وہ تمام لوگوں جو
بہت زیادہ ترقی کرنے والے ہوتےہیں
انہیں اپنے آپ کو منوانے کا شوق ہوتا
ہے۔ لوگوں کی کارکردگی کادارومدار کچھ چیزوں پر ہوتا ہے اور ان
میں اہم چیز یہ کہ ہم اپنے آپ کو کسطرح دیکھتے ہیں ۔ گلاس میں آدھا پانی ہوتا ہے اور آدھا خالی ہوتا ہے کسی کو آدھا خالی لگتا ہے جبکہ کسی
کو آدھا بھرا ہوا لگتا ہے ایک ہی
چیز کے دوحصے بن جاتےہیں اسی طرح ہر بندہ اپنے بارے میں مختلف سوچ رکھتا ہے اور ذہن میں اپنی تصویر بنا کر رکھتا ہےنفسیات
میں اسے سیلف امیج کہا جاتا ہے۔ جن کا
سیلف امیج جتنا معیار کا اور اعلیٰ ہوتا ہے
اتنا ہی وہ زندگی میں ترقی کرتا ہے ۔ دنیامیں آگے وہ بڑھتا ہے جس کو اپنا آپ منوانے اور ثابت کرنے کا شوق ہوتا ہے ۔ دنیا کے جتنے
بڑے نام ہیں وہ اس لیے زندہ ہیں کہ ان
میں اپنے آپ کو منوانے کا شوق دوسروں سے زیادہ تھا۔ یہ
مادہ جس میں جتنا زیادہ ہوتا ہے اس کی اتنی اچھی پڑھائی ہوتی ہے، اتنا اچھاکام ہوتا ہے اور
اتنا ہی ترقی کرتا ہے ۔مثال کے طور پر اپریشن سےپہلے بے ہوشی کا ٹیکہ لگا
یا جاتا ہے تاکہ تکلیف نہ ہو اگر اس کی مقدارکم
ہو تو پھر تکلیف ہو گی اگر مقدار بڑھا دی جائے تو تکلیف نہیں ہوگی بلکل
اسی طرح اپنے آپ کو منوانے
کا مادہ جتنا زیادہ ہوگا
اتنی تکلیفیں کم ہو ں گی، کوئی
راستے کی رکاوٹ روک نہیں سکے گی ۔
زندگی میں دو ہی کا م ہوتےہیں یاتو انسان مسئلے کو بڑھا
سمجھتا ہے یا پھر اپنے آپ کو مسئلے سے بڑا
سمجھتا ہے۔ جس شخص کو زندگی میں مسئلے چھوٹے لگتےہیں اس کےلیے ترقی کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ جن
لوگوں نے مسئلوں کو بہت کچھ سمجھا ہوتاہے اصل میں انہوں نے اپنے آپ کو بہت چھوٹا کیا ہوتا ہے حالانکہ وہ
چھوٹے نہیں ہوتے بلکہ تصور میں اپنے آپ کوچھوٹا کر لیتےہیں۔ اپنے بارے
میں تصوکو بڑا کرنا چاہیے وہ تب بڑا ہوتا ہے جب پتا لگتا ہے کہ سات ارب کی آبادی
میں ایک بھی میرے جیسا نہیں ہےآج تک جتنی
دنیا ہو کر جا چکی ہےجتنی ہے اور جتنی آنی ہے
اس میں ہمارے جیسا نہ کوئی آیا تھا
نہ ہے اور نہ آئے گا۔ ہمیں ایک چانس ملا ہے اور اس دنیا میں ایک بار آئے
ہیں اس
لیے ہمیں یقین ہونا چاہیے میں نے
اپنے آپ کو منوانا ہے ۔
جن لوگوں کو شہرت مل جاتی ہے ان میں یہ مادہ زیادہ پایا جاتا ہےاگر ہم اپنے
آپ کو نہیں مانتے تو پھر دنیا ہمیں نہیں
مانے گی۔ سب سے پہلا کام یہ ہے کہ ہم
اپنے آپ کو منوائیں اور سمجھیں کہ ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں جب یہ یقین ہو جاتا ہے تو پھر مستقبل
کی تصویر مختلف بنتی ہے۔ وہ لوگ جو
حق تلفی کرتےہیں ، زیادتی کرتےہیں،
بداخلاق ہوتےہیں ان کا سیلف امیج بہت کمزور ہوتا ہے۔ ہماری دو خوراکیں ہوتی ہیں
ایک جسم کی اور ایک ہمارے اند ر کی ، اندر
کی خوراک ہمارا اچھا اخلاق ہوتا ہے وہ لوگ جو اچھے کام کرتےہیں ان کاسیلف امیج
مضبوط ہوتا ہے ان میں خود اعتمادی زیادہ ہوتی ہے ، ان میں کچھ کر گزرنے کا زیادہ
جذبہ ہوتا ہے۔ سیلف امیج تب ترقی کرتا ہے
جب ہم اچھے کام کرتےہیں وہ لوگ
جوعبادت کرتےہیں ، نماز پڑھتےہیں، قرآن پاک پڑھتے ہیں یا اچھے کام کرتےہیں ان کا
سیلف امیج زیادہ طاقتورہوتاہے۔ وہ لوگ جن کے مقاصد واضح ہوتےہیں ان کا
سیلف امیج بھی مضبوط ہوتاہےیعنی اگر اپنے
سیلف امیج کو بہتر کرنا ہے تو بہتر
کام کرنے پڑیں گے۔
سب سے زیادہ انسان اپنے اندر بولتا اور سمجھ دار ہے ۔ کان نہیں سنتے اندر سنتا ہے ،اندر کہتا ہے کہ تم وہ نہیں ہو
جو دنیا تمہیں کہہ رہی ہے ۔ مثا ل کے طور پر ایک بچے پر الزام
لگا کہ
اس نے اس کو محسوس نہیں کیا جبکہ دوسرے بچے پر ابھی شک
کی نظر سے ہی دیکھا اس نے فوری طور پر
برتن توڑکرا اس کا اظہار کیا اس
کیوجہ ہے اس کے سیلف امیج میں چور نہیں ہےجس
کی وجہ سے شک کی تکلیف ہو ئی ۔ جب اندر کو
خوراک ملتی ہے تو سیلف امیج طاقتور ہونا
شروع ہو جاتا ہے وہ طاقتور ہوتے ہوتے
اتنا ہو جاتا ہے کہ پھر زمانہ اس کو ماننا
شروع کر دیتا ہے۔
اپنا آپ منوانا پڑتا ہے
یہ کوئی بات نہیں ہے کہ مجھے مانو۔بعض اوقات یہ جذبہ
کہ میں نے کچھ کر کے دکھانا ہے اس
کا پڑھا ئی کے رزلٹ میں پتا لگتا ہے ۔ جو
لائق بچہ ہوتا ہے اس میں عام بچوں والی
عادتیں نہیں ہوتیں اس لیے کہ اس نے اپنا
آپ منوایا ہوتا ہے ۔ ایک بہت بڑا ڈاکو تھا اس کو جب سزائے موت ہونے لگی تو اس سے آخری خواہش پوچھی گئی اس نے کہا
کہ پہلے میری ماں کو پھانسی دو اس
سے پوچھا کیوں اس نے کہا جب میں چھوٹا سا تھا میں نے انڈے چوری کئے تھے اس وقت میری ماں نے مجھے
روکا نہیں تھا بلکہ شاباش دی تھی اگر اس وقت وہ مجھے روک لیتی تو آج میں اتنا بڑا مجرم نہ ہوتا۔ جن لوگوں کو چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر
نہیں روکا جاتا ان کا سیلف امیج کمزور ہو جاتا ہے اتنا کمزور ہو جاتا ہے کہ آخر کار مر جاتا ہےجب مر جاتا ہے تو پھر ان میں اچھائی اور برائی کی تمیز ختم ہوجاتی ہے۔ اگر کسی میں اچھا ئی برائی کی تمیز ختم ہو چکی ہو تو
اس کے لیے چوری کرنا ، ڈاکہ ڈالنا یا کوئی
بھی برا کام کرنا مشکل نہیں رہتا اور وہ
ایک کے بعد دوسرا گناہ کرتےہیں ۔ اچھے بندے کےلیے برا کام کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے جبکہ برے بندے کےلیے اچھا کام کرنا
بڑا مشکل ہوتا ہے۔ اچھے کےلیے اچھائی بڑی آسان ہے برے کےلیے برائی بڑی آسان ہے۔ سیلف امیج کے طاقتور ہونے کا مطلب اپنی کار کردگی کو بہتر کرنا ۔
کھلاڑیوں کا سیلف
امیج بہت مضبوط ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے
میدان میں جیت کر دکھایا ہوتا ہے اگر کوئی بندہ نیشنل لیول کا چیمپین
بن جائے تو وہ
محسوس کرے گا کہ ملک میں میرا جیسا
کوئی نہیں ہے ۔جب یہ پتا لگ جاتا ہے کہ میرے سے بہتر کوئی نہیں ہے تو پھر سیلف امیج طاقتور ہو جاتا ہے۔ جب بندہ
اپنے کام میں اچیو کرنے لگ پڑتا ہے اسکے اعتماد میں اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے پھر اس کوثابت کرنے کا بار بار موقع ملتا ہے جن
لوگوں کوثابت کرنے کا موقع نہیں ملتا یاثابت نہیں کرتے وہ ترقی نہیں کرتے۔ شاباشی سیلف امیج کی خوراک
ہے سیلف امیج کو بڑھانے کےلیے یہ بہت
ضروری ہے ۔ اچھے کام کے بعد تعریف اس کام کی قیمت ہوتی ہے
جیسے تحفے کی قیمت شکریہ ہے ۔جب ثابت کرنے کا موقع ملے تو اسے ضرور حاصل کرنا
چاہیے کیو نکہ قدرت ہمیں کئی بار
یہ موقع دیتی ہے۔ آئن سٹائن کہتا ہے بڑااستاد وہ ہے
جومیری خوبی مجھے بتائے اور پھر اس خوبی کو پالش کر دے ۔جس نے آپ کو
آپ کااپنا آپ دکھا دیا وہ آپ
کامحسن ہے۔
ہمارے ہاں بچوں کے
سیلف امیج اتنے کمزور ہوتےہیں کہ وہ غلط
کاموں کی طرف چلے جاتے ہیں اسی وجہ سے
آج معاشرے
میں ہمیں منافقت نظرآتی ہے ۔ ہم
زندگی میں لوگوں کاانتخاب ان کی
ظاہری شکل وصورت کو دیکھ کر کرتےہیں جبکہ ہمیں کردار کی
وجہ سے انتخاب کرنا چاہیے ۔شکل و
صورت نظر آ رہی ہوتی ہے لیکن کردار اندر
ہوتا ہے وہ کئی لوگوں کا ہوتا ہے کئی لوگوں کا
نہیں ہوتا۔
کبھی کسی کی تذلیل نہیں کرنی چاہیے اگرکسی نے کوئی اچھا
کام کیا ہے تو اس کی تعریف ضرور کرنی چاہیے ۔ دوسروں کے اچھے کاموں میں اگر ساتھ نہیں مل سکتے لیکن ان کے بارے میں حسن خیال ضرور رکھنا چاہیے ۔ اپنے آپ کےبارے میں ضرور غور کرنا چاہیے کیونکہ جب بندے کی اپنے
آپ کے بارے میں انڈرسٹینڈنگ شروع ہوتی ہے
تو بندہ اپنے اندر کو ٹھیک کرنا شروع کرتا ہے جس کی
وجہ سے بندہ اپنے اندر سے غیر ضروری چیزوں نکالنا شروع کر دیتا ہے ۔ علم ، عقل اور فہم کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ بندہ غیر ضروری چیزوں اپنے اندر سے
نکال دیتا ہے اور اپنے آپ کو ہلکا
کر لیتا ہے۔ جب دل اور زبان ایک ہو جاتے ہیں پھرمومن والا مقام آ جاتاہے کیو نکہ مومن وہ
ہوتا ہے جس کا قول اور فعل ایک ہوتا ہے وہ اوپرسے نہیں کہتا ہے
بلکہ دل سے کہتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :مفہوم
درحقیقت اندھے وہ نہیں ہیں جن کی آنکھیں نہیں ہیں اندھے وہ ہیں جو دل کے اندھے ہیں۔ دل کے
اندھے کامطلب سیلف امیج کااندھا ہونا جس
کا سیلف امیج اندھاہوتا ہے وہ کوئی اچھی چیز دیکھ نہیں سکتا ، جس سیلف
امیج بہرہ ہوتا ہے وہ کوئی اچھی بات سن نہیں
سکتا ۔
آج سے نیت کریں ہم
اس دنیا میں آئے ہیں اور اپنےآپ کو ثابت
بھی کریں گے کیو نکہ دلوں پر بات تب
ہی اثر کرتی ہے جب وہ دل سے نکلے ۔
(The Amazing
Key to all Personal, Syed Qasim Ali Shah)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں