صاحبزادہ کاشف محمود صاحب حضرت واصف علی واصفؒ بحثییت
والد محترم کے موضوع پر سید قاسم علی شاہ صاحب سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ اولیاء اللہ کی زندگی
میں ان کے گھر کے ماحول اور
ان کے
چاہنے والوں سے تعلق کے درمیان
کوئی خاص فرق نہیں ہوتا۔ وہ جس طرح
ا پنے گھر والوں کو دیکھتے ہیں اسی طرح وہ اپنے چاہنے والوں کو بھی دیکھتے ہیں وہ ان کے لیے ان کی اولاد کی طرح ہی ہوتےہیں۔ عام طور پرانسان میں 15 برس
کی عمر میں شعور آنا شروع ہو جاتا ہے یہ
وہ و قت ہوتا ہے جب انسان
بچپن سے جوانی کی طرف آتا ہے ۔انسان کے سیکھنے
کا عمل تو پہلے دن
سے ہی شروع ہو جاتا ہے لیکن جب شعور آتا ہے تو اس وقت وہ وقت ہوتا ہے جب بندہ آزادانہ طور پر اپنی آنکھوں سے دیکھتا
ہے،ابزرو کرتا ہے اور پھر
نتائج اخذ کرتا ہے۔ جب والدِ محترم
کا وصال ہوا تو اس وقت میری عمر 21
سال تھی اس لحاظ سے اگردیکھا جائے تو سات آٹھ سال
میں نے شعور ی طور پر والدِ محترم
کو دیکھااور ابزرو کیا۔ میری 21 سالہ
زندگی ایسی ہے جیسے
کسی پھول میں بیج محفوظ ہوں جب تک
ان کو ہوا نہ لگے وہ اڑتے نہیں ہیں ۔ یہ
وہ دور تھا جب مجھے بہت زیادہ تحفظ حاصل تھا ، میرے فیصلہ کر نے کے حوالے سے، بات کرنے کے
حوالے سے وہ وقت سنہری
تھا ۔
میں تین بہنوں کا اکیلا بھائی ہوں
لیکن ہم چاروں میں کوئی فرق نہیں تھا ۔ڈانٹ سب کو برابر کی
پڑتی تھی اور پیار بھی سب کو برابر
کا ملتا تھا۔ فیملی کے ساتھ ان کا
تعلق بہت
گہرا اور مضبوط تھا آپ ؒ ہمیں ایک ایک چیز پر گائیڈ کیا
کرتے تھے ۔ بہت سے والدین سمجھتے
ہیں کہ بچوں کوٹی وی نہ دکھایا جائے اس
معاملے میں وہ بچوں پر سختی بھی کرتےہیں
لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں تھا
جتنا ٹی وی دیکھنا ضروری ہوتا تھا
ہم دیکھتے تھے کیونکہ آپ
سمجھتے تھے کہ سکول میں دوسرے بچے کہیں
ان سے یہ نہ کہیں کہ آپ نے فلاں چیز دیکھی ہے ، فلاں ڈرامہ
دیکھا ہے تو وہاں پر یہ احساسِ کمتر ی کا شکار نہ ہوجا ئیں ۔ ایک دن ہم لوگ
گاڑی میں جار ہے تھے راستے میں
کچھ بچے کام کر رہے
تھے ان کو دیکھ کر آپؒ فرمانے لگے کہ" ان بچوں کو دیکھو یہ استا د کی مار سے بھاگے ہوئے
ہیں ۔" مجھے دوسرے بچوں
کی طرح کھیلنے کا بہت شوق تھا جنون کی حد تک
کام کے پیچھے پڑ جاتا تھا ۔ آپ ؒ اس
مزاج سے آشنا تھے اور اکثر
مجھے کہا کرتے "تمہار ا دماغ بہت اچھا
ہے کاش تھوڑی سی محنت بھی آ
جائے تو بات بن جائے گی۔" میں ان سے
کہا کرتا تھا کہ " میں نے پڑھ تو
لیا ہے ، نمبر بھی اچھے آ گئے ہیں اور کیا
چاہیے " وہ کہا کرتے " اور محنت
چاہیے ہوتی ہے ، کئی دفعہ ایسے ہوگا کہ تمہاری
کی ہوئی محنت تمہیں لگے گا کہ ضائع ہو گئی ہے
لیکن یہ ممکن نہیں کہ چیزیں بغیر
محنت کے ملنی شروع ہو جائیں ۔"
بچوں میں فیصلہ سازی کے حوالے سے والد
کا اہم کردار ہوتا ہے
اس حوالے سے ان کا ایک
طریقہ یہ تھا کہ وہ چھوٹی چھوٹی سپیس دیتے تھے ، ہمیں اعتماد
میں لیتے تھے کبھی خود کام
کر کے دکھاتے تھے اور سمجھاتے کہ اس
طرح کام کیا جاتا ہے ۔ایک دفعہ ہم
کسی دربار شریف پر گئے آپ ؒنے مجھے کہا "تم یہ دعا کرواور سب کے لیے کرو"
میں بڑا حیران ہوا کہ لوگ تو آپ کو کہتے تھے کہ آپ دعا فرمائیں لیکن آپ نے مجھے کیوں کہا میں کچھ دیر کے لیے حیران ہوا لیکن
پھر میں نے ہاتھ اٹھا کر دعامانگی اس دعا کی
جو تاثیرتھی وہ کچھ
اور ہی تھی ۔ دو دن بعد انہوں نے کہا کہ
"جو تم نے دعا کی تھی دیکھو وہ پوری ہو گئی "۔آپؒ فرماتے "دیکھو
بحث میں تعلق نہیں توڑتے" یہ بات بھی فیصلہ سا زی کی طرف آتی ہے ۔ اس وقت انہوں نے
میرے لیے جو فیصلے کیے جو
مجھے ناگوار گزرتے تھے آج
مجھے وہ صحیح لگتے
ہیں ۔آپ کے فیصلوں میں کوئی تبدیلی
نہیں ہو سکتی تھی اگر ایک دفعہ کہہ
دیا "نہیں" تو پھر نہیں اگر کہہ
دیا " ہاں " تو پھر ہاں ۔ایک دفعہ
محفل میں بیٹھے ہوئے تھے آپ نے
کہا" میں نے جو بات کہہ دی تم سب لوگ مل کے بھی اس کو دوبار ہ تبدیل نہیں کرو اسکتے یہی میری سچائی
ہے۔"یہ بات اللہ تعالیٰ سے وابستگی کے بغیر نہیں آ سکتی۔ایک دن
مجھے کسی لڑکی کا فون آیا میں نے
وہ فون سنا لڑکی نے کہا" میں نے آپ
کو فلاں جگہ دیکھا ہے آپ مجھے کوئی اپنی
تصویر دے دیں " میں نے کہا "خدا کا نام لوآپ کس طرح کی باتیں کر
رہی ہیں "۔ایک دن میں جب گھر آیا
توحالات کا رخ
اپنے مخالف پایا
میں جدھر جاؤں سرکار کی نظریں میرے پیچھے پیچھے میں سمجھ
گیا کہ آج کچھ گڑبڑ ہے ۔ کھانے کے بعد آپ نے کہا کہ "میرے دفتر میں آکر ملاقات کرو" جب میں دفتر گیا تو آپ نے کہا کہ "تم نے تصویر کس کو دینی ہے " میں نے کہ " مجھ سے تصویر ضرور مانگی
گئی ہے لیکن میں نے تصویر نہیں دینی "آپ
نے کہا"آج کے بعد تم نے اس سے بات نہیں کرنی " میں نے کہا"بلکل ٹھیک ہے"آپ کہنے
لگے کہ "پوچھ تو لو کیوں
نہیں بات کرنی " میں نے
کہا" کیوں نہیں بات کرنی " کہنے
لگے کہ " جوتم میں
اور تمہارے باپ کی آواز میں فرق محسوس نہ کر سکے اس سے
کیا بات کرنی۔" اس طرح انہوں
ساری بات بھی سمجھا دی اور مجھے بوجھ بھی محسوس نہیں ہوا۔آپ ؒفرماتے تھے کہ "ہماری اولاد ہمیں بہت کچھ سمجھانا
چاہتی ہے لیکن ہم نہیں سمجھتے اسی طرح
والدین کہتے ہیں ہم اپنی اولاد کو
بہت کچھ سمجھا نا چاہتےہیں لیکن وہ نہیں سمجھتے یہ جو بات چیت
کا خلا ہے یہ صحیح نہیں ہے ۔ چھوٹے
بڑے نہیں ہو سکتے لیکن بڑوں کو چھوٹا
بن جانا چاہیے۔"
آج معاشرے میں بہت سارے ایسے دانشور
ہیں جن کی گھریلو
زندگی ناکام ہوتی ہے ۔ نہ
باپ کے دل میں بچوں
کی محبت ہوتی ہے اور نہ بچوں کے دل میں
باپ کے لیے محبت ہوتی ہے ۔
میڈیا پر ایسے دانشوروں کا چہرہ
کچھ اور ہوتا ہے جبکہ ذاتی زندگی
میں کچھ اور ہوتاہے۔ اس حوالے
سے اگر آپ ؒ کو دیکھا جائے تو آپ نہ شاعر تھے ،نہ ادیب تھے، نہ مصنف تھے۔ یہ سب ہونے کے لیے آپ نہیں تھے لیکن یہ سب چیزیں آپ کے ساتھ تھیں ۔ آپ ؒبھائی
بھی تھے ، بیٹے بھی تھے، داماد بھی تھے اور
شوہر بھی تھے۔ حیرانگی ہوتی تھی
کہ اتنی مصروف زند گی
میں آپ یہ سب کچھ کیسے کر لیتے تھے
۔ایک ہی وقت میں رشتہ داری ، روحانیت ،
ازدواجی زندگی، سوسائٹی میں خدمات انجام دینا آسان نہیں
ہوتا ۔ آخری آیا م میں جب آپ
ؒ میو ہسپتال میں داخل تھے
تو آپؒ نے والدہ کو کہا "اگر زندگی نے مجھے
دوبارہ موقع دیا تو
میں پھر تم سے شادی کروں گا" یہ ازدواجی زندگی کابیوی
کے لیے انعام ہے ۔ زندگی میں
کیسے وقت گزرا اس با ت کے کوئی
معنی نہیں رہ جاتے سفر کا اختتام
کیسے ہوا یہ بات معنی
رکھتی ہے ۔ زندگی میں اونچ نیچ آتی رہتی ہے جھگڑا ہونے کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ میاں بیوی دونوں میں سے کوئی ایک اپنے آپ کو سپیرئیر سمجھتا ہے ۔آپ فرماتے "جس کےپاس علم ہےاس کے اوپر
واجب ہے کہ اس کو ساتھ لے کر چلے جس کےپاس
علم نہیں ہےاصل علم یہ ہے، یہی اس کی زکوۃ ہے اور یہی اس کا مصرف
ہے ۔ "
آج
لوگوں نے بڑے بڑے کالے چوغے پہنے ہوئے ہیں
لمبے لمبے ڈنڈے پکڑے ہوئے ہیں
جب ان کی تصانیف
پڑھی جاتی ہیں تو طوائف
کے کھوٹے سے آگے نہیں جاتیں اور کہاں آپؒ کا کلا م
آپ فرماتے " جتنا تم اللہ سے راضی
ہو اتنا اللہ تم سے راضی ہے
"اللہ تعالیٰ جب عطا کرتا ہے تو رسولِ پاکﷺ کی محبت عطا کرتا ہے ۔ رسولِ پاک ﷺمہربانی کریں تو اللہ تعالیٰ کی محبت عطا ہوتی ہے ۔ آپ
ؒ کی شخصیت ایسی تھی کہ
لوگوں کے سامنے کلین شیو اور سادہ نظر آتی لیکن
اندر سے اتنا ہی نفیس نظر آتی تھی ۔ آپ ؒفرماتے "سچ کا لبادہ اور سچ کتنا تگڑا
ہے کہ جھوٹے کو بھی سچ ہی
آپنانا پڑتا ہے "۔ آپ مزید فرماتے
ہیں :
خود
فراموش تیرے عرش کو چھو کر آئے
خواجگی
جبہ و دستارسے آگے نہ بڑھی
یہ
سفر خود فراموشی کا ہے انا کا سفر نہیں ہے ۔آپؒ
فرماتے ہیں کہ "سچ وہ ہے جو
سچے کی زبان سےنکلے ۔"جو انسان جتنا
سچا ہوتا جاتا ہے اس کی آواز میں اور بات میں قدرت کی طرف
سے تاثیر شامل ہو جاتی ہے۔آپ ؒ محفل میں کہا کرتے تھے کہ "سوال بھی تمہارے نہیں ہیں
اور یہ جواب بھی ہمارے نہیں ہیں یہ سوال
بھی وہیں سے آ رہے ہیں جہاں سے جواب آ رہے
ہیں ۔" میں اگر چھوٹی عمر سے بھی دیکھوں
تو آپؒ نے کبھی بہلانے کی غرض
سے بھی جھوٹ نہیں بولایہ بہت بڑی
تعلیم ہے ۔ یہیں سے ساری روحانیت کا پتا چلتا ہے ۔آپؒ کی جو
کتابیں ہیں وہ صرف کتابیں نہیں ہیں
وہ آپ ؒ کی ذات ہے ۔ جو آپؒ کا بیان
ہے وہ صرف بیان نہیں ہے وہ آپ ؒ کا
عمل ہے ۔آپؒ کے عمل میں ، آپ کی گفتگو میں ، آپؒ کی کتاب میں ، آپؒ کی ذات میں
کوئی فر ق نہیں ہے۔ آپ ؒ کی
رات تنہائی بھی ویسی ہے جیسا آپ ؒ کے دن کا جلوا
ہے ۔ سچ اور جھوٹ کا تقابلی جائزہ ہمیشہ سے رہا ہے۔ سورج اور رات کا سنگم ہمیشہ سے رہا ہے اور رہے گا جھوٹ ہو گا
تو سچائی کی پہچان ہوگی۔ جھوٹ کے ہوتے ہوئے مسافر کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا
ہے کہ وہ کیا کرے ، وہ کہاں جائے ، وہ سچ
ڈھونڈنتا ہے لیکن اس کا سامنا
جعلی پیروں سے ہو جاتا ہے یہاں پر آپؒ
فرماتےہیں "اللہ تعالیٰ اپنے سچے بندے کو زیادہ دیر تک جھوٹے
لوگوں میں رہنے نہیں دیتا
۔"جو یہ کہتا ہے کہ معاشرے میں مجھے
جھوٹ ہی جھوٹ دیکھائی دیتا ہے تو پھر اس
کی سچائی پر آفرین ہے ۔
زندگی گزارتے ہوئے
ہمیں تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے
کچھ لوگ ایسے ہوتےہیں جو حسد کرتے ہیں جبکہ کچھ لوگ منفی ہوتےہیں ۔ کئی لوگ ایسے
ہوتےہیں جو آپ کی محفل کو ہائی جیک کرنے آ جاتےہیں ایک دفعہ ایسا ہوا
کہ محفل ہو رہی تھی ایک شخص ہاتھ میں ہار لیے ہوئے آیا اور آپؒ کے گلے میں ہار پہناتے ہوئے کہا
کہ واصف صاحب مبارک ہو مجھے
رات کو حضور اکرمﷺ کی زیارت ہوئی،
میں نے دیکھا کہ ایک محفل ہے آپ
ؒ بھی وہاں تشریف فرما ہیں اور آپ کی بڑی تعریف و توصیف ہو رہی ہے ، میں نے
کہا میں آپ کو ہار پیش کروں ۔آپ ؒ
اس سے کہنے لگے کہ " میں اس محفل میں تھا لیکن تم
نہیں تھے " آپ نے کہا "دیکھو پہلی بات یہ ہے کہ ایسی چیز کا بیان مت کرو جو کسی
دوسرے کو دیکھا نہیں سکتے۔ جو لوگ آپ سے حسد
کرتے تھے آپ ایسے لوگوں کو لفٹ
نہیں کراتے تھے لفٹ کا مطلب ہے کہ حسد
کرنے والے کا تذکر ہ کیا جائے
۔ آپ ؒ نے کبھی اپنی شخصیت کے بارے میں بھی تذکرہ
نہیں کیا۔ آپ ؒ کی شاعری میں کہیں آپ ؒ کی شناخت کی جھلک نظر آتی ہے لیکن
ظاہر ی زندگی میں ، تحریر میں، تقریر
میں، کہیں پر بھی آپ ؒ
کا تذکرہ نہیں ملتا۔
آپ
فرماتے تھے کہ "پریا میلا چھڈ
کے نکل آؤ"یعنی جب محفل عروج پر ہو
تو اٹھ کر آ جائیں یہ اس
لیے کہ کہیں تم اس کے حصار میں گم
ہی نہ ہو جاؤ ورنہ مجمع تو کہیں کا
کہیں لے جاتا ہے ۔آپ ؒ اس دور کے لوگوں کی
اصلاح کے لیے آئے تھے ان لوگوں کے خیال
کی روشنی کے لیے آئے تھے ۔ آپؒ نے
محفل میں زیادہ تر ان لوگوں کو ٹارگٹ
کیا جواس دور کے
لکھنے اور بولنے والے ستون تھےان سارے
لوگوں کو آپ ؒ نے قابو کیا ہوا تھا ۔
باباجی اشفاق احمد کہا کرتے تھے کہ " مجھے آپؒ کے فقرے ایسے لگتے ہیں جیسے
میتھ کے فارمولے ہوں "۔ حنیف رامے
فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ آتے نہیں ہیں بھیجے جاتے ہیں
آپؒ بھی انہوں لوگوں میں سے ایک ہیں۔
Aaj duniya main jahalath badhti jarahi hai aur akhlaaq khatam hote jarahe hain ... aaj dunya jo jaahil hai usko Normal personality samajhti hai aur jo ba akhlaaq shareef ul nafs ko abnormality samjha jaraha hai... aaj se 50 saal pahele wala daor 100 guna zyada bahter tha....
جواب دیںحذف کریں