کالے رنگ کا بچہ سٹاپ
پرکھڑاغبارے بیچنےوالےکودیکھ رہا تھا ،غبارے بیچنے والالوگوں کی توجہ حاصل
کرنےکےلیےمختلف رنگ کےغبارے ہوامیں چھوڑرہا تھا،اس نے بچےکودیکھا اوراپنے پاس
بلایا اورکہا بیٹا کیا دیکھ رہے ہو،بچےنےکہا کہ کیا کالے رنگ کا غبارہ بھی اڑتا ہے ؟ غبارے بیچنے والے نےکہا یہ کالا نہیں
ہوتا بلکہ غبارے کےاندرگیس ہوتی ہےجواس کواڑاتی ہے ۔ انسان کے اندربھی ایک گیس ہوتی ہے جس کوموٹیویشن یا قوت ِارادی کہا
جاتا ہے جو اس کو اڑاتی ہے ،جوکامیابی
کوممکن بنا تی ہے، یہ قوت ِ ارادی انسان کے اختیارمیں ہوتی ہے، اہم بات اس
کودریافت کرنا اورپالش کرنا ہوتا ہے۔ بےشمارلوگوں میں یہ قوت ِارادی اس وقت پیدا
ہوتی ہےجب وہ محروم ہوتےہیں، جب ان میں خامیاں ہوتی ہیں، جب ان کےحالات خراب ہوتے
ہیں ۔ اس صورتحال میں جب ان میں قوت ِارادی پیدا ہوتی ہے تووہ اتنی مضبوط ہوتی
ہےکہ راستےکی ہررکاوٹ کودورکردیتی ہے۔ بعض اوقات محروم لوگوں کوقدرت گائیڈ کرتی
ہے، بعض اوقات انہیں گائیڈ کرنےوالےلوگ مل جاتے ہیں جوان کوبتاتےہیں کہ محرومی
کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ دنیا میں جتنے بھی لوگ کامیاب ہوئےانہوں نےاس محرومی کےجذبے
کوکامیابی میں بدلا ۔
موٹیویشن کا فلسفہ یہ
ہےکہ حالات نہیں بدلےجا سکتے لیکن خود کو بدلا جا سکتا ہے ۔علامہ اقبالؒ
فرماتےہیں(مفہوم) تو بدل جا تیری تقدیر بدل جائےگی یعنی جوکوئی خود کوبدلتا ہےتو
اس کی تقدیر بھی بدلنا شروع ہو جاتی ہے۔ سوچ اور گمان کی تبدیلی باہرکے حالات کو
تبدیل کردیتی ہے۔پائیلو کولوکہتا ہےکہ جب بندہ کسی کام کوجنون کےساتھ کرتا ہے تو
پوری کائنات اس کے ساتھ شامل ہوجاتی ہے۔قدرت کا نظام ایسا زبردست ہے جب کوئی
جذبےاور جنون والا شخص آتا ہے تو یہ نظام بلنک کرنے لگ پڑتا ہےقدرت اس کو دیکھ رہی
ہوتی ہےکہ لائٹ بلنک ہورہی ہےاوریہ بندہ کچھ کرنا چاہتا ہے قدرت پھراس کواختیار
دیتی ہےکہ وہ اپنا نصیب اپنےہاتھ سےلکھے ۔ اس کواختیار مل جاتا ہےکہ وہ زمانے کو
بدل دے۔ یہ جنون اس وقت آتا ہےجب فوکس ہو ۔کسی نےسقراط سےپوچھا کہ تمہارے پاس اتنا
علم کیسےآیا سقراط نے کہا کل صبح دریا پر آ جانا تمہیں جواب مل جائے گا۔ اگلی صبح
جب وہ شخص اس جگہ پہنچا تو اس نےدیکھا کہ سقراط پانی میں کھڑا ہےاور پانی اس
کےکندھوں تک ہے۔ سقراط نےاس شخص کودیکھا اورکہا کہ تم بھی پانی میں آجاؤ تمہیں
جواب مل جائےگا۔ وہ شخص سقراط کے پاس چلا گیا، سقراط نے اسے پکڑا اور پانی میں ڈبو
دیا جیسے ہی وہ پانی میں ڈوبا تواس کوغوطےآنےشروع ہوگئےاس کےلیےبرداشت کرنا مشکل
ہوگیا،اس نے پوری قوت کولگا کرسقراط کوسائیڈ پرکیا اور پانی سے باہرنکل گیا۔ سقراط
نے پوچھا کیا ہوا اس نےکہا میری تو جان جانےلگی تھی ،سقراط نے پوچھا جب تم پانی
کےاندر تھےتواس وقت تمہاری کیا خواہش تھی اس نےکہا بس ایک ہی خواہش تھی کہ کسی طرح
سانس آجائے، سقراط نےکہا جس طرح اس لمحے تمہاری یہ خواہش تھی کہ کسی طرح سانس آ
جائے بلکل اسی طرح ہرلمحےمیری یہ خواہش رہتی ہےکہ میں کچھ سیکھ لوں ۔سقراط نےاسے
کہا کہ اگر علم کے بارے میں تمہاری خواہش اس طرح ہو جائےتوتمہارے پاس بھی علم
آجائےگا۔
جتنےبھی موٹیویشن والے
لوگ ہوتے ہیں ان کی قوت مدافعت بہت مضبوط ہوتی ہے، ان سے بیماریاں اور مسائل
دوررہتے ہیں۔ آج مائنڈ سائنسزمانتی ہےکہ ایک سوچ و جذبہ اگراپنے پاس رکھا جائے
تواس سوچ اورجذبے سے جسم کے ایک ایک سیل پر اثرپڑتا ہے۔ موٹیویشن والے کی وائبریشن
بہت زیادہ ہائی ہوتی ہےاوراس کودوسرے لوگوں کی نسبت مواقع بھی زیادہ ملتے ہیں ۔بہت
سے لوگ اپنےآپ کو سمجھتے ہیں کہ ہم بہت ذہین ہیں ہم بہت ترقی کرجائیں گےاس میں
کوئی شک نہیں کہ کامیابی میں ذہانت کا کردار ہے لیکن ذہانت پربھی اگرکوئی چیز
بھاری ہے تو وہ جذبہ ہے جنون ہے۔ بہت سارے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کی ذہانت
توزیاد ہ نہیں ہوتی لیکن ان میں جذبہ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ وہ سب کو پیچھے چھوڑ
دیتےہیں اوروہ جذبہ ان کے سر کا تاج اور شناخت بن جاتا ہے۔ وہ قومیں زیادہ ترقی
کرتی ہیں جن کےپاس جذبہ ہوتا ہے، جن کےپاس جنون ہوتا ہےاورجن کے پاس قوت ارادی
ہوتی ہے۔ پاکستان بننے کےپیچھے بھی یہی جذبہ اورجنون تھا۔یہ بہت مشکل ہےکہ کوئی
اپنا گھربارچھوڑدے ، اپنا سب کچھ برباد کرکےدوسری جگہ پرچلا جائے۔دنیا میں جتنی
آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں وہ جذبےاورجنون کی ہی داستانیں ہیں۔
ناپسندیدہ کام میں
موٹیویشن برقرارنہیں رہتی، موٹیویشن اس صورت میں برقراررکھنا آسان ہو تا ہےجب پسند
والاکام ہو۔جوکام پسند ہوں اس شعبےکےکامیاب لوگوں کی کہانیاں، باتیں اوران کےقول
موٹیویشن کو برقراررکھنےاور اس میں اضافےکا باعث بنتے ہیں۔ہروقت خوابوں کوآنکھوں
میں بسائےرکھنےسےموٹیویشن برقراررہتی ہے۔ اگر کام کےفائدے کا پتا ہو تو تب بھی
موٹیویشن برقراررہتی ہے۔ بڑے بڑے اہداف کی وجہ سے بھی موٹیویشن برقراررہتی ہے
لوگوں کےاہداف ہی اتنےچھوٹےہوتےہیں کہ ان میں موٹیویشن پیدا نہیں ہوتی مثال
کےطورپردس روپے کےلیےبھاگہ نہیں جا سکتا لیکن اگردس لاکھ ہوں تودوڑلگائی جائےگی
جتنےبڑے ٹارگٹس ہوں گےاتنی زیادہ موٹیویشن ہوگی ۔لوگوں کوبڑے خواب بنانےسےڈرلگتا
ہے وہ سمجھتےہیں کہ شائد بڑے خواب پورے نہیں ہوں گے۔کچھ بڑے خواب ایسے
ضرورہونےچاہییں کہ ان کی وجہ سے چھوٹےخواب پورے ہوجائیں کیونکہ کچھ خواب ایسے ہوتے
ہیں کہ ان میں طاقت اتنی ہوتی ہےکہ ان کی وجہ سے چھوٹے خواب ویسے ہی پورے ہو
جاتےہیں ۔بعض اوقات ایسا ہوتا ہےکہ بڑاخواب دیکھ لیاجاتا ہےلیکن جب سفر شروع ہوتا
ہےتواس سوچ کےساتھ اس کوچھوڑدیا جاتا ہےکہ یہ کیسےپورا ہوگالیکن یہ یاد رکھنا
چاہیے بندہ یا تو جیت جاتا ہےیا پھر سیکھ جاتا ہے۔ کبھی ہار سے نہیں بھاگنا چاہیے
جو بندہ ہارسے بچنا چاہتا ہےوہ کامیابی سے بھی بچ جاتا ہےجوجتنی بارناکامی کا
سامنا کرتا ہے وہ اتنا ہی ذہین اورمضبوط بن جاتا ہے ۔ جس نےمشکلات سے سیکھا ہوتا
ہے اس کے پاس زندگی کےزیادہ سبق ہوتےہیں وہ سبق اسے ذہین بنا دیتےہیں۔
بچوں میں موٹیویشن
کےحوالے سےوالدین کا بہت زیادہ کردارہےاگروالدین سست ہوں گے، ڈی موٹیویٹ
ہوں گے توبچوں میں موٹیویشن پیدا نہیں ہوسکےگی۔ جب گھروں میں موٹیویشن
دینےکا کلچرہوگا تو بچوں میں آگےبڑھنےکا جذبہ بھی بہت زیادہ ہوگا۔ المیہ یہ ہےکہ
ہمارے ہاں جب کوئی بچہ اپنےشوق کاااظہارکرتا ہےتواس کو تنقید کا نشانہ بنایاجاتا
ہے۔ استاد موٹیویشن کا بہت بڑا ذریعہ ہوتا ہےاگراستاد بچے میں موٹیویشن پیدا کردے
تو بچے کا نصیب بدل سکتا ہے۔ استاد کی نصیحتیں اتنا زیادہ اثرنہیں کرتیں جتنا
استاد کی شخصیت اثرکرتی ہیں اگراستاد ایک ماڈل ہے توپھربچوں کےلیےموٹیویٹ ہونا بہت
آسان ہوجاتا ہے۔تاریخ میں بڑے استادوں کےشاگرد بھی بڑے انسان بنےاس کی وجہ یہ تھی
استادوں نےاپنے شاگردوں میں ایسا جذبہ پیدا کردیا کہ جس کی وجہ سےانہوں نے کچھ بن
کےدکھا دیا۔ بہت سارے طالب علم پڑھائی کےشروع میں بہت زیادہ موٹیویٹ ہوتے ہیں لیکن
وقت کےساتھ ساتھ ان کی موٹیویشن کا گراف آہستہ آہستہ گرِنا شروع ہوجاتا ہے۔ بڑے
طالب علموں میں پڑھائی کےدوران ملک وقوم کی خدمت کا جذبہ ہوتا ہےلیکن جب ان کےکام
کرنےکاوقت آتا ہے تواس کی موٹیویشن انتہائی کم ہوچکی ہوتی ہےاس کی ایک بہت بڑی وجہ
یہ ہےکہ ادارے اپنا کردارادا نہیں کرر ہے۔ بچے جس کشتی میں سوارہوتےہیں اسی میں
چھید بھی کرتےہیں اس سے ناصرف کشتی ڈوبتی ہے بلکہ وہ خود بھی ڈوب جاتےہیں۔ تعلیمی
ادارے میں اس بات کویقینی بنانا چاہیےکہ بچوں کی موٹیویشن کسی طرح بھی کم نہیں
ہونی چاہیے ۔ بچےمیں یقین اوراعتماد ادارے پیدا کرتےہیں، اداروں میں ایسا ماحول
ہوتا ہے جس میں بچے خواب دیکھتے ہیں پھران خوابوں کوپوراکرنےکےلیےان
کےاندرموٹیویشن پیدا ہوتی ہے۔
کتاب موٹیویشن کاایک
بہت بڑا ذریعہ ہےکچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں کہ جن کو پڑھنے سےموٹیویشن پیداہوتی
ہےلیکن ہرایک کےلیےایک ہی کتاب موٹیویشن کا ذریعہ نہیں ہوسکتی ۔بڑے لوگوں
نے"میں ہوں تیمور" کتاب کوپڑھااورانہیں بہت موٹیویشن ملی ۔کامیاب لوگوں
کی کہانیاں اورداستانیں موٹیویشن کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں اس طرح کی بہت سی
کتابیں مارکیٹ میں موجود ہیں لوگوں نےان کتابوں پرکام بھی کیا ان کوپڑھ کراپنےاندرجذبہ
پیدا کیاجا سکتا ہے۔ اگرایک عام شخص کوشش کرکےمنزل تک پہنچ سکتا ہے تواس کا مطلب
ہےکہ ہرکوئی کرسکتا ہےلیکن ضروری چیز یہ ہےکہ ان کتابوں اورکہانیوں سےاندریہ یقین
پیدا ہونا چاہیےکہ میں بھی کرسکتا ہوں توپھرمنزل کو پانا آسان ہو جاتا ہے۔ ایک
استاد کا کہنا ہےکہ اگر کتاب میں ایک جملہ بھی کام کا نکل آئےتو سمجھوکتاب کے
پیسےپورے ہوگئے کیونکہ وہ جملہ بندے کی پوری زندگی بدل سکتا ہے۔
بہت سے لوگ ایسے ہیں جن
کو پتا ہوتا ہےکہ کس کام کا کیا نتیجہ نکلنا ہےانہوں نے اپنےکاموں کوبہت واضح کیا
ہوتا ہے،انہیں کام کےفوائد کا پتا ہوتا ہے، انہیں پتا ہوتا ہےکہ ہمارے کام کےاثرات
کہاں کہاں تک جائیں گے۔ اگرکسی کواپنےکام کےنتیجے کا نہیں پتا اوروہ اس کے انجام
کےبغیرچل رہاہےتووہ سرا سرحماقت کررہا ہےاس کا مطلب ہےکہ وہ قسمت کےرحم وکرم
پرہےاورقسمت کبھی رحم کھاتی ہے اورکبھی نہیں کھاتی۔ بڑے اہداف ہونےکےساتھ ساتھ
حقیقت پسندانہ اپروچ بھی ہونی چاہیے۔ انتہائی فرضی انسان نہیں ہونا چاہیے پریکٹیکل
اپروچ ہونی چاہیےاوریہ یقین ہونا چاہیےکہ میں نےاپنے اہداف کو حاصل کرلینا ہے۔
موٹیویشن انسان کوصرف بگاتی ہی نہیں ہے بلکہ روک کر بھی رکھتی ہے یعنی تنقید کو برداشت
کرنا،مسائل کا سامنا کرنا،راستےکی رکاوٹوں کودورکرنااوراپنی منزل کےحصول کےلیےکھڑا
ررہنا۔
نفسیات بتاتی ہےکہ
انسان کےاندراڑتالیس قسم کے جذبات پائے جاتے ہیں ان میں منفی جذبہ بہت اہم ہے
جیسےغصہ ۔غصے کی وجہ سے جتنے نقصانات ہوتے ہیں اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔
غصےکوکام میں لانا یہ بہت اہم ہوتاہے، جیسے ہی غصہ آئےاس کوکسی دوسرے یا اپنےآپ
پرنکالنے کی بجائےکسی کام پرلگانا اصل بات ہوتی ہے۔حضرت واصف علی واصف ؒ فرماتے
ہیں" جوکم ظرف ہےاس کا غصہ اس کوکھا جاتاہےاعلیٰ ظرف کا غصہ زمانےکوبدل دیتا
ہے" بعض لوگ اپنےغصےکا اتنا مثبت استعمال کرتے ہیں کہ زمانےکوبدل کررکھ
دیتےہیں ۔ نفرت کا جذبہ بہت اہم ہےنفرت بتاتی ہے کہ کون میرا ہےاورکون میرا نہیں
ہےاورمیراکیوں نہیں ہے۔ بندہ جذبات سے اپنی شناخت بناتا ہے۔ اگربندہ جذبات کوکام
میں لانا شروع کردے ان کے ساتھ کھیلنا شروع کردے توزندگی بدل سکتی ہےاورکامیاب
ہونا بہت آسان ہوسکتا ہے ۔
ہمارے معاشرے میں تعلیم
مسئلہ نہیں ہے، نوکریاں مسئلہ نہیں ہے، غربت مسئلہ نہیں ہےمسئلہ یہ ہے اس کے پاس
جذبہ نہیں ہے۔یہاں پرجذبےکا اظہار بہت کمزورہے۔ ہمارا نوجوان اپنے جذبےکودکھانےکے
لیے ایک ٹائرپرموٹر سائیکل توچلاتا ہےلیکن تعلیم میں نمبرنہیں لیتا۔ جذبات کا غلط
سمت میں استعمال ہورہا ہے۔ برصغیرکے لوگوں میں بہت زیادہ جذبات پائے جاتے ہیں ۔آج
بھی یہاں کی لیبرکلاس کو کام کے حوالے سے مانا جاتا ہےلیکن اس کے باجود پتا نہیں
ہےکہ اپنےجذبات کوکہاں اور کیسے استعمال کرنا ہے۔ حدتو یہ ہے کہ ہمیں احتجاج بھی
کرنا نہیں آتا سب سے پہلے تواحتجاج سکھانا چاہیے، احتجاج کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ
اینٹ اٹھا کراپنےسرپرمار دی جائے، احتجاج یہ نہیں ہوتا کہ اپنےملک کے اشارے توڑ د
یئے جائیں،احتجاج یہ نہیں ہوتا کہ اپنےملک کی سٹر کیں خراب کردی جائیں احتجاج کا
مطلب یہ ہےکہ ٹیکنالوجی کا مقابلہ ٹیکنا لوجی سے ہو، کتاب کا مقابلہ کتاب سے ہو۔
اپنے جذبوں کے محافظ
بنیں اگر آپ کو قدرت نےکوئی جذبہ دیا ہے توخدارااپنے جذبےکے محافظ بنیں آپ
کواندازہ نہیں ہے آپ کاجذبہ ناصرف آپ کی اپنی زندگی کو بدل سکتا ہے بلکہ
آپ سے جڑے کتنےلوگوں کی زندگی کو
بدل سکتا ہے۔ اگردینے کےلیے جذبہ نہیں ہوگا تو پھرمعاشرے میں تبدیلی کیسےآئےگی ۔
جذبے کی تلاش کے لیے نوافل پڑھیں اوراللہ تعالیٰ کےحضوردعا کی صورت میں خط لکھیں
۔اللہ تعالیٰ کی ذات اتنی بڑی کائنات کوچلا رہی ہے روز اس کےہاں ہزاروں لاکھوں کی
تعدادمیں دعا کی شکل میں خطوط آتے ہیں ان خطوط میں کوئی بچےمانگ رہا ہے، کوئی
نوکری مانگ رہا ہے، کوئی بچوں کی شادیوں کے بارے میں عرض کررہا ہےلیکن اگرخط میں
یہ لکھا ہو کہ مالک کسی طرح میراجذبہ دریافت ہو جائے،میں کوئی کام ایسا کروں جس
سےدوسروں کوفائدہ ہوتواللہ تعالیٰ کی ذات ایسے خط سےبہت خوش ہوگی ۔ سچےدل کےساتھ
اللہ تعالیٰ سےدعاکریں کہ کی مالک میرے
جذبوں کو سلامت رکھ اور ان کوتلاش کرنےمیں رہنمائی فرما۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں