وہ تمام لوگ جو غورو خوص کرتے ہیں اور غورو خوص کرنے کے بعد
پھر یہ تلاش کرتےہیں میرا کائنات سے واسطہ اور کائنات کا خداسے واسطہ اور پھر میرا خدا سے واسطہ کیا ہے وہ اس
چیز کی تگ ودؤ میں ہوتے ہیں کہ وہ کون سے
اصول وضوابط ہیں جس پر اللہ تعالیٰ پور ی کائنات چلا رہا ہے ۔غوروخوص کرنے کے بعد
وہ اپنی عقل اور فہم کی بنا پر جب وہ قوانین فطر ت کو استعمال کرنے کی طرف آتے ہیں
تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ قوانین کسی طرح ہمارے فائدے میں استعمال ہوں جب وہ
فائدے کی طرف آتے ہیں تو وہ دیکھتے ہیں
کہ مقصد کو پانے کے لیے قوانین فطرت کس طرح معاون
ہو سکتےہیں اور کسطرح نہیں ہو
سکتے۔یہ روحانیت کا وہ مقام ہے جہاں پر انسان یہ سمجھ جاتا ہے کہ سب میر ی مرضی
نہیں چل سکتی ہر جگہ میں ہی حاکم نہیں ہوں بادشاہ بننے کے بعد بھی اگر بادشاہ نےمر
ہی جانا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی اور ایسا بادشاہ ضرور ہے جو مرنے سے آزاد ہے
اگر میری نیند مجھ پر غلبہ پائے اور شدت نیند کے باعث میں کچھ نیند لینا چاہوں اور
اس دنیا سے اپنا سلسلہ منقطع کر کے کسی خواب کی دنیا میں چلا جاؤں تو یہ میر ی
کمزوری کو ظاہر کرتا ہے میں چلنے پر آؤں تو دس کلومیٹر طے کرنے کے بعد میری ٹانگیں
میرا ساتھ نہ دے سکیں تو یہ میری بے بسی
کو ظاہر کرتی ہیں کہ میر ی جو موجودہ طاقت
ہے میرا جو اختیار ہے وہ اتنا محدود ہے کہ
میں صرف دس کلومیٹر سے زیادہ چل نہیں سکتا ،اگر میں لکھنے پر آؤں تو لکھنے
کی رفتا ر بہتر رکھنے کے باوجود کچھ گھنٹوں کے بعد میرے ہاتھ جواب دے دیتے ہیں ،
میں اگر کمانے پر آؤں تو پھر جتنا مرضی بھی کمالوں اس کی کوئی نہ کوئی حد ہو گی ،
میں جتنا مرضی مالک بن جاؤں لیکن اگر اس دنیا سے جانے لگوں گا تو سکندر اعظم کی
طرح کفن سے باہر ہاتھ رکھنے کا ضرور کہوں گا کہ دنیا سے بادشاہ بھی جاتا ہے تو
خالی ہاتھ جاتا ہے۔ یہ تمام کی تمام بے بسیاں ، محرومیاں یہ بتاتی ہیں کہ انسان انسان ہے اور انسان
کاکوئی مالک بھی ہے یہ محرومیاں اس فرق کو
ظاہر کرتی ہیں کہ خالق اور مخلوق میں ایک بڑا فرق اختیار کا فرق ہے خالق کا دیا
ہوا اختیار مخلوق استعمال کر سکتی ہے لیکن جو خالق کا اختیار ہے وہ مخلوق کا
اختیار نہیں ہو سکتا ۔
آپ طاقتور ترین انسان بن جائیں پھر بھی آپ کی طاقت کی کوئی
حد ہو گی لیکن اگر کائنات کے مالک کی طاقت دیکھنی ہے تو پھر اس کی کوئی حد نہیں ہے
آپ خزانوں کے مالک بن جائیں آپ سینکڑوں اونٹوں پر اپنا خزانہ رکھ کر سفر کریں گے
لیکن جو خزانوں کا مالک ہے وہ کہتا ہے یہ سارا خزانہ میرے لیے ایک ریت کے ذرے کے
برابر ہے ۔ جب آپ اتنی وسعت والے خدا کو اور اس کے قوانین کو سمجھنا شروع ہوتے ہیں
تو پھر آپ یہ کرتےہیں کہ جہاں جہاں قوانین فطرت آپ کے بہتر استعمال میں آ رہے ہیں
آپ انہیں بہتر استعمال کرتےہیں اور جہاں جہاں پر آپ کابس نہیں چلتا آپ کی کوشش رنگ
لے کر نہیں آتی آپ کوئی بڑا نتیجہ نہیں دے
پاتے وہاں آپ ماننے لگ پڑتےہیں آپ تسلیم کرنے لگ پڑتے ہیں کہ اس خدائی میں اگر
کوئی خدا ہے تو وہ میرے سے زیادہ طاقتور ہے۔ یہ مقام جہاں پر آپ تسلیم کرتے ہیں
خدا کے ارادوں کو ، خدا کی مرضی کو یہ وہ مقام ہے جسے روحانیت میں مقام تسلیم کہا
جاتا ہے کہ تمام تر فکرمندی ، تمام تر پریشانی ، تمام طرح کی کوششوں کے بعد آخر
کار اگر پھر وہ نتیجہ حاصل نہ ہو جس کے لیے کوشش کی تھی تو اسی مقام پر اگر راضی ہو جائیں اس مقام کو مقام تسلیم کہیں گے ۔
روحانیت میں صر ف ایک مقام نہیں ہے اس میں مقام شکر ہے ،مقام تسلیم ہے ، مقام رضا ہے ،مقام تواضح ہے ، مقام توبہ ہے اور دوسرے بہت سے مقام ہیں ۔مقام تسلیم کا مطلب
ہے کہ انسان نے خدا کی ان تمام مرضیوں کو
مان لیاجو خدا چاہتا تھا اور اپنی بے بسی کو سجدے کی شکل دے کر اس بات کو تسلیم
کیا کہ واقعی اگر جیتا ہے تو خدا جیتا ہے اگر ہاراہے تو اس کا بندہ ہاراہے اور یہ
بھی ہار ہار نہیں ہے یہ بھی اس کی بہت بڑی
کامیابی ہے۔ انسان اس مقام پر آنے کے بعد وہ اپنے دل سےاور اپنی روح سے
اس بات کو مان جاتا ہے کہ واقعی اگر کوئی حاکم کہلانے کے لائق کوئی ذات ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔
ہمارے پاس ایک مذہب پیدا ہونے کے بعد والدین کی طرف سے
آجاتا ہےاگر مسلمان کے گھر میں ہیں تو ہمیں قرآن ، حدیث، روزہ سب کچھ مل جائے گا ، اگر کسی ہندو کےگھر میں
ہیں تو مندر سے آشنائی ہو جائے گی ، اگر کسی عیسائی کے گھر میں ہیں تو
گرجے سے آشنائی ہو جائے گی یہ تمام عبادات جن سے ہم رسمی طور پر متعارف
ہوتےہیں ان تمام عبادات کا اصل حاصل اس دن ہوتا ہے جس دن ہم سجدے میں سر رکھ کر مان جاتےہیں کہ حاکم وہ ہے
میں عاجز ہوں ۔ تسلیم کے مقام سے اگلی
منزل معارفت کی ملتی ہے اگر ہم نے مانا ہی
نہیں ہے فقط سجدے کرنا، پانچ نمازیں پوری
کرنا ، تمام عبادات کو پورا کرنا
ان کا کوئی ثمر نہیں ملے گا ۔ بندگی بذات خود ایک بہت بڑا نتیجہ ہے یہ بہت
بڑا انعام ہے اگر ہم کسی بڑے دفتر کے چھوٹے سے ملازم بھی ہوں تو چلنے پھرنے
میں فرق آ جاتا ہے ذرا سوچیئے کہ اللہ تعالیٰ کے بندے بننے سے کتنا فرق آئے گا۔
آپ نے سر کو سجدے میں رکھ مان لیا کہ مالک کئی جگہ تیری مرضی ہے جن پر میرا زور
نہیں چل سکتا میں مانتا ہوں کہ تو طاقتور ہے میرے چاہنے ، میر ی فکر مندی اور میر ی کوشش کے باوجود اگر وہ نتیجہ نہیں مل
رہا جو میں چاہتاہوں تو پھر آپ گلہ اور
شکوہ کرنے سےآزا د ہو گئے ۔آپ نے مان لیا کہ کئی جگہ پر خاموشی بہتر ہے ، کئی جگہ
پر چپ رہنا بہترہے کہ میرے مالک کی بھی کچھ مرضی ہے اور کچھ میری مرضی ہے یہ مقام تسلیم ہے ۔جب آپ مقام تسلیم پر پہنچ
جاتےہیں تو پھر آپ عام کیٹگری سے نکل
جاتےہیں اور بہتر مقا م پر آ جاتےہیں ۔
آپ کبھی زندگی میں
دیکھیں کہ شعور کی مقدار کتنی ہے آپ کھربوں سال کی کائنات کو دیکھیں اس میں ستر
سال کی زندگی اور ستر سال کی زندگی
میں شعور کی زندگی فقط بیس پچیس سال ہوتی
ہے وہ بھی ہو تو اور کئی دفعہ وہ بھی نہیں ہوتی اور اگر ان شعور کے سالوں میں آپ
نے پہچان لیا کہ واقعی وہ میرا مالک ہے تو پھر آپ خوش قسمت ہیں ااور اگر آپ نے نہ
پہچانا تو وہ جو پہلا سوال جو قبر میں
پوچھا جانا ہے وہ آپ کی یاداشت کا سوال
نہیں ہے وہ آپ کے دل کا اور تمام شعوری
فیصلوں کا سوال ہے ۔ کیا آپ نے اپنے شعوری
سالوں میں اس سوال کا جواب تلاش کیا کہ کیا
کوئی مالک ہے حضرت واصف علی واصف ؒ
فرماتےہیں "اپنی مرضی اور اللہ کی مرضی فرق کا نام غم ہے جو یہ سمجھ جاتا ہے
یہ فرق ہے تو غم ہوگا وہ غم کو ختم کرنے کی طرف چلا جاتا ہے"اللہ تعالیٰ
فرماتا ہے کہ میرے بندوں کو نہ کوئی ماضی کا خوف ہے اور نہ مستقبل کو کوئی خوف ہے
وہ لمحہ حال میں اس طرح ہوتےہیں جس طرح ایک پہاڑ اپنی جگہ پر کھڑا ہوتا ہے ۔ لمحہ حال میں رہنے والے کے لیے لازم ہے کہ اس
کی مرضی اور اللہ کی مرضی ایک ہو جائے جب مرضی ایک ہو جاتی ہے تو پھر اطمینان قلب
کی باری آتی ہے اللہ تعالیٰ آ پ کے دل پر نور کی بارش کرتا ہے یہ بارش اور رحمت کو
بندہ صرف محسوس کر سکتا ہے بیان نہیں کر سکتا ۔
جب آپ یہ کہتے ہیں
کہ اللہ کا بڑا کرم ہے یہ ایک ادھورا جملہ ہے یہ جملہ اللہ کے کر م کو بیان نہیں
کررہا ہوتا یہ اللہ کے کرم کا اشارہ دے رہا ہوتا ہے اللہ کا کرم تو بے انتہا ہے آپ
اگر اس کے کرم کو بیان کرنے پر آئیں تو شائد صدیاں لگ جائیں پھر بھی اس کا کرم بیان نہ ہو پائے ،اگر آپ
اللہ تعالیٰ کی شان بیان کرنے کی طر ف آجائیں تو یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ اللہ
تعالیٰ کی شان کو اتنی حقیر سی زندگی،اتنے حقیر سے وسائل اور اتنی حقیر سی توانائی
کے ساتھ بیان کر پائیں وہ کہتا ہے کہ اگر سمند ر سیاہی بن جائیں اوردنیا کے سارے درخت قلم بن جائیں تو میری شان
بیان نہیں ہو سکتی میں اتنا لامحدود ہوں کہ ہر وہ چیز جو محدود ہے وہ شائد
میر ا اشارہ تو شائد دے سکے مگر مجھے بیان نہیں کر سکتی ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
کہ تو میری کرم نوازی کی انتہا دیکھ جہاں
اتنے کرم ہیں فقط میں ایک کرم نہ کرتا
کہ اگر
تو تجھے دیکھنے لگ پڑتا توتیرےاو
پر لازم ہو جانا تھا کہ تو مجھے مانتا میں نے
تم پر جبر مسلط نہیں کیا میں نے واضح کہہ دیا تمہار ا دل کرتا ہے تو مان
لونہیں ماننا نہ مانوکوئی جبر نہیں ہے ۔
اپنی زندگی میں ایک کام کریں اللہ تعالیٰ کی مرضی کی فہرست
بنائیں بے شمار جگہ پر وہ واقعات اور
اشاروں کی شکل میں بولتا ہے عین ممکن ہے کہ کسی پہاڑ کی عظمت آپ کو بتائے
کہ عظیم ہونا چاہیے،دریا کی روانی سکھا جائے کہ زندگی میں رواں دواں رہنا
چاہیے، عین ممکن ہے کہ آپ کسی مجلس میں
بیٹھے ہوں اور آپ کی کیفیت یہ ہو کہ یہ جو باتیں کہی جارہی ہیں یہ میرے لیے ہیں ۔ کائنات کا مالک بسااوقات جب
رحم کرنے پر آتا تو وہ کہیں سے بھی بول پڑتا ہے
اور اگر وہ کرم چھین تو دوائی صحت نہیں دیتی موت دے دیتی ہے اگر وہ کرم چھین لے تو نصیحت فائدہ
نہیں دیتی وہ بھی نقصان دے دیتی ہے ، اگر وہ کرم کرنا چھوڑ دے تو ساری کائنات کی
آکسیجن آپ کے اندر نہیں جا سکتی اور سانس
پورے ہوجاتے ہیں،یہ اس کا کرم ہوتا ہے کہ کسی کی بات آپ کے دل میں جگہ بنا لیتی
ہے۔ اگر کر م نہ ہو تو پھر چاہے عرب میں
اعلیٰ قسم کے ذہین لوگ ہی کیوں نہ
ہوں وہ ابوالحکمت ہی کیوں نہ کہلاتےہوں ان کو اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ کی بات سمجھ نہیں
آسکتی اور اگر کرم ہو جائے تو پھر یمن میں بیٹھے
حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کہاں
اور میرے رسولﷺ کہاں پھر وہ وہاں محبت میں سارے دانت شہید کر کے اور ماں کے حکم کو سامنے رکھتے ہوئے کہ اگر رسول اکرم ﷺ
مسجد میں ہوئے تو ملنا نہ ملیں تو واپس آ جانا، آپ رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم ﷺکے
ارشاد کو کہ ماں کا کہا ماننا ہے اس بات کو پورا کر کے نبھا دیا ان کو بھی اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ کی بات سمجھ
آجاتی ہے، اگر کرم ہو جائے تو فاصلے نہیں
رہتے ،سال اور ساعتیں نہیں رہتی ، لمبا
راستہ نہیں رہتا اور اگر کرم ہوجائے تو وہ سارے گناہوں ایک طرف
کر کے کہتا کہ جا میں نے تجھے معاف کیا۔
عاجز پر اللہ تعالیٰ زیادہ کرم کرتا ہے اس لیے زندگی میں
عاجزی رکھیں، اللہ تعالیٰ رحم کرنے والوں پر بڑی جلدی رحم کرتا ہے اپنے ساتھ جڑے
ہوئے لوگوں پر ضرور رحم کیا کریں ، اللہ
تعالیٰ معاف کرنے والوں کو معاف کر دیتا ہے خدا کے لیے زندگی میں معافی لے کر آئیں
، اللہ تعالیٰ سخی لوگوں کا ساتھ دیتا ہے زندگی میں سخی انسان بنیں ، اللہ تعالیٰ
پرخلوص لوگوں کا ساتھ دیتا ہے زندگی میں پرخلوص ہونے کی عادت بنائیں ۔پاکستان کو
اتنے وسائل کی ضرور ت نہیں ہے جتنی ہمدردی کی ضرورت ہے آپ کو سینکڑوں لوگ ایسے ملیں گے جو کہتے ہیں کہ
پیسے تو بعد کی بات ہے پہلے ہمیں کوئی پوچھے تو سہی ، کوئی ہمیں عزت تو دے ، کوئی
ہمیں ہمارے نام سے تو پکارے لوگ تو موجود
ہیں لیکن لوگوں کی عزت نہیں ہے جب اتنا
اندھیرا ہےتو آپ روشنی پید ا کریں،ہمیشہ اپنے رب کو کہیں کہ میرے مالک میں نے پورا
زور لگا یا ہے کام نہیں بنا میں پھر بھی
راضی ہوں گلے شکوؤں کو زندگی سے نکال دیں
آپ یہ کر کے دیکھیں تو پھر چیزیں آپ کے پیچھے چلیں گی بے شمار وہ خواہشات جن کے لیے کبھی آپ غرق ہوتے تھے وہ آپ کے پیچھے
چل رہی ہوں گی ۔
حدیث کا مفہوم ہے کہ "اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ
دعائیں منظور نہیں ہوتی جو ضد کی شکل اخیتار کرلیں "اس کی بارگاہ
میں عرضی پیش کی جاسکتی ہے ضد پیش نہیں کی جاسکتی جہاں ماننے کا مقام آئے وہاں پر آپ خامو ش ہو جائیں اور سجدے میں چلے
جائیں حضرت واصف علی واصف ؒ فرماتے ہیں "بے بس انسان کے پاس سب سے بڑی کمائی
آنسو اور سجدہ ہے" اور اگر بے بسی کے بعد سجدہ نہیں آرہا تو پھر شکوہ
آئےگا اور جب شکوہ آئے گا خدا سے دور ی
آئے گی کیا عجیب ہو میرا مالک چاہے اور
میں رو پڑوں میرا مالک چاہے اور میں گلہ کر دوں ، میرا مالک چاہے اور میں معذرت
پیش کردوں ۔اگر میں خدا کی پنا ہ سے نکل جاؤں تو پھر دنیا کے ہر در سےٹھوکریں
کھانے پڑیں گی اور خدا اس وقت سے
بچائے کہ
در در کے ٹھوکر یں کھانی پڑیں اگر
خدا کے ہاں آپ کو ماننا پڑ جائے کہ میرے مالک میں تجھے مان جاتا ہوں ، تیر ی مرضی
کو مانا جاتا ہوں ، اپنے سر کو تیرے سامنے تسلیم کرتا ہوں تو پھر آپ عام لوگوں کی صف سے نکل کے مقام
تسلیم پر آجائیں گے اور یہ بہت بڑا اعلیٰ
مقام ہے ۔
ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم تیار ی کر کے میٹر ک کرتے ہیں ہمیں سند مل جاتی
ہے وہ ہمیں نظر آتی ہے ہم اسے پروفائل میں لگا لیتے ہیں روحانیت پروفائل میں نہیں
لگتی اس کو پروفائل سے نکالیں اگر آپ مقام تسلیم پر ہیں تو پھر اس کی تشہیر نہ
کریں روحانیت خاموشی کے ساتھ سفر کرنے کا نام ہے یہ پردے ڈالنےوالی بات ہے ، یہ اپنی نیکی کو
چھپانے والی بات ہےکشف المحجوب میں ہے کہ
ایک شیخ جب روزے کی حا لت بڑے دنوں کے چلوں کے بعد اپنے شہر کو لوٹا تو
لوگوں کا بہت بڑا مجمع انہیں ملنے آیا انہوں نے اسی وقت روٹی کا ٹکڑا اٹھایا اور
روزہ توڑ دیا سارے لوگوں نے برا بھلا کہنا
شروع کر دیا اور وہ بھاگ گئے پاس بیٹھے کسی مرید نے پوچھا حضور آپ نے کتنا غلط کیا
اتنی دنیا آئی ہوئی تھی اور آپ نے سب کے سامنے
روزہ توڑ دیا انہوں نے فرمایااس کا کفارہ میں ادا کر لوں گا لیکن میرے دل
میں جو غرور پیدا ہو رہا تھا وہ میں کیسے
ختم کرتا اس لیے میں نے اپنا روزہ توڑ دیا
۔آپ ملامت کو گلے لگا لیں لیکن اللہ سے دور ی برداشت نہ کریں ، آپ یہ تو
برداشت کر لیں کہ دنیا آپ کو برا کہے لیکن یہ کبھی برداشت نہ کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ
سے دور ہو جائے ۔ جب آپ انسانوں پر رحم کھانا چھوڑ دیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ
آپ خدا کی بارگاہ سے نکلنا شروع ہو گئے اللہ تعالیٰ جب بھی راضی ہوتا ہے وہ آپ کو
انسانوں پر مہربان کر دیتاہے، وہ جب راضی
ہوتا ہے اپنے در کا سوالی بنا لیتا ہے ، وہ جب راضی ہوتا ہے آپ کا دل گداز ہو جاتا
ہے ، وہ جب راضی ہوتا ہے آپ کو تنہائیوں میں اس کو یاد کرنے لگ پڑتے ہیں ، وہ جب راضی ہوتا ہے وہ آپ کو
حضرت محمد مصطفیﷺ کی محبت عطا کر دیتا ہے ۔ زندگی میں روحانیت کے پروفائل کو خاموش
کر دیں آپ کی زندگی میں ایک ایسا کمرہ ہونا چاہے جس میں آپ اور آپ کے رب کے ساتھ
تعلق ہو اور کوئی نہ ہو اگر آپ مقام تسلیم
پر فائز ہیں چپ کر کے راضی رہیں اور چلتے جائیں۔
(Weekly
Sitting Topic “Makam e Tasleem”, Syed Qasim Ali Shah)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں