جمعہ، 23 جون، 2017

شوق کی تلاش


 کوئی نہیں چاہے گا کہ اس کی  توانائیاں ضائع ہو جائیں،  کوئی  نہیں  چاہتا کہ وہ ناکام ہو جائے،  کوئی نہیں چاہتا   کہ اس کی زندگی بے مقصد ہو اور  کوئی نہیں چاہتا  کہ  اسے  کامیابی نہ ملے۔ ہر شخص ناکامی سے بچنے کے لیے  غوروفکر کرتا ہے  اور یہی  غوروفکر  اسےسنجیدگی کی طرف  لے کر جاتا ہے جبکہ سنجیدگی کی سب سے پہلی نشانی  یہ ہے کہ بندہ یہ دریافت کرتا ہے  کہ میں نے کس طرف جانا  ہے، میرے لیے ہدایت کہاں پر ہے ۔ اگر یہ احساسات نہ  ہوں  تو درحقیقت یہ  اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری  کی  نشانی ہے۔  وہ لوگ  جنہیں خیال  نہیں آتا کہ ہم نے سیکھنا ہے   ایسےلوگ  صرف  قبرستان میں پائے جاتے ہیں ۔ زندہ انسان ہمیشہ اپنے آپ میں بہتری لانا چاہتا ہے وہ اپنے کل کو آج سے بہتر بنانا چاہتا ہے ۔
زندگی کے دو حصے ہیں  پہلے حصے میں شعور نہیں ہوتا  جبکہ  دوسرے حصے میں شعور ہوتا ہے ۔عام طور پر لوگ  شعوری زندگی میں  یہ نہیں سوچتے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے کس کام کےلیے پیدا کیا ہے  زیادہ تر   کی یہی سو چ ہوتی  ہے  کہ ڈاکٹر  یا انجینئربن جائیں۔یہ ذہن  میں ہونا چاہیے  کہ  دنیا میں صرف  ڈاکٹر  یا  انجینئر  کی ہی فیلڈ نہیں ہیں بلکہ  اور بھی بہت ساری فیلڈز ہیں۔  لوگوں  کی سوچ اتنی محدود ہے کہ  وہ سوچتےہیں  کہ میں ڈاکٹر یا انجینئر نہیں بن سکا لہذا میں ناکام ہوں۔ کامیابی تک جانے  کے شائد سو زیادہ راستے  ہیں  لیکن    ان  کا انتخاب ہی   صرف دو راستے ہوتےہیں  ا نہوں نے  کبھی سوچا ہی نہیں  ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے  ہمیں انجینئربننے کےلیے پیدا   نہیں  کیا ، انہوں نے  کبھی اپنے اندر کے  آرٹسٹ کو نہیں د یکھا ہوتا ،  انہوں  نے کبھی اپنے اندر کے سائنسدان کو نہیں دیکھا ہوتا،  انہوں  نے کبھی اپنےاندر کے ٹیچر کو نہیں دیکھا  ہوتا ، انہوں نے  یہ کبھی  نہیں دیکھا  ہوتا  کہ جو  میرے اندر ٹیلنٹ  ہے  وہی میرا اصل ہے ۔
دنیا میں دو طرح کے لوگ ہیں  ،پہلی طرح کے لوگ  وہ ہوتے  ہیں  جنہیں صبح جلد  اٹھنا عذاب لگتا ہے، انہیں  اپنے  کام سے   کوئی محبت  نہیں  ہوتی، ایسے لوگوں کی  زندگی  میں کوئی چمک نہیں ہوتی ان کی زندگی میں بوریت ہوتی ہے ۔ دوسری طرح کے وہ لوگ ہوتےہیں جن کو  اپنے کام سے محبت ہوتی ہے یہ محبت  ان  کو رات دیر تک جاگنے  اور صبح   جلدی اٹھنے پر مجبور کرتی  ہے ، ان  کو تھکاوٹ  سے   کسی قسم  کی  کوئی واقفیت  نہیں  ہوتی  کیو نکہ  وہ اپنے جسم  سے  نہیں  بلکہ اپنی روح سے  کام کرتے ہیں، ایسے لوگ  پہلے لوگوں سے زیادہ سپارکل،چمک والے،ایکٹیو  اور شوق والے ہوتےہیں ۔اٹھانویں فیصد    لوگ  وہ  کام  کر رہے ہوتےہیں   جنہیں اس  کا  م  کےلیے پیدا ہی نہیں کیا  گیاہوتا  وہ  شوق  کے بغیر زندگی  گزار رہے ہوتےہیں   نظر آنے  میں  تو وہ زندہ ہوتےہیں لیکن حقیقت میں  مر چکےہوتےہیں۔ دو فیصد لوگ ایسے   ہوتےہیں جن  کا   جو  شوق  ہوتا ہے  وہی  ان  کا  کام ہوتا ہے ۔
انسان کے دو چہرے ہیں  ایک چہرہ وہ  جو نظر آتا ہے  جبکہ دوسرا   چہرہ  وہ ہوتا ہے  جو  نظر  نہیں آتا  وہ  چہرہ کا م کا چہرہ ہوتا ہے اور وہی اصل چہرہ ہوتا ہے کیونکہ وہ شناخت  ہوتا ہے ۔ زندگی  میں شناخت  کے لیے سفر  کی ضرورت ہوتی ہے اور  وہ سفر بقول فیض حسن سیال کے خود شناسی کا سفر ہوتاہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا ۔ ہرشخص کے اندر  ایک خزانہ ہوتا ہے  اور وہ خزانہ  شوق  اوردلچسپی کا خزانہ ہوتا ہے، انسان کی جس چیز میں دلچسپی ہوتی ہے نہ چاہتےہوئے بھی اس کے پاس  اس  چیز کے متعلق  ویسی معلومات ، ویسی کتابیں ،ویسی  مجالس ، ویسے دوست ، ویسا ماحول  اور  ویسے ہیروز  مل جاتےہیں ۔ ہر شخص کے ہیروز مختلف ہوتےہیں  کیونکہ انسپائریشن مختلف ہوتی ہے۔  جو لیڈر  ہوگا اس  کے لیے  محمد علی جناح ؒ  ہیرو ہونگے  جبکہ  جو مفکر ہو گاا س کے لیے حضرت علامہ محمد اقبال ؒ ہیرو ہونگے۔انسان کا دوسروں سے انسپائر ہونا  اللہ تعالیٰ کی انسان پر رحمت ہے ۔انسان  واحد مخلوق  ہے  جو انسپائر ہو تی ہے  اور  کوئی  مخلوق  کسی سے انسپائر  نہیں ہوتی ۔ اللہ تعالیٰ  نے انسان کے اندر انسپائریشن کا مادہ رکھا  ہے اور اس  مادے  کی وجہ سے وہ اپنے شوق  کو  تلاش کرتاہے ۔ جس   طرح  ہرشخص   اپنے جاننے   والے کو  پہچان لیتا ہے اسی طرح  جب اندر کے  شوق   کے  متعلق چیزیں سامنے آتی ہیں  تو وہ ان  کو  پہچان لیتا ہے ۔
اس سے بڑا جرم اور کوئی نہیں ہے کہ کوئی  شخص   اپنی زندگی بغیر  شوق  کے گزاردے،شوق  کے بغیر زندگی ایسے ہی  ہے جیسے  کانٹوں پر سونا اور تلواروں پر چلنا۔ اگر شو ق سلامت ہو تو انسان کو  کوئی  تلوار نہیں کاٹ سکتی حضر ت سلطان باہوؒ فرماتےہیں "ایمان سلامت  ہر کوئی منگے۔۔۔شوق سلامت کوئی ہو"۔ شوق اللہ تعالیٰ کے دربار کی سوغات ہے اسے  کوئی  کوئی پہچانتا ہے ،کسی کسی  کو اس  کی شناخت ہوتی ہے ۔ شوق کا پتا لگ جانا اعتماد پیدا  کر دیتا ہے پھر انسان کو راستے  کی  رکاوٹ، رکاوٹ نہیں لگتی، جیت اور ہار کی پروا ختم ہو جاتی ہے ، دوسروں کی تنقید کا اثر   نہیں ہوتا۔ شوق والا   معاوضے اور وقت کی قید سے آزاد ہوجاتاہے ،  شوق   کی  مصروفیت  میں  اردگرد  کا احساس ختم  ہو جاتا ہے۔ شوق کے راستے پر چلنے والا  مقابلہ  نہیں کرتا، مقابلہ ہمیشہ تب ہوتا ہے جب  اپنی صلاحیتوں   کا علم نہ ہو ۔شوق کا راستہ عبادت کا راستہ  ہے بلکہ یہ  درحقیقت اللہ تعالیٰ  کی طرف جانے کا راستہ ہے۔ جس شخص  کو اپنے شوق  کا   پتا لگ جاتا ہے وہ اپنے  کام  کو عبادت سمجھتا ہے ، اس   سےبڑا اور  کوئی مقام  نہیں ہے  کہ اگر اپنا کام عبادت لگنے لگ پڑے   جبکہ عام طور پر لوگوں کو اپنا کام عذاب لگتا ہے ۔
دنیا کا سب سے قیمتی سوال یہ ہے کہ  میرا شوق کیا ہے یہ اتنا سنجیدہ سوال ہے  کہ جس کو بھی  اس  کا جواب مل گیا  پھر اس کو خریدا  نہیں جا سکا ۔ شوق انسان  کو خواب بنانے پر مجبور کر دیتا ہے وہ سکون سے  نہیں رہنے دیتا ۔ شوق کی آگ  سے پکی ہوئی ہانڈی ضائقے دار ہو تی ہے خلیل جبران کہتا ہے کہ وہ روٹی مزیدار نہیں ہوتی جس کے اندر شوق  یا محبت نہیں ہوتی ۔ایک خاتون رائٹر  برتن بناتی تھی  کسی نے  اس  سے  پوچھا  کہ تم برتن بناتی ہو اس  نے جواب دیا  نہیں میں برتن نہیں بناتی میں تو اپنے  آپ کو بناتی ہوں اسی طرح شوق  والا اپنے  کا م  کو  نہیں دکھاتا بلکہ اپنے  کام کے ذریعے  اپنے آپ  کو دکھاتا ہے۔وہ  شوق کسی کام کا نہیں ہے   جس  سے  کوئی فائدہ حاصل   نہ ہو ۔ خوش قسمتی  یہ ہوتی ہے کہ شوق  اور زمانے کی ضرورت دونوں  مل جائیں  جب اس طرح ہو تا ہے تو بندہ عبدالستار ایدھی بن جاتا ہے ۔
 جو  لوگ اپنے شوق  کو دریافت نہیں کرتے  وہ صرف زندگی   کا سرکل پورا  کر تےہیں ۔ انسان کی سب سے بڑی تمنا یہ  ہوتی ہے کہ وہ سدا زندہ رہے ۔ جینئس انسان وہ ہوتا ہے جو اپنے وقت اور کام کی  انویسٹمنٹ اس انداز   سے کرے کہ  اس کے جانے  کے  بعد بھی لوگوں  کو فائدہ ہو ۔  جو شخص اپنے مزاج میں مثبت  ہوتا ہے  اور وہ   اپنے شوق کو بھی  تلا ش  کرلیتا ہے  وہ شخص  پھر ایسا   کام  کر جاتا ہے  کہ  پھر وہ امر ہو جاتا ہے ۔شوق  کا یہ  فائدہ  ہوتا ہے  کہ اس کا صرف ایک حصہ خود اس شخص پر لگتا ہے جس کا اس کو شوق ہوتا ہے  جبکہ  باقی حصوں سے زمانہ فائدہ اٹھاتا ہے ۔زندگی میں مزا پیدا کرنے کےلیے اپنا شوق دریافت کریں  کیونکہ بغیر شوق کے  مزا نہیں آئے گا ۔ 65 سال کی زندگی میں انسان نوئے ہزار گھنٹے کام کرتا ہے اس کے دو ہی  طریقے ہیں  ایک یہ کہ ان نوئے ہزارگھنٹوں   کو رو کر گزارہ جائے  اور ایک یہ ہے کہ  ان کو کسی مقصد کے تحت گزارہ  جائے۔  حضرت علامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں  کہ  "اپنے من میں ڈوب کر  پا جا سراغ زندگی ۔۔۔ ہماری  زندگی کا راز ہمارے ہی  اندر ہے جب تک اس اندر کو تلاش  نہیں کیا جائےگاتب تک قرار   نہیں آئے گا۔ چھوٹے انسان کی تقدیر  دوسروں کے ہاتھ پر لکھی ہوتی ہے  جبکہ بڑے انسان کے ہاتھ پر زمانے کی تقدیر لکھی ہوتی ہے ۔ حضرت قائداعظم محمد علی جنا ح ؒ کی وجہ سے کتنے  لوگوں کی زندگی  بدل گئی کیونکہ ان کے ہاتھ پر زمانے کی تقدیر لکھی ہوئی تھی  جبکہ  تمام جہانوں   کی تقدیر  ہمارے آقاحضور اکرم ﷺ کے  ہاتھ پر لکھی ہوئی  ہے یعنی آپﷺ جہانو ں کے لیے رحمت   ہیں ۔

اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ    اے میر ے مالک مجھے ضائع ہونے بچا ، مجھے چھوٹے چھوٹے مسئلوں سے نکال اور مجھے بامقصد انسان بنا ، مجھے  خود شناسی  عطا کر، ہمیشہ دینے والا بنا اور آسانیاں بانٹنے والا  بنا۔


1 تبصرہ: