ہم مسافت طے کرنے کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر
کرتےہیں ۔ زندگی ایک سمت ہے ہم بعض اوقات کامیابیوں پر ہوتےہیں اوربعض
اوقات ناکامیوں پر پہنچ جاتےہیں اسی طرح ہم ناکامیوں سے نکلتے ہوئے کامیابیوں پر پہنچ جاتےہیں ۔ بعض لوگوں کی زندگی
صفر سے شروع ہوتی ہے اور ایک وقت آتا ہے
وہ امیرترین لوگوں میں شمار ہونے لگ
پڑتےہیں۔ بعض ایسے کمال کے لوگ ہوتے
ہیں جن کی زندگی گناہوں کی دلدل میں ہوتی ہے
لیکن پھر وہ توبہ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی ایسی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کو ایسا راستہ ملتا ہے
کہ پھر وہ ولی اللہ بن جاتےہیں ۔
ہم زندگی کی کسی بھی سمت کی طرف جا رہے ہوں لیکن سوال یہ ہے کہ وہ کونسی چیزیں ہوتی
ہیں جو ہمیں لے کر جا رہی ہوتی ہیں ۔ انسان کچھ چیزوں کا مجموعہ ہے تاریخ انسانیت میں پہلی بار حضرت امام غزالی ؒ
نے اپنی کتاب "کمیائے سعادت "
میں بات کی کہ ہم روح بھی ہیں اور جسم بھی۔ ۔ ہم ایک ہی وقت میں جسم کو سنوارنے کے
لیے بہت کچھ رہے ہوتےہیں لیکن جسم کے ساتھ ذہن بھی ہماری زندگی میں بڑی
اہمیت رکھتا ہے ہم نے یہ دیکھنا ہوتا ہے
کہ اس میں بہتری آ رہی ہے یا یہ ضائع ہو رہا ہے ۔ روح کے ساتھ ایک نفس ہوتا ہے جس
کی تین قسمیں ہیں جنہیں نفس لوامہ ،نفس مطمئنہ اور نفس عمارہ کہا جاتا
ہے ۔ انسان کا چھوٹے سے چھوٹے عمل کے پیچھے کوئی نہ کوئی محرک ہوتا ہے اور وہ محرک ہم نے تلاش کرنا ہوتاہے ۔ہم نے یہ
دیکھنا ہوتا ہے کہ کیا یہ میری ذہانت نے
کام کروایا یا میری جبلت نے کروایا یا میرے
جسم نے مانگا مثال کے طور پر جسم پر کرنٹ لگے تو فور ی طور ہاتھ پر پیچھے چلا جاتا ہے ہمیں یہ
دیکھنا ہوتا ہے کہ ہمارے اندر ایسی کونسی
چیز ہے جو ہمارے سوچنے سے بھی پہلے فیصلہ
کرواتی ہے کہ ہاتھ پیچھے کرنا ہے ۔ اس پر غور کریں
تو پتا چلے گا کہ ہمارے اندر ایک ایسی چیز ہے جو ہمیں بقا کی طرف لے کر جاتی ہے وہ ہر نقصان
سے پیچھے کرتی ہے ، زخم لگنے سے
بچاتی ہے، بلندی پر جاتے ہیں ہمارے سانس
تیز ہو جاتےہیں، ٹرین گزرنے دل کی دھڑکن بدل جاتی ہے یہ بقا کی جنگ اندر ہی
جاری رہتی ہے ۔ یہ جبلت دنیا کے ہر انسان کے اندر پائی جاتی ہے اور اسی جبلت کی وجہ سے انسان زندہ رہنا چاہتا
ہے اسی جبلت کی وجہ سے انسان آخری سانس تک
چاہتا ہے کہ اس کی موت واقع نہ ہو۔
بعض ایکشن یا سوچیں
ایسی ہو تی ہیں جو ہم سے فیصلے کرواتی ہیں
اور جب ایک عرصہ کے بعد ہم پیچھے
دیکھتے ہیں اور تلاش کرتےہیں تو پتا چلتا ہے یہ ہماری ذہانت ہے مثال کے طور
پر ہم سمجھ داری سے پیسہ اکھٹا کرتےہیں اور پھر سمجھ داری سے استعمال کرتےہیں یہ سارا عمل
اس بات کی علامت ہے کہ جوہمیں اس کام کو ہمارا ذہن چلا رہا ہے۔ بعض معاملات یا کام ایسے ہوتےہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ ان کے پیچھے ہمارا نفس ہے مثال کے طور پر لالچ ہم اپنی ضرورت سے بہت زیادہ چاہتے ہیں ، ہم
چاہتے ہیں کہ کسی کے پاس کچھ نہ رہے ساری
بادشاہت ہمیں مل جائے یہ کام نفس لوامہ کرواتا ہے۔ نفس لوامہ کی وجہ سے ہماری جبلت
جانوروں جیسی ہو جاتی ہے ۔ بعض کاموں کے بعد ہمیں شرمندگی کا احساس ہوتا ہے ہم سوچتے ہیں کہ ہم نے بڑی غلطی کی ، ہمیں ایسا
نہیں کرنا چاہیے جب اس پر غور کیا جاتا ہے
تو پتا چلتا ہے ہمارے اندر نفس عمارہ ہے جو پشیمانی دیتا ہے ، ندامت دیتا ہے، عاجز بناتا ہے ، سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ ایک اور چیزجو
ہمارے اندر ہوتی ہے جو
کہتی ہے یہ میرا ہے
کیوں نہ میں اسے دوسروں کی راہ میں
لگا دوں ، اس کو کیوں نہ نثار کردوں ، ہمارا وقت دوسروں کی خاطر استعمال ہونا
چاہیے ، ہماری انرجی دوسروں کے کام آنی چاہیے ،ہمارے پیسوں سے کسی کا بھلا ہونا
چاہیے ، ہماری عقل دوسروں کے کام آئے جب اس پر غور کیا جاتا ہے تو پتا چلتا ہے
ہمارے اندر نفس مطمئنہ ہے جو ہر حال پر
مطمئن رہنے کو کہتا ہے ۔
ہمارے ہر شعبے کی سمت مختلف ہے اس کی وجہ
ہے کہ ہمارے اندر بہت سارے ہائی جیکر
ہیں جو ہماری سمت کو متعین کرتے ہیں مثال
کے طور پر ایک طیارہ فقط پندرہ منٹ کی فلائیٹ پر ہوتا ہےایک سواری اٹھتی ہے ہتھیار نکالتی ہے پائلٹ کے پاس جاتی ہے اور اسے کہتی ہے کہ جہاں پر میں چاہتا ہوں جہاز کو وہاں
پر لے کر جاؤ دوسری سواریوں کو کہہ
دیا جاتا ہے اگر کسی نے بھی ہلنے کی کوشش
کی تو جہاز کو تباہ کر دیا جائے گا اس کے
بعد آواز آتی ہے کہ طیارہ اغوا ہو گیا۔ جس طرح طیارہ اغوا ہوتا ہے بلکل اسی طرح ہم زندگی میں اچھے خاصے جا رہے ہوتےہیں اندر سے سواری اٹھتی ہے جس کا نام نفس لوامہ ہوتا ہے
وہ ہمیں بھلا دیتا ہے کہ کسی کو
معاف بھی کر دینا چاہیے
وہ نفس لوامہ ہمیں اغوا کرتا ہے غصہ آتا ہے
فیصلہ ہوتا ہے اور دوسرے بندے کو شوٹ کر دیتا ہے اور یوں زندگی کا طیارہ
کریش ہو جاتا ہے ۔ اس نفس لوامہ کی وجہ سے
لوگوں کے بہترین طیارے تباہ جاتےہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کے ہائی جیکر مینج نہیں کیے ہوتے ۔ ہر انسان درست سمت کی طرف جانا چاہتا ہے ، وہ اڑنا چاہتا
ہے ، فلائی کرنا چاہتا ہے ، کامیاب ہونا
چاہتا ہے لیکن ان سب
سے پہلے ہائی جیکر کو مینج کرنا بہت ضروری
ہوتا ہے ۔
ہائی جیکر کئی قسم کے ہوتے ہے جیسے لالچ ، لالچ ہمیشہ اس شخص میں ہوگا جو
اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتا ہے وہ اپنی غلطیوں اور نالائقیوں کی وجہ سے ہوتاہے یا پھر معاشرے کی وجہ ہوتی ہے جیسے پاکستا ن
میں کرپشن بہت ہے کبھی اس بات پر
غور نہیں کیا گیا یہ کرپشن کیوں ہے ہم سمجھتےہیں
اس موضوع پر سمینار کرنے سے کر پشن
ختم ہو جائے گی اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے
کہ پانی لیک ہو رہا ہو اس کی جگہ
تلاش کر لی جائے لیکن کسی اور جگہ پر ٹھیک
کرنا شروع کر دیں۔ جہاں پر کرپشن کم ہوتی ہے وہاں
پر لوگ اپنے آپ کو محفوظ سمجھتےہیں
انہیں پتا ہے کچھ ہو بھی جائے حکومت ہماری بچوں کو سنبھالے گی
کیونکہ یہ اس کی ذمہ داری ہے ۔
جتنی جلدی ممکن ہو سکے اپنے غیر محفوظ ہونے کو ختم کریں اس کے دو
طریقے ہیں یا تو محنت کر کے ساری چیزیں
جیسے پیسہ ،گاڑی اور آسانیاں لے کر آئیں
اور سمجھ جائیں یہ ہماری ضرورت
ہیں دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اپنے اندر توکل
پیدا کریں ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں جو کچھ ہے اس پر راضی
رہیں جیسے ہی آپ راضی ہوتےہیں آپ اپنے آپ کو محفوظ سمجھنا شروع کر دیتےہیں
کیونکہ اللہ تعالیٰ جب بھی راضی ہوتا ہے
انسان اپنے آپ کو محفوظ سمجھنا شروع کر دیتا ہے ۔
ہماری زندگی میں ایک اور بہت بڑا ہائی جیکر ہوتا ہے جس کو
ہم نے مینج ہی نہیں کیا ہوتا اور وہ ہائی
جیکر ہے عادت۔ بہت سارے لوگ اپنی عادات کی وجہ
ہائی جیک ہو جاتےہیں۔زیادہ تر عادات لاشعوری طور پر بنتی ہیں لیکن شعور کے آتےہی عادات کو آپشن مل جاتی
ہے کہ وہ شعوری بنیں۔ کئی لوگوں کی شاندار شخصیت ہوتی ہے لیکن ان کی عادتیں ٹھیک نہیں ہوتیں ۔ باپ بہت
نام ہوتا ہے لیکن بیٹے میں بڑوں والی
عادتیں نہیں ہوتیں ، بعض لوگ بہت اچھے ہوتےہیں لیکن وہ اپنے ملازموں کے ساتھ
اچھے نہیں ہوتے۔ بعض عادتیں
نسلوں تک چلتی رہتی ہیںبعض لوگوں
پر اللہ تعالیٰ یہ کرم کرتا ہے کہ ان میں بادشاہوں والی عادتیں پیدا کر دیتا ہے ۔ عادات بندے کو بنا کر رکھ دیتی
ہیں یا پھر تباہ کر کے رکھ دیتی ہیں
۔عادات کو ہم خود بناتےہیں بعد میں عادات ہمیں بناتی ہیں ۔
ہائی جیکروں
میں جذبات بہت اہم ہیں یہ انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتے ۔ بعض اوقات
انسان کے جذبات کا اظہار وقت پر نہیں ہوتا
اور وہ ایک عمر گزرنے کے بعد ظاہر ہوتےہیں
لیکن اس وقت سوائے عزت کو خا ک میں
ملانے میں اور کچھ نہیں ملتا جیسے ایک بہت بڑے سیٹھ تھے سب کچھ ٹھیک تھا لیکن عمر
کے آخری میں حصہ میں جذبات کے ہاتھوں تنگ
آ کر شادی کر لی حالانکہ انہوں نے کوئی غیر شرعی کام نہیں کیا تھا اس وقت اس کی اولاد کی عمر
اس کی بیوی ہو چکی تھی جتنی ہو چکی
تھی نتیجہ بچو ں کے ساتھ لڑائی رہنے لگ پڑی
اور لوگ بھی بات کرنے لگ پڑے اور یوں
انہوں نے اپنی عزت اپنے جذبات کے ہاتھوں گنوا دی ۔
اپنی سمت درست رکھنے کے لیے اپنے ہائی جیکروں کو مینج کرنے کی کوشش کریں۔کتابیں بندے کی سمت بدل دیتی ہیں بعض اوقات آپ کتاب کا اتنااحترام کر تےہیں کہ
کتاب سے فیض ملنا شروع ہو جاتا ہے ۔آپ قرآن مجید
پڑھتےہیں آنکھوں سے آنسو جاری ہو
جاتےہیں اس تقدس و احترام کی وجہ سے زندگی میں ہدایت آ جاتی ہے۔وہ لوگ بڑے بدبخت ہوتےہیں جو
اپنے آپ کو مکمل سمجھتےہیں جو اپنے آپ کو
عقل کل سمجھتےہیں جب بھی یہ احساس آئے گا
آپ زیرو ہو جائیں گے۔ طلب اور تلاش ہی کامیابی ہے ، چلتے رہنا ہی کامیابی
ہے کامل ہونا کامیابی نہیں ہے کیو نکہ کوئی کامل نہیں ہو سکتا کامل تو صرف
رسول کریمﷺ کی ذات مبارک ہے ۔حضرت بابافرید گنج شکر نے ؒ اپنی زندگی میں بہت کم روٹی کھائی کسی نے پوچھا اتنی کم کیوں کھائی انہوں نے جواب دیا کہ میں نے اندازہ لگا یا
حضور اکرمﷺ نے اتنی گندم کھائی تھی تو میر
ی کیا مجال کہ میں اس گندم سے زیادہ
کھاؤں یہ ادب کی انتہاء ہےکہاںسورج کہاں
چراغ یہ عشق رسولﷺ ہے۔
اللہ تعالیٰ جب کرم کرتا ہے تو زندگی میں اچھے لوگ آنا شروع
ہو جاتےہیں اور وہ اچھے بندے سوچ کو مثبت
کر دیتےہیں ۔ اچھے بندے کی نشانی یہ ہے کہ اس کے پاس جو چیز زیادہ ہوگی وہ دوسروں کو بھی
دے گا اگر اس میں اچھائی ہے وہ اچھائی دوسروں کو ملنے لگ پڑے گی ۔ لالچی
انسان کے پاس لالچ اتنا ہوتا ہے کہ پھر اس
کے ساتھ والے سارے لوگ لالچی ہو جاتےہیں ۔
اچھا بندہ اچھی عادات دیتا ہے اس سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہوتی ہے کہ وہ آپ کو
خاموشی سے نصیحت کر دیتا ہے خاموشی سے نصیحت کا مطلب یہ ہے کہ وہ آ پ کے ساتھ رویہ اتنا
اچھا اپناتا ہے کہ آپ اچھے ہو جاتےہیں
۔اپنی زندگی میں ہمیشہ گنجائش رکھیں تاکہ اچھے
لوگ زندگی میں شامل ہو سکیں ۔بعض لوگ جب
ملتےہیں تو اندر کی کمینگی جاگ جاتی ہے
جبکہ بعض لوگ ملیں تو روحانیت جاگ
جاتی ہے بعض لوگوں کے زندگی میں داخل ہونے سے حیا آ جاتی ہے حضرت واصف علی واصف ؒ
فرماتےہیں "ایک شخص اچھی زندگی نہیں گزار رہا تھا ایک دم نیک ہو گیا کسی نے پوچھا کیا ہوا اس نے جواب دیا میری زندگی میں پیر صاحب آ گئے ہیں اس نے کہا ان پیر صاحب سے ہمیں بھی ملاؤاس نے
جواب دیا میرے پیر صاحب کا نام ہے" بیٹی"جن کے پاس بیٹی
ہے مگر حیا نہیں پھر تو بڑا عذاب ہے پھر ایسے لوگ قابل رحم ہیں ۔
حضرت واصف علی واصف ؒ فرماتےہیں "اچھے لوگوں کی زندگی میں
موجودگی اچھے مستقبل کی ضمانت ہے "جب
تک اپنے ساتھ جڑے ہوئے علم اور ادب کو اللہ تعالیٰ کا فضل کہیں گے قائم رہے گا ،
جب تک اپنے علم اور عزت کو اللہ تعالیٰ کا
کرم کہیں گے یہ قائم رہے گی جب بھی آپ یہ
سمجھیں گے کہ یہ میرا کمال ہے تو پھر
سمجھیں تباہی ہے ۔ اس کی نگاہ میں ہو تو عزت ہے
وہ جگہ جگہ سے عزت کروا دیتا ہے ، کسی کے دل میں ڈال دیتا ہے ۔اگر کرم کی
نگاہ نہ ہو تو جتنی مرضی اسلام کی تبلیغ
ہو گھر کے اپنے لوگ ہی گالیاں نکالتے رہتےہیں۔ استاد کے لیے کم از کم شرط یہ ہے کہ
اس کے لیکچر میں اس کے بچے بیٹھ کر اس کا لیکچر سنیں۔
حضوراکرم ﷺ کی ذات گرامی سب سے بڑے رول ماڈل ہیں آپﷺ نے سب
سے پہلے اپنوں اکھٹا کر کے دعوت دی اور
کہا اگر میں کہوں کہ پہاڑ کےپیچھے دشمن کا
لشکر ہےجواب میں انہوں نے کہا ہماری جانیں
آپﷺ پر نثار آپﷺ سچے ہیں، صادق وامین ہیں ان میں ایک شخص ایسا تھا جس کا نام عمر بن حشام (ابوجہل )تھا اٹھا اور چل پڑا آپﷺ نے آواز
دی اور کہا کہ آپ نہیں
اس بات کو مانو گے اس نے کہا کہ میں تلوار لینے جا رہا ہوں مجھے آپﷺ پر اتنا یقین ہے کہ اگر اس پہاڑ کی
پیچھے لشکر ہے تو تلوار لاتا ہوں گردنیں
اڑا دوں گا مجھے تحقیق کی ضرورت
نہیں ہے۔ اگلی بات حضور اکرمﷺ نے فرمائی
اگر میں لاالہ اللہ کہوں تو پھر
ابوجہل نے کہا کہ معذرت ہے میرے جو باپ دادؤں کا جو دین ہے وہ یہ نہیں ہے ایک خدا کو نہیں مان سکتا لیکن اسی محفل میں نو سال کا بچہ کھڑا
ہوتاہے اور کہتا ہے میں مانوں گا ، اس کے بعد دوست کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے میں مانوں گا ،گھر کے لوگ کہنے لگ پڑتے ہیں ہم مانے گے ۔ عزمت کی انتہاء یہ ہے کہ آپ کے
اپنے مانیں آپ کے اندر سیلف اپروول نہیں ہے
تو پھر دنیا آپ کو نہیں مانے گی ۔ ہمارے اندر سے آواز آ رہی ہوتی ہے کہ تم ٹھیک نہیں ہو جبکہ ہم تقاضا کر رہے ہوتے ہیں کہ ساری دنیا ٹھیک ہو جائے۔
جو بندہ آرام آرام سے چل رہا ہے ، رینگ رہا ہے ، تکلیف میں بھی ہے لیکن اس کی منزل ٹھیک ہے تو وہ صحیح ہے
زیادہ اچھا ہے اس بھاگنے والے شخص سے جس کی سمت ٹھیک نہیں ہے ۔اپنی زندگی
کو سمت دیں یہ ایک بار ملی ہے ، یہ اللہ تعالیٰ کا انعام ہے ،یہ عطیہ ہے۔ جو ایک
بار آگیا پھر نہیں آئے گا نام انہیں لوگوں
کا زندہ رہے گا جو اچھے کام کرے گا اس لیے
دلوں میں زندہ رہنے والے کام کریں ۔ اپنے اندر سوال پیدا کریں میں کدھر چلا، میں
اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوں کیا اللہ تعالیٰ کی طرف جا رہا ہوں ، کیا اللہ
تعالیٰ کےلیے جی رہا ہوں۔ اگر یہ سوال آپ کے دل میں آگیا تو پھر یہ زندگی زندگی نہیں رہے گی عبادت بن جائے گی ۔ اگر وہم
ہے کہ ایسا نہیں ہے تو پھر دن گزریں گے ،
ہفتے گزریں گے ،مہینے گزریں گے زندگی بھی گزر جائے گی لیکن اس کی سمت کوئی نہیں ہوگی اور آخر میں صرف
ایک چیز ہو گی اور وہ ہوگی کاش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالی ہمیں اس کاش اور افسوس سے بچائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔آمین
(Weekly Sitting
topic “Choose the right Direction in Life” Syed Qasim Ali Shah)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں