اس سارے نظام میں ہماری موجودگی درحقیقت اس بات کا ثبوت ہے
کہ اللہ تعالیٰ ہمارے متعلق سوچتا ہے اگر وہ سوچ نہ رہا ہوتا تو ہم نہ ہوتے۔ہمارا اس وقت دنیا میں ہونا ،
کام کرنا اس بات کی علامت ہے کہ قدرت کاجو
پورا کارخانہ چل رہا ہے اس قدرت کے کارخانے میں ہمارا کہیں نہ کہیں کردار
ہے۔جس طرح ایک گاڑی بہت ساری چیزوں کا
مجموعہ ہوتی ہے اور اس میں ہر چیز کا اپنا کردار ہوتا ہے کسی ایک چیز کے بغیر بھی گاڑی مکمل نہیں ہوتی اسی طرح اگر اللہ
تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا ہے تو اس قدرت کے نظام میں کہیں نہ کہیں ہم فٹ ہیں ،
ہمارا کردار ہے چاہے وہ چھوٹا ہی کیوں نہ
ہو ۔ اگر اس دنیا میں کوئی محرومی کے ساتھ پیدا ہوتا ہے تو وہ محرومی بے وجہ نہیں ہوتی اس کی ایک بہتری مثال نک ہے جس کے نہ بازو ہیں اور نہ ہی ٹانگیں لیکن اس کے باوجود وہ کام
کر رہا ہے اس کا کہنا ہے اگر محرومی کے
باوجود میرا اس دنیا میں کردار
ہے تو یہ
کیسے ممکن ہے کہ جو صحیح سلامت اس
کا کردار نہ ہو۔
نک نے پہلی خودکشی آٹھ بر س کی عمر میں کی جس میں کی جس میں وہ ناکام ہو گیا جب دوسری
خود کشی کرنے لگا تو خیال آیا کہ میرے والدین کا کیا بنے گا۔ دوسری خود کشی
کی ناکام کے بعد اس نے منصوبہ بنایا کہ اب
میں نے جینا ہے اس فیصلے کے بعد اس نے
اپنی تعلیم مکمل کی اس دوران اسے دنیا کی باتوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود اس نے زندگی کو قبول کر لیا
وہ کہتا ہے کہ "کیونکہ مجھے زندگی سے محبت ہے اس لیے میں خوش
ہوں"۔ خوشی کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ آپ کو زندگی سے محبت ہونی چاہیے ۔ زندگی
میں دو حصے ہوتےہیں جس میں کچھ چیزیں
بدل سکتی ہیں کچھ نہیں ۔ ساری دنیا کی سائنس
بھی ترقی کر لے یہ نہیں ہو سکتا کہ ہمارے والدین بدل جائیں ، یہ نہیں
ہو سکتا کہ ہماری سانسوں میں اضافہ ہو
جائے موت کا وقت مقرر ہے۔ہماری شکل
تھوڑی بہت تبدیلی ساتھ بدلتی ہے پھر نہیں مرتے دم تک نہیں بدل سکتی ہم شکل کو نہیں بدل سکتے لیکن ہم عقل کو بدل
سکتےہیں ، ہم اپنی سمجھ کو بدل سکتےہیں،ہم اپنا فہم بدل سکتےہیں ۔ ہم اپنی زندگی
کا یہ پہلو دیکھ سکتےہیں کہ اگر ہم زندگی کو قبول کر جاتےہیں
تو ان چیزوں فہرست بن جاتی ہے جن
کو بدلا جا سکتا ہے اور وہ چیزیں جن کو بدلا جا سکتا ہے ان کا ہمارے ساتھ تعلق
ہوتا ہے ان میں ہمارا رویہ ، سوچنے کا
انداز ، کسی چیز کو قبول کرنے کا انداز، ردعمل۔ زندگی بذات خود ایک عمل ہوتی ہے اور زندگی کے بعد کا
وقت ردعمل ہوتا ہے ہم اس زندگی کے عمل کو کیش کرتےہیں جسے آخرت کہا جاتا ہے۔
اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کی ذات سب سے بڑی ٹیچر ہے اس لیے وہ ہمیں سکھاتی ہے۔ قدرت ہمیں جو سکھانی
چاہتی ہے اس وقت تک وہ عمل دہراتی رہتی ہے
جب تک ہم سیکھ نہیں جاتے۔ ہم اس عمل سے سیکھتے
نہیں ہیں جس کی وجہ ہمارے
ساتھ بار بار ایک ہی معاملہ ہو رہا ہوتا
ہے۔ایک لیکچر کے دوران نک نے کہا کہ میں تو اس قابل بھی نہیں ہوں کوئی لڑکی مجھے قبول کرے اسی
لیکچر میں ایک خوبصورت لڑکی نے اس کے ساتھ شادی کا فیصلہ کر لیا
اور شادی ہو گئی ۔ قدر ت نے یہ معاملہ اس کے ساتھ اس لیے کیا کیو نکہ اس نے
زندگی کو قبول کر لیا اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ "تم میرا
شکر ادا کرو میں تمہیں اور دوں گا"شکر کا مطلب ہے ہمیں جو کچھ ملا ہے ہم اس کو قبول کر لیں گلے شکوے نہ کریں۔
نک کہتا ہے کہ "کامیابی یہ نہیں ہے کہ میں کھڑا ہوں سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ میں اپنا کام خود
کرتا ہوں" محرومی کا ہونا اس بات کی
علامت ہے کہ زندگی میں ہیرو کا کردار ہے کیو نکہ محرومی کے ساتھ کچھ کر کے دکھانا ہوتا ہے ۔
جو آپ کا کمزور
ایریا ہے اسے مضبوط
بنائیں، آپ میں محرومی اللہ تعالیٰ کی
عنایت کی علامت ہے ۔حضرت شیخ سعدی ؒ کہیں
جا رہے تھے پاؤں میں جوتی نہیں تھی دل میں خیال آیا کہ میں اتنا بڑا ولی اللہ ہوں
لیکن پاؤں میں جوتی نہیں ہے جب تھوڑا آگے گئے تو دیکھا ایک شخص کے پاؤں
ہی نہیں تھے آپؒ فوری طور پر سجدے میں گر گئے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جس مقام پر ہم
گلہ کر رہے ہوتےہیں دراصل وہ شکر کا مقام
ہوتا ہے۔آپ کی کوئی اصلاح کر دے اور دل
میں گلہ آ جائے تو فوری طور پر اس گلے کو شکر میں بدلیں ۔ ایک بندہ غریب کے گھر میں پیدا وہ شکوہ کرتا ہے لیکن اسے پتا نہیں کہ غربت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے کتنا نوازنا
ہے ۔ کمی اس بات کی علامت ہے کہ اللہ
تعالیٰ آپ سے خاص برتاؤ کرنا ہے۔امریکہ
میں ایک شخص حادثے کی وجہ سےکومے میں چلا گیا انیس دن بعد جب اسے ہوش آیا تو
اس نے رونا شروع کردیا اور کہا کہ ائے اللہ اگر یہ جسم کام میں نہیں آ سکتا تھا تو پھر تو نے مجھے زندہ کیوں
رکھا اس سے تو بہتر تھا کہ تو مجھے مار
دیتا اوپر سے آواز آئی جس زبان سے تم یہ شکوہ کر رہے ہو اس زبان سے پہلے شکر کر
تیرا شکوہ کرنا نہیں بنتا اس نے غور
کیا اور سوچا کہ اس سے تو میں ہزاروں کام کر سکتا ہوں اس نے
اپنے کاموں کی فہرست بنائی اور کام کرنا شروع کر دیا اور ایک دن امریکہ کا سب سے بیسٹ موٹیویشنل سپیکر اور ٹرینر بنا
اور اس کے لیکچر کی بہت مہنگی
ٹکٹیں بکیں ۔نک کہتا ہے کہ "معجزے کی تلاش چھوڑو بلکہ خود معجزہ بنو، جب لوگ ڈھونڈیں تو کہیں کہ دیکھو کس غریب کا بچہ کیسے
کوشش کرتا ہوا یہاں تک پہنچ گیا"۔ہم معجزوں کی تلاش کر رہے
ہوتےہیں جبکہ ہمیں خود معجزہ بننا ہوتا ہے اس لیے معجزوں کی تلا ش چھوڑ دیں ۔
نک کہتا ہے:
"میں نے آج تک کسی شکر گزار انسان کو پریشان نہیں دیکھا اور میں نے آج تک
پریشان کو شکر گزار نہیں دیکھا"
"اس دنیا میں
سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ تم نہیں کر
سکتے"
"ہاتھو ں اور اور بازوؤں سے زیادہ طاقتور چیز آپ کا
ولولہ اور جو ش ہوتا ہے"
"مقصد والی زندگی میں خود ترسی نہیں ہوتی"
"شائد ممکن ہے آپ کو راستہ نظر نہ آ رہا ہو لیکن اس کا
یہ مطلب نہیں ہے کہ راستہ ہے ہی
نہیں"
"زندگی کے بعض غم چوٹیں ، تکلیفیں ،پریشانیاں آپ کو
بہت بڑا فائدہ دے کر جاتی ہیں "
"خدا کا اگر کوئی اور نام رکھوں تو
محبت رکھوں"
"دنیا میں جن کی وجہ سے فرق پڑتا ہے وہ برا نہیں مناتے اور جو برا مناتےہیں ان
کی وجہ سے فرق ہی نہیں پڑتا"
"تبدیلی کا انتظار چھوڑ کر خود تبدیلی بن جائیے "
"دنیا میں تم ایک بار آئے ہو یہ ایک بار بھی کافی ہے
اگر تم کچھ کر کے دکھا دو "
آپ نے دنیا میں ثابت کرنا ہوتا ہے کہ
میں اس دنیا میں آیا تھا اور آپ کو اپنی خامیوں کے ساتھ ثابت کرنا پڑے گا۔ اس لیے اپنی خامیوں
کو قبول کر لیں جو چیز تبدیل نہیں ہو سکتی
اس کو چھوڑ دیں جو تبدیل ہو سکتی ہے اس کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں ۔خامیوں کا سب سے
بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ یہ آپ میں خود اعتمادی
کی کمی پیدا دیتی ہیں یہ
طبیعت میں مکاری پیدا کرتی ہے بندہ
زندگی کا سامنا کرنے کی بجائے دوسرے ذرائع تلا ش کرتا ہے حضر ت علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتےہیں "پیچھے سے حملہ
کرنا بزدل کی نشانی ہے " اس لیے
کمزور بندہ جڑیں کاٹے گا ، تنقید کرےگا۔پہلے آپ یہ دیکھیں کہ آپ
کن کن چیزوں میں کمی محسوس کرتےہیں
ان کی فہرست بنائیں اور اس طرح کے لوگ تلاش کریں جن لوگوں میں
خامیاں تھیں اور انہوں نے ان خامیوں
پر قابو پا کر کامیابی حاصل کی ۔
اپنی زندگی میں شکر گزاری کو شامل کریں یہ زبان سے ادا نہیں ہوتا یہ حرکات
سے ادا ہوتا ہے۔ شکر گزار بندے کی شعاعیں
مثبت ہوتی ہیں جب وہ بکھرتی ہیں تو اس کے بدلے میں بھی اس کو مثبت شعاعیں ملتی ہیں جس کے نتیجے میں اس کی زندگی میں ذرائع پیدا ہوتے ہیں۔ ہم جہاں پر ہوتے ہیں اس کے شکر
گزار نہیں ہوتے جب اس کے شکر گزار نہیں ہوتے
تو پھر اس کو دھیمک کھانے لگ پڑتی
ہے ۔ شکر گزاری کا مطلب ہے ماننا کہ جس
زمین پر میں کھڑا ہوں یہ اللہ تعالیٰ نے مجھے دی ہے ، اللہ تعالیٰ نے کسی کو ذریعہ
بنایا ہے ۔حدیث کا مفہوم ہے "جو شخص انسانوں کا شکر گزار نہیں ہے وہ اللہ
تعالیٰ کا بھی شکر گزار نہیں ہے"بندہ
لوگوں کا شکر ادا کر رہا ہوتا ہے درحقیقت
وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر رہا
ہوتا ہے ۔انسان دنیا کی واحد مخلوق ہے جو اپنی ناکامیوں کو کامیابیوں
میں بدل لیتی ہے سو بار ناکام ہونا اس کو ناکام نہیں کرتا اگر وہ ناکام
ہونا نہ چاہے ۔
دنیا کا ہر انسان مشکل حالات سے نکل رہا ہوتا ہے حضرت واصف
علی واصف ؒ فرماتے ہیں " پہاڑ پر جانے کے سو راستے ہوتےہیں لیکن تمہارے لیے ایک راستہ ہوتا ہے جس پر تم چل
رہے ہوتے ہو تم اپنا راستہ واضح کر و تم
نے کس راستے پر چل کر منزل پر پہنچنا ہے
"ہر بڑے انسان کو اپنے حال سے نفرت ہوتی ہے وہ تبدیلی چاہتا ہے یہ مادہ جتنا
زیادہ ہوتا ہے اتنی جلدی تبدیلی آ تی ہے۔ کسی نے انتھونی رابنز سے پوچھا تم اتنے
ٹرینرر کیسے بن گئے اس نے کہا لوگوں نے جو کام سالوں میں کیا میں نے وہ دنوں میں کیا ۔جو بندہ مہینے کا کام دن میں نہیں کرتا وہ بڑا کام نہیں کر سکتا
اگر آپ کے پاس کاموں کی فہرستیں نہیں ہیں ، مثبت سٹریس نہیں ہے تو پھر آپ بڑے انسان نہیں بن سکتے۔
اپنی خامیوں پر قابوں پانے کے لیے اپنی خامیوں کو واضح کریں جو بدلی نہیں جاسکتیں ان کو سینے سے لگائیں او ر جو بدلی جا سکتی ان کو بدلیں ۔جب آپ کامیاب ہو جاتےہیں آپ کی شخصیت جیسی بھی ہو قبول ہو جاتی ہے۔آج سے اپنی زندگی کو اس دیکھیں جس طرح ایک ہیرو دیکھتا ہے، جیسے
کو ئی کامیاب دیکھتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ ائے اللہ میرا ہاتھ دینے والا بنا دے جب یہ
دعا کریں گے تو کامیابی ہی کامیابی ہو گی۔
(Don’t Waste Time on Your Weakness, Syed Qasim Ali Shah)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں