ہمیں زندگی پہلے مل
جاتی ہے
جبکہ عقل اور شعور بعد میں ملتا ہے
جب عقل و شعور کی باری آتی ہے تو
بسا اوقات صحیح کیا ہے ، غلط کیا ہے ، چیز کو
حاصل کیسے کرنا ہے ، منزل کیسے پانی ہے ، منزل کی شناخت کیسے کرنی ہے ،
جانا کدھر ہے ،پانا کیا ہے ، کھونا کیا ہے ، حقیقت کیا ہے اور حقیقت
کے علاوہ کیا ہے ان سب چیزوں میں
ہم کسی اور کے محتاج ہوتے ہیں ۔ ہماری اپنی عقل ، اپنی
سمجھ اگر اپنی زندگی کو ایک شاندار زندگی نہیں بنا رہی تو پھر یقینی بات ہے تو
ہمیں معاونت اور کوچنگ کی ضرورت
ہے ۔
اس کی تاریخ بڑی پرانی
ہے یہ سفر بابوں سے شروع ہوتا ہے کسی
گاؤں میں بابا جی کسی درخت کے نیچے بیٹھے ہوتے تھے اور اس
گاؤں کے بچوں اور نوجوانوں کو سمجھایا کرتے تھے الفاظ سےمعانی تک کاسفر
یہ طے کرنے والے دنیا میں بے
شمار بابے موجود تھے۔ یہی کلچر دنیا میں
آج بھی کئی جگہوں میں موجود ہے جیسے مصر میں یونیورسٹیوں کے اندر شام کے اوقات میں لوگ اپنی
نوکریوں ، اپنے کاروبار سے ہٹ کر
بیٹھتے ہیں آپس میں بات کرتے ہیں باتیں یہی ہوتی ہیں کہ ہمیں کیسے جینا ہے ، کیسے مرنا ہے ، زندگی کیا
ہے، موت کیا ہے، فکر کیا ہے، حیات کیا ہے،
مسئلے کیا ہے، مسئلے کیا نہیں
ہیں، کیا
خوشی ہے، کیا غم ہیں۔ آج اس کی پروفیشنل شکل آ گئی ہے
اور یہ شکل کونسلنگ کے عنوان سے
ہے ۔ کونسلردراصل وہ شخص ہے جومسئلے اور بندے کےدرمیان جو تنازعہ ہوتا ہے
اس کی شدت کو کم کر دیتا ہے
وہ نئے طریقے بتاتا ہے ، نئی سوچیں
بتاتا ہے اور بسا اوقات صرف احساس دلاتا ہے ۔
جو پرانے بابے تھے یا ہیں
ان کا بسااوقات پیشہ وارانہ تجربہ
نہیں ہوتا تھا انہوں نے زندگی سے اور تجربوں سے
سیکھا ضرورہوتا تھا اس میں کوئی شک نہیں کہ زندگی میں تجربہ بہت بڑا استاد ہے لیکن باقاعدہ نفسیات پڑھنا ، سماجیات پڑھنا،
زمانے کے جدید علوم کو پڑھنا ، آج کا نوجوان کیسے سوچتا ہے، آج کے چیلنج کیا ہیں ان کو جاننا
اور پھر مسئلو ں کےحل کی طرف جانا
ان دونوں میں بڑا فرق ہے ۔ اگر ایک بندہ پروفیشنل ہے توپھر یقینی بات
ہے کہ اس کی سمجھ بوجھ بھی ویسی ہی ہو گی
، اس کا مشاہدہ ، اس کا تجربہ ، اس کی تعلیم ، اس کو جواطالیق ملے وہ بھی ایسے ہی ہوں گے جنہوں نے اسے سکھایا ہو گا کہ کیسے آپ نے
آگے بڑھنا اور اور کیسے آپ نے
زندگی گزارنی ہے اور کیسے کسی نتیجے
پرپہنچنا ہے ۔ پرانے بابوں کے پاس بسا اوقا ت اس چیز کی باقاعدہ سمجھ بوجھ نہیں ہوتی تھی
وہ صرف اپنے علاقوں کو جانتے ہوتے
تھے ان کا زندگی کا مشاہد ہ کم تھا آج یہ صورتحال بدل گئی ہے آج باقاعدہ
کونسلر کو تلاش کیا جاتا ہے۔زندگی
کے چھ سات شعبے ہیں ، گیارہ قسم کے مسائل ہیں
، بے شمار طرح کے چیلنج ہیں یہ سب چیزیں مل کر انسان کو بتاتی ہیں کہ ہم نے ان مسئلوں کو حل کرنا ہے ۔جس طرح آنکھوں کا علیحدہ ، دل کا علیحدہ ، معدے کا
علیحدہ غرض کہ ہرمرض کا علیحدہ سے ڈاکٹر ہوتا ہے اسی طرح جتنے مسائل
ہیں ان تمام مسائل کے کچھ
ایکسپرٹ ہوتے ہیں ان
کے پاس ان مسائل کا حل ہوتا ہے ۔جس طرح ہر
شخص کو کوچنگ کی ضرورت ہوتی
اسی طرح اداروں کوبھی ضرورت ہوتی ہے وہ مختلف شعبوں کے کنسلٹنٹ
رکھتے ہیں تاکہ اپنے کاروبار میں بہتری لائی جا سکے۔ ہر شعبے میں کہیں نہ کہیں یہ چیزیں آ جاتی ہیں پھر ان کی ضرورت پڑ جاتی ہے ۔
پاکستا ن ایک ایسا ملک ہے
جہاں پر تعلیم اور تربیت علیحدہ ہو
چکی ہیں ان کا آپس میں فاصلہ بہت بڑھ چکا ہے ۔ماں کو
اچھی ماں بننے کی تربیت نہیں ہے ، بیٹے کو اچھا بیٹا بننے کی تربیت نہیں ہے ،
پاکستانی کو اچھا پاکستانی بننے کی تربیت
نہیں ہے، طالب علم کو اچھا طالب علم بننے کی تربیت نہیں ہے، نمبر لینا ہی کافی
نہیں ہے گروممنگ بھی بڑ ی چیز ہوتی ہے ، شخصیت کے کچھ حصے ہوتے ہیں ان میں بہتری کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے
۔یہاں ایک رکشے والے کو
نہیں پتا،پیدل چلنے والے کو نہیں پتا ،
پان کی پیپ پھینکنے والا دیکھتا ہی نہیں ہے
کہ تھوکنے کابھی کوئی طریقہ ہوتا ہے ۔ ہمیں چھوٹی بچی کو تمیز سکھانی ہے کہ کل کو اس نے ماں بننا ہے ، ہمیں ایک لڑکے کو بھی سکھانا ہے
کہ اس نے پروفیشنل بننا ہے ،باپ بننا ہے ، ذمہ داریاں اٹھانی ہیں اس لیے جگہ ٹریننگ کی ضرورت ہے ۔
اس وقت پاکستان میں
کونسلرز کی تعداد بہت کم ہے لیکن آنے والا وقت صرف ڈاکٹرز ، انجینئرز کا نہیں ہے
بلکہ وہ کوچ اور کنسلٹنٹ کا وقت ہے
کیو نکہ دنیا ایکسپرٹ کو مانتی ہے ۔ اگر آپ کسی ایک شعبے میں ایکسپرٹ
ہیں اور
اپنے آپ کو بہتر کرتےہیں تو ایک
وقت آئےگا کہ آپ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے نقشے پر نظر آئیں گے اگر دیکھا جائے دنیا میں ایک ہی بل گیٹس ہے اس کو ضرورت ہی نہیں ہے کہ وہ مارکیٹنگ
کرے کیو نکہ وہ پہلے ہی برانڈ بن چکا ہے ۔ جب بھی
کوچنگ لینی ہو تو
اس شعبے کے ایکسپرٹ کو تلاش کریں ۔
اگر کسی شعبے کے ایکسپرٹ سے کوچنگ لینی ہے
لیکن جیب اجازت نہیں دیتی تو اس کا بہتر حل یہ ہے کہ گوگل پر ، یوٹیوب پر
یا کسی بھی سرچ انجن پر سرچ کر لی جائے
کیو نکہ آج کل نیٹ پر ہر چیز موجود
ہے اس کے علاوہ کو چنگ
کے کچھ قدرتی ذرائع ہیں جیسے اپنے بڑوں کی مجلس میں بیٹھیں اور سیکھیں ، دوسروں کے تجربے اور مشاہدے سے
سیکھیں ، اپنا علم بڑھائیں ، اپنا ویثرن بڑھائیں ، اپنے کو بہتر کریں اور
بہتر کرنے کے حوالے جو بھی چیزیں موجود
ہیں ان سے فائدہ اٹھائیں ۔ اپنی ذاتی زندگی کو بہتر کریں ، سچے کھرے انسان بنیں ،
پلاننگ کیا کریں اگر یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں
ہوں گی تو پھر کونسلنگ کسی حد تک مینج ہو جائے گی یہ چیزیں
کسی ایکسپرٹ کا متبادل تو نہیں ہوسکتیں لیکن
مسئلے حل میں
معاون ہوتی ہیں ۔بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ وہ لوگ جولاعلم ہوتےہیں جن کا تجربہ
مشاہدہ کم ہوتاہے ان کو کونسلنگ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے کیو
نکہ لاعلمی انسان کو زیادہ مسائل کی طرف
لے کر جاتی ہے وہ شخص جس میں خود اعتمادی
ہے ، کامیاب ہے ، علم ہے، تجربہ مشاہدہ اچھا ہے
اس کو زیادہ مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اور اس کو نسلنگ کی بھی کم ضرورت پڑتی ہے۔
نوجوانوں کے تین چار بڑے مسئلے ہیں جس میں پہلا
مسئلہ تعلیم ہے وہ ان سے مینج نہیں
ہوتی جس
کی وجہ سے انہیں مسائل کا سامنا
کرنا پڑتا ہے اس لیے انہیں کوچ کی ضرور ت
ہوتی جو انہیں پلاننگ سمجھائے ، گول
سیٹنگ سمجھائے ۔ نوجوانوں کا دوسرا
مسئلہ جوانی ہے جس میں
محبت کا ہوجانا، خوف کا ہونا، سیلف
مینجمنٹ کی کمی ، زندگی میں فوکس کی کمی
اس قسم کے جو مسائل ہیں ان کے حل
کے لیے بھی کونسلر کی ضرورت ہوتی ہے ۔ بسا
اوقات نوجوانوں کو نفسیات کا مسئلہ ہوتا
ہے ، کوئی کمی ہوتی ہے، شخصیت کی کمزوری ہوتی ہے یہ چیزیں انہیں مریض بنا دیتی ہیں ایسے نوجوانوں کو بھی کونسلر کی ضرورت ہوتی ہے ۔ شادی ایک سنجیدہ
معاملہ ہے کیو نکہ شادی کے ذریعے پورا سماج بنتا ہے ہم شادی سے پہلے کسی کوچ یا کونسلر کی طرف نہیں جاتے ہم ایک بندہ
لیتےہیں اور اس کو بغیر کسی ٹریننگ
کے دولہا بنا دیتے ہیں پھر اسے
مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کچھ لوگ کونسلنگ
کو میڈیسن کے طور
پر لیتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ شائد
کونسلنگ ان کے مسائل کا حل ہے ۔ ادویات
کی اپنی اہمیت ہے لیکن کونسلنگ ایک ایڈوائس
انڈسٹری ہے یعنی نصیحت دینے کی
انڈسٹری ہے اس میں کوئی میڈیسن
نہیں ہوتی کونسلر کی سمجھانے کی
صلاحیت اتنی اچھی ہوتی ہے کہ وہ باتوں ہی باتوں سے بندے کو سمجھا دیتا ہے لیکن
کونسلر بندے کو بتا سکتا ہے لیکن بندے نے کرنا خود ہی ہوتا ہے ۔کونسلر تین
حصوں میں کام کرتا ہے پہلے وہ اس مسئلے کو
سمجھتا ہے پھر حقائق بتاتا ہے پھر
بندے کو نصیحت کرتا ہے ۔
بعض کونسلر بہت زیادہ موثر ہوتے ہیں ان کی شخصیت ، ان کا انداز اور ان
کا علم زیادہ موثر ہوتا ہے ۔اچھا کونسلر بننے کے لیے علم ہونا چاہیے اسے اپنے بارے میں پتا ہو ، اسے
انسان کی نفسیات کا پتا ہو، زمانے کے علم کا پتا ہو۔ کونسلرکو ہمدرد ہونا چاہے اگر
وہ ہمدرد نہیں ہے تو پھر وہ اچھا
کونسلرنہیں بن سکتا ۔ کونسلر کے پاس ویثر ن ہونا چاہیے اسے پتا ہو کہ جو
میں نصیحت کر رہا ہوں اس کا کیا انجام ہو گا ، یہ کدھر جائے گی اور اس
کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔
کونسلر کے اندر یہ خاصیت ہونی چا ہیے کہ وہ اگلے کی جگہ پر آ
کر سوچ سکے ۔کونسلر کو پتا ہونا چاہیے یہ جو کیس میں نے شروع کیا ہے اس کو میں نے نبٹانا بھی ہے بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو کیس
تو کھول لیتےہیں پھر انہیں سمیٹنا نہیں آتا
۔ کونسلنگ میں اسی فیصد کونسلر کو
سننا ہوتا ہے جبکہ بیس فیصد بولنا ہوتا ہے
جو کونسلر صرف
بولتا ہے سنتا نہیں ہے وہ
کونسلنگ نہیں کر سکتا۔ جو بندہ علم کے راستے پر چلتا ہے اس کا
مطالعہ بڑھتا ہے ، اس کی شخصیت میں بہتری
آتی ہے۔ جس بندے نے عشق مجازی کے مثبت اور
منفی پہلو نہیں دیکھے اور اس نے اس
سے کچھ سیکھا نہیں ہے تو پھر وہ عشق
مجازی میں پھنسے ہوئے شخص
گائیڈ نہیں کر سکتا علم اور تجربہ یہ دو چیزیں ایسی ہیں جو ڈگری سے
بڑی چیزیں ہیں ۔
اس معاشرے کا سب سے بڑا
مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پر اچھی چیزیں
متعارف نہیں ہوئیں مغر ب میں علم متعارف ہو چکا ہے ۔ بدھا پسٹ میں لوگوں کے ہاتھ میں ٹکٹ تھے اور ایک لمبی لائن لگی ہوئی تھی ایک پاکستانی پوچھتا ہے کہ یہاں کوئی فلم لگی ہوئی ہے تو کسی نے جواب دیا کہ اس دفعہ جس شخص نے لٹریچر میں نوبل انعام لیا ہے اس کو سننے کےلیے یہ سارے یہاں کھڑے ہیں ۔ پاکستان میں علم کا،
کونسلنگ کا اور سیکھنے کا کلچر ابھی تک نہیں آیا
یہاں پر لوگ کتاب پر پیسے نہیں لگاتے ، سیکھنے پرپیسے نہیں لگاتے ، اپنی
ذات پر پیسے نہیں لگاتے یہاں صرف ایک ہی دوڑ لگی ہوئی ہے کھانے پر کتنے پیسے لگائے جا سکتے ہیں جب
یہی ہو گا تو پھر جو لوگ سیکھنے والے ہوں
گے تو انہیں مسائل کا سامنا ہوگا۔ ہمارے
ملک میں کونسلنگ کی ، ٹرینرر بننے کی کوئی باقاعدہ ڈگری نہیں ہے جبکہ دنیا
اس پر کام کر رہی ہے ۔
جو شخص کونسلر بننا چاہتا ہے اسے چاہیے
کہ پہلے نفسیات کی ڈگری ضرور حاصل
کریں کیونکہ اس میں باقاعدہ وہ تمام چیزیں
ہوتی ہیں جو انسانی نفسیات کے
بارے میں ہوتی ہیں ۔ وہ لوگ جن کے پاس نفسیات کی ڈگری نہیں ہے یا پھر انکے
لیے ڈگری لینا ممکن نہیں ہے اور وہ
کسی اور سمت میں جا چکے ہیں ان کے لیے یہ
ہے آج بھی دنیا میں سرٹیفیکیشن ہو رہی ہیں
اس کا ڈگری کے ساتھ تعلق نہیں ہے لیکن
اس سرٹیفیکیشن کو کر
کے اس فیلڈکی طرف آیا جا سکتا ہے۔ اپنا
مشاہد ہ اور تجربہ بہت زیادہ ہونا
چاہیے کیونکہ یہ کام بڑے حوصلے
والا ہے اس میں زندگی
لگ جاتی ہے اور بندہ پھر اس قابل ہوتا ہے کہ کسی کو
کہے تو وہ اس کو مانے ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ اس میں چھلانگ
لگائیں اور لوگ ماننا شروع ہو
جائیں یہ بلکل ایسے جیسے سینما میں ٹکٹ لے کر
بیٹھ جاتے ہیں لیکن پہلے پندرہ بیس منٹ فلم کی سمجھ نہیں آتی ۔اگر کوئی شخص اس پروفیشن میں آتاہے تو جس طرح
دوسری فیلڈ میں زندگی لگتی اور اس کے بعد بندہ پروفیشنل بنتا ہے اسی طرح ٹرینرر اور کوچ بننے کےلیے بھی زندگی درکار ہوتی ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں