سے کوئی نہیں روک سکتا۔پریکٹکل
ہونے کے علاوہ جیتنے والے لوگ اپنے جذبات کا مثبت استعمال کر کے کامیابی کو ممکن بناتےہیں۔ اگر
کسی کو اپنے جذبات کا مثبت
استعمال کرنا نہیں آتا تو اس
کے لیے کامیاب ہونا آسان نہیں ہوتا۔ غلط
اور درست کے چکر میں نہیں پڑھنا چاہیے ، فائدے اورنقصان کے
بارے میں
نہیں سوچنا چاہیے
بس فیصلہ کرنا چاہیے اور میدان میں
اتر جانا چاہیے جیت خود بخود قدموں میں چل
کر آجائے گی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں