جمعرات، 30 مارچ، 2017

محمدی ﷺ طریقہ (سوشل میڈیا کا حل)

دنیا میں بات منوانے کے دو طریقے ہیں‘ پہلا فرعونی ہے اور دوسرا محمدیؐ‘ ہمیں سوشل میڈیا کے سلسلے میں ان دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔
ہم سب سے پہلے فرعونی طریقے کی طرف آتے ہیں‘ فرعون کو نجومیوں نے بتایا‘ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہو گا‘ یہ لڑکا تمہاری سلطنت کو تباہ کر دے گا اور تمہاری جان لے لے گا‘ فرعون نے اس پیش گوئی کے بعد بنی اسرائیل کے تمام نومولودوں کو قتل کرنے کا حکم دے دیا‘ فرعون کے اہلکار برسوں اس حکم کی بجاآوری کرتے رہے‘یہ حکم اور یہ بجاآوری بعد ازاں فرعونی طریقہ بنی‘ دنیا میں یہ طریقہ پانچ ہزار سال سے رائج ہے‘ دنیا کا ہر فرعون سوئی کی تلاش کے لیے بھوسے کے سارے ذخیرے کو آگ لگا دیتا ہے‘ یہ چوہے مارنے کے لیے پورے شہر کو جلا کر راکھ کر دیتا ہے‘ یہ جویں ختم کرنے کے لیے پورے قبیلے کی ٹنڈیں کرا دیتا ہے۔
عراق اور افغانستان اس فرعونی طریقے کی تازہ ترین مثالیں ہیں‘ جارج بش کو خبر دی گئی صدام حسین نے کیمیائی ہتھیار جمع کر رکھے ہیں‘ بش نے عراق پر کارپٹنگ بمباری شروع کرا دی‘ پورا عراق تباہ ہو گیا‘ آخر میں کیمیائی ہتھیاروں کی اطلاع غلط ثابت ہوئی‘ اسی طرح بش کو بتایا گیا افغانستان دہشت گردی کا ’’ایپی سینٹر‘‘ ہے‘ بش نے پوری طاقت کے ساتھ افغانستان پر چڑھائی کر دی‘ دس لاکھ افغان مارے گئے‘ طالبان اور القاعدہ کے لوگ پوری دنیا میں پھیل گئے‘ یورپ میں بھی بم دھماکے اور خودکش حملے ہونے لگے‘ اس وقت پتہ چلا مسئلے کا باپ افغانستان نہیں امریکا تھا چنانچہ امریکا نے افغانوں کی بحالی اور اپنی سوچ میں تبدیلی شروع کر دی‘ یہ لوگ اب طالبان اور القاعدہ دونوں کے ساتھ گفت و شنید کر رہے ہیں۔
یہ فرعونی طریقے کی تازہ ترین مثال ہیں‘ فرعونی طریقے میں سر پہلے اتارا جاتا ہے اور جرم کا تعین بعد میں کیا جاتا ہے‘ ہم اب محمدیؐ طریقے کی طرف آتے ہیں‘ ہمارے رسولؐ نے ہمیشہ تین طریقوں سے اپنی بات منوائی‘ گفتگو (تبلیغ)‘ معاہدہ اور جنگ‘ آپؐ نے اپنی حیات کا بڑا حصہ تبلیغ میں صرف کیا‘ دوتہائی صحابہؓ نے تبلیغ کے ذریعے اسلام قبول کیا ‘ آپؐ نے یہودیوں‘ کافروں اور عیسائیوں کے ساتھ معاہدے بھی کیے اور آپؐ نے آخر میں وعدہ خلافی کرنے والوں‘ معاہدہ توڑنے والوں اور توہین کرنے والوں کے خلاف تلوار بھی اٹھائی لیکن یہ مرحلہ ہمیشہ معاہدے اور گفت وشنید کے بعد آیا۔
ہم اب سوشل میڈیا کی طرف آتے ہیںسوشل میڈیا پہئے اور بجلی کی ایجاد کے بعد دنیا کا سب سے بڑا انقلاب ہے‘ دنیا 2010ء سے قبل چھ براعظموں اور 245 ملکوں میں تقسیم تھی‘ یہ ملک سرحدوں‘ نسلوں‘ زبانوں اور ثقافتوں میں منقسم تھے‘ سوشل میڈیا ایجاد ہوا‘ فیس بک‘ ٹویٹر‘ واٹس ایپ اور وائبر آیا اور اس نے 245 ملکوں کے درمیان موجود سرحدیں گرا دیں‘ اس نے ثقافت‘ زبان اور نسل کی تفریق مٹا دی اور دنیا حقیقی معنوں میں ایک عالمی گاؤں بن  گئی‘ آج الاسکا کی آخری چٹان پر بیٹھا مچھیرا نیوزی لینڈ کے آخری کونے میں موجود کسان کے ساتھ رابطے میں ہے‘ گوگل اور یوٹیوب یونیورسٹیاں بن چکی ہیں‘ آپ یوٹیوب کے ذریعے کیل ٹھونکنے سے جہاز بنانے تک دنیا جہاں کا علم حاصل کر سکتے ہیں۔
آپ امام کعبہ کو پیغام بھجوا سکتے ہیں اور آپ ان کا جواب بھی وصول کر سکتے ہیں‘ آپ کے موبائل میں یقینا وہ ’’ایپ‘‘ موجود ہو گی آپ جس کے ذریعے دنیا کے  20 نامور قاری حضرات کی تلاوت سن سکتے ہیں‘ آپ کے پاس وہ ’’ایپ‘‘ بھی ہو گی جس کے ذریعے آپ دنیا کے کسی بھی خطے کا کوئی بھی ریڈیو اپنے موبائل فون پر ’’پلے‘‘ کر سکتے ہیں اور آپ کے پاس وہ ایپ بھی ہو گی جس کے ذریعے آپ خود کو تندرست اور توانا رکھ سکتے ہیں‘ یہ ایپ آپ کو بتاتی ہے آپ کو کیا کھانا چاہیے‘ کب کھانا چاہیے اور آپ کو کس وقت اٹھ کر چہل قدمی کرنی چاہیے‘ اسی طرح کورا (Quora) نام کی ایک ایپ آپ کے ہر سوال کا جواب دیتی ہے‘ آپ سوال لکھیں اور دنیا جہاں کے ماہرین آپ کو جواب دینا شروع کر دیں گے۔
سوشل میڈیا صرف یہاں تک محدود نہیں بلکہ یہ اخبارات‘ ٹیلی ویژن‘ کتاب اور ٹیلی فون کو بھی ’’ہائی جیک‘‘ کر چکا ہے ‘ یہ دنیا کا بہت بڑا سورس آف انکم بھی بن چکا ہے‘ دنیا کی 35 فیصد دولت اس وقت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جیب میں ہے اور اس کا بڑا حصہ سوشل میڈیا کے پاس ہے‘ سوشل میڈیا اب میوزک البم بھی ہے ‘ فلموں کا آرکائیو بھی اور تاریخ کا حوالہ بھی‘ میں اب گوگل پر کسی شخص کا نام ٹائپ کرتا ہوں اور وہ شخص‘ اس کا پروفائل اور اس کا کام چند سیکنڈ میں میرے سامنے آ جاتا ہے‘ یہ ساری سہولتیں 2010ء تک دستیاب نہیں تھیں لہٰذا اس کا تمام تر کریڈٹ سوشل میڈیا کو جاتا ہے۔
دنیا کی ہر چیز کے اچھے پہلو بھی ہوتے ہیں اور برے بھی‘ سوشل میڈیا میں بھی درجن بھر خرابیاں موجود ہیں‘ ان خرابیوں میں سب سے بڑی خرابی سنسر شپ کی کمی ہے‘ آپ سوشل میڈیا  کے کسی بھی پیج پر کوئی بھی مواد چڑھا سکتے ہیں‘ دنیا کا کوئی شخص آپ کو روک نہیں سکے گا‘ یہ خرابی خوفناک ہے اور اسلامی دنیا اس وقت اس خرابی کا سب سے بڑا ہدف ہے‘ دنیا کے چند منافق مسلمان‘ چند عاقبت نا اندیش پاکستانی‘ چند شرپسند غیر مسلم اور چند ننگ افلاس قادیانی اس خرابی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں‘ یہ سوشل میڈیا پر روزانہ ایسا گستاخانہ مواد چڑھا دیتے ہیں جو ہم مسلمانوں کے لیے ناقابل برداشت ہے‘ پاکستان میں ایسے 70 گستاخ ہیں‘ ایف آئی اے نے 11 لوگوں کا ایک ایسا گروپ بھی پکڑا جومسلسل یہ مکروہ حرکت کر رہا تھا‘ یہ لوگ پاکستان سمیت پوری اسلامی دنیا میں انتشار پھیلا رہے ہیں‘ یہ لوگ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔
اس کی تین وجوہات ہیں‘ سوشل میڈیا ٹیلی کام انڈسٹری کو خوفناک نقصان پہنچارہا ہے‘ ان میں سے چند لوگ موبائل فون کمپنیوں کے ایجنٹ ہیں‘ یہ ایجنٹ سوشل میڈیا پر پابندی لگوانا چاہتے ہیں تاکہ ملک میں فیس بک‘ واٹس ایپ اور وائبر سمیت رابطوں کی تمام ویب سائیٹس بند ہوجائیں‘دوسرا‘یہ لوگ پاکستان کے امیج کو بھی نقصان پہنچانا چاہتے ہیں‘ یہ پیجز یورپ سے چل رہے ہیں اور انھیں بھارتی کمپنیوں کی ٹیکنیکل سپورٹ حاصل ہے‘ یہ لوگ سوشل میڈیا کو بند کرا کر پاکستان کو مزید بدنام کرنا چاہتے ہیں‘آپ کو یاد ہوگا ہم نے ستمبر2012ء میں یوٹیوب بند کر دی تھی‘ ہمارے اس فیصلے نے ہمارے بین الاقوامی امیج کو ٹھیک ٹھاک زک پہنچائی تھی‘ یہ لوگ ہم سے دوبارہ یہ غلطی کرانا چاہتے ہیں اور تین یہ لوگ ملک میں مذہبی انتشار پھیلانا چاہتے ہیں‘ یہ لوگوں کے ذریعے لوگوں کو قتل کرانا چاہتے ہیں تاکہ ملک میں فرقہ واریت بڑھ جائے ۔
ہمارے پاس اب دو آپشن ہیں‘ ہم فرعونی طریقہ استعمال کریں‘ ہم ملک میں سوشل میڈیا پر پابندی لگا دیں ‘ ہم فیس بک بند کر دیں‘میرا سوال ہے کیا اس فیصلے سے گستاخی بند ہو جائے گی؟ جی نہیں‘ یہ پیج بھی بدستور فیس بک پر موجود رہیں گے اور یہ لوگ بھی نئے طریقوں سے بار بارحملے کرتے رہیں گے‘کیوں؟کیونکہ سوشل میڈیا انٹرنیٹ کی اولاد ہے اور دنیا میں جب تک انٹرنیٹ موجود ہے‘ یہ بدبخت لوگ یہ مکروہ حرکت کرتے رہیں گے‘ کیا ہم سوشل میڈیا کے بعد انٹرنیٹ بھی بند کر دیں گے اور اگر انٹرنیٹ کی بندش سے بھی مسئلہ حل نہ ہوا تو کیا ہم بجلی بھی بند کر دیں گے‘ جی نہیں‘ یہ ممکن نہیں ہے لہٰذا ہم سوشل میڈیا کے سلسلے میں فرعونی طریقہ استعمال نہیں کر سکتے‘ ہمارے پاس اب دوسرا طریقہ بچتا ہے۔
ہم محمدیؐ طریقے کے مطابق گفت و شنید کریں‘ہم معاہدہ کریں اور یہ لوگ اگر معاہدہ توڑیں تو پھر پوری مسلم امہ طاقت استعمال کرے‘ میرا مشورہ ہے پاکستان کو گستاخانہ خاکوں اور غلیظ مواد پر او آئی سی کا اجلاس بلانا چاہیے‘ پاکستان سعودی عرب میں مسلم امہ کے آئی ٹی کے وزراء کو اکٹھا کرے‘ ایک اسلامی معاہدہ تخلیق کرے‘ پوری مسلم امہ اس معاہدے پر دستخط کرے اور یہ معاہدہ بعد ازاں گوگل‘ فیس بک اور ایپل کے سامنے رکھ دیا جائے‘ ان کو پابند کیا جائے یہ اپنا پلیٹ فارم مسلمانوں کی مقدس ہستیوں‘ احادیث اور قرآن مجید کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے‘ یہ ان کمپنیوں سے معاہدے پر عمل کی ضمانت بھی لیں اور او آئی سی میں ایک سوشل میڈیا شکایت سیل بھی بنائیں تاکہ مستقبل میں امہ کے لوگ اس سیل میں شکایت درج کرائیں اور یہ سیل فوری طور پر متنازعہ پیجز اور مواد ’’ری موو‘‘ کرائے‘ یہ کمپنیاں اگر یہ شرائط نہ مانیں تو پوری اسلامی دنیا مل کر سوشل میڈیا کا بائیکاٹ کر دے‘ مجھے یقین ہے یہ کمپنیاں یہ دباؤ برداشت نہیں کر سکیں گی‘ مسلمان دنیا کا تیس فیصد ہیں۔
دنیا کی کوئی کمپنی تیس فیصد گاہکوں کو ناراض کرنے کا رسک نہیں لے سکتی‘ ہمیں ان کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھانا چاہیے‘ یہ پوری امہ کا ایشو ہے‘ آپ اس ایشو پر پوری امہ کو اکٹھا کریں‘آپ یقین کریں یہ مسئلہ چند دنوں میں مستقل طور پر حل ہو جائے گا ورنہ دوسری صورت میں ہم فیس بک پر پابندی لگائیں گے‘ پوری دنیا میں مذاق بنیں گے اور آخر میں یوٹیوب کی طرح یہ پابندی اٹھانے پر مجبور ہو جائیں گے‘ مومن کے بارے میں فرمایا گیا‘ یہ ایک سوراخ سے دوسری بار نہیں ڈسا جاتا‘ فیس بک یوٹیوب کے بعد دوسرا سوراخ ہے‘ ہمیں اس سوراخ میں انگلی نہیں دینی چاہیے‘ ہم یہاں بھی ڈسے جائیں گے چنانچہ ہمیں یہ ایشو ختم کرنے کے لیے محمدیؐ طریقہ استعمال کرنا چاہیے۔
جاوید چودھری


منگل، 28 مارچ، 2017

پرسکون اور خوش و خرم زندگی گزانے کے سنہری اصول

زمانے کی سختیاں

  • غم انسان میں عظمت پیدا کرتے ہیں
  • غلطیاں انسان کو عقلمند بناتی ہیں
  • حالات انسان کو نڈر بنا دیتے ہیں
  • اور نقصان احتیاط سکھاتے ہیں
لہذا مصائب سے نہ گھبرائیے کیوںکہ پتھر ٹھوکریں کھا کھا کر ہی گول ہوتے ہیں، سونا آگ کی بھٹی سے کندن بن کر نکلتا ہے اور دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے۔

صبر اور مشکلات کا سامنا

جب تک انسان کھوئی ہوئی چیز کو واپس پانے کی خواہش نہیں مارتا، تب تک وہ صبر اور سکون جیسی عظیم دولت سے مستفید نہیں ہوسکتا۔
کھوئی ہوئی چیز کو واپس پانے کی خواہش جب تک زندہ رہتی ہے، انسان ماضی کی بھول بھلیوں میں بھٹکتا رہتا ہے جہاں سے اُسے مستقبل کی تابناکیاں نظر نہیں آتیں اور وہ وہیں گھٹ گھٹ کر مرتا رہتا ہے کہ مجھے وہی چیز واپس مل جائے جو چھن چکی ہے۔
پھر کوئی مہربان ہونا چاہیئے جو اُسے ماضی کی پیچیدہ اور نہ سمجھ آنے والی بھول بھلیوں سے گھسیٹ کر باہر نکالے اور آنکھوں کو خیرہ کردینے والے روشن مستقبل سے متعارف کروائے۔
ایسا مہربان ہر کسی کو میسر نہیں ہوتا، لہذا اکثر انسان اِس شمع کی طرح غموں سے گھلتے رہتے ہیں جو کسی گہرے کنویں میں گمنام جلتی رہتی ہے اور کوئی اُس کی روشنی سے مستفید بھی نہیں ہوسکتا۔ اُس کا جلنا، گھلنا، مِٹنا، تڑپنا، سسکنا رائیگاں جاتا ہے۔ یہ اللہ کو بھی پسند نہیں لہذا زندگی میں ہمیشہ آگے دیکھنا چاہیئے۔

شُکرانِ نعمت اور تقدیر

  • جو پاس ہے اُس کی قدر کریں
  • جو چھن گیا وہ آپ کا تھا ہی نہیں
  • آپ کا ہوتا تو آپ کے پاس ہی ہوتا
  • جو آپ کا تھا ہی نہیں اُس کے جانے کا کیا غم؟
  • البتہ جو واقعی آپ کا ہے وہ ابھی آپ کے پاس ہے
  • لہذا جو آپ کے پاس ہے اُس کی قدر کریں

 حصولِ اطمینان کا فلسفہ

  • غم اور ناکامی پر حد سے زیادہ نہ چیخو
  • خوشی اور کامیابی پر حد سے زیادہ نہ پھیلو
  • یہ چاروں عارضی اور مِٹ جانے والی ہیں
  • جب غم اور خوشی، کامیابی و ناکامی کا تم پر ایک جیسا اثر ہونے لگے تو سمجھ لو دنیا کی حقیقت کو پالیا۔
  • اِس حالت میں انسان اللہ کے قریب اور توکل کے اعلیٰ درجے پر فائز ہوکر مطمئن ہوجاتا ہے، ورنہ دنیا دار تاحیات اطمینان کیلئے دیوانہ وار بھٹکتے ہی رہتے ہیں۔

 اختلافی مسائل کا حل

  • ایک ہاتھ میں ماچس کی ڈبیا اور دوسرے ہاتھ میں پیٹرول کی بوتل پکڑ کر آگ بجھانے نہ نکلیں۔
  • اختلافات ہمیشہ نرم خوئی سے حل ہوتے ہیں۔
  • یاد رکھیں، ٹھوس موقف بداخلاقی اور سخت لہجے کا محتاج نہیں ہوتا۔
  • جہاں دلیل کی قدر نہ ہو، وہاں سے اُٹھ آئیں کہ متعصب لوگ کبھی قائل نہیں ہوا کرتے بلکہ ٹھوکر اُن کا مقدر ہوتی ہے۔
  • انہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیجیئے۔

 دنیاوی غموں کی بے ثباتی

  • زندگی کو موت سے بدتر وہ لوگ سمجھتے ہیں جو موت کے بارے میں کچھ نہیں جانتے،
  • قبرستان جاکر خستہ حال قبروں میں پڑے بے جان مردوں پر غور کیجیئے کہ اُن کو زندگی میں جو غم لاحق تھے آج اُن غموں کی اُن کے نزدیک کیا حیثیت ہے؟
  • آپ کی نظر میں آپ کے اپنے غم بے وقعت ہوجائیں گے۔
  • یاد رکھیے، زندگی ایک نعمت ہے،
  • یہ موت سے بدتر نہیں۔ اُسے بلند حوصلے سے گزاریں۔

 تسخیر انسان کی حقیقت

  • انسانی قلب، ذہن اور جسم تینوں کو مسخر کرنے کے الگ الگ طریقے ہیں۔
  • جسم کو مسخر کرنے کیلئے قید کرنا پڑتا ہے جس کیلئے اختیار چاہیئے،
  • ذہن کو مسخر کرنے کے لئے وزنی دلائل، قوتِ بیاں اور علم کا دریا چاہیئے،
  • جبکہ قلب کو مسخر کرنے کے لئے محض ایک مسکراہٹ درکار ہوتی ہے جو ایک اَن پڑھ اور بے حیثیت انسان بھی دے سکتا ہے۔
  • تسخیر قلب ہی دراصل تسخیر انسان ہے اور ہر صاحب علم و اختیار ہر دلعزیز نہیں ہوتا۔

 غلطی اور معافی

قوانین فطرت سے نہ ٹکرائیں اور اِس حقیقت کو تسلیم کرلیں کہ دانستہ و نادانستہ خطا کرنا انسان کی سرشت میں شامل ہے۔ اِس کے بعد آپ یہ کبھی نہیں کہیں گے کہ ’’میں تو غلط ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘ ہمیشہ کڑی خود احتسابی کے بعد اپنی غلطی کو سرِعام تسلیم کریں، اُس کا ازالہ کریں اور اپنی اصلاح کرکے آگے بڑھ جائیں۔ یہی تجربہ کار ہونے کا واحد راستہ ہے۔ یاد رکھیں، اعتراف اصلاح نفس کی پہلی شرط ہے۔

توکل اور خلوص نیت

اگر آپ خالق سے اچھے تعلقات رکھتے ہیں، مخلوق کے ساتھ احسان کے ساتھ پیش آتے ہیں اور اُس کا صلہ مخلوق کے بجائے خالق سے چاہتے ییں تو یقین رکھیئے، آپ مصیبت میں تنہا نہیں ہوں گے، مشکل وقت میں خالق مخلوق کو آپ کی خدمت پر مامور کردے گا۔ اِسی یقین کا نام توکل ہے جو انسان کو مخلوق سے بے نیاز کردیتا ہے۔

حُسن اور احساسِ کمتری

قدرت کے عطا کردہ حُسن کی دیکھ بھال نعمت کی قدردانی ہے مگر اِس حُسن پر قناعت نہ کرنا اور خدوخال میں من پسند تبدیلی کی بے لگام خواہش ہونا احساس کمتری ہے۔ کسی کی پسند بننے کے لئے خود کو کمتر سمجھتے ہوئے اپنا آپ یکسر بدلنے کی کوشش نہ کریں بلکہ اِس قدردان کی تلاش کیجیئے جو آپ کو ایسے ہی پسند کرلے جیسے آپ ہیں۔

حاسد اور حسد

نعمتوں کی غیر مساوی تقسیم قدرت کا اٹل قانون ہے جس کے پیچھے بے شمار حکمتیں پنہاں ہیں۔ حاسد قدرت کی حکیمانہ تقسیم پر معترض ہوکر اُسے چیلنج کرتا ہے اور اُسے بدلنے کی کوشش کرتا ہے۔ آپ قدرت سے نہیں لڑسکتے لہذا جو پاس ہے اُس پر خوش رہیں، مزید کیلئے کوشش کریں، اور جو دوسروں کے پاس ہے دل بڑا کرکے اس میں اضافے کی دعا کریں۔
  • دنیا صرف آپ کی نہیں یہ سب کی ہے۔
  • سورج نکلتا ہے تو سب پر چمکتا ہے،
  • بارش برسے تو سب کو سیراب کرتی ہے،
  • زلزلے آئیں تو مسجد، مندر، کلیسا، سب کو گرا دیتے ہیں،
  • ہوائیں ہر جاندار کو تنفس فراہم کرتی ہیں،
  • قدرت کسی کو محروم نہیں کرتی،
  • قدرت پر بھروسہ کیجئے،
  • آپ دنیا میں لاوارث نہیں۔
بلاگر نعمان اکمل
روزنامہ ایکسپرس





پیر، 27 مارچ، 2017

کینسر کے خلاف انوکھی لڑائی (Motivational Story)

انسان کو معلوم ہوجائے کہ وہ فلاں دن  مرجائے گا تو اس کی حالت کیا ہوگی، سوچنے سے بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ وہ سارا عرصہ روتے، چیختے چلاتے ہی گزارے گا۔ ہوسکتاہے کہ اس دوران اس کی حرکت قلب ہی بند ہوجائے۔ تاہم آیہ عبدالرحمن کے ساتھ ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ اس کے جسم میں مختلف مہلک گلٹیاں تھیں۔
ڈاکٹرز نے آیہ کی والدہ سے کہا:’’ آپ کی بیٹی زیادہ سے زیادہ دومہینے جی سکے گی، آپ کچھ نہیں کرسکیں گی۔ اس لئے گھر چلی جائیں۔‘‘ ماں بھی بیٹی کے چھن جانے کے خوف میں بہت روئی ہوگی تاہم آیہ مسکرا رہی تھی، اس کے آنکھوں میں وہ خواب چمک رہے تھے جو اس نے بچپن ہی سے دیکھ رکھے تھے۔ وہ  آرٹسٹ بننا چاہتی تھی اور اپنے فن کے ذریعے دنیا میں اپنا نشان ثبت کرنا چاہتی تھی۔
چنانچہ آیہ نے غزہ کی پٹی میں ہر موقع سے فائدہ اٹھایا، ہر جگہ اپنے فن پاروں کی نمائش کی، ان فن پاروں کو لے کر  لاس اینجلس سے مراکش تک کے سفر بھی کئے۔ وہ آرٹ مقابلوں میں بھی حصہ لیتی ، غزہ کے مریض اور معذور بچوں  کے ساتھ کام کرتی جو اپنے جذبات کا اظہار فن پاروں کے ذریعے کرتے تھے، آیہ عبدالرحمٰن نوجوانوں کو ڈرامہ اور اداکاری کی تربیت بھی دیتی۔
زندگی اور موت تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، موت کی ایک ساعت مقرر ہے،  اسی وقت آتی ہے۔  فلسطینی لڑکی نے ڈاکٹروں کی بات ایک کان سے سنی اور دوسری سے نکال دی۔ بڑے خواب روح میں ایسا جادو پیدا کرتے ہیں جو زندگی میں ہلچل مچاتا ہے اور وہ عظمت سے سرفراز ہوتی ہے۔
آیہ عبدالرحمن کے خواب بھی بڑے تھے، انھوں نے اس پر سحر طاری کررکھاتھا۔ ڈاکٹروں کی سنائی ہوئی دردناک خبر  اِس  نوجوان لڑکی کو اپنے خوابوں کا پیچھا کرنے سے نہ روک سکی۔  اور پھر ایک دن وہ ڈاکٹرز اپنا سا منہ لے کر رہ گئے جب تین سال تک مسلسل آپریشنز سے گزر کر غزہ کی مشہور آرٹسٹ سن 2015ء میں صحت یاب ہوگئی۔
آیہ نے غزہ میں TEDx کے ایک اجتماع میں اپنی بیماری سے صحت یابی تک کی ساری کہانی بیان کی۔ وہ کہہ رہی تھی :’’ لوگوں کی زندگی میں خوشیاں بکھیرنا ہی میرے لئے سب سے اہم ہے۔‘‘ اس نے بتایا کہ جس روز ڈاکٹروں نے اسے صحت یاب ہونے کی خوش خبری سنائی،  وہ اس کی زندگی کا بہترین دن تھا۔’’میں لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھناچاہتی ہوں اور میرے فن پارے اس مقصد کے حصول میں میری مدد کرتے ہیں‘‘۔
روزنامہ ایکسپرس

ذہین اور پرکشش نظر آنے کے سات طریقے

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ دوسروں کے سامنے سمجھدار اور ذہین نظر آنا چاہتے ہیں تو درج ذیل تدابیر پرعمل آپ کے لیے بے حد مفید ہوگا۔
آسان گفتگو:
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ آپ اپنی گفتگو اور تحریر میں جتنے زیادہ عالمانہ، مشکل اور پیچیدہ الفاظ استعمال کریں گے، لوگ آپ کو اتنا ہی زیادہ قابل اور لائق سمجھیں گے۔ لیکن یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، لاس اینجلس میں کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ان لوگوں کو زیادہ ذہین، سمجھدار اور قابل سمجھا جاتا ہے جو آسان اور رواں زبان میں بولتے اور لکھتے ہیں۔ یعنی اگر آپ دوسروں کے سامنے بہتر نظر آنا چاہتے ہیں تو کوشش کیجیے کہ اعتماد کے ساتھ آسان الفاظ استعمال کریں جب کہ مشکل الفاظ صرف اسی وقت آپ کی بات چیت یا تحریر میں آنے چاہئیں جب انہیں استعمال کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ رہے۔

چشمہ لگائیے:

وہ زمانے گئے جب چشمہ لگانا غلط سمجھا جاتا تھا۔ برطانیہ میں ’’کالج آف آپٹومیٹرکس‘‘ کے ماہرین نے ایک سروے کے بعد بتایا ہے کہ 43 فیصد لوگوں نے چشمہ لگانے کو ذہانت کی علامت قرار دیا جب کہ کونٹیکٹ لینس پہننے والے کے ذہین ہونے کا تاثر40 فیصد رہا۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ اگر آپ چشمہ لگاتے ہیں تو دوسروں کی پہلی نظر میں آپ پڑھے لکھے اور سمجھدار ہوں گے۔

مذاق مستی، لطیفے بازی:

لڑکے اور آدمی اگر لڑکیوں اور خواتین کو متاثر کرنا چاہتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ ہمیشہ ہلکے پھلکے اور خوشگوار موڈ میں نظر آئیں اور اگر ہوسکے تو وقفے وقفے سے لطیفے اور چٹکلے بھی چھوڑتے رہیں۔ ریسرچ جرنل ’’سائیکلوجیکل رپورٹس‘‘ میں شائع ہونے والے ایک مطالعے کے مطابق موقع کی مناسبت سے لطیفہ سنانے اور سب کو ہنستے ہنساتے رکھنے کے لیے بھی ذہانت کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ خواتین بھی ایسے ہی مردوں کو زیادہ پسند کرتی ہیں جو بلاوجہ سنجیدہ نہ رہتے ہوں بلکہ خوش رکھنے اور خوش رہنے کے عادی ہوں۔ البتہ اتنا خیال رکھیے کہ آپ کے سنائے ہوئے لطیفے تہذیب کے دائرے میں ہوں ورنہ یہ لطیفے بازی آپ کے لیے بدنامی کی وجہ بھی بن سکتی ہے۔

جاندار مسکراہٹ:

جرنل آف نان وربل بیہیویئر” میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق جب کوئی شخص ’’صحیح معنوں میں‘‘ مسکراتا ہے تو وہ صرف اپنے ہونٹوں اور آنکھوں ہی سے نہیں مسکراتا بلکہ اس کی آنکھوں کے گرد خاص طرح کی شکنیں بھی نمودار ہوتی ہیں جنہیں دیکھ کر دوسروں کو پتا چل جاتا ہے کہ وہ زبردستی مسکرانے کی کوشش نہیں کررہا بلکہ اس کی مسکراہٹ سچی ہے اور وہ واقعتاً خوش ہے۔ چونکہ خوش دکھائی دینے والے لوگ پسندیدہ بھی ہوتے ہیں اس لیے ابھی سے اپنی مسکراہٹ کو جاندار بنانے کی کوششیں شروع کریں۔

مطالعے کی عادت ڈالیں:

اگر آپ مسلسل مطالعہ کرتے رہیں گے تو نت نئے واقعات اور معلومات سے واقف ہوتے رہیں گے جب کہ کلاسیکی لٹریچر کا مطالعہ آپ کو صاحبِ ذوق بھی بنائے گا۔ یہ چیز اچھی اور سلجھی ہوئی گفتگو میں بہت اہمیت رکھتی ہے جسے آپ کے ملنے جلنے والے بھی بہت پسند کریں گے۔ مطالعے کی عادت ڈالنا تھوڑا مشکل ضرور ہے لیکن آزمائش شرط ہے۔

آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں:

میساچیوسٹس کی برینڈیز یونیورسٹی میں ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا صرف خود اعتمادی ہی کی علامت نہیں بلکہ وہ لوگ جو عادتاً آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں وہ ذہانت میں بھی دوسروں سے آگے ہوتے ہیں جب کہ گفتگو کے دوران نظریں چرانے والے اعتماد میں کمی کا شکار ہونے کے علاوہ خاصے کم ذہین ہوتے ہیں۔
اس مشورے کی روشنی میں آپ دوسروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات ضرور کریں لیکن یہ فارمولا کسی بزرگ پر ہر گز نہ آزمائیں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ آپ کے اعتماد کا مظاہرہ کسی بزرگ کے نزدیک آپ کی بدتمیزی شمار ہوجائے۔

خوش اخلاقی اختیار کریں:

ذہین اور خود اعتماد نظر آنے سے متعلق تو بہت باتیں ہوگئیں لیکن حالیہ نفسیاتی مطالعات سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اکثر لوگ کسی فرد کو اس کی ذہانت اور قابلیت سے کہیں زیادہ اس وجہ سے پسند کرتے ہیں کہ وہ کتنا خوش اخلاق، خوش گفتار اور دوسروں کا خیال کرنے والا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو ذہین اور قابل ہونے کے ساتھ ساتھ خود غرض اور بد مزاج ہوتے ہیں، دوسروں کی نظروں میں عیار، مکار اور ابن الوقت ہی رہتے ہیں جب کہ ان کے بارے میں عمومی رائے اچھی نہیں ہوتی۔
روزنامہ ایکسپرس

اتوار، 26 مارچ، 2017

تنہائی میں عبادت کرنے سے دماغی صحت بہتر رہتی ہے

فلاڈلفیا
امریکی ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ جو لوگ وقفے وقفے سے اعتکاف، مراقبہ اور تنہائی میں عبادت کرتے رہتے ہیں ان کی دماغی صحت اچھی رہتی ہے اور وہ ڈپریشن سمیت بے چینی اور ذہنی تھکن کا شکار بھی نہیں ہوتے۔
فلاڈلفیا کی تھامس جیفرسن یونیورسٹی میں ماہرین کی ٹیم نے 24 سے 76 سال کے 14 رضاکاروں پر یہ مطالعہ کیا جس کے نتائج ریسرچ جرنل ’’ریلیجن، برین اینڈ بیہیویئر‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئے ہیں۔
مطالعے کے دوران تمام رضاکاروں کو 7 روزہ ’’روحانی تربیتی پروگرام‘‘ میں شریک کیا گیا جب کہ پروگرام شروع ہونے سے پہلے اور بعد میں ان کے دماغوں میں سیروٹونین اور ڈوپامین نامی مادّوں کا جائزہ لیا گیا ان میں سے ڈوپامین کا تعلق جذبات اور اکتسابی (سیکھنے کی) صلاحیتوں سے ہے جب کہ سیروٹونین ہمارے جذبات اور موڈ کو اعتدال میں رکھتا ہے، دماغ میں ان ہی دونوں مادّوں کی کمی بیشی ہماری جذباتی کیفیت، موڈ اور سمجھنے سمجھانے کی صلاحیت پر اثر انداز ہوتی ہے۔
ڈوپامین اور سیروٹونین کی دماغی مقداروں میں کمی بیشی اور ان سے تعلق رکھنے والے خلیوں (ریسیپٹرز) میں سرگرمی کا جائزہ لینے کےلیے جدید آلات (برین اسکیننگ ڈیوائسز) استعمال کیے گئے۔ 7 روزہ روحانی تربیتی پروگرام سے گزارنے کے بعد ان رضاکاروں کے دماغوں کا معائنہ کیا گیا اور ان سے جذباتی کیفیات اور موڈ وغیرہ سے متعلق سوالنامے بھی پُر کروائے گئے۔
ماہرین کو معلوم ہوا کہ ان تمام رضاکاروں نے نہ صرف اپنے موڈ اور جذباتی کیفیات میں خوشگوار تبدیلی کا اظہار کیا بلکہ یہ بھی بتایا کہ وہ خود کو ذہنی طور پر تازہ دم محسوس کررہے ہیں۔ دوسری جانب ان کے دماغی اسکین بھی یہی بتارہے تھے کہ رضاکاروں میں سیروٹونین اور ڈوپامین سے وابستہ دماغی سرگرمیاں بھی اعتدال پر ہیں یعنی نہ تو وہ ضرورت سے کم ہیں اور نہ ہی زیادہ۔
نئے مطالعے میں واضح کیا گیا ہے کہ روحانی سرگرمیاں کس طرح سے ہماری دماغی صحت پر اچھے اثرات مرتب کرتی ہیں اور ہمیں ڈپریشن، بے چینی اور دماغی تھکن جیسی علامات سے نجات دلاتی ہیں۔
واضح رہے کہ دنیا کے تقریباً ہر مذہب میں اعتکاف، مراقبہ اور تنہائی میں عبادات کا تصور موجود ہے جسے نفسیات کی اصطلاح میں ’’روحانی پسپائی‘‘ (spiritual retreat) کہا جاتا ہے جس کے ثابت شدہ اثرات میں خوشگوار موڈ، بہتر جذباتی کیفیت اور خوب تر ذہانت وغیرہ شامل ہیں۔
روزنامہ ایکسپرس



ہفتہ، 25 مارچ، 2017

ہمت اور حوصلے کی مثال: ذوالفقار

لوگ مجھے دیکھ کر معذور کہتے تو ہیں لیکن میں معذور نہیں ہوں، ہاں! یہ بات ٹھیک ہے کہ میری ایک ٹانگ اور ایک بازو کام نہیں کرتے لیکن میں خود کو معذور نہیں سمجھتا، میں اِس حال میں بالکل ٹھیک ہوں، نہ میں اتنا اچھا ہوں اور نہ ہی میں اتنا بُرا۔ بلکہ میں خود کو اُن دو ہاتھ اور دو ٹانگوں والے، اَن پڑھ اور جاہل لوگوں سے بہتر سمجھتا ہوں جو ہر سہولت ہونے کے باوجود پڑھ نہیں پاتے، یہ بات سخت ہوسکتی ہے لیکن میں اُن تمام لوگوں کی سوچ کو معذور سمجھتا ہوں جو مجھے معذور سمجھتے ہیں۔‘‘
موجودہ دور میں جہاں ہٹے کٹے لوگ بھیک مانگ رہے ہیں، وہیں کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو معذور ہونے کے باوجود صرف اپنی محنت اور جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں، ذوالفقار رند بھی انہی لوگوں میں سے ایک ہیں
ذوالفقار رند ضلع شکارپور کے ایک جنگل نما گاں مینگل بلوچ میں پیدا ہوئے، پیدائشی طور پر معذور اِس نوجوان نے کبھی اپنی معذوری کو مجبوری نہیں بننے دیا اور اپنی محنت سے اِس دنیا میں اپنا لوہا منوا رہے ہیں۔ ذوالفقار اِس وقت پاکستان کے نامور تعلیمی ادارے نیشنل کالج آف آرٹس لاہور (این سی اے) میں فائن آرٹس کے تیسرے سال کے طالبعلم ہیں، ایک ہاتھ اور ایک ٹانگ سے معذور ہونے کے باوجود ذوالفقار آرٹ کی دنیا میں اپنے کام کی وجہ سے جانے جاتے ہیں
لاہور میں این سی اے کے ہاسٹل کے باہر جب ذوالفقار میرے سامنے آیا تو بالکل دبلا پتلا نوجوان، دائیں جانب ناتواں بازو اور باہنی ٹانگ بھی سکڑی ہوئی، لیکن آنکھوں میں کچھ کر گزرنے کا عزم چھلک رہا تھا۔ یہ میرے لئے کافی حیرانی کی بات تھی کہ ایک معذور انسان پینٹنگ کیسے کرتا ہوگا؟ لیکن اُس کا کام دیکھ کر ہاتھ چومنے کا دل کر رہا تھا۔
ذوالفقار کے والد ایک کسان ہیں اور اُن کے گھر میں ہمیشہ غربت کے سائے منڈلاتے رہے ہیں۔ اِس غربت ہی کی وجہ سے ذوالفقار کو اُس کے والد 5 برس کی عمر میں مدرسے چھوڑ آئے تھے۔ مدرسے کے معلم نے کچھ دن اُسے پڑھانے کے بعد کہا کہ تم ایک ٹانگ اور ہاتھ سے  معذور ہو، پڑھ لکھ کر کیا کروگے؟ معذور لفظ جیسے ذوالفقار کو چُبھ سا گیا۔ بس پھر اُس نے ارادہ کرلیا کہ اب کچھ بننا ہے، کچھ نہ کچھ مختلف کرنا ہے، ذوالفقار نے مدرسہ چھوڑ دیا اور ایک سرکاری اسکول میں داخلہ لیا۔
گاں میں اسکول نہ ہونے کے باعث وہ روز 3 کلومیٹر پیدل چل کر اسکول آتا جاتا تھا۔ اسکول کے ایک استاد خالق چنا نے ذوالفقار پر بہت محنت کی، روزانہ اسکول کے بعد ٹائم نکال کر اُسے ڈرائنگ اور پینٹنگ وغیرہ بنانا سکھائیں، اور اِسی طرح انٹر کرنے کے بعد این سی اے میں ٹیسٹ دیا اور اُس کا سلیکشن ہوگیا۔ ذوالفقار کے کسی رشتہ دار نے اِدھر اُدھر ہاتھ پاں مار کر کہیں سے 30 ہزار روپے کرکے اُسے لاہور بھیجا، یہ آرٹ کا ہی شوق تھا جو ذوالفقار کو این سی اے تک لے آیا، اور آج کل ذوالفقار کی پہچان اب یہی پینٹنگ بن چکی ہے۔
این سی اے میں داخلے کے حوالے سے ذوالفقار کا کہنا ہے کہ
میں اپنے گاں کا پہلا لڑکا ہوں جو کسی یونیورسٹی میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوا ہے، اور یہ میرے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ میں نے یہاں تک پہنچنے کے لیے آج تک کسی سے کوئی بھیک نہیں مانگی، کیونکہ میں صرف اپنی محنت پر یقین رکھتا ہوں۔
ذوالفقار کے ایک ہاتھ اور ایک پاں سے بنائی ہوئی تصاویر کمال ہیں، ایک ہاتھ نہ ہونے کے باعث وہ ڈرائنگ کرتے ہوئے اپنے پاں کی مدد بھی لیتے ہیں۔ ذوالفقار اپنی معذوری کو مجبوری نہیں سمجھتے اور اپنے کام اور ذہانت کی بنیاد پر اِس تنگ نظر معاشرے میں محنت کرکے مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔
ذوالفقار کا کہنا ہے کہ
مجھے سادہ زندگی پسند ہے، لوگ مجھے مولائی اور فقرائے کہتے ہیں، اور سچ پوچھیں تو مجھے اب یہ دونوں القاب بہت اچھے لگتے ہیں۔
ذوالفقار لاہور میں مختلف گیلریز اور آرڈر پر ڈرائنگ اور پینٹنگز وغیرہ بنا کر اپنا خرچہ اٹھاتے ہیں۔ اب ذوالفقار کی تعلیم مکمل ہونے میں صرف ایک سال باقی رہ گیا ہے، وہ اب اپنی منزل کے بہت ہی قریب آچکے ہیں۔ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ میں 120 سال زندہ رہنا چاہتا ہوں، اگر حضرت عزرائیلؑ آئے تو میں اپنی زندگی میں پہلی بار ان سے کچھ مانگو گا۔
نبیل  ابڑو   بلاگ
روزنامہ ایکسپرس


جمعرات، 23 مارچ، 2017

وہ دس کام جو آپ کی زندگی میں خوشی لا سکتے ہیں

خیرات کریں:
دوسروں کی مدد اور خیرات کرنا نہ صرف وصول کرنے والے کے لیے مفید ہے بکہ یہ آپ کی صحت اور مسرت کے لیے بھی ضروری ہے کیونکہ دوسروں کی مدد آپ کو بہت اطمینان فراہم کرتی ہے۔
اس حوالے سے جاپانیوں کا خیال ہے کہ خیرات سے معاشرے میں اعتماد بڑھتا ہے اور زندگی پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ نہ سمجھیں کہ آپ کے پاس اضافی رقم نہیں تو دوسروں کی مدد کیسے کی جائے۔ کسی کے گھر کھانا بھیجنا، لوگوں کو وقت دینا، مریض کی تیمارداری اور پریشان لوگوں کی بات سن کر ان کا دل ہلکا کرنا بھی نہایت ضروری عمل ہے۔
تعلقات اور روابط:
دوستوں، اہلِخانہ، عزیزوں اور رشتے داروں سے تعلقات اور خاطر داری کو ہمارے معاشرے میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ لوگوں سے بات کریں، اپنے اور ان کے دل کا بوجھ ہلکا کریں۔ ماہرین کے مطابق یہ طریقہ صحت مند اور طویل زندگی کی ضمانت بھی ہوسکتا ہے۔ دوستوں کی محفلیں آپ کو مسرور اور خوش رکھتی ہیں۔ ایکسپریس کے انہی صفحات پر کئی سائنسی مطالعے شائع ہوئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ دوستوں سے بات چیت کا عین وہی اثر ہوتا ہے جو درد  دورکرنے والی دواؤں سے ہوتا ہے۔ اگر آپ کے تعلقات اور دوستیوں کا نیٹ ورک وسیع ہے تو ازخود یہ آپ کی اپنی نگاہ میں آپ کی قدر بڑھاتا ہے جو طویل زندگی کے لیے ایک اہم شے ہے۔
ورزش:
خواہ آپ کتنی ہی مفید غذائیں اور سبزیاں کھائیں لیکن ورزش کا کوئی متبادل نہیں۔ جسمانی حرکت اور جاگنگ وغیرہ کے فوائد مسلم ثابت ہوچکے ہیں۔ ورزش اور جسمانی مشقت فوری طور پر موڈ بہتر کرتی ہیں اور ڈپریشن کو بھگاتی ہیں۔ اس کا بہترین نسخہ ہے کہ ہفتے میں پانچ دن 30 منٹ کی تیز قدموں سے چہل قدمی کی جائے جس کے بہترین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
شعور اور آگہی سے زندگی خوبصورت بنتی ہے۔ آگہی صحت کی ہو تو آپ کا فائدہ ہوگا۔ اگر آپ معاشرے کا شعور رکھتے ہیں تو اس سے کئی مسائل حل ہوجاتے ہیں۔
سیکھنے اور جاننے کا عمل ہمیں آگے بڑھاتا ہے اور ماضی کی ناکامیوں سے دور لے جانے میں مدد دیتا ہے۔ اسی لیے کوشش کریں کہ ہمہ وقت کچھ نہ کچھ جانتے اور سیکھتے رہیں۔
کوشش کرتے رہیں:
اس مشورے کو اوپر والی سرخی کا تسلسل ہی سمجھیں اور کوشش کریں کہ  روز کوئی نئی بات سیکھی جائے۔ اس سے نئے افکار اور آئیڈیاز کی راہ ہموار ہوگی اورآپ کی دلچسپی دیگر امور کی جانب بڑھے گی۔ روز نئے کام کرنے اور سیکھنے سے اپنی ذات پر اعتماد بڑھتا ہے اور زندگی کو جھیلنے اور مسائل برداشت کرنے کی قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔
چھوٹے اور بڑے اہداف کا تعین:
اپنی زندگی میں ہفتہ وار اور مہینہ وار چھوٹے چھوٹے ٹارگٹ اور کام کے اہداف بنائیں۔ اس سے غیرضروری دباؤ سے نجات ملے گی اور آپ آسانی سے آگے کی جانب بڑھیں گے۔ اسی عمل کو مستقبل کی منصوبہ بندی کہا جاتا ہے۔ ہر روز اپنی سمت پر غور کریں کہ آپ کو کہاں جانا ہے اور آپ کو کس سمت میں کونسے اہداف ملیں گے۔
مصائب جھیلنا سیکھیں:
کوئی بھی انسان، درد، ذہنی تناؤ، ناکامی، حادثات اور صدمات سے محفوظ نہیں لیکن اس صورت میں ہمارا ردِ عمل سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اگرچہ پریشانیوں اور چیلنجز کا انتخاب ہم خود نہیں کرتے لیکن ان کا مقابلہ ہم ضرور کرسکتے ہیں جو ہمارے بس میں بھی ہے۔ تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ دباؤ خواہ کام کا ہو یا زندگی کا اور مشکلات ہوں یا حادثات، ہم انہیں جھیلنے اور اس میں سے گزرنے کا بہترین طریقہ جان سکتے ہیں۔ دوسری صورت میں یہ مصائب ہماری زندگی کو تباہ بھی کرسکتے ہیں۔ اس لیے ہمیشہ پرعزم ہوکر مسائل کا سامنا کرنا سیکھیں۔
جذبات و احساسات:
شکر، اطمینان، جوش، فخر، خوشی اور دیگر مثبت جذبات نہ صرف وقتی طور پر بہترین جسمانی اثرات مرتب کرتے ہیں بلکہ ان سے ایک سلسلہ قائم ہوجاتا ہے جو آپ کے مزاج کو اوپر سے اوپر لے جاتا ہے۔ اس سے آپ کی نفسیاتی اور جسمانی صلاحیت بہتر ہوتی ہے اور زندگی کے اچھے پہلو سامنے آتے ہیں۔ آخرکار دھیرے دھیرے مثبت سوچ پروان چڑھتی ہے۔
قبولیت:
اس دنیا میں کوئی بھی مکمل اور پرفیکٹ نہیں۔ ہم لوگوں کے بیرونی رویئے کو اپنی ذات میں پوشیدہ اطوار سے ناپتے ہیں جو درست نہیں ہوتا۔ بس یہی احساس ہماری خوشیوں کو تباہ کرتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ لوگوں کو ان کی خامیوں اور کوتاہیوں کے ساتھ برداشت کیا جائے اس سے زندگی آسان ہوجاتی ہے۔
زندگی کا کوئی مقصد بنائیں:
اپنی زندگی کا کوئی نہ کوئی چھوٹا یا بڑا مقصد ضرور بنائیں۔ اس سے آپ کو خوشی اور اطمینان میسر آئے گا۔ کوئی مقصد زندگی کی تلخیاں اور مصائب برداشت کرنا سکھاتا ہے۔ ملازمت اور فن میں کمال یا بچوں کی تربیت میں امتیاز پیدا کرنا بھی کوئی مشن بن سکتا ہے۔ اس لیے زندگی کو بامعنی بنانے کے لیے پوری زندگی کا کوئی مقصد ضرور بنائیں۔
روزنامہ ایکسپرس