جمعہ، 2 دسمبر، 2016

خدمت کا جذبہ



ہر وہ چیز   جو اقدار  کی شکل میں سماج میں موجود ہوتی ہے  اس کے ختم ہونے کی فقط ایک وجہ ہوتی ہے کہ جس بھی معاشرےمیں ہوس ،خودپرستی، لالچ ، میں نے کمانا ہے، میں ہی ہوں، سارے معاملات میرے ہی ذریعے چلنے ہیں  تو  پھر خدمت کاجذبہ ختم ہونے لگ پڑتا ہے ۔ہم بچپن میں ہوتےہیں  ہمیں  اچھے  نمبر لینے کی دوڑ ملتی ہے ، پھر زیادہ پیسہ کمانے کی دوڑ ملتی ہے یہ کوئی نہیں سکھاتا  کہ انسان نے خدمت بھی کرنی ہے  دسروں کی زندگی میں اقدار کو بھی شامل کرنا ہے، زندگی میں کچھ دینا  بھی ہے  یہ چیزیں تب ہی آتی ہیں جب  ہم اس قدر کو  سمجھتے ہیں  کہ یہ بڑی ضروری ہے  ۔ بندہ زندہ رہے نہ رہے خدمت زندہ رہنی چاہیے اور خدمت ایک ہی صور ت میں زندہ رہ سکتی ہے  کہ جس کی خدمت ہوئی ہے  کل  کو وہ  بھی خدمت کرے کیونکہ اس نے سیکھاہے کہ آسانیاں  باٹنی چاہییں ، اس نے سیکھا ہے کوئی شخص میرے لیے بہتری کر رہاہے  اور سہولت کار بناہوا ہے  تو پھر میں بھی کیوں نہ یہی عمل  کروں۔
معاشرے میں ، کسی گھر میں، کسی سسٹم میں یا کسی بھی فرد واحد میں ایک بہت بڑی کمائی  سکون قلب  ہوتی ہے ۔ جس معاشرے میں خدمت ہو رہی ہوتی ہے ، لوگ آسانیاں بانٹ رہے ہوتے ہیں ، لوگ ہر چیز پر حق نہیں  سمجھتے ، خود پرستی سے  بچتے ہیں اس معاشرے میں سکون قلب بڑھ جاتا ہے۔ سکون قلب اگلا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ   لوگ فکری طور پر مضبوط ہونے لگ پڑتے ہیں  وہ سو چتے ہیں  ، سمجھتے ہیں اور   آگے بڑھ جاتے ہیں۔
ہم نے خدمت کا تصورپیسے کے ساتھ جوڑا ہوا ہے  ہم سمجھتے ہیں صرف پیسے والا ہی خدمت کر سکتا ہے  حالانکہ ایسا نہیں ہے  خدمت خالی پیٹ والا بھی کر سکتا ہے، ایک عاجز بھی کر سکتا ہےاور عام سا بندہ بھی کر سکتا ہےخدمت کا قطعی تعلق مال کے ساتھ نہیں ہے خدمت کا تعلق دل کے ساتھ ہے ۔ سخاوت مال سے نہیں ہوتی سخاوت دینے کے حوصلے سے ہوتی ہے ۔ جو بندہ دل رکھتا ہے ،ا حساس رکھتا ہے ، دوسرے کی جگہ آکر کھڑا ہوتا ہے  وہ سوچتا ہے کہ آج اسے میر ی مدد کی ضرورت ہے تو کل کو  یہ میرے بھی کام آئے گی۔ جس نے فیس بک بنائی  جب اس کی  بیٹی پیدا ہوئی تو  اس نے ایک بہت بڑی رقم عطیہ کر دی اس نے اپنی  بیٹی  کی  ڈائری میں ایک بات لکھی اس نے کہا کہ "میر ی دنیا تمہاری دنیا سے بہت زیادہ خوبصورت ہے  اس لیے  میں  نے یہ عطیہ کیا ہے میں نے خدمت اس لیے کی ہے کہ جو آنے والا وقت ہے وہ تمہارا وقت ہے       اور وہ  وقت تمہارے لیے بہتر ہو"۔ جو بندہ بھی خدمت کر رہا ہے دراصل  وہ اپنی نسلوں  کے لیے خدمت کر رہا ہے ۔
اچھی نیت   بھی خدمت ہے ، کسی کے لیے بے لوث دعا  کرنا بھی خدمت ہے  غرض  خدمت کی کئی شکلیں ہیں۔ بسا اوقات بڑے بڑے مال واسباب والے خدمت سے محروم رہ جاتے ہیں  کیو نکہ ان کے پاس جذبہ خدمت نہیں ہوتا  جبکہ ایک عام سا بندہ بارگاہ الہی میں  بہت بڑا ہوتا ہے کیو نکہ اس کے پاس وسائل  نہیں ہوتے   مگر  نیت بہت بڑی ہوتی ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام  کے خریداروں  میں ایک بڑھیا بھی تھی  وہ  تھوڑے سے گندم کے دانے لے کر آئی  اور کہا  میں بھی خریدنا چاہتی ہوں  کسی نے کہا  کہ  یہ تو بہت تھوڑی مقدار ہے اس نے جواب دیا  مجھے پتاہے میں خرید نہیں سکتی  لیکن یہ تو ہوگا کہ جو خرید اروں کی فہرست  ہے اس میں میرا نام بھی شامل ہو۔بے شمار ایسے لوگ ہیں جو اپنی  اوقات  کے مطابق بہترین کر تے ہیں ۔ خد مت  بہت زیاد ہ انرجی  یا وقت  کا نام نہیں ہے بلکہ  کوالٹی کا نام ہے اگر آپ کوالٹی سے  ایک جملہ بھی کسی کو کہتے ہیں وہ زیادہ موثر ہے  بہ نسبت کئی گھنٹوں کی تقریر  سے۔ اگر آپ کسی کو ایک روٹی کھلاتے ہیں اورآپ کی نیت  یہ ہے  کہ اس  کے لیے آسانی  ہے تو یہ ان لنگروں سے بہتر ہے  جن کی تشہیر  ہوتی ہے۔
بچوں کی بنیاد میں  والدین  کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے  کیو نکہ  سب سے پہلے والدین ہی  بچوں کے  لیے رول ماڈل ہوتے ہیں ۔ والدین  اس درخت کی مانند ہوتے ہیں جو چھاؤں اور پھل دیتے ہیں ۔ سب سے پہلے والدین میں بے لوث خدمت کا جذبہ ہونا چاہیے  پھر یہی  جذبہ بچو ں کے خون میں منتقل ہو جائے گا ۔ ہمارے لیے  خدمت  کے حوالے  سے ہروقت رسول کریم ﷺ  کی ذات مبارک پیش نظر ہونی چاہیے ۔ والدین ہونے کے ناطے سے  ہمیں  وہ  سارے خدمت کے  واقعات   جو سیرت مبارک میں ملتے ہیں  وہ یاد ہونے چاہییں  مثال کے طور ایک دفعہ  حضور اکرم ﷺ جب گھر تشر یف  لا ئے  توام المو  منین حضر ت عائشہ رضی اللہ عنہا  سے پوچھا  کہ جو بکری ذبح کی تھی  اس میں  سے کیا بچا ہے  وہ فرماتی ہیں کہ  چند ٹکڑے رہ گئے ہیں  باقی بانٹ دیئے ہیں آپ ﷺفرمایا  جو بانٹ دیا وہ بچا ہے۔ ہم کلمہ گو ہیں اور وہ ذات گرامی ﷺجن کا نام مبارک ہم  کلمے میں لیتے وہ ہمیں ہر جگہ خدمت کرتے نظر آتے ہیں ،آپ ﷺ بچوں پر شفیق ہیں ، آپﷺ جانوروں پر شفقت فرماتےہیں،آپﷺ کی شفقت کا عالم یہ ہے کہ آپﷺ کی بیٹی بھی  آتی  ہیں تو ان کے لیے اپنی چادر بچھاتے ہیں  اور اس کا استقبال کرتےہیں ۔ ہمارا مذہب  سارے کا سارا خدمت سے بھرا پڑا ہے ۔
 اچھا استاد  معاشرے میں آکسیجن  کی مانند ہوتا ہے یہ وہ لوگ ہوتے ہیں  جو خدمت کر کے سکھاتے ہیں  یہ عبادت اور خدمت کو برابر  کر کے رکھ دیتے ہیں  ۔بچوں  میں  خدمت کا جذبہ اساتذہ کرام نے سکھانا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ  ہمارا استاد خدمت نہیں کررہا  وہ صرف تنخواہ لے رہا ہے۔  کارپو ریٹ  کلچر  کی وجہ سے بے شمار  پرائیویٹ کالج اور  یونیورسٹیاں بن گئی ہیں  یہ سب ادارے  اساتذہ کا خون نچوڑتے ہیں  اور کمائی کرتے ہیں   اور پھر  تنخواہ دیتے ہیں  ان اداروں کے مالکان  اور  اساتذہ سے خدمت کی امید نہیں لگائی جا سکتی۔بچے خدمت کے جذبہ  پر مضمون لکھنے پر  خدمت نہیں کرتے بچوں کی خدمت کی جائے تو  بچے خدمت کرتے ہیں۔ جب بچے دیکھتے ہیں کہ اساتذہ قربانی دے رہے ہیں  تو پھر  بچوں کے اندر خدمت کا بیج لگ جاتا ہے۔  یعنی خدمت کر  کے دکھانے والا کام  ہے اس میں  تقریر نہیں کی جاسکتی۔   کوئی  یہ کہے  کہ آج میں کیاکروں  تو سب سے پہلے  اسے نیت کر نی چاہیے کم ازکم آج میں آغاز تو ہو  کہ میں یہ جذبہ رکھنا چاہتا ہوں ۔یہ واحد جذبہ ہے جو زندگی میں   بے شمار آسانیا ں لے کر آتا ہے  اگر آج کسی بچے میں   یہ بیج لگتا ہے تو  پھر یہی بیج کل کو تناور درخت بنے گا ۔ جو بندہ کسی آسانی یا نعمت  کو حق سمجھتا ہے  وہ بے وقوف ہے  دنیامیں کوئی چیز حقدار نہیں ہوتی  یہ مالک کا کرم اور رحم ہوتا ہے  کہ ہمیں  چیزیں مل  جاتی ہیں  کیونکہ  بڑے بڑے حقداروں کو نہیں ملتیں۔   جب آپ سمجھتیں ہیں جو نعمتیں ہیں یہ میرا حق نہیں تھا  مگر پھربھی مل رہی ہیں  پھر ا نہیں ضرور بانٹیں  لیکن جب آپ انہیں اپنا حق سمجھیں گے  تو پھر قبضہ بھی جمائیں  گے  اور  پھر وہ تقسیم بھی نہیں ہوں گی۔ 
جو ہمارے پاس سب سے اچھا موجود ہے  وہ دوسروں کوبھی دیں  ہم لوگ بچاکھچا دیتے ہیں  ہم وہ سالن  دیتے ہیں جو بچ جاتا ہے ، فریج میں پڑی رہنے والی چیزیں دیتے ہیں، جو کپڑے پھٹ جاتے ہیں وہ دیتے ہیں، جوتوں میں  سوراخ ہوجائیں تو پھر دیتے ہیں بلکل اسی طرح ہم  وقت بھی بچا کھچا دیتے ہیں ۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں   جوخدمت کے لیے اپنا بڑھاپا دیتے ہیں  اس میں کوئی شک نہیں  کہ ہر وقت ہی ٹھیک ہوتا ہے  لیکن سب سے بہتر ہے کہ خدمت کے لیے  جوانی ہو نی چاہیے ، زندگی کا سب سے  بہتر  جو ہوتا ہے  وہ  دینا چاہیے ، سب سے اچھا پھل دینا چاہیے، سب سے اچھی توانائی دینی چاہیے ، سب سے اچھا ٹیلنٹ دینا چاہیے ۔اگر آپ استاد ہیں  تو کچھ بچوں کو فری پڑھائیں ، اگر آپ ڈاکٹر ہیں تو  مستحق مریضوں کا فری  علاج  کریں، اگر آپ طالب علم ہیں تو تھوڑا سا وقت ایسی جگہ دے دیں  تاکہ جو آپ  سے  جو نیئر   ہیں وہ فائدہ اٹھا سکیں۔  اگر آپ اپنا سب سے اچھا نہیں دیں گے تو پھر آپ  خدمت کے اصل ذائقے کو  نہیں چھک سکیں گے  اور خدمت کانتیجہ جو سکون قلب کی صورت میں ہوتا ہے  اس تک نہیں پہنچ سکیں گے۔
خدمت وہ واحد چیز ہے   جس سے بندہ پاتا ہے  جو لوگ  یہ سمجھتیں  کہ شائد بانٹنے سے  کم ہوتا ہے یہ ان کی غلط فہمی ہے   یہ ان کےلالچ کی انتہا ہے ۔اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ  وہ ہمیشہ بانٹنے والوں کو زیادہ دیتا ہے ۔دنیا میں نعمت کو ،آسانیوں کو بچانے کا فقط ایک طریقہ ہے   کہ انہیں بانٹا جائے   کیو نکہ جب آپ بانٹتے ہیں  تو وہ اور زیادہ محفوظ ہونا شروع ہوجاتی ہیں ۔ 
ہر بندے میں سائنس سمجھنے کا ایک جذبہ ہوتا ہے  لیکن نیوٹن کوئی کوئی ہوتا ہے، ہربندہ کتابیں پڑھتا ہے لیکن  ادیب کوئی کوئی بنتا ہے ، ہر بندہ مدد کرنا چاہتا ہے  لیکن   عبد الستار ایدھی ؒ صاحب کوئی کوئی بنتا ہے۔  بعض لوگو ں میں خدمت کاجذبہ فنا فی ذات  کی حد تک ہوتا ہے وہ نفی  کی حد تک  کام کرتا ہے۔ بھیک مانگنے کو بر ا سمجھا جاتا ہے  لیکن عبدا لستار ایدھی ؒ صاحب دنیا کے وہ شخص ہیں جب انہوں نے مانگا تو  ان کی عزت بڑھی  وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے لیے نہیں مانگا   کسی کے لیے مانگا انہوں نے آسانیاں  بانٹنے کے لیے مانگا۔ جب بھی آپ یہ دیکھتیں  ہیں کہ  کوئی ہٹ کر کام کر رہا ہے   تو سمجھیں یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحفہ ہے  ۔ کچھ لوگ  بناوٹی نہیں ہوتےبلکہ حقیقی ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے اندر  اتنا فہم پیدا کر دیتا ہے  کہ وہ فیصلہ کر لیتے ہیں۔  گھر میں ایدھی ؒ صاحب کا نواسہ  گرم پانی سے جھلس جاتا ہے  اور دنیا سے چلا جاتا ہے  جب اس کی تدفین کا وقت  آتا ہے تو اس وقت ایدھی ؒصاحب کو پتا لگتا ہے کہ گھوٹکی میں  کہیں ٹرین کاحادثہ ہوگیا ہے وہ نواسے کو چھوڑتے ہیں  اور گھوٹکی پہنچ جاتےہیں نواسہ جانا تھا چلا گیا  لیکن جو لوگ اس وقت تکلیف میں ہیں ان کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے  ان تک تو آسانی پہنچنی چاہیے  یہ ظرف صرف بڑے لوگوں  میں ہوتا ہے۔ اس طرح کے لوگ مرنے  کے بعد  بھی نہیں مرتے حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں "موت عام انسان کو مار دیتی ہے  لیکن بڑے انسان کی  عظمت میں مزید اضافہ کر دیتی ہے۔"اس  طرح کے لوگ لمبی  کہانی اور لمبی قربانی سے بنتے ہیں اگر آپ اتنی لمبی کہانی اور قربانی بن سکتےہیں  اور اتنی بڑی  قیمت ادا کر سکتےہیں تو پھر ضرور سوچیں   نہیں تو اپنی سطح پر ضرور کام کریں حضرت واصف علی واصف ؒ  کولو گ آکر کہتے تھے  کہ جب میں یہ بن جاؤں گا تو میں خدمت کروں گا  تو وہ  فرماتے "عین ممکن ہے   اس وقت تمہارے پاس دل ہی چھوٹا رہ جائے "بہتر یہ ہے کہ  خدمت کےمزاج کوابھی سے  بنایاجائے  ، ابھی سے تھوڑی تھوڑی  خدمت  کی جائے  کیو نکہ  ابھی سے خدمت کا جذبہ بنائیں گے  تو پھر جب اللہ تعالیٰ زیادہ دے گا تب حوصلہ اور  ظرف اتنا زیادہ ہوگاکہ  پھر تکلیف نہیں ہوگی ۔
ہم عجیب قوم ہیں ہم مدد لے کر مدد کرنا چاہتے ہیں جبکہ  جو اوریجنل انسان ہے وہ اپنے آپ کو کاٹتا ہے ۔این ۔ جی ۔او  اچھے کام بھی کر رہی ہیں  لیکن بنیادی طور پر  این ۔ جی۔ اور مافیا کی شکل اختیار کر  چکا ہے  یہ خود کچھ قربان نہیں کرتے  یہ صرف اکھٹا کر تے ہیں ، اپنی چیزیں بناتے ہیں ، اپنی زندگی مزے سے گزارتے ہیں  اور انتظار کرتے  ہیں کہ کوئی آفت آئے  تاکہ ہمیں فنڈ مل سکیں ۔ لیکن ہمیں گمان کی  بنیاد پر  رائے نہیں  قائم  کرنی چاہیے تھوڑی سی تحقیق کر لینی چاہیے  کیو نکہ تحقیق  کرکے پتا لگتا ہے  کہ واقعی عبدالستار ایدھی   صحیح  کام کر رہے ہیں ، تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ الخدمت ، اخوت  اچھا کام کر رہی ہیں۔ جب تھوڑی سی تحقیق  ہوجائے گی تو پھر لوگوں   کی رائے پر یقین نہیں  ہوگا کیو نکہ جب بھی کوئی سچا کام ہوتا ہے تو لوگ جھولی اٹھا کر دعائیں دیتے ہیں یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ان سے مستفید ہوتے ہیں۔
جو مدد کرسکتے ہیں  وہ تو شروع کریں مسئلہ یہ ہے کہ  وہ تمام لوگ جو کر سکتےہیں  مگر نہیں کر رہے  المیہ یہ ہوتا ہے جو ہم   کر سکتے  اگر وہ بھی نہیں کر رہے تو پھر  بڑی زیادتی ہوجاتی ہے ۔ جو لوگ خدمت کر رہے ہیں  وہ اپنے آپ میں استقامت  پیدا کریں  کیو نکہ شروع کرنا آسان ہے  اور قائم رہنا بہت ضروری ہے۔  خدمت کرنا کوئی پابندی  والی جاب نہیں ہے  یہ  چوبیس گھنٹوں  کا عمل ہے  ۔ چھوٹی سے چھوٹی خدمت  ہو سکتی ہے اپنے آپ  پر کوئی آئیڈیا لازم  کر لیں  جیسے کسی کو راستہ بتا نا ہے، علم میں آسانی پیدا کرنی ہے، کتابیں تقسیم کرنی ہیں، رشتے میں تنگی ہے تو اس کا رشتہ کروانے میں مدد کرنا ہے ،  کسی کو روٹی کھلانے میں آسانی  پیدا کرنی ہے،  دھوپ میں چھاؤں دینی ہے۔  جب ہم آسانی بانٹنے لگ پڑیں گے  وہی آسانی ہماری شناخت  بن جائے گی۔ حضرت واصف علی واصف ؒ فرماتےہیں "کوئی ڈوب رہا ہو  تو ڈوبنے والے سے اس کا عقیدہ  نہیں پوچھنا  پہلے اس کی مدد کر دینا ،اسے بچا لینا "

 (FM 98.6, Khidmat Ka Jazba, Syed Qasim Ali Shah)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں