جمعرات، 1 دسمبر، 2016

رویہ


 جب انسان دنیا میں آتا ہے تو  اس کا پہلا تعلق ماں سے بنتا ہے  جبکہ ماں دراصل ایک رویے کا نام ہے رویے  کی شفقت بتاتی ہے کہ یہ ماں ہے ۔ مثال کے طور پر کہا جاتا ہے  میری  خالہ  نے میرے ساتھ میری ماں جیسا سلوک کیا  ،سلوک اصل میں رویہ  ہوتا ہے اسی طرح کہا جاتا ہے  یہ ہے تو میرا  بھائی  مگر  بھائیوں جیسا نہیں ہے  ۔ زندگی کے شروع  کا طویل عرصہ  ایسا ہوتا ہے  جس میں ہم صحیح طور پر پرکھ نہیں سکتے   یعنی وہ  گیٹ جس کے ذریعے  ہماری شخصیت نے بننا ہوتا ہے  اس میں ہر کوئی اس میں داخل  ہو جاتا ہے کیو نکہ  اس گیٹ پر کوئی دربان نہیں ہوتا  جو یہ کہہ  سکے تم اندر جا سکتے ہو اور تم نہیں ۔مار کٹائی والی  مووی ہٹ ہوجاتی ہے  لوگ اس مووی کے ہیرو کے کردار کونہیں اپناتے  بلکہ ویلن  کے کردار کو اپنا لیتےہیں اس کی وجہ ہے کہ ان کی شخصیت   دربان یا کنٹرول اتنے کمزور ہوتے ہیں کہ  وہ جج ہی نہیں کر پاتے  جو ہم نے مووی دیکھی ہے  اس کا مثبت کردار لینا ہے  یا منفی ۔
 قدرت نے ہماری شخصیت کاجونظام بنایا ہے  اس  کے شروع  ہر چیز اندر داخل ہوجاتی ہے  اس میں  کوئی کانٹ چھانٹ نہیں ہوتی اس وجہ سے  بے شمار رویے پیدا ہو جاتےہیں  پھر جب انسان کا ان رویوں کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے  تو وہ  ان میں  سے اکثر غلط رویوں   کو صحیح سمجھ  لیتا ہے۔ مثال کے طور پر جب  بندہ غلطی کرتا ہے  تو  اس کے جواب میں ڈانٹ پڑتی ہے  اب ڈانٹ ایک رویہ ہے ممکن ہے یہ رویہ ٹھیک نہ ہو  یا اتنی مقدار میں ٹھیک نہ ہو  جتنی مقدار میں ملا ہو  ۔ایک دوائی  بہت اچھی ہوتی ہے  اگر وہی دوائی مقدار  میں بڑھ جائے  تو وہ نقصان دہ ہو جاتی ہے اسی طرح وہ رویے   جو اردگرد دیکھے ہوتے ہیں  ان کو  چاہتے نہ چاہتے   انسان اپنا لیتا ہے ۔ ایک وقت  تھا کہ  جب اسامہ بن  لادن  کو اسلام  کے ہیرو کےطور پر پیش کیاجاتا تھا لیکن بعد  اس کو اور انداز میں  پیش کیا جانے لگا پتاچلا کہ معاشرے  کے بھی  معیار ہیں  یعنی معاشرہ کہے گا کہ غازی علم دین شہید ؒ  ایک   ہیرو ہے  لیکن  عامرخان  ہیرو نہیں ہے۔  اس طرح کے سارے رویے چلتے  چلتے انسان کی شخصیت  کے   اندر داخل ہو جاتے ہیں   اور پھر وہ اس کی ذات کے ساتھ جڑجاتے ہیں۔
جب زندگی میں  وہ وقت آتا  ہے جب انسان   دوسروں کے ساتھ پیش آتا ہے  مثا ل کے طور پربچہ  اپنے والد کے ساتھ  برا پیش نہیں  آ سکتا  اگر آئے  گا تو نافرمان کہلا ئے گا۔  لیکن ایک وقت آتا ہے جب آزادی مل جاتی ہے  اس وقت انسان  نے  جو کچھ لاشعوری طور پر  سیکھا ہوتاہے    اس  کو اس کے اظہار کا موقع مل جاتا ہےبقول شیکسپئر  زندگی ایک سٹیج ہے  ہر شخص اپنا کردار ادا کررہا ہے ۔ زندگی کے بھی  مراحل ہیں  جب  انسان کردار نبانے کی طرف آتا ہے  تولو گ کہتے ہیں کہ اس کا رویہ اچھا نہیں ہے  جب اس کی وجہ تلاش کی جاتی ہے تو پتا  چلتا ہے اس نے شروع میں جو رویے سیکھے تھے  وہ غیر ارادی طور پر سیکھے  شعوری طور پر نہیں سیکھے تھے۔ اس نے کچھ  ایسے رویے لے لیے  جو آگے بڑھنے والے نہیں تھے ، جوتنہا کرنے والے تھے،  جو نقصان پہنچانے والے تھے نتیجہ جب  ان رویوں کے ساتھ واسطہ پڑا پھر اس کے جواب میں  اس کاردعمل  بھی اسی طرح ہوا اس میں  اس کاکوئی قصور  نہیں ہے۔
بچپن ، غیر ارادی دور  یا وہ دور جس میں ہمارے پاس  پرکھنے   کا کوئی پیمانہ نہیں  ہوتا، اس وقت سمجھ نہیں  ہوتی اس وقت جورویے  اپنائے ہوتے  ہیں   جیسے ہی شعور آئے تو اس دور کے رویوں  کی کانٹ چھانٹ ضرور  کرنی چاہیے  ا ن میں جو کام کے ہیں ان کو رکھ لینا چاہیے  اور جو کام  کے نہیں ہیں ان کو  چھوڑ دینا چاہیے ۔ سینیما  جب فلم شروع ہوتی ہے  تو سب سے پہلے قومی ترانہ پڑا جاتا ہے  اور ساتھ ہی ایک جملہ  کہا جاتا ہے  آپ سب پر فرض ہے  کہ آپ  سب ترانے کے احترام میں کھڑے ہوجائیں  لفظ کھڑے ہو جائیں  پر بہت ضرور دیا جاتا ہے  جس کو سن کر سب کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ جب شعور آ جائے تو اس کے  احترام میں کھڑے ہو جانا چاہیے ۔ شعور کا دور بڑا قیمتی دور ہوتا ہے  شعور کے لیے نہ تو عمر کی پابندی ہے یہ نہ آئے تو ستر سال کی عمر تک نہیں آتا ۔  
 بچپن  کے ایسے رویے  جنہیں  چھو ڑ دینا  بہت ضروری ہےیہ مزاج بن جاتے ہیں ۔  ان رویوں میں بعض  رویے  ایسے  ہیں  جیسے ممکن ہے زندگی میں  جاسوسی یا دوسروں کی خامیوں کو تلاش کرنے  کا رویہ اپنایا ہو اس رویے  کو زندگی سے نکال دیناچاہیے  ایسے رویے والا بندہ زندگی میں اکیلا رہ جاتا ہے ، ایسے بندے سے لوگ پیار نہیں کرتے       بقول بابا جی اشفاق احمدؒ کے  مکھی کے چھیاسی آنکھیں ہیں لیکن  بیٹھتی  پھر  بھی گند  پر ہی ہے ۔اسی طور لوگ اپنی ساری ذہانت دوسروں  کے گند کو تلاش کرنے میں لگا رہے ہوتے ہیں کسی  نے بڑی خوبصورت بات کی  کہ اپنے بارے میں کبھی برا نہ سوچیں  یہ کام آپ کے رشتہ دار  بڑے بھلے سے  ایک عرصہ  سے کر رہے ہیں اس کو بدلنے کی ضرورت ہے  ۔ایک مزاج یہ بھی ہے  ہم کام کی باتیں نہیں سیکھتے   ہمیں دنیا جہاں  کے  بارے میں پتا  ہوتا ہے حالانکہ  وہ اتنا اہم نہیں ہوتا ۔ عادت بنی  ہوتی ہے سیکھنا  ہے  لیکن  بے مقصد سیکھنا ہے اس رویے کو بھی دورست کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایک یہ بھی مزاج پایاجاتا ہے  دوسروں  کی بے عزتی کرنا   یہ ایک ایسا رویہ ہے  جس میں بندہ چھلانگیں لگاتا ہے  اور ایسی ایسی حرکتیں  کر جاتا ہے  کہ دنیا حیران ہو جاتی ہے  کہ صرف دوسرے کو نیچا  اور خود اونچا کرنے کے  لیے  کتنی عجیب  کر رہا ہے۔مثال کے طور پر لوگ اپنے آپ کو اونچا دکھانے کے لیے شادی کا فنکشن  جو پانچ لاکھ میں ہوسکتا ہے پچاس لاکھ میں  کر تے ہیں۔ بعض لوگوں کا ایسا رویہ ہوتا ہے  جو زندگی میں کچھ بنے نہیں ہیں وہ پہلے سے ہی  محسوس کراتے رہتے ہیں  مثا ل کے طور پر کئی افسروں کے بچے  اپنے آپ کو افسر  محسوس  کراتے ہیں۔  کسی وزیرکا بچہ  پطرس بخاری صاحب  کے پاس رزلٹ کا پتا کرنے چلا گیا اس وقت رزلٹ آنے میں ایک دو دن باقی تھے  بچے نے کہا  رزلٹ تو کل آنا ہے آپ مہربانی کریں رزلٹ آج بتا دیں  پطرس صاحب نے کہا میں تو رزلٹ آج نہیں بتا سکتا  بچے نے کہا  آپ کو پتا نہیں میں کس کا بیٹا ہوں  پطرس صاحب نے کہا مجھے نہیں پتا  بچے نے پھر کہا کہ آپ کو نہیں پتا میں کس بیٹا ہوں  پطرس صاحب نے اس  بچے کے والد کو فون کیا  اور کہا  کہ آپ کا بیٹا پاگل ہو گیا ہے  بار بار مجھے کہہ رہا ہے  آپ کو پتا ہے میں کس کا بیٹا ہوں  نتیجہ  یہ بھی ایک رویہ ہے۔
اپنے رویوں کی فہرست بنائیں   روزانہ  دن کے پانچ واقعات لکھ  لیا کریں  مثال کے طور پر آپ دس بچے  دفتر میں بیٹھے تھے  کہ کسی نے آکر  کہا  آپ کی گاڑی  کا کوئی شیشہ توڑ گیا جب آپ اس واقعے کی تہہ میں  جائیں   گے تو اس  کی وجہ تلاش کریں گے   تو اس وقت  آپ کو اپنے رویے کے بارے میں پتا چلے گا۔جو چیز واپس  آ سکتی ہے  اس کے لیے لڑائی مت کریں   ہم  ان چیزوں کے لیے  نہیں لڑتے  جو واپس نہیں آسکتیں جیسے وقت  کسی نے ایک عورت سے پوچھا  وہ دن  بتائیں  جو آپ   کے لیے قیامت ہوں اس نے جواب دیا  ہاں جس دن میرے دس روپے گم ہوئے تھے اس سے پتا  چلا  کہ دس روپے کےلیے قیامت والا رویہ اپنا لینے والا شخص  فارغ ہے اس نے کچھ سیکھا نہیں ہے ۔
جب بندہ سیکھتا ہے تو اس  کاردعمل بھی بدلنا شروع ہو جاتا ہے ۔ ہمارے پاس  واقعات کے ردعمل محدود ہوتےہیں جس کی وجہ سے   ہم جلد غصے میں آ جاتے ہیں جب رد عمل محدود ہوتے ہیں تو  پھر  زندگی رک جاتی ہے۔   مثال  کے طور پر جیسے کوئی چیلنج آیا اورآپ نے ہاتھ کھڑے کر دیئے  ازدواجی زندگی میں تو  اس کی بہت زیادہ مثالیں ہیں۔ ازدواجی زندگی میں سو ایسے لمحات آتے ہیں  جس سے لگتاہے کہ تعلق ختم  ہو جائے گا اس کی  وجہ ہے کہ   آپشن اتنے محدود ہوتےہیں  کہ لگتاہے  کہ تعلق ختم ہو جائے گا۔ گورنمنٹ کے سکولوں میں  "مار نہیں پیار"سےپہلے جو کلچرتھا اس میں  وہ ماسٹر زیادہ مارتاتھا جس  کے پاس آپشن کم ہوتی تھیں جبکہ مار ضدی  بنانے میں سب سے موئثر چیز ہے ۔ جب بندے کوپتا ہوتا ہے کہ میرے پاس سکھانے کے کتنی آپشن  ہیں  تو پھر  وہ کسی نہ کسی آپشن پر جا کربچے سے کام لے لیتا ہے۔
اگر ہم  اپنے رویوں کی فہرست پر سات دن کام کرتے ہیں  تو ہما رے سامنے پینتیس  رویے   آ جائیں گے  ۔ اس میں سے کچھ  رویے  دوبارہ  ہوں گے جب ان کی کانٹ چھانٹ ہو گی   تو یہ بیس سے زیادہ نہیں ہوں گے ۔ہماری زندگی  کے دن اتنے زیادہو تے ہیں  اتنے زیادہ دنوں میں  ایک ہفتہ ہوتاہے  اس ہفتے میں سات دن ہوتے ہیں  اور سات دنوں کے گزرانے کے لیے ہمیں  بیس رویوں کی ضرورت پڑتی ہے ایسے  رویے جو واقعات کے ساتھ جڑ ے  ہوتے ہیں ۔ان رویوں کودیکھیں  کہ ان میں سے کون سے ایسے رویے  جن کو سیکھنا ہے  کون سے رویے  ہیں جن کو چھوڑنا ہے  ، کون سے رویے  ایسے ہیں جن کو قائم رکھناہے ۔ مثال کے طور پر اگر کوئی بندہ دل کا تنگ ہو تو  ہاتھ  کا بھی تنگ ہوتا ہے  جبکہ ہاتھ کا تنگ ہونا ایک رویہ ہے  یہ رویہ لالچ سے جنم لیتا ہے  لالچ زندگی کے  کسی واقعے سے ، گھر سے  یا نصیحت سے آتا ہے۔
انسان جب بھی آگے بڑھتا ہے  اس کے رویے  شاندار ہونا شروع ہوجاتے ہیں ۔ ہم اسلام کے اس زمانے کو دیکھتے ہیں جس میں حضوراکرمﷺ کے جو سارے شاگرد تھے  جن کو ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم   کے نام سے جانتے ہیں  ان کا رویہ  یہ تھا کہ  اگر جنگ میں پانی آ رہا ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ   زخمی ہیں ایک دوسرے  کو کہارہا ہے  آپ پی لیں  دوسرا کہہ رہا ہے آپ پی لیں تیسرا کہہ رہاہے آپ پی لیں سارے شہیدہوجاتے ہیں  پانی پڑارہ جاتا ہے ۔ ایک رویہ دیکھتے ہیں کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے گھر میں مہمان آ جاتا ہے آپ رضی اللہ عنہ    دیا  بجا دیتے ہیں  ایسے ایکٹ کرتے ہیں جیسے کھانا کھایا ہے  جبکہ کھانا مہمان کھا کر چلا جاتا ہے  ۔ یہ تربیت کے رویے  ہیں  یہ حضوراکرم ﷺ کی وہ تربیت تھی  جس نے یہ یقین پیدا کیا  کہ دوسرے کے لیے پہلے سوچنا ہے ۔ ہماری زندگی میں صرف میں ہی میں ہے  یہ بھی ایک رویہ ہے  اس رویے  کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔
آج سے ہم   اپنے ردعمل پر غور کریں  کہ اگر چیز گم ہو جائے تو کس طرح ردعمل کرنا ہے  ، کوئی توجہ نہ دے تو کس طرح  کا ردعمل  دینا ہے، کوئی  برا کہہ دے تو  کیا جواب ہوتا ہے، ہمارے متعلق کوئی غلط اندازہ  لگائے  تو  کیا سوچ ہوتی ہے ۔ جس طرح ہوائی ہائی جیکر  جہاز  ہائی جیک کرتا ہے اسی طرح  ہماری شخصیت میں  بھی ایک ہائی جیکر ہوتا ہے  جسے رویہ کہتے ہیں یہی رویہ  کامیابی  کا  سبب بنتا ہے اور یہی ناکامی کا سبب بھی۔ انسان جب بھی بیان کرتا ہے وہ دوسروں کے رویے بیان کرتا ہے  وہ یہ بھول  جاتا ہے کہ جو میرے رویے ہیں وہی میرے اختیار میں ہیں ۔ انسان ہمیشہ دوسروں کے بارے میں فکر مند ہوتا ہے  وہ یہ سوچتا رہتا ہے کہ دوسروں کے رویے کیسے ہیں ، وہ ٹھیک کیوں نہیں ہوتے۔ جو کام  خود کرنے والے ہوتے ہیں  ان کی توقع دوسروں سے لگائی ہوتی ہے۔ زندگی میں ایریا آف انٹرسٹ   بنائیں  جب آپ کا ایریا واضح ہو جائے گا   اور  آپ فیصلہ کرتے ہیں  کہ میں نے اس طرح زندگی گزارنی ہے  تو پھر آپ  کی زندگی  کی پینٹنگ  انتہائی خوبصورت بنتی ہے۔
 درج ذیل رویے  زندگی کو خوبصورت  بنانے  میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
1۔      معافی
معاف کر دینا چاہیے  اور اس کا جواز تلاش نہیں کرنا چاہیے ۔ ہمارا یہ رویہ ہوتا ہے  کہ ہم معاف  کر دیتے ہیں اور ساتھ ہی  جواز بھی تلاش کر رہے ہوتے ہیں  ساتھ ہی غصے میں یہ کہہ رہے ہوتے ہیں یہ میری عاجزی ہے یہ بہت بڑا تضاد ہے اور یہ بڑا خوفناک ہوتا ہے۔ آج آپ نے کسی کو معاف کیاہے ہوسکتا ہے کل کوئی آپکے  بیٹے کو معاف کر دے۔
2۔      سخاوت
 زندگی سے لالچ  ختم  ہوناچاہیے  اور ہاتھ کھلا ہونا چاہیے  عادت بنانی چاہیے  کہ دوسروں کو  اپنے  کھانے میں شامل کرنا ہے۔ اگر ایسی عادت بن  جاتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ دل  میں وسعت پیدا کردیتا ہےکیو نکہ انسان کے لیے سب سے مشکل  اپنے آپ سے کاٹ کر دینا ہے  وہ اپنی کمائی کوہی سب کچھ سمجھتا ہے  حالانکہ اس کی کوئی اوقات نہیں ہوتی۔ ہم نےہاتھ کے کھلےہونے  کا بڑا عجیب  مطلب نکالا ہے  وہ یہ ہے کہ میں امیر ہوں گا تومیں ہاتھ کا کھلا  بنوں گا  پھر ہاتھ نہیں کھلے گا کیو نکہ جب  پیسہ آتاہے تو دل بہت چھوٹا ہو چکا ہوتا ہے ۔
3۔      آسانیاں دینا
دوسروں کوآسانیاں دینی ہیں  اور اپنی آسانیوں میں شامل کرنا ہے  یہ توقیق ہے  اور یہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں میں  دیتا ہے ۔ ہماری تھوڑی سی کوشش سے  دوسروں کی زندگیوں میں آسانی  آنی چاہیے ۔جس کے لیے کچھ نہیں کر سکتے کم از کم اس کے لیے دعا ضرور کریں ۔کسی کی تکلیف  دیکھ کر کبھی خوش نہ ہوں  دوسروں کے لیے نرم دلی  یہی عبادت بن  جاتی ہے۔
4۔      غلط اندازے نہیں  لگانے
 دوسروں کو کے بارے میں غلط اندازے نہیں لگانے چاہییں روز محشر بندہ جانے اور اللہ تعالیٰ جانے  ہم کون ہوتے ہیں لوگوں کو غلط اور صحیح کہنے والے۔  اندازے لگانے والا بندہ اپنی انرجی ججمنٹ میں ڈالتا ہے  جبکہ  زندگی مختصر سی ہوتی ہے اگر اس میں سے بھی آدھی  زندگی  دوسروں  کو بارے میں غلط  اندازے لگانے میں صرف کردی  تو پھر  خود کو جج کرنے  کا وقت  نہیں ملے گا۔ دوسروں کو جج کرنے والا خود شناسی تک نہیں پہنچ سکتا۔ کیو نکہ جب آپ آسانیاں بانٹتے ہیں تو  یاد آتا ہے کہ کس کس جگہ پر کیسے  آسانی  کس کس سے سیکھی۔
5۔      مددگار
اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ لوگ بہت قیمتی ہوتے ہیں  یہ پتا  نہیں  کہ ہم سے منسلک  بند ہ کل کوکہاں پہنچ جائے اگر آج اس کی زندگی میں ہماری وجہ سے ایک اچھی اینٹ لگ رہی ہے  تو وہی  نیکی کئی لوگوں کو فائدہ دے گی ۔کسی کا چھوٹا موٹا کام   ہو تو کر دیا کریں  ۔ زمانہ طالب علمی سے  یہ عادت اپنائیں اگر آپ دوسروں کے کام آئیں گے تو پھر آپ کا گھرا نہ بڑا کامیاب ہوگا  کیو نکہ گھر کو کامیاب کرنے کے لیے بندے  کا مدد گار ہونا بہت ضروری ہے کیو نکہ  دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کی مدد کریں گے تو ایک کامیاب خاندان بنے گا۔
6۔      سیکھنا اور سکھانا
یہ عادت ہونی چاہیے کہ سیکھنا   ہے اور پھرسکھانا ہے  ہم میں اکثر یہ رویہ پایاجاتا ہے کہ ہم نے سکھانا ہے جبکہ خود سیکھا نہیں ہوتا  صرف سنا ہوتا ہے  حالانکہ سنا بہت کچھ ہوتا ہے  جوسیکھا ہوتا ہے  وہ بہت کم ہوتا ہے  کیونکہ جو سیکھا ہوتا ہے وہ زندگی میں نظرآتا ہے ہم  سکھانے  کی جلدی بازی  میں پڑ جاتے ہیں ۔ ایک ہے سکھانا اور ایک ہے بتانا  لوگوں  کے ساتھ  مسئلے مسائل پر بات ضرور کریں  لیکن سکھانے کا اندازنہ ہو۔
7۔      رویوں پر غور
اپنے رویوں کے  بارے میں دیکھنا چاہیے  کہ ان انجام  کیا ہیں ۔ آج قطعہ کلامی  کل نسل  کودور کر سکتی ہے  ۔اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کی کوشش کریں کیو نکہ دنیا نے اپنے وقت پر ہی ٹھیک ہونا ہےہم  یہ کہیں کہ اگر لوگ ٹھیک  ہو جائیں تو پھر میں ان کے ساتھ چلوں  گا تو  یہ ممکن نہیں ہے بلکہ  آپ خود ٹھیک ہوجائیں  لوگ خودبخود ٹھیک ہونا شروع ہو جائیں گے۔ہر کام سے پہلے، ہر سوچ سے پہلے  اور ہر عمل سے پہلے  دیکھیں یہ کدھر جا سکتاہے۔ ہمارے بے شمار  رویے  مجرم بنا دیتےہیں تحقیق کے مطابق وہ لوگ  جو کرائم والی  زیادہ فلمیں دیکھتیں ہیں ان  کے لیے جرم کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے کیو نکہ  وہ کرائم  کے کرداروں کو اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں
 اگر ہم سچے کھر ے بن جائیں تو  لوگوں کی امیدیں  کم ہونا شروع ہو جائیں گی۔ اگر آج ہم  نے شروع سے حوصلہ پیدا  کیا ہے تو پھر نیکی کرنا آسان ہو جائے گا۔
(Weekly Sitting topic What Behaviors Should Change, Syed Qasim Ali Shah)


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں