اتوار، 26 فروری، 2017

غیرت مند پاٹنر (اللہ تعالیٰ سے تجارت)

عبدالحامد خان کراچی پرل کانٹیننٹل میں ملازم تھے‘ تنخواہ اچھی تھی لیکن وہ مالدار نہیں تھے‘ تین بچے تھے‘ ایک بیٹا اور دوبیٹیاں۔ صاحبزادے کا نام سہیل خان تھا‘ سہیل خان نے 1984ء میں بی کام کیا اور یہ کراچی کی ایک گارمنٹس فیکٹری میں ملازم ہو گئے‘ یہ وہاں تین سال کام کرتے رہے‘ سہیل خان نے نوکری کے دوران اپنا بزنس شروع کرنے کا فیصلہ کیا‘ نوکری کو خیرباد کہا‘ پچاس ہزار روپے اکٹھے کیے‘نو سلائی مشینیں خریدیں اور یو اینڈ آئی کے نام سے گارمنٹس کا چھوٹا سا یونٹ لگا لیا۔
اللہ تعالیٰ نے ان کا ہاتھ پکڑ لیااور یہ کامیاب ہونے لگے‘ یورپ اور امریکا کی گارمنٹس کمپنیاں اس وقت پاکستان سے ڈینم پینٹس بنواتی تھیں‘ سہیل خان نے ڈینم پینٹس بنانی شروع کر دیں اور یہ آہستہ آہستہ ملک کے بڑے ایکسپورٹرز میں بھی شمار ہونے لگے‘ سہیل خان نے 1990ء میں والد عبدالحامد خان اور خاندان کے دوسرے لوگوں کو بھی کاروبار میں شامل کر لیا‘ یہ ترقی کے زینے چڑھتے چلے گئے‘ یہ 2000ء میں تبلیغی جماعت میں شامل ہو گئے اور یہ مولانا طارق جمیل کے ساتھ چلے بھی لگانے لگے۔
جنید جمشید بھی اس وقت تازہ تازہ مولانا کے حلقے میں شامل ہوئے تھے‘ وہ بھی چلے پر جاتے رہتے تھے‘ یہ دونوں تبلیغ کرنے کے اس دور میں ایک دوسرے کے دوست بن گئے‘ جنید جمشید نے اس زمانے میں اپنے نام سے گارمنٹس کا ایک برانڈ بنایا اور وہ برانڈ کُرتا کارنر کے حوالے کر دیا‘ جنید جمشید ملک کا بڑا نام تھے لیکن ان کا برانڈ مار کھا گیا‘ وہ مارکیٹ میں جگہ نہ بنا سکا‘ جنید جمشید مذہب کی طرف راغب ہو رہے تھے‘ وہ موسیقی چھوڑ کر اپنی باقی زندگی اللہ کے نام وقف کرنا چاہتے تھے مگر وہ روزگار کے خدشات کا شکار تھے‘ وہ گانا گانے کے علاوہ کچھ نہیں جانتے تھے۔
وہ سمجھتے تھے’’ میں نے جس دن گانا چھوڑ دیا میں اس دن سڑک پر آ جاؤں گا‘‘ اور ان کا یہ خدشہ غلط بھی نہیں تھا‘ جنید جمشید نے 2002ء میں شعیب منصور کے ساتھ مل کر پیپسی کے لیے نیا البم بنانا تھا‘ پیپسی کے ساتھ کروڑوں روپے کا کانٹریکٹ ہو چکا تھا‘ وہ مختلف فورمز پر گانا گانے کے پیسے بھی وصول کر چکے تھے مگر انھوں نے جوں ہی داڑھی بڑھائی اور گانا گانے سے انکار کیا‘ ان کے سارے کانٹریکٹ منسوخ ہو گئے اور وہ ایک ہی رات میں عرش سے فرش پر آ گئے‘ بچے مہنگے اسکولوں میں پڑھتے تھے‘وہ بچوں کو اسکول سے اٹھانے پر مجبور ہو گئے اور گھر کے اخراجات پورے کرنا بھی مشکل ہو گیا۔
جنید جمشید کے بقول ’’میرے پاس اس زمانے میں والدہ کی دواء کے لیے سو روپے بھی نہیں تھے‘‘۔ان برے حالات میں سہیل خان ان کے لیے غیبی مدد ثابت ہوئے‘ جنید جمشید نے ایک دن مشورے کے لیے ان سے رابطہ کیا‘ لنچ پر ملاقات طے ہو گئی‘ جنید جمشید چھوٹی سی لیبل مشین لگانا چاہتے تھے‘ ان کی خواہش تھی وہ لیبل مشین لگائیں اور سہیل خان اپنے لیبلز کا ٹھیکہ انھیں دے دیں‘ سہیل خان نے بات سننے کے بعد جواب دیا ’’جنید بھائی ہم تیس پیسے کے حساب سے لیبل خریدتے ہیں‘ یہ کام آپ کے شایان شان نہیں ہو گا‘ آپ کو دو تین ہزا روپے کے آرڈرز کے لیے لوگوں کے دفتروں کے چکر لگانا پڑیں گے‘ آپ اس کے بجائے کوئی بڑا کام کریں‘‘۔
یہ بات جنید جمشید کے دل کو لگی‘ انھوں نے اپنے برانڈ پر توجہ دینے کا فیصلہ کیا مگر ان کے پاس سرمایہ نہیں تھا چنانچہ انھوں نے سہیل خان کو پارٹنر شپ کی پیش کش کر دی‘ سہیل خان مان گیا اور یوں جنید جمشید نے گارمنٹس کا کام شروع کر دیا‘ سہیل خان نے طارق روڈ‘ گلشن اقبال اور حیدری میں تین دکانیں خریدیں‘ اپنی فیکٹری کے اندر جنید جمشید کے نام کا ایک کارنر بنا یااور کام شروع کر دیا مگر برانڈ اس کے باوجود کامیاب نہ ہو سکا‘ جنید جمشید مایوس ہو کر گانے کی طرف واپس چلے گئے۔
داڑھی بھی صاف کرا دی اور اپنے پرانے معاہدے بھی تازہ کر لیے‘ یہ تبدیلی سہیل خان اور جنید جمشید کے معاہدے میں رکاوٹ بن گئی‘ کام تقریباً بند ہو گیا لیکن جنید جمشید جلد ہی واپس آ گئے‘ کام دوبارہ شروع ہو گیا‘ سہیل خان نے یہ برانڈ اپنے بہنوئی محمود خان کی نگرانی میں دے دیا لیکن وہ بھی یہ کام نہ چلا سکے‘ برانڈ بری طرح پٹ گیا‘ جنید جمشید کا مالی بحران بڑھ گیا لیکن پھر ایک عجیب واقعہ پیش آیا اور جنید جمشید کا برانڈ تیزی سے ترقی کرنے لگا‘ کیسے؟ ہم اب اس طرف آتے ہیں۔
سہیل خان اور جنید جمشید مشکل دور میں مشورے کے لیے مولانا تقی عثمانی کے پاس چلے گئے‘ مولانا نے دونوں کی بات سنی اور فرمایا ’’میں تم دونوں کو کامیابی کا گُر بتا دیتا ہوں‘ آپ اس گُر کو پلے باندھ لو تمہارا مسئلہ حل ہو جائے گا‘‘ یہ دونوں مولانا صاحب کی بات غور سے سننے لگے‘ مولانا نے فرمایا ’’تم دو پارٹنر ہو‘ تم آج سے اللہ تعالیٰ کو اپنا تیسرا پارٹنر بنا لو‘ تم کامیاب ہو جاؤ گے‘‘ یہ بات دونوں کے دل کو لگی‘ یہ دونوں باہر نکلے اور ایک نیا کانٹریکٹ ڈیزائن کیا۔
جے ڈاٹ میں سہیل خان‘ جنید جمشید اور اللہ تعالیٰ تین پارٹنر ہو گئے اور یہ دونوں نہایت ایمانداری سے اپنے منافع کا تیسرا حصہ اللہ تعالیٰ کے اکاؤنٹ میں جمع کرانے لگے‘ بس یہ اکاؤنٹ کھلنے اور تیسرے پارٹنر کی شمولیت کی دیر تھی ملبوسات کے ناکام برانڈ کو پہیے لگ گئے‘ یہ دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے کامیاب ترین برانڈز میں شامل ہو گیا‘ یہ لوگ شروع میں اپنے منافع کا تیسرا حصہ اللہ تعالیٰ کو دیتے تھے لیکن جب اللہ تعالیٰ کی پارٹنر شپ کا نتیجہ سامنے آنے لگا تو یہ لوگ اپنی سیل کا تیسرا حصہ اللہ تعالیٰ کے اکاؤنٹ میں جمع کرانے لگے۔
یہ لوگ اپنے آؤٹ لیٹس سے جو کماتے تھے یہ اس کا تیسرا حصہ چپ چاپ اللہ تعالیٰ کے نام وقف کر دیتے تھے‘ اس نئے ارینجمنٹ نے ان پر برکتوں کے مزید دروازے کھول دیے‘ ان کی ترقی اور منافع دونوں کے پہیے تیز ہو گئے اور یہ تمام ملکی برانڈز کو پیچھے چھوڑتے چلے گئے‘ جے ڈاٹ ملک کا سب سے بڑا برانڈ بن گیا‘ پاکستان میں اس وقت اس کے 65 آؤٹ لیٹس ہیں‘ ملک سے باہر 8 بڑے شو روم ہیں جب کہ جے ڈاٹ نے عالمی سطح پر دس فرنچائز بھی دے رکھی ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے ساتھ پارٹنر شپ نے جنید جمشید اور سہیل خان دونوں کی زندگی بدل دی‘ جنید جمشید اس کاروبار میں 25 فیصد کے شیئر ہولڈر تھے‘ یہ 25فیصد بھی بہت بڑی تھی‘ یہ رقم جنید جمشید کی ضرورت سے زیادہ تھی چنانچہ انھوں نے اس رقم کا بھی بڑا حصہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا شروع کر دیا‘ مساجد بنائیں‘ مدارس کو فنڈ کیا‘ بیواؤں اور یتیموں کو سپورٹ کیا اور وہ طالب علموں کو وظیفے بھی دینے لگے‘ وہ جوں جوں اللہ تعالیٰ کی پارٹنر شپ میں اضافہ کرتے چلے گئے۔
اللہ تعالیٰ ان پر اپنے کرم کے دروازے کھولتا چلا گیا یہاں تک کہ مولوی جنید جمشید راک اسٹار جنید جمشید سے زیادہ مقبول ہو گیا‘ وہ گانا گاتے تھے تو وہ مشہور تھے‘ وہ اللہ تعالیٰ کے راستے پر چل پڑے تو وہ باعزت شخصیت بن گئے‘ وہ گلوکار تھے تو لوگ ان سے آٹو گراف لیتے تھے‘ وہ مولوی بنے تو لوگ ان کے ہاتھ چومنے لگے اور وہ اسٹار تھے تو وہ پیسے کے پیچھے بھاگتے تھے‘ وہ اللہ والے ہوئے تو پیسہ ان کے تعاقب میں دوڑ پڑا‘ سہیل خان کی دنیا بھی بدل گئی‘ یہ اللہ تعالیٰ کو پارٹنر بنا کر مٹی کے جس ڈھیر کو ہاتھ لگاتے ہیں وہ سونا بن جاتا ہے اور یہ جس پراجیکٹ میں اللہ تعالیٰ کو شامل نہیں کرتے وہ منصوبہ کثیر سرمایہ کاری اور ماہر ترین ٹیم کے باوجود بیٹھ جاتا ہے۔
یہ تجربہ حیران کن تھا چنانچہ سہیل خان نے اپنے ہر کاروبار میں اللہ تعالیٰ کو پارٹنر بنا لیا‘ اللہ تعالیٰ ان کے بعض بزنس میں دوسرا پارٹنر ہے اور بعض میں تیسرا چنانچہ ان کے تمام کاروبار دن رات دوڑ رہے ہیں‘ پارٹنر شپ کا یہ فارمولہ سہیل خان کی زندگی کا اتنا بڑا حصہ ہے کہ انھوں نے گھر میں چندے کا ایک باکس رکھا ہوا ہے‘ خاندان کا جو بھی فرد گھر سے باہر جاتا ہے وہ اس باکس میں کچھ نہ کچھ ڈال دیتا ہے اور یہ باکس بعد ازاں ضرورت مندوں کی جھولی میں خالی کر دیا جاتا ہے‘ یہ باکس اب سہیل خان کے خاندان کا حصہ بن چکا ہے۔
مجھے جنید جمشید کی مقبولیت کے پیچھے ان کی قربانی دکھائی دی اور خوشحالی کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی پارٹنر شپ‘ جنید جمشید نے اللہ تعالیٰ کے لیے شہرت کو ٹھوکر ماری تھی‘ اللہ تعالیٰ نے انھیں دنیا اور آخرت دونوں میں عزت سے نواز دیا اور جنید جمشید نے اپنے کاروبار میں اللہ تعالیٰ کو پارٹنر بنا لیا تھا اللہ تعالیٰ نے انھیں مال و دولت سے رنگ دیا‘ یہ ملک کے خوشحال ترین لوگوں میں شمار ہونے لگے‘ کاش جنید جمشید کی زندگی اور موت ہماری آنکھیں کھول دے۔
کاش ہم جنید جمشید کی طرح اللہ تعالیٰ کے لیے شہرت بھی قربان کر دیں اور اللہ تعالیٰ کو اپنا پارٹنر بھی بنا لیں اور اللہ تعالیٰ جواب میں ہماری زندگیاں بھی بدل دے‘ مجھے یقین ہے ہم نے جس دن یہ کیا‘ ہم اس دن خوشحال بھی ہو جائیں گے اور باعزت بھی‘ کیوں؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی غیرت کبھی یہ گوارہ نہیں کرتی دنیا کا کوئی شخص اس کے نام پر شہرت قربان کرے اور یہ اسے بدلے میں عزت نہ دے اور کوئی شخص اسے اپنا بزنس پارٹنر بنائے اور اسے اس کے بعد کاروبار میں نقصان ہو جائے‘ بے شک اللہ تعالیٰ کائنات کا سب سے بڑا غیرت مند پارٹنر ہے‘ یہ اپنے پارٹنر کو کبھی نقصان نہیں ہونے دیتا۔
جاوید چوہدری


پیر، 20 فروری، 2017

خوئے غلامی کا شکار بیوروکریٹ (اردوزبان کا نفاذ)

سپریم کورٹ نے حکم دیا، اردو کو دفتری زبان اور ذریعہ تعلیم کا درجہ دیا جائے، سال بھر خاموشی رہی، وزیراعظم کی طرف سے یہ عہد نامہ جمع کروادیا گیا کہ وہ عالمی سطح پر اردو زبان میں مخاطب ہوں گے۔ لیکن خوئے غلامی اس قدر رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہی ہے کہ پوری دنیا میں اپنی انگریزی کے لب و لہجے کا تمسخر اڑائیں گے، لکھی ہوئی تقریر پڑھیں گے، ہاتھ میں پکڑی ہوئی چٹوں سے پریس کانفرنس کریں گے لیکن اردو میں گفتگو کرنا اپنی توہین سمجھیں گے۔
وہ سیاست دان جن کو انگریزی تو دور کی بات کسی زبان میں اظہار خیال کی دعوت دی جائے تو ان کی گفتگو سے کئی لطیفے جنم لیں، وہ بھی اپنے قائدین کی اس روش پر واہ واہ اور تحسین کے ڈنگرے برساتے ہیں۔ جس دور میں اردو کے حق میں سپریم کورٹ میں بحث جاری تھی تو میرا مؤقف یہ تھا کہ اگر سول سروس کا امتحان اردو میں شروع کردیا جائے تو انگریزی کی حمایت کرنے والے طبقے کی کمر ٹوٹ جائے گی۔ اس لیے کہ اس پاکستان کی خرابیوں کی جڑ وہ بیوروکریسی ہے جواسی انگریزی کے بل بوتے پر انگریز کے جانے کے بعد بھی حکومت کررہی ہے۔
عام آدمی سے کراہت اور حکمران ٹولے کے قدموں کی دھول کو آنکھوں کا سرمہ بنانا ان کا شیوہ اور وتیرہ ہے۔ سیاست دان کو آج بھی فائل پڑھنا قانونی موشگافیاں ڈھونڈنا اور کرپشن کے ایسے راستے تلاش کرنا کہ ثبوت تک نہ مل سکے، یہ سب نہیں آتا۔ ایک فوجی جرنیل جب حکومت میں آتا ہے تو اسے سالوں اس نظام کو سمجھنے میں لگ جاتے ہیں۔ تب جاکر وہ ان بیوروکریٹوں کے ہم پلہ فائل بازی کی بھول بھلیوں کو جانتا ہے۔ لیکن یہ اعلیٰ دماغ سول سرونٹ، اپنے ان آقاؤں کو کرپش، بددیانتی، دھوکا اور فریب کے تمام گر سکھانے کے لیے فوراً تیار بیٹھے ہوئے ہیں۔
قانون کی شاہراہ پر بددیانتی اور کرپشن کو ختم کرنے کے لیے مختلف ادارے اور افراد بٹھائے ہوتے ہیں جو اسپیڈ بریکر کا کام کرتے ہیں۔ یہ بیورو کریٹ ان تمام اسپیڈ بریکروں کو انتہائی مہارت سے ہٹاتے ہیں اور کرپشن کی گاڑی جس میں یہ سول سرونٹ سیاست دانوں یا جرنیلوں کے ساتھ سوار ہوتے ہیں، فراٹے بھررہی ہوتی ہے۔ یہ ان حکمرانوں کی آنکھ کا تارا ہوتے ہیں۔ ان کا ایک مضبوط اور مستحکم خاندان ہے جو انھوں نے بڑی محنت سے تربیت دیا ہے۔
اس خاندان کا شجرۂ نسب گزشتہ ایک سو سال سے انگریزی میڈیم سے ہوتا ہوا آکسفورڈ، کیمبرج، لندن اسکول آف اکنامکس کی ڈگریوں کے بعد سول سروس کے امتحان میں انگریزی میں لازمی و اختیاری مضامین کی تیاری اور پھر اٹھارہ کروڑ عام انسانوں کے اردو میڈیم ’’مشوروں‘‘ کے مقابلے میں کامیابی سے مرتب ہوتا ہے۔ آپ ان کے شجرہ ہائے نسب نکال لیں۔ کوئی سیاست دان، سرمایہ دار یا جرنیل کا بیٹا ہوگا یا پھر سول سروس کے بعد اس کا داماد بن جائے گا۔ کسی کا ماموں وزیر تو بھانجا ڈپٹی کمشنر، باپ جرنیل تو بیٹا سفیر، بھائی ممبر اسمبلی تو دوسرا بھائی کمشنر انکم ٹیکس، باپ صنعت کار تو بیٹا اکاؤنٹنٹ جنرل۔
یہ سب کے سب ایک رشتے میں پروئے ہوئے ہیں اور ایک مفاد میں جڑے ہوئے ہیں اور ان کو اٹھارہ کروڑ عام آدمیوں سے صرف ایک چیز علیحدہ کرتی ہے اور وہ انگریزی ہے جو انھیں پاکستانی معاشرے میں ’’برہمن‘‘ کا درجہ عطا کرتی ہے۔ آپ ان کے ہاں کامیابی کی معراج کا سنیں گے تو حیران رہ جائیں گے۔ ان کی کامیابی یہ نہیں کہ اس نے عوام کی کتنی خدمت کی، بلکہ بہترین افسر وہ ہے جس نے نوٹ پورشن یا سمری کتنی اچھی تحریر کی۔
معاشرے میں تبدیلی کو روکنے یا ’’اسٹیٹس کو‘‘ Status Quo کو قائم رکھنے کے لیے ان کا سب سے بڑا ہتھیار ہوتا ہے کہ بات کومزید غور و غوض کے لیے کمیٹی، کمیشن یا محکمے کے سپرد کردیا جائے اور اگر بہت زیادہ دباؤ آجائے تو کہا جاتا ہے کہ اس کو مرحلہ وار نافذ کردیا جائے۔ یوں پہلے مرحلے میں اس قدر سازشیں کی جاتی ہیں کہ دوسرے مرحلے کی نوبت ہی نہیں آتی۔
پنجاب میں لاہور ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں یہ حکم جاری کیا ہے کہ 2018ء کے سول سروس کے امتحان اردو میں لیے جائیں۔ اس پر پوری سول سروس کے انگریزی کی بنیاد پر اجارہ دار بنے افراد سخت چیں بچیں ہیں۔پہلا فقرہ یہ ہوتا ہے ہم عالمی برادری سے کٹ جائیں گے۔ کوئی ان عقل کے اندھوں سے پوچھے کیا ناروے، سویڈن، ڈنمارک، آئس لینڈ، فرانس، جرمنی، اٹلی، چین، روس، ترکی وغیرہ جو اپنی زبان میں دفتری امور سرانجام دیتے ہیں وہ دنیا سے کٹ چکے ہیں۔
کس قدر منافقت ہے کہ وزیراعظم سے لے کر بائیس گریڈ کے سیکریٹری اور یہاں تک کہ سترہ گریڈ کے بنیادی آفیسر تک کسی کے دفتر میں انگریزی نہیں بولی جاتی۔ تمام سائل یا تو اردو میں اپنا مدعا بیان کرتے ہیں یا مقامی زبان میں۔ جو افسر ایک صوبے سے دوسرے صوبے جاتا ہے اور بہت سے جاتے ہیں، وہ وہاں انگریزی نہیں اردو بولتا ہے، لوگ اس کے سامنے اردو میں اپنامسئلہ رکھتے ہیں۔ لیکن یہ کتنی بدتمیزی کے ساتھ اسے انگریزی میں حکم نامہ یا فیصلہ تھماتا ہے۔ اس سے زیادہ کسی سائل کی کیا توہین ہوسکتی ہے۔ کاش کوئی یہ حکم نامے اور فیصلے ان کے منہ پر مار سکتا۔
ان کی منافقت اور دوغلے پن کا یہ عالم ہے کہ وزیراعظم سے لے کر وزیراعلیٰ، چیف سکیرٹری سے اسسٹنٹ کمشنر، چیئرمین ایف بی آر سے ڈپٹی کمشنر انکم ٹیکس اور کلکٹر کسٹمز آڈیٹر جنرل سے اسسٹنٹ اکاؤنٹنٹ جنرل تک تمام اجلاس، تمام میٹنگز اردو میں ہوتی ہیں لیکن یہ انگریزی زدہ افسران کرام ان کے فیصلے، یا منٹس (Minutes) انگریزی میں تحریر کرتے ہیں۔ سر تھام کر بیٹھے ہوتے ہیں کہ اس شخص نے جو اردو سی بات کی تھی اس کا ترجمہ کیا ہے۔
ان سب کی عدالتوں میں، بلکہ پاکستان کی سپریم کورٹ سے لے کر سول کورٹ تک بحث اردو بلکہ مقامی زبان میں ہورہی ہوتی ہے لیکن فیصلے انگریزی میں تحریر ہوتے ہیں، درخواستیں انگریزی میں لکھی جاتی ہیں۔ یہ لوگ کس کو دھوکا دیتے ہیں۔ یقینا اٹھارہ کروڑ عوام کو دھوکا دیتے ہیں۔ آج کل کمپیوٹر آنے کی وجہ سے ایک اور چیز کا رواج چل نکلا ہے جسے پاور پوائنٹ کی پریزنٹیشن (Presentation) کہتے ہیں۔ یہ سب انگریزی میں سنائی جاتی ہیں لیکن اسے اردو میں بیان کیا جاتا ہے۔
عموماً یہ منطق دی جاتی ہے کہ انگریزی سے اردو میں آنے میں دیر لگے گی۔ ان سے تو انگریز حکمران بہتر تھے جنہوں نے پہلے دن ہی ڈپٹی نذیر احمد مرحوم سے تمام اہم قوانین کا ترجمہ ضابطۂ دیوانی، ضابطۂ فوجداری، تعزیرات ہند، قانون معاملہ زمین وغیرہ اردو میں کروایا تھا اور انھیں نافذ العمل بھی کیا تھا۔
ہر ضلع میں ایک ورنیکلر برانچ ہوتی تھی جو عام آدمی کو اردو میں فیصلے فراہم کرتی اور اردو میں درخواست وصول کرتی۔ انگریزی صرف بڑے افسران تک محدود تھی۔ ہم نے تو وہ سب کچھ ختم کردیا۔ اس لیے کہ ہماری عام آدمی پر صرف ایک ہی برتری تھی اور وہ انگریزی زبان تھی۔ ورنہ یہ سول سرونٹ نہ عقل و ہوش میں بہتر تھے اور نہ ہی ایمانداری میں۔
یہ وہ منافق طبقہ ہے کہ ان کے نظریات بھی حکمرانوں کے نظریات کے تابع ہوتے ہیں۔ یہ ضیاء الحق کے ساتھ بغیر وضو نمازیں پڑھتے ہیں اور مشرف کے دور میں گھر کی عورتوں کو میراتھن دوڑ میں لے کر جاتے ہیں۔
آج اگر ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق فوراً سول سروس کا امتحان اردو میں لینے کا اعلان کردیا جائے تو ان کے گھروں میں فوراً ہزاروں روپے خرچ کرکے اردو کے استاد مقرر ہوجائیں۔ انگریزی اخبارات کی جگہ اردوا خبارات لے لیں۔ صرف پندرہ دن میں پبلشر زدہ تمام گائیڈیں، کتابیں وغیرہ چھاپ کر مارکیٹ میں لے آئیں۔ صرف وہ چند سائنسی مضامین باقی رہ جائیں گے جن کو فوراً اردو میں منتقل نہیں کیا گیا۔ ایسے مضامین کا آیندہ نوکری سے کیا تعلق ہے۔
کیا ڈپٹی کمشنر، سفیر، انکم ٹیکس کمشنر، کلکٹر سسٹم وغیرہ کو نوکری کرنے کے لیے فزکس، کمیسٹری، بیالوجی، باٹنی، میتھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کوئی فزکس کے استاد کے انٹرویو کے دوران پاکستان کی تاریخ پر سوال کرے تو یہ تمسخر اڑاتے ہیں لیکن خود ان مضامین میں امتحان کی اجازت دیتے ہیں جن کا سول سروس کی نوکری سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ لیکن یہ سب ایسے ہی چلتا رہے گا۔ جب تک کوئی اس منافقت کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے فیصلہ نہیں کرتا۔ ورنہ عدالتوں کے فیصلے، ان سول سروس کے ’’برہمنوں‘‘ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ یہ ان سے نکلنے کے سوگر جانتے ہیں۔

اوریا مقبول جان

اتوار، 19 فروری، 2017

فرشتے اور روحیں (خوش وخرم زندگی کا راز)

یہ دو مختلف خطوں اور دو مختلف لوگوں کی کہانیاں ہیں‘ ہم لوگ ان کہانیوں سے سبق بھی سیکھ سکتے ہیں اور اپنی زندگیاں بھی آسان بنا سکتے ہیں۔
مجھے طویل عرصہ قبل آسٹریا میں کسی پاکستانی کے گھر جانے کا اتفاق ہوا‘ وہ صاحب تعمیرات کے شعبے سے تعلق رکھتے تھے‘ عام سے کم تعلیم یافتہ انسان تھے‘ دو شادیاں کر رکھی تھیں‘ ایک بیوی پاکستانی تھی اور دوسری مراکش سے تعلق رکھتی تھی‘ہمارا مراکش کی خواتین کے بارے میں تصور ہے یہ خوبصورت‘ سلم اور اسمارٹ ہوتی ہیں جب کہ ہماری زیادہ تر عورتیں عام نین نقش کی حامل ہوتی ہیں مگر وہاں صورت حال بالکل مختلف تھی‘ ان کی مراکشی بیگم عام نین نقش کی ناٹے قد کی خاتون تھی جب کہ پاکستانی بیوی گوری چٹی کشمیرن تھی‘ یہ دونوں بیگمات اوپر نیچے دو الگ الگ فلیٹس میں رہتی تھیں۔
یورپ میں بیک وقت دو شادیاں رکھنا غیر قانونی ہیں چنانچہ مسلمان ایک بیوی کو سرکاری کاغذات میں ڈکلیئر کر دیتے ہیں اور دوسری بیوی صرف نکاح تک محدود رہتی ہے‘ یہ لوگ عام طور پر ڈکلیئربیوی کو سرکاری اور دوسری کو نکاحی بیوی کہتے ہیں‘ ان صاحب نے بھی اسی قسم کا ارینجمنٹ کر رکھا تھا‘ پاکستانی بیگم سرکاری تھی جب کہ مراکشی بیوی نکاحی تھی یہ کہانی یہاں تک عام تھی‘ یورپ میں ایسے سیکڑوں لوگ موجود ہیں اور ان کی داستان تقریباً ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہے‘ اصل کہانی اس سے آگے آئے گی۔
میں اس خاندان میں چند چیزیں دیکھ کر حیران رہ گیا‘ خاندان میں مراکشی بیوی کو مرکزی حیثیت حاصل تھی‘ وہ پورے خاندان کی سربراہ تھی‘ وہ صاحب ‘ ان کی پاکستانی بیگم اور بچے سب مراکشی خاتوں کی بے انتہا عزت کرتے تھے‘ پاکستانی بیگم مراکشی خاتوں کو آپا اور پاکستانی بچے اماں کہتے تھے‘ پاکستانی بیگم کی سب سے چھوٹی بیٹی مراکشی بیگم کی گود میں بیٹھ کر اس کے ہاتھ سے کھانا کھاتی تھی‘ بڑے بچے یونیورسٹی جاتے تھے لیکن وہ بھی سوتیلی ماں سے پیار کرتے تھے اور دل سے اس کا احترام کرتے تھے۔
پاکستانی بیگم اپنے ہاتھ سے اپنی سوتن کو وضو کراتی تھی اور اس کیلیے جائے نماز بچھاتی تھی‘ وہ صاحب بھی دوسری بیگم پر بار بار نثار ہوتے تھے‘ یہ میرے لیے حیران کن منظر تھا‘ میں نے ایک شام اس صاحب کے سامنے اس حیرت کا اظہار کیا‘ اس نے قہقہہ لگایا ‘ دونوں بیگمات کو بلایا اور پھر اپنی کہانی سنانا شروع کر دی‘ اس نے بتایا پاکستانی بیگم اس کی کزن ہے‘ یہ مزاج کی تیز اور غصے کی سخت تھی‘ یہ شادی کے بعد بیگم کو آسٹریا لے آئے‘ دو بچے ہو گئے لیکن ان کی زندگی میں بے آرامی اور بے سکونی تھی‘ یہ سارا دن کام کرتے تھے‘ شام کے وقت گھر آتے تھے تو بیگم کی قِل قِل شروع ہو جاتی تھی۔
بیوی کی فرمائشیں اور مطالبات بھی غیر منطقی ہوتے تھے چنانچہ ان کی زندگی دوزخ بن کر رہ گئی ‘ یہ روز آتے جاتے راستے میں ایک کافی شاپ پر رکتے تھے‘ ان کی دوسری بیگم اس کافی شاپ میں کام کرتی تھی‘ وہ روز خاتون کو دیکھتے تھے‘ خاتون کی آنکھوں میں حیاء اور لہجے میں شائستگی تھی‘ یہ ہر وقت کام کرتی رہتی تھی‘ کافی شاپ میں اگر کوئی گاہک نہیں ہوتا تھا تو وہ کرسیاں اور میزیں صاف کرنا شروع کر دیتی تھی یا کاؤنٹر اور کچن کا سینک رگڑنے لگتی تھی اور یہ اکثر اوقات سیڑھی لگا کر کافی شاپ کا بورڈ صاف کرنے لگتی تھی‘ میں نے کبھی اس عورت کو کرسی پر بیٹھے نہیں دیکھا تھا۔ ’’میں اس کی ان تھک محنت سے بہت متاثر ہوا۔
میں یہ دیکھ کر بھی حیران رہ گیا اس خاتون نے تین سال قبل یہ نوکری شروع کی اور یہ آخر تک اس کافی شاپ کے ساتھ چپکی رہی‘ اس دوران درجنوں ملازمین آئے اور چلے گئے‘ کافی شاپ کے دو مالکان بھی بدل گئے لیکن خاتون نے نوکری تبدیل نہ کی‘ یہ معمولی معاوضے پر پانچ لوگوں کا کام اکیلی کرتی رہی‘‘ صاحب کو آہستہ آہستہ خاتون میں دلچسپی پیدا ہو گئی‘ خاتون بھی ان میں دلچسپی لینے لگی‘ یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ دونوں نے شادی کا فیصلہ کر لیا‘ خاتون نے شادی سے قبل دو عجیب و غریب شرطیں رکھ دیں۔
اس کی پہلی شرط تھی‘ میں تمہاری پہلی بیگم اور بچوں کے ساتھ رہوں گی اور دوسری شرط تھی میں ملازمت نہیں کروں گی‘ میں گھر سنبھالوں گی‘ وہ صاحب ڈرتے ڈرتے دونوں شرطیں مان گئے‘ نکاح ہوا اور وہ صاحب دوسری بیوی کو لے کر گھر آگئے‘ پہلی بیوی نے آسمان سر پر اٹھا لیا لیکن یہ صرف ایک دن کا واویلا تھا‘ خاتوں نے اگلے دن پہلی بیگم کو پچاس فیصد اپنے ہاتھ میں لے لیا اور یہ دونوں ہفتے میں بہنیں بن گئیں‘ وقت گزرتا چلا گیا‘ مراکشی بیگم سلیقہ مند تھی‘ محنتی تھی ‘محبت سے لباب بھری ہوئی تھی‘ ان تھک تھی‘ وسیع دل کی مالک تھی اور یہ بے لوث تھی چنانچہ اس نے خدمت‘ محبت اور سادگی سے پورے گھرانے کا دل موہ لیا‘ یہ پورے خاندان کا مرکز بن گئی۔
وہ صاحب‘ ان کے بچے اور ان کی دونوں بیگمات بہت خوش تھے‘ صاحب خانہ نے دوسری شادی کے بعد بے انتہا ترقی بھی کی‘ یوں وہ ہر لحاظ سے شاندار ‘ مسرور اور دلچسپ خاندان تھا‘ میں نے کہانی کے آخر میں مراکشی بیگم سے پوچھا ’’آپ نے کیا جادو کیا‘ یہ انہونی ہوئی کیسے؟‘‘ خاتون نے بتایا‘ مراکش میں بزرگ خواتین اپنی پوتیوں اور نواسیوں کو دعا دیتی ہیں‘ جا اللہ تعالیٰ تمہیں فرشتہ دے‘ اس کا مطلب ہوتا ہے تمہاری شادی کسی فرشتہ صفت انسان سے ہو‘ میری دادی بھی مجھے یہ دعا دیا کرتی تھی۔
میں نے ایک دن اپنی دادی سے پوچھا‘ اماں مجھے فرشتہ ملے گا کیسے؟ تو میری دادی نے جواب دیا‘ تمہاری شادی جس سے بھی ہو تم اس کے گھر کو جنت بنا دینا وہ شخص شیطان بھی ہوا تو وہ فرشتہ بن جائے گا‘ میری دادی نے بتایا‘ فرشتے جنت اور شیطان دوزخ میں رہتے ہیں اور دنیا کی جو عورتیں اپنے گھروں کو دوزخ بنا دیتی ہیں ان کے گھروں میں فرشتے نہیں آتے ‘ میں نے دادی کی بات پلے باندھ لی‘ میں نے اس گھر کو جنت بنا دیا چنانچہ اس گھر کے سب لوگ فرشتہ بن گئے‘ میری سوتن بھی فرشتہ ہو گئی۔
آپ اب دوسری کہانی بھی ملاحظہ کیجیے‘ میں لاہور کے ایک صاحب کو جانتا ہوں‘ یہ بدصورتی میں مجھ سے بھی چند ہاتھ آگے ہیں‘ کالا رنگ‘ منہ پر چیچک کے داغ‘ چھوٹا ساقد اور کمر پر کب‘ یہ چاروں طرف سے بدصورت ہیں‘ یہ امیر بھی نہیں ہیں‘ بمشکل گزارہ ہوتا ہے‘ تعلیم بھی زیادہ نہیں ہے لیکن ان کی بیگم بے انتہا خوبصورت‘ نفیس اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں‘ یہ میڈیکل ڈاکٹر ہیں‘ یہ اپنے خاوند سے بے انتہا محبت کرتی ہیں‘ یہ اس کا بچوں کی طرح خیال بھی رکھتی ہیں۔
میں اس عجیب و غریب ’’کمبی نیشن‘‘ پر حیران تھا‘ میں نے ایک دن اس صاحب سے بھی نسخہ کیمیا پوچھ لیا‘ یہ مجھے سیدھا اپنی بیگم کے پاس لے گیا اور میرا سوال اس کے سامنے رکھ دیا‘ بیگم نے قہقہہ لگایا اور بولی عورت کو مرد سے تین چیزیں درکار ہوتی ہیں‘ کیئر‘ محبت اور عزت اور یہ شخص ان تینوں میں کمال ہے‘ مجھے انھوں نے جتنی کیئر‘ محبت اور عزت دی وہ مجھے میرے بھائیوں‘ میری ماں اور میرے والد سے بھی نہیں ملی چنانچہ میں ہر وقت ان پر نثار ہوتی رہتی ہوں۔
میں نے حیرت سے اس صاحب کو دیکھا اور ان سے پوچھا ’’آپ نے یہ نسخہ کہاں سے سیکھا‘‘ یہ مسکرائے اور بولے ’’دنیا کا ہر مرد حور کو اپنی بیوی دیکھنا چاہتا ہے لیکن وہ یہ بھول جاتا ہے حوریں شیطانوں کو نہیں ملتیں انسانوں کو ملتی ہیں‘ آپ خود کو انسان بنا لیں آپ کو دنیا میں بھی حوریں مل جائیں گی اور آپ آسمانوں پر بھی حوروں کے درمیان رہیں گے‘‘ یہ خاموش ہو گیا‘ میں نے اس سے پوچھا ’’اور انسان کون ہوتے ہیں‘‘ اس نے قہقہہ لگا کر جواب دیا۔
فرشتے اللہ تعالیٰ کی مقدس ترین مخلوق ہیں لیکن تعالیٰ نے اس مقدس ترین مخلوق سے انسان کو سجدہ کرایا‘ کیوں؟ کیونکہ انسان کے پاس انسانیت کا جوہر تھا اور یہ وہ جوہر ہے جس سے فرشتے محروم ہیں‘ ہم انسان اگر زندگی میں ایک بار انسان بن جائیں تو ہمیں حوریں بھی مل جائیں اور ہمیں فرشتے بھی دوبارہ سجدے کریں ‘ میں نے اپنے وجود میں چھپی انسانیت کو جگا لیا تھا‘ میں نے انسان بننے کا عمل شروع کر دیا تھا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے میرا گھر اس حور کی روشنی سے بھر دیا‘ میں چیلنج کرتا ہوں دنیا کا کوئی شخص اپنے اندر موجود انسانیت جگا کر دیکھے اس کی بیوی خواہ کتنی ہی بوڑھی‘ ان پڑھ یا بدصورت ہو گی وہ حور بن جائے گی‘ وہ اس کا گھر روشنی سے بھر دے گی‘‘۔

جاوید چوہدری


اتوار، 12 فروری، 2017

اچھی زندگی کے چھ اصول

ہم اگلے دن دوبارہ باسفورس پہنچ گئے‘ سردی انتہا کو چھو رہی تھی‘ ہم ناک صاف کرنے کے لیے ہاتھ کوٹ سے باہر نکالتے تھے تو ہاتھ ناک تک پہنچتے پہنچتے جم جاتا تھا‘ ہمارے نتھنوں سے مسلسل دھواں نکل رہا تھا‘ باسفورس کے پانیوں پر سردی کے سفید پرندے اتر رہے تھے اور اڑ رہے تھے۔
یہ پانی پر اترتے تھے تو باسفورس کی چادر پر سلوٹیں پڑتی تھیں اور یہ اڑتے تھے تو پانی کا ارتعاش پورے ماحول کو ہلا کر رکھ دیتا تھا‘ ہم دونوں کنارے کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے‘ وہ واکنگ سٹک کو ہوا میں تلوار کی طرح لہرا رہے تھے اور میں چپ چاپ ان کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا‘ وہ بینچ تک پہنچے‘ جیب سے رومال نکالا‘ بینچ پر گری برف ہٹائی‘ بینچ صاف کیا‘ بیٹھے اور مجھے ساتھ بیٹھنے کا اشارہ کر دیا‘ میں فوراً بیٹھ گیا۔
پروفیسر صاحب نے گہرا سانس لیا‘ ان کے منہ اور نتھنوں سے دھوئیں کی لمبی لکیر نکلی‘ وہ لکیر کے غائب ہونے کا انتظار کرتے رہے‘ لکیر غائب ہو گئی تو وہ بولے ’’ایک مولوی صاحب تھے‘ وہ گاؤں میں رہتے تھے‘ گاؤں دریا کے پار تھا‘ لوگوں کو دریا پار کرنے میں بڑی دقت ہوتی تھی‘ مولوی صاحب ایک بار شہر جانے کے لیے گھر سے نکلے‘ دریا پر پہنچے اور کشتی کا انتظار کرنے لگے‘ مولوی نے وہاں اچانک ایک عجیب منظر دیکھا‘ ایک نوجوان آیا‘ اللہ کا نام لیا‘ دریا میں پاؤں ڈالے اور وہ چلتے چلتے دریا پار کر گیا‘ مولوی صاحب اس معجزے پر بہت حیران ہوئے۔
انھوں نے نوجوان کو آواز دی اور اونچی آواز سے پوچھا‘ برخوردار تم نے یہ آرٹ کہاں سے سیکھا‘ نوجوان نے قہقہہ لگایا‘ مولوی صاحب کی طرف اشارہ کیا اور بولا جناب میں نے یہ فن آپ سے سیکھا تھا‘ مولوی صاحب حیران ہو کر بولے بیٹا لیکن میں تو یہ فن نہیں جانتا‘میں تمہیں کیسے سکھا سکتا ہوں‘ نوجوان نے دوبارہ قہقہہ لگایا اور بولا جناب آپ نے دو سال قبل جمعہ کے خطبے میں فرمایا تھا اگر انسان کا ایمان مضبوط ہو تو یہ اللہ کا نام لے کر پانی پر بھی چل سکتا ہے‘ میں نے آپ کی بات پلے باندھ لی‘ میں اس دن سے اللہ کا نام لیتا ہوں‘ پانی میں پاؤں ڈالتا ہوں اور چلتے چلتے دریا پار کر جاتا ہوں۔
یہ سن کر مولوی صاحب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولے‘ برخوردار تم خوش نصیب ہو اور میں بدنصیب‘ تمہیں ایک تقریر نے مومن بنا دیا اور میں پوری زندگی پورے اسلام سے ایمان تلاش کرتا رہا‘ تم عظیم اور میں بدنصیب ہوں‘‘ وہ رکے‘ لمبا سانس لیا اور نتھنوں سے نکلنے والی دھوئیں کی لکیر غائب ہونے کا انتظار کرتے رہے‘ لکیر ہوا میں تحلیل ہو گئی تو بولے ’’ہم لوگ بدنصیب ہیں‘ ہم یقین کے بغیر دعائیں کرتے ہیں چنانچہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔
آپ دنیاوی اور دینی زندگی کا پہلا اصول نوٹ کرو‘ دعا سے پہلے اللہ کی ذات پر یقین پیدا کر لو‘ تمہاری ہر دعا قبول ہو جائے گی‘ وہ رکے‘ سانس لیا اور بولے ’’صوفی کی دعا کیوں قبول ہو جاتی ہے؟ کیونکہ اسے اللہ کی ذات پر یقین ہوتا ہے اور اللہ اپنی ذات پر یقین کرنے والوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا لہٰذا زندگی کا پہلا اصول اللہ کی ذات پر مکمل یقین ہے‘ جو کرتا ہے خدا کرتا ہے اور خدا کبھی غلط نہیں کرتا‘ یہ بات پلے باندھ لو تمہاری زندگی آسان ہو جائے گی‘‘ وہ رکے‘ سانس لیا اور بولے ’’زندگی گزارنے کا دوسرا بہترین اصول بولنے سے قبل سننا ہے۔
آپ اگر دس فقرے بولنا چاہتے ہو تو آپ کم از کم دو ہزار فقرے سنو‘ آپ دن میں دس گھنٹے سنو اور ایک گھنٹہ بولو‘ انسان زبان کے نیچے چھپا ہوتا ہے‘ آپ جوں ہی بولتے ہیں آپ دوسروں کے سامنے ظاہر ہو جاتے ہیں‘ آپ اگر اپنے آپ کو چھپانا چاہتے ہیں تو آپ زبان کو قابو رکھنا سیکھ لیں‘ آپ لوگوں کے درمیان رہ کر بھی ان سے چھپے رہیں گے۔
آپ اگر اچھی زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو آپ دیوار پر لکھ لیں میں بولنے سے پہلے سنو گا اور جب تک دوسرا آدمی مجھ سے بولنے کے لیے نہیں کہے گا میں خاموش بیٹھا رہوں گا‘ آپ کی زندگی بہت اچھی گزرے گی‘‘ وہ رکے‘ کوٹ سے ہاتھ باہر نکالے‘ رگڑے‘ گرم کیے‘ ان پر پھونک ماری اور بولے ’’ہمارے 80 فیصد مسائل کی جڑیں معیشت کی زمین میں پیوست ہوتی ہیں‘ ہم میں سے زیادہ تر لوگ کمانے سے قبل خرچ کر دیتے ہیں یا پھر یہ کمانے کے فوراً بعد خرچ کرنا شروع کر دیتے ہیں چنانچہ یہ لوگ مسائل میں الجھ جاتے ہیں‘ اچھی زندگی گزارنے کا تیسرا اصول خرچ کرنے سے قبل کمانا ہے۔
آپ پہلے کمائیں اور پھر خرچ کریں‘ آپ پوری زندگی خوش حال رہیں گے‘ میں استنبول کے ایک خوش حال خاندان کو جانتا ہوں‘ یہ لوگ چار نسلوں سے مطمئن اور متمول ہیں‘ میں ایک بار خاندان کے چھوٹے بیٹے سے ملا اور اس سے خاندان کے اطمینان اور خوشحالی کی وجہ پوچھی‘ نوجوان نے جواب دیا‘ ہمارے پردادا نے سو سال قبل دو اصول بنائے تھے‘ ہم لوگ سال میں دس ماہ کمائیں گے اور دو ماہ خرچ کریں گے اور ہم لوگ ہر صورت اپنی آمدنی کا 25 فیصد بچا کر رکھیں گے۔
ہمارے پردادا نے یہ اصول اپنے بچوں کو سکھا دیے‘ ہمارے دادا نے ہمارے والد اور ہمارے چچاؤں کی پرورش اس عادت میں کی اور ہمارے والد نے ہمیں پہلے دن سے اس ٹریننگ میں ڈال دیا چنانچہ ہم چار نسلوں سے مطمئن‘ خوش حال اور مسرور زندگی گزار رہے ہیں‘ میں نے نوجوان سے پوچھا‘ کیا آپ لوگ سال میں دس ماہ کوئی چیز نہیں خریدتے‘ وہ ہنس کر بولا‘ ہم انسان بازار سے ضرورت اور آسائش خریدتے ہیں۔
انسان کو ضرورتیں کبھی غریب نہیں بناتیں‘ ہم ہمیشہ آسائش کے ہاتھوں لٹتے ہیں‘ ہمارے خاندان کے لوگ سال میں دس ماہ صرف ضرورت کی اشیاء خریدتے ہیں‘ ہم سال بھر آسائشوں کی فہرست بناتے رہتے ہیں‘ ہم نومبر کے مہینے میں خریداری شروع کرتے ہیں اور 31 دسمبر تک فہرست کے مطابق اشیاء خریدتے رہتے ہیں‘ میں نے اس سے پوچھا سال کے آخری دو ماہ ہی کیوں؟ وہ ہنس کر بولا‘ ہمارے پاس اس وقت تک وافر پیسے جمع ہو چکے ہوتے ہیں۔
ملک میں نومبر دسمبر میں سیلز بھی شروع ہو جاتی ہیں اور دنیا کے زیادہ تر برانڈز اپنے نئے ماڈل بھی ان دو مہینوں میں متعارف کراتے ہیں چنانچہ ہم جی بھر کر خریداری کرتے ہیں اور پورا سال اس خریداری کو انجوائے کرتے ہیں‘ ہم اپنی اس عادت کی وجہ سے کبھی دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں اور نہ ہی کسی سے ادھار لیتے ہیں‘ میں نے اس خاندان سے سیکھا‘ آپ اگر کما کر خرچ کرنا سیکھ لیں تو آپ کبھی محتاج نہیں ہوتے‘ یہ کامیاب اور مطمئن زندگی کا تیسرا اصول ہے‘‘۔ وہ رکے‘ لمبا سانس لیا اور باسفورس کی طرف دیکھنے لگے۔
باسفورس پر دھند ہلکورے لے رہی تھی‘ یوں محسوس ہوتا تھا آسمان پانی پر اتر آیا ہے اور یہ اب ہوا کی دھن پر دائیں بائیں رقص کر رہا ہے‘ وہ دیر تک یہ رقص دیکھتے رہے‘ وہ پھر میری طرف مڑے اور بولے ’’ہم میں سے زیادہ تر لوگ کوشش سے پہلے ہمت ہار بیٹھتے ہیں‘ یہ رویہ غلط ہے‘ آپ دل چھوڑنے سے قبل کوشش کریں‘ آپ کی زندگی اچھی ہو جائے گی‘ میں بیلجیئم میں ایک شخص سے ملا‘ وہ شخص زندگی میں کبھی ناکام نہیں ہوا تھا‘ میں نے اس سے وجہ پوچھی‘ اس نے جواب دیا‘ میں نے زندگی میں کبھی کوشش ترک نہیں کی‘ میں کوشش کرتا رہتا ہوں‘ میں کوشش کرتا رہتا ہوں یہاں تک کہ میں کامیاب ہو جاتا ہوں۔
میں نے اس سے سیکھا ہمت نہ ہاریں‘ کوشش جاری رکھیں‘ آپ بالآخر کامیاب ہو جائیں گے چنانچہ اچھی زندگی کے لیے ہمت ہارنے سے قبل کوشش‘ کوشش اور کوشش کو اصول بنا لیں‘ دنیا آپ کے لیے جنت بن جائے گی‘‘ وہ رکے‘ قہقہہ لگایا اور بولے ’’ہم لوگ بھی عجیب ہیں‘ ہم زندگی بھر موت سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں‘ ہم دنیا بھر کے ڈاکٹروں سے طویل عمری کے فارمولے جاننے کی سعی بھی کرتے رہتے ہیں لیکن ہم اس کے باوجود مر جاتے ہیں۔
موت کسی نہ کسی راستے‘ کسی نہ کسی ذریعے ہم تک پہنچ جاتی ہے‘ ہم میں سے کوئی شخص اس سے بچ نہیں پاتا‘ ہم موت سے بچنے کی اس دوڑ میں زندہ رہنا بھول جاتے ہیں‘ ہم میں سے زیادہ تر لوگ جیئے بغیر ہی مر جاتے ہیں‘ یہ بے چارے زندگی کو زندگی کی طرح گزار ہی نہیں پاتے چنانچہ اچھی زندگی کا پانچواں اصول ہے مرنے سے پہلے جی بھر کر جی لیں‘ یہ زندگی عظیم عطیہ ہے۔
یہ عطیہ اللہ تعالیٰ صرف ایک بار عطا کرتا ہے‘ موت ہر انسان کو آتی ہے لیکن زندہ کوئی کوئی رہتا ہے اور آپ کو ان کوئی کوئی لوگوں میں شمار ہونا چاہیے‘‘ وہ خاموش ہو گئے‘ فضا میں بھی ایک ٹھہراؤ سا آگیا‘ ہم تھوڑی دیر اس ٹھہراؤ کا حصہ بنے رہے‘ پھر انھوں نے جھرجھری سی لی اور بولے ’’آپ لکھاری ہیں‘ میں آپ کو اچھی زندگی کا چھٹا اصول بتاتا ہوں‘ یہ اصول بنیادی طور پر لکھاریوں کے لیے ہے لیکن عام لوگ بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
آپ لکھنے سے پہلے سوچیں‘ آپ جتنا گہرا سوچیں گے آپ کی تحریر میں اتنی ہی گہرائی آئے گی اور آپ جتنا اچھا سوچیں گے آپ کی نگارشات بھی اتنی ہی اچھی ہو جائیں گی‘ آپ اگر لکھاری نہیں ہیں تو آپ ہر قدم اٹھانے سے قبل سوچنے کی عادت ڈال لیں‘ آپ سوچیں‘ بار بار سوچیں اور پھر قدم اٹھائیں‘ آپ مسائل سے بچتے چلے جائیں گے‘ یہ اچھی زندگی کے چھ اصول ہیں‘ دعا سے قبل اللہ پر یقین کریں‘ بولنے سے قبل سنیں‘ خرچ کرنے سے قبل کمائیں۔
ہمت ہارنے سے قبل کوشش کریں‘ مرنے سے قبل زندہ رہیں اور لکھنے سے قبل سوچیں‘ آپ شاندار اور قابل رشک زندگی گزاریں گے‘‘ باسفورس پر سرد ہوائیں چلنے لگیں‘ پروفیسر صاحب نے کوٹ کے کالراٹھائے‘ ہاتھ رگڑے اور اٹھ کھڑے ہوئے‘ میں بھی اٹھا اور ان کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔
ہم واپسی کے لیے تیار ہو چکے تھے۔
جاوید چوہدری


رس دار پھل کھائیں

لیموں، موسمبی، کینو، چکوترہ اور اس قبیل کے نہ جانے کتنے ہی رس دار پھل ہیں جو ’’وٹامن سی‘‘ کی وافر مقدار اور بیماریوں کے خلاف لڑنے کی جسمانی صلاحیت بہتر بنانے کے حوالے سے دنیا بھر میں شہرت رکھتے ہیں۔ لیکن رس دار پھلوں میں اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے جو ہماری صحت کے لیے انتہائی مفید ہے۔ ذیل میں ایسے ہی کچھ فائدے بیان کیے جارہے ہیں جو حالیہ برسوں میں سائنسی تحقیقات سے سامنے آئے ہیں۔
·         رس دار پھلوں میں صحت بخش فائبر کی مقدار اچھی خاصی ہوتی ہے۔ یہ فائبر ایک طرف آپ کا ہاضمہ درست رکھتا ہے تو دوسری جانب خون میں مضر کولیسٹرول اور گلوکوز کی مقدار بھی کنٹرول کرتا ہے۔ رس دار پھل کھانے کی صورت میں اس کا وہ فائبر بھی آپ کے معدے میں پہنچتا ہے جو ہضم نہیں ہوتا اور دیر تک پیٹ میں موجود رہتا ہے جس کی وجہ سے ہمیں دیر تک شکم سیری کا احساس رہتا ہے اور یوں وزن گھٹانے میں مدد ملتی ہے۔
·         دل کو بھی رس دار پھلوں سے فائدہ پہنچتا ہے کیونکہ ان میں اینٹی آکسیڈینٹ کہلانے والے مادّے بھی وافر مقدار میں ہوتے ہیں جو مضر کولیسٹرول کی مقدار کم کرنے کے علاوہ وٹامن سی کے ساتھ مل کر دل کے امراض سے بھی بچاتے ہیں۔ تاہم انہیں کولیسٹرول کم کرنے والی دواؤں کے ساتھ استعمال نہیں کرنا چاہیے ورنہ فائدے کے بجائے نقصان بھی ہوسکتا ہے۔
·         رس دار پھلوں کا استعمال خون میں گلوکوز کی مقدار اس طرح سے قابو میں رکھتا ہے کہ اس کے اجزاء سے شکر بڑی آہستگی سے لیکن مسلسل خارج ہوتی ہے اور یوں جسم میں شکر کی مقدار کم بھی نہیں ہونے پاتی اور نہ ہی اچانک بڑھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رس دار پھل ایک طرف خون میں شکر کو قابو میں رکھتے ہیں تو دوسری جانب اسے متوازن بھی بناتے ہیں۔ یعنی رس دار پھل ایسے افراد کے لیے خاص طور پر اہم ہیں جو ذیابیطس کے دہانے پر پہنچ چکے ہوں۔
·         حالیہ طبی تحقیقات سے یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ رس دار پھل کھانے سے نہ صرف نزلے اور زکام کی شدت میں کمی آتی ہے بلکہ یہ معمول سے کم وقت میں ختم بھی ہوجاتے ہیں۔ البتہ نزلے یا زکام کی صورت میں رس دار پھلوں کا استعمال مناسب مقدار میں کیا جائے تو بہتر طور پر فائدہ ہوگا۔
·         اگر سلاد میں رس دار پھل بھی شامل رکھے جائیں تو یہ جسم کو دوسرے غذائی اجزاء بہتر طور پر جذب کرنے کے قابل بناتے ہیں یعنی مرغی، گوشت، مچھلی، دال، چاول غرض کچھ بھی کھایا جائے، سلاد میں شامل رس دار پھلوں کے ٹکڑے یا رس انہیں اچھی طرح سے ہضم کرنے میں مدد دیتے ہیں اور یوں کھانے کی کم مقدار ہمیں زیادہ غذائیت فراہم کرتی ہے۔
·         ان سب کے علاوہ، رس دار پھلوں میں پانی کی مقدار بھی زیادہ ہوتی ہے یعنی انہیں استعمال کرکے جسم میں پانی کی مقدار بھی برقرار رکھی جاسکتی ہے لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ پانی پینا چھوڑ دیا جائے۔ مناسب مقدار میں روزانہ پانی پینے کے علاوہ رس دار پھل کھانے سے جسم میں پانی کی ضروری مقدار موجود رہتی ہے جو ہمیں صحت کے درجنوں مسائل سے بچاتی ہے۔
·         ہمیشہ جوان نظر آنے کی خواہشمند خواتین کے لیے بھی رس دار پھلوں کا استعمال کسی خوشخبری سے کم نہیں کیونکہ ان میں اینٹی آکسیڈنٹس نامی مرکبات کے علاوہ ایسے کئی اجزاء موجود ہوتے ہیں جو اندرونی طور پر عمر رسیدگی کا عمل سست کرتے ہیں اور یوں خواتین اپنی اصل عمر سے کہیں زیادہ جوان نظر آتی ہیں۔

 روزنامہ ایکسپرس

جمعہ، 10 فروری، 2017

کیمسٹری کے فارمولے اور ورلڈ ریکارڈ

 ڈیلی پاکستان گلوبل کے مطابق عبدالباسط نامی پاکستانی شہری جدہ سعودی عرب میں پیدا ہوا اورپاکستانی سفارتخانے کے سکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی جس کے بعد وہ پاکستان آ گیا اور یہاں بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے بی اے اور بعد ازاں آئی بی اے سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ 2004 میں عبدالباسط دبئی منتقل ہو گیا اور وہاں لوگوں کو ذہانت تیزکرنے کی تربیت دینا شروع کردی۔گزشتہ سال عبدالباسط نے اپنے طلبہ کیلئے مثال قائم کرنا چاہی اور گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کی ٹیم سے رابطہ کیا ۔ ابتدائی مراحل طے کرنے کے بعد 19 دسمبر 2016 کو متحدہ عرب امارات کے شہر العین میں عبدالباسط نے ورلڈ ریکارڈ قائم کیا۔ عبدالباسط نے پیریاڈک ٹیبل کے تمام ایلیمنٹس (کیمسٹری کے فارمولوں کا جدول)صرف 3 منٹ اور 9 اعشاریہ 29 سیکنڈز میں یاد کیے اور ورلڈ ریکارڈ اپنے نام کیا۔عبدالباسط کا کہنا ہے کہ اسے کیمسٹری سے ذرا بھی دلچسپی نہیں ہے لیکن بچپن سے ہی اسے چیزیں یاد کرنے اور بغیر کیلکولیٹر کے بڑے حساب کتاب صرف اپنے ذہن کی مدد سے حل کرنے کا شوق تھا ، یہی وجہ تھی کہ میرا حافظہ بہت زیادہ اچھا ہو گیا۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے صرف اس وجہ سے 4 مختلف ملازمتیں چھوڑ دیں کیونکہ ان میں مجھے بالکل بھی مزہ نہیں آرہا تھا، میں لوگوں کو سکھانا چاہتا تھا اس لیے میں نے یہ کام شروع کردیا۔میں اب ایک امریکی ادارے میں پڑھاتا ہوں اور طلبہ کو یہ سکھاتا ہوں کہ کیسے مختلف چیزوں کے جوابات صرف ایک یا دو لائنوں میں ہی چند سیکنڈز میں حاصل کرنے ہیں۔
اپنے طلبہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے عبدالباسط کا کہنا تھا کہ طلبہ ہی میرے بتائے ہوئے فارمولوں سے بہت خوش ہیں اور جب بھی کوئی نئی بات سکھاتا ہوں تو وہ خوشی سے چلانے لگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اتنے آسان جوابات ہمیں پہلے کسی نے کیوں نہیں بتائے۔ مستقبل میں بھی عبدالباسط مختلف ورلڈ ریکارڈز توڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ ہر 6 ماہ بعد ایک نیا ریکارڈ قائم کریں۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی پاکستانی جس میں ٹیلنٹ ہو اور ورلڈ ریکارڈ قائم کرنے کا خواہشمند ہو تو میں اسے مکمل سپورٹ فراہم کروں گا اور تمام مراحل طے کرنے میں رہنمائی بھی کروں گا۔

روزنامہ پاکستان

24 کروڑ

کراچی میں پیدا ہونے والے پاکستانی سپوت سمیل حسن آج کل خبروں میں ہیں انہوں نے صرف 17سال کی عمر میں24کروڑ روپے کمالیے ہیں،یہ دنیا میں سب سے زیادہ کمانے والے گیمرز میں شامل ہیں،انہوں نے یہ رقم ڈاٹ Aگیم کھیل کر  کمائی ہے۔سمیل حسن نے یہ گیم 7سال کی عمر میں کھیلنا شروع کی اور اس وقت ان کا شمار بہترین کھلاڑیوں میں ہوتا ہے،جنوری 2015ءمیں سمیل کو ڈاٹA2ٹیم کیلئے منتخب کیا گیا تھا،انہوں نے پاکستان سے کھلاڑیوں کو بہت ہی ٹف ٹائم دیا۔سپورٹس کیڈا“کے مطابق سمیل دنیا کا تیسرا بڑا زیادہ رقم حاصل کرنے والا گیمر ہے جس نے صرف 17سال کی عمر میں 24کروڑ روپے کمالیے ہیں انہیں ڈاٹ اے کا دنیا بھر میں بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا ہے،ان کام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی درج کردیا گیا ہے،یہ دنیا کے کم عمر ترین کھلاڑی ہیں جنہوں نے ٹورنامنٹ میں ملین مارک کو عبور کیا ہے۔
ٹائم میگزین نے بھی سمیل کو دنیا کے تیس متاثرکن کم عمر جوانوں میں شامل کیا تھا،سمیل اس وقت امریکہ میں رہائش پذیر ہیں ،سپورٹس کے ذریعے پاکستان کے سوفٹ امیج کو پیش کرنے میں آگے آگے ہیں۔سمیل کا کہنا ہے کہ میں 15سال سے پاکستان میں رہ رہا تھا،یہیں بڑا ہوا،میں برا کھیل رہا تھا بہتر کھیلنے کیلئے میں نے اپنی بائیک بھی فروخت کردی تھی۔چونکہ پاکستان میں ای سپورٹس عام نہیں لیکن پاکستان کا یہ سپوت دنیا میں ملک کا نام روشن کررہا ہے،پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے لیکن ان کی صلاحیتوں کو جلا بخشنے کیلئے رہنمائی کی ضرورت ہے۔

روزنامہ پاکستان


اتوار، 5 فروری، 2017

صغیرہ اسلام (Motivational Story)


داستان سرائے کی بانوقدسیہ

معروف ادیبہ بانو قدسیہ 28 نومبر 1928 کو مشرقی پنجاب کے ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئیں اور تقسیم ہند کے بعد لاہور آگئیں۔
ان کے والد بدرالزماں ایک گورنمنٹ فارم کے ڈائریکٹر تھے اور ان کا انتقال 311 سال کی عمر میں ہوگیا تھا۔ اس وقت ان کی والدہ ذاکرہ بیگم کی عمر صرف 27 برس تھی۔ بانو قدسیہ کی اپنی عمر اس وقت ساڑھے تین سال تھی۔ ان کا ایک ہی بھائی پرویز تھا جن کا انتقال ہوچکا ہے۔ بانو قدسیہ نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی قصبے ہی میں حاصل کی۔ انھیں بچپن سے ہی کہانیاں لکھنے کا شوق تھا اور پانچویں جماعت سے انھوں نے باقاعدہ لکھنا شروع کردیا۔
 ہوا یوں تھا کہ وہ جب پانچویں جماعت میں تھیں تو ان کے اسکول میں ڈراما فیسٹیول کا انعقاد ہوا، جس میں ہر کلاس کو اپنا اپنا ڈراما پرفارم کرنا تھا۔ بہت تلاش کے باوجود بھی کلاس کو تیس منٹ کا کوئی اسکرپٹ دستیاب نہ ہوا۔ چنانچہ ہم جولیوں اور ٹیچرز نے اس مقصد کے لیے بانو قدسیہ کی طرف دیکھا، جن کی پڑھنے لکھنے کی عادت کلاس میں سب سے زیادہ تھی، ان سے درخواست کی کہ ’’تم ڈرامائی باتیں کرتی ہو لہٰذا یہ ڈراما تم ہی لکھ دو‘‘۔ بانو قدسیہ نے اس چیلنج کو قبول کیا اور بقول ان کے ’’جتنی بھی اُردو آتی تھی اس میں ڈراما لکھ دیا‘‘۔ یہ ان کی پہلی کاوش تھی، اس ڈرامے کو اسکول بھر میں فرسٹ پرائز کا حقدار ٹھہرایا گیا۔ اس حوصلہ افزائی کے بعد وہ دسویں جماعت تک افسانے اور ڈرامے ہی لکھتی رہیں۔ طویل عرصے تک وہ اپنی کہانیوں کی اشاعت پر توجہ نہ دے پائیں اور ایم اے اُردو کرنے کے دوران اشفاق احمد کی حوصلہ افزائی پر ان کا پہلا افسانہ ’’داماندگی شوق‘‘ 1950 میں اس وقت کے ایک سرکردہ ادبی جریدے ’’ادبِ لطیف‘‘ میں شایع ہوا۔
 اپنے لکھنے کے حوالے سے بانو قدسیہ کہتی ہیں کہ ’’میں نے کسی سے اصلاح نہیں لی اور نہ کبھی کچھ پوچھا تاوقتیکہ میری شادی نہیں ہوگئی، پھر اشفاق احمد صاحب میرے بڑے معاون و مددگار بلکہ استاد ہوئے۔ انھوں نے مجھ سے کہا اگر تمہیں لکھنا ہے تو ایسا لکھو کہ کبھی مجھ سے دو قدم آگے رہو اور کبھی دو قدم پیچھے،
Competition پورا ہو۔ اس کا مجھے بڑا فائدہ ہوا۔ اشفاق صاحب نے Encourage بھی کیا اور Discourage بھی۔ میری کئی باتوں پر خوش بھی ہوئے۔ آخر تک ان کا رویہ استاد کا ہی رہا، میں انھیں شوہر کے ساتھ ساتھ اپنا استاد بھی سمجھتی رہی ہوں، جو کچھ مجھے آپ آج دیکھ رہے ہیں وہ اشفاق احمد صاحب کی وجہ سے ہی ہوں‘‘۔
 بانو قدسیہ نے ایف اے اسلامیہ کالج لاہور جب کہ بی اے کنیئرڈ کالج لاہور سے کیا، جس وقت انھوں نے بی اے کا امتحان دیا اس وقت 47 کے فسادات کی آگ پھیل چکی تھی، گورداس پور اور شاہ عالمی اس آگ کی لپیٹ میں آچکے تھے۔ اس آگ کے دریا میں بانو قدسیہ بی اے کے پیپرز دینے کے لیے ایف سی کالج جاتی رہیں کیونکہ فسادات کی وجہ سے کنیئرڈ کالج میں امتحانی سینیٹر نہ کھل سکا تھا۔ بی اے کا امتحان کسی طرح دے دیا، فسادات پھیلتے چلے گئے، بانو قدسیہ اپنے خاندان کے ہمراہ گورداس پور میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی، مطمئن تھیں کہ یہ حصہ پاکستان کے حصے میں آئے گا، مگر رات بارہ بجے اعلان ہوگیا کہ گورداس پور پاکستان میں نہیں ہے چنانچہ بانو قدسیہ اپنے کنبے کے ہمراہ پتن پہنچیں جہاں سے رات کو قافلے نکل کر جاتے تھے اور اکثر قافلے رات کو قتل کردیے جاتے تھے۔ بانو قدسیہ کا آدھا قافلہ بچھڑ گیا تھا اور آدھا قتل ہوگیا تھا، تین ٹرک پاکستان پہنچے، ایک میں بانو قدسیہ، ان کی والدہ اور بھائی بچ گئے تھے، دوسرے رشتے دار قتل کردیے گئے۔
پاکستان پہنچ کر بانو قدسیہ کو بی اے کے رزلٹ کا پتا چلا جس میں انھیں کامیابی ملی تھی۔ 19499 میں انھوں نے گورنمٹ کالج لاہور میں ایم اے اُردو میں داخلہ لیا۔ یہاں اشفاق احمد ان کے کلاس فیلو تھے، دونوں کی مشترکہ دلچسپی ادب پڑھنا اور لکھنا تھا۔ دسمبر 1956 میں بانو قدسیہ کی شادی اشفاق احمد سے ہوگئی۔ دونوں رائٹرز تھے اور ادب سے گہرا شغف رکھتے تھے۔شادی کے بعد دونوں رائٹرز کام میں جُت گئے، ایک سال بعد انھوں نے ایک ادبی رسالے ’’داستان گو‘‘ کا اجراء کیا، تمام کام خود کرتے تھے، رسالے کا سرورق بانو قدسیہ کے بھائی پرویز کا فنِ کمال ہوتا تھا جو ایک آرٹسٹ تھے۔ چار سال تک ’’داستان گو‘‘ کا سلسلہ چلا پھر اسے بند کرنا پڑا۔ اشفاق احمد ریڈیو پر اسکرین رائٹر تھے، وہ دونوں ریڈیو کے لیے ڈرامے لکھتے تھے۔ ’’تلقین شاہ‘‘ 1962ء سے جاری ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ اشفاق احمد ایوب خان کے ہاتھوں تازہ تازہ سرکاری ہونے والے ایک جریدے ’’لیل و نہار‘‘ کے ایڈیٹر بن گئے تھے۔
 ٹیلی ویژن نیا نیا ملک میں آیا تو اس کے لیے اشفاق احمد اور بانو قدسیہ مسلسل لکھنے لگے۔ اشفاق احمد کی کوئی سیریز ختم ہوتی تو بانو قدسیہ کی سیریل شروع ہوجاتی تھی۔ ٹی وی کے پہلے ایم ڈی اسلم اظہر نے اشفاق احمد کو ٹی وی کا سب سے پہلا پروگرام پیش کرنے کی دعوت دی۔ اس پروگرام میں انھوں نے ٹیلی ویژن کو متعارف کرایا تھا۔ اشفاق احمد ٹی وی کے پہلے اناؤنسر تھے، ان کا ریڈیو پر بہت وسیع تجربہ تھا۔ یہاں ایک اطالوی فلم بنی تھی، اس کے بھی اشفاق احمد مترجم تھے، ٹی وی پر سب سے پہلا ڈراما ’’تقریب امتحان‘‘ ان ہی کا ہوا تھا۔
 ریڈیو اور ٹی وی پر بانو قدسیہ اور اشفاق احمد نصف صدی سے زائد عرصے تک حرف و صورت کے اپنے رنگ دکھاتے رہے۔ ٹی وی پر بانو قدسیہ کی پہلی ڈراما سیریل ’’سدھراں‘‘ تھی جب کہ اشفاق احمد کی پہلی سیریز ’’ٹاہلی تھلے‘‘ تھی۔ بانو قدسیہ کا پنجابی میں لکھنے کا تجربہ ریڈیو کے زمانے میں ہی ہوا۔ ریڈیو پر انھوں نے 1965 تک لکھا، پھر ٹی وی نے انھیں بے حد مصروف کردیا۔ بانو قدسیہ نے ٹی وی کے لیے کئی سیریل اور طویل ڈرامے تحریر کیے جن میں ’دھوپ جلی‘، ’خانہ بدوش‘، ’کلو‘ اور ’پیا نام کا دیا‘ جیسے ڈرامے شامل ہیں۔ اس رائٹر جوڑے کے لکھے ہوئے ان گنت افسانوں، ڈراموں، ٹی وی سیریل اور سیریز کی مشترقہ کاوش سے ان کا گھر تعمیر ہوا۔
 لاہور کے جنوب میں واقع قیامِ پاکستان سے قبل کی ماڈرن بستی ماڈل ٹاؤن کے ’’داستان سرائے‘‘ میں اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کی یادیں بکھری ہوئی ہیں، ان دونوں کا تخلیقی سفر جیسے جیسے طے ہوتا گیا ’’داستان سرائے‘‘ کے نقوش اُبھرتے گئے۔ آج ’’داستان سرائے‘‘ ان دونوں کی شب و روز محنت کا امین ہے۔ بقول بانو قدسیہ کے ’’شادی کے بعد مفلسی نے ہم دونوں میاں بیوی کو لکھنا پڑھنا سکھادیا تھا‘‘۔ اشفاق احمد نے ایک فلم ’’دھوپ سائے‘‘ بھی بنائی تھی جو باکس آفس پر فلاپ ہوگئی تھی اور ایک ہفتے بعد سینما سے اُتر گئی تھی۔ ’’دھوپ سائے‘‘ کی کہانی بانو قدسیہ نے لکھی تھی، ڈائریکشن کے علاوہ اس فلم کا اسکرین پلے اشفاق احمد نے لکھا تھا۔ بانو قدسیہ نے افسانوں، ناولز، ٹی وی و ریڈیو ڈراموں سمیت نثر کی ہر صنف میں قسمت آزمائی کی۔ 1981 میں شایع ہونے والا ناول ’’راجہ گدھ‘‘ بانو قدسیہ کی حقیقی شناخت بنا۔ موضوع کے لحاظ سے یہ ناول درحقیقت ہمارے معاشرے کے مسائل کا ایک ایسا تجزیہ ہے جو اسلامی روایت کے عین مطابق ہے اور وہ لوگ جو زندگی، موت اور دیوانگی کے حوالے سے تشکیلی مراحل میں گزر رہے ہیں، بالخصوص ہمارا نوجوان طبقہ، ان کے لیے یہ ایک گراں قدر حیثیت کا حامل ناول ہے۔
 یہ ناول مڈل کلاس کی جواں نسل کے لیے محض اسی لیے دلچسپی کا باعث نہیں ہے کہ ناول کے بنیادی کردار یونیورسٹی کی کلاس میں ایک دوسرے سے آشنا ہوتے ہیں بلکہ اس لیے کشش کا باعث ہے کہ بانو قدسیہ نے جذبات اور اقدار کے بحران کو اپنے ناول کا موضوع بنایا ہے اور اسلامی اخلاقیات سے عدم وابستگی کو اس انتشار کا سبب اور مراجعت کو ’’طریقہ نجات‘‘ بتایا ہے۔ راجہ گدھ کا مطالعہ کرنے والے خوب جانتے ہیں کہ یہ کتنا اچھا ناول ہے۔ راجہ گدھ کے 14 سے زائد ایڈیشن شایع ہوچکے ہیں۔
بانو قدسیہ نے 277 کے قریب ناول، کہانیاں اور ڈرامے لکھے، راجہ گدھ کے علاوہ بازگشت، امربیل، دوسرا دروازہ، تمثیل، حاصل گھاٹ اور توجہ کی طالب، قابلِ ذکر ہیں۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے انھیں 2003 میں ’’ستارۂ امتیاز‘‘ اور 2010 میں ’’ہلالِ امتیاز‘‘ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ ٹی وی ڈراموں پر بھی انھوں نے کئی ایوارڈز اپنے نام کیے اور اب انھیں کمال فن ایوارڈ سے نوازا جارہا ہے۔

نیند

نیند ہمارے لیے بہت ضروری ہے کیونکہ اول یہ تھکے ہوئے جسم کو سکون دیتی ہے اور جسمانی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کرتی ہے لیکن دو نئے تجربات کہتے ہیں کہ نیند گئے دنوں کی فالتو معلومات کا صاف کرکے اس میں نئی یادوں اور معلومات کی جگہ بناتی ہے۔
ان میں سے ایک تحقیق پر 13 سال کا عرصہ لگا ہے جو یونیورسٹی آف وسکانسن کے سائنسدانوں نے کیا ہے۔ ماہرین کے مطابق سوتے ہوئے چوہوں پر کیے گئے تجربے کے دوران ان کے دماغی خلیات کے درمیان رابطوں (سائنیپسس) کے درمیان سکڑاؤ کو نوٹ کیا تو وہ بیداری کے مقابلے میں 18 فیصد بھنچے ہوئے ملے جب کہ دن کے معمولات میں یہ رابطے بڑھتے رہتے ہیں اور نیند میں سکڑ جاتے ہیں۔
رات گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے دماغ میں موجود روابط 18 گھنٹے کے مناظر، واقعات اور تجربات سے لبریز ہوجاتے ہیں اور نیند ان رابطوں کو کمزور کرکے دماغ کی جھاڑو کا کام کرتے ہوئے ذہن کو خالی سلیٹ کی طرح کردیتی ہے۔
دوسرے تحقیقی مقالے میں اس کی وجہ بتائی گئی ہے کہ نیند کے وقت چوہوں کے سائنیپسس ہومرون اے پروٹین جذب کرتے ہیں جو ان روابط کو کمزور کرتا ہے اور ان کے ذہن میں فالتو معلومات کو صاف اور محو کرتا ہے۔
اس کے بعد 19 سے 25 سال کے 20 طالب علموں پر ایک تحقیق کی گئی جس دوران انہیں آرام سے 7 گھنٹے سونے دیا گیا۔ اس کے بعد اگلے روز ان سے گیمز کھلائے گئے اور کھانے پکوائے گئے لیکن انہیں 24 گھنٹے مسلسل جگایا گیا۔
اس کے بعد جاگے ہوئے شرکا پر مختلف تجربات کیے گئے تو پتہ چلا کہ ان کے خلیاتی روابط سخت، مضبوط اور معلومات سے لبریز ہیں جب کہ نیند میں ان کے خلیاتی رابطے پرسکون اور سکڑے ہوئے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایک دن کی نیند نہ لینا بھی انسانی دماغ پر منفی اثرات ڈالتی ہیں اور وہ نئی باتیں سیکھنے کے قابل نہیں رہتا۔
روزنامہ ایکسپرس