اتوار، 23 جولائی، 2017

مارکیٹنگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سیدقاسم علی شاہ

مارکیٹنگ
مارکیٹنگ کی تاریخ   اتنی ہی پرانی ہے  جتنی دنیا پرانی ہے۔ جس طرح ہر انسان  ہر وقت  متحرک  نظر آتا ہے ، لمحہ بہ لمحہ  اس  میں تبدیلیاں آ تی ہیں اسی طرح  مار کیٹنگ میں بھی لمحہ لمحہ تبدیلیاں  آ تی رہتی    ہیں۔ روز نئے نئے آئیڈیاز  رہے ہیں،  ہر  روز  کچھ نہ  کچھ بدل رہا ہے ایسی صورت  میں آج کے دور میں کسی بھی کاروبار کی  کامیابی  میں  مارکیٹنگ کو   بنیادی حثییت حاصل ہے، لیکن اس کے باوجود آج بھی بہت ساری  کمپنیاں ، ادارے اور لوگ ایسے  ہیں جوپرانے اور  سادہ  مارکیٹنگ ٹولز  استعمال کرتے  نظر آتے ہیں اور ان  کے  کسٹمرز  کی  تعداد  میں اضافہ ہو  ر ہا ہے۔ مارکیٹنگ  کے اس  انداز کی عمر  زیادہ نہیں لمبی  ہوتی۔ مارکیٹ  میں اپنی  جگہ  بحال رکھنے کے لیے ہرلحاظ سے  اپ ڈیٹ رہنا پڑتا ہے۔مارکیٹنگ کا اصل  مقصد  کسی بھی  پراڈکٹ کی  عوام کے دلوں میں جگہ بنانی ہوتی ہے۔ دلوں میں  جگہ  بنانے کے لیے پراڈکٹ کے ساتھ جذبات  کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے  ۔ انسان  کی زندگی میں  جذبات  کا بہت  اہم کردار ہے ۔ جس  پراڈکٹ  کے ساتھ  جذبات   منسلک ہوتے ہیں  وہ لوگوں کے دلوں میں جگہ  بناتی ہے مثال کے طور پر فیس بک نے  نئے سال کے آغاز  پرایک ویڈیو چلا ئی  جس میں دیکھا  جا سکتا تھا کہ کون کون سی پوسٹ پر سب سے زیادہ  لائک  ہو ئے  ہیں ۔جو شخص  فیس بک استعمال کرتا ہے  وہ دیکھنا چاہے گا کہ  اس کی پوسٹ کتنی دفعہ  لائک  ہوئی ہے ۔اس ویڈیو کی وجہ سے فیس بک  کی ٹریفک میں بہت  زیادہ اضافہ  ہوا۔ بڑی کمپنیاں ، ادارے  اپنی پراڈکٹ  میں  جذبات  شامل کر کے  اربوں روپے  کما رہے ہیں۔
ایک ٹرینڈ یہ  بھی ہے کہ ٹی وی  پر زیادہ سے زیادہ اشتہار دیا جائے یا زیادہ سے زیادہ  ڈائریکٹ  مارکیٹنگ  کی جائے یا پھر پراڈکٹ  ہی اتنی اعلی  معیار کی بنائی  جائے  کہ ایک بندہ  اس کو خریدے اور دس لوگوں  کو بتائے ۔ اس  میں  کوئی شک  نہیں  کہ پروڈکٹ  اچھی ہونی چاہیے  لیکن  اس کے  ساتھ ساتھ مختلف طریقوں  سے  اس کی تشہیر کی  جائے تو  پھر پروڈکٹ  بکتی ہے۔  اگر صرف تشہیر   پر ہی سار ا زور  لگا دیا جائے اور پروڈکٹ کی کوالٹی پر توجہ ہی   نہ  دی جائے تو  پھر چیز کا  بکنا مشکل ہو جاتا ہے۔  کسی شخص  کو تشہیر  کے ذریعے  ایک یا دو دفعہ  تو بے وقوف  بنایا  جا سکتا ہے لیکن  بار بارایسا   نہیں  کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ میڈیا  کا دور ہے اب  ہر شخص لمحہ بہ لمحہ اپ ڈیٹ رہتا ہے ۔ جو  لوگ ڈھول  پر زیادہ زورلگار اپنی  پراڈکٹ   بیچ  رہے ہوتے ہیں ایسے لوگوں  کی پراڈکٹ  زیادہ دیر تک مارکیٹ  میں  رہ  نہیں پاتی۔ مارکیٹنگ یہ  نہیں ہے کہ  پراڈکٹ  کو بیچا  جائے  بلکہ مارکیٹنگ یہ ہے کہ  کسٹمر میں اعتماد  پیدا کیا جائے  تاکہ وہ بار  بار  آئے ۔جتنے بھی برینڈز   ہیں  وہ اپنا سار ا زور  پراڈکٹ  کی  کوالٹی اور اپنی ساکھ بنانے میں لگا دیتےہیں ۔ جب ایک دفعہ ساکھ بن  جاتی ہے  توپھر  پراڈکٹ  بار بار  بکتی ہے یہی  کامیابی کا اصول ہے۔
دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ  اپنے بوتیک کا افتتاح کسی مشہور  اداکارہ  یا  کسی مشہور شخصیت سے  کرواتے ہیں  ۔ انہوں نے  میڈیا کو  بلایا  ہوتا ہے ۔ بھرپور انداز  میں اس کی تشہیر  کی جاتی ہے  لیکن ایک سال بھی نہیں گزرتا  کہ وہاں پر کسی سموسے بیچنے  والے  کی ریڑھی لگی ہوتی ہے۔اس کی وجہ یہ  ہوتی ہے کہ ان لوگوں میں  مستقل مزاجی  نہیں ہوتی کامیابی  کے لیے  مستقل مزاج ہونا  پڑتا ہے قطعہ  نظر اس کے   کہ کوئی بوتیک  کھولا ہے  یا  کوئی کاروبار چلا یا ہے۔ شروع  میں کاروبار  میں   کچھ  نقصان  ہو  جاتا ہے اسی  نقصان کی وجہ سے 80 فیصد  لوگ درمیان  ہی چھوڑ رکر چلے جاتےہیں ۔ایک اچھے آئیڈیے  کو چلنے   کے لیے   کچھ عرصہ درکار ہوگا ۔ کوئی  بھی کاروبار  ایک  بچے  کی طرح  ہوتا ہے  اور اس کی بچے  کی طرح  پرورش  کی  جاتی ہے۔صرف کسی اداکارہ  سےافتتاح کروا کر  میڈیا  میں خبر  لگا دینے  سے  کامیابی ممکن نہیں  ہوتی  کامیابی کے  لیے  مارکیٹنگ  کے ساتھ ساتھ مستقبل مزاجی  بہت ضروری  ہوتی ہے۔
بعض اوقات ایک بڑا برینڈ  ایک خاص سطح پرجا کر     مارکیٹنگ  چھوڑ دیتا ہے یہ اس صورت  میں  ہوتا  ہے جب  اس  برینڈ کی مارکیٹ  میں  اجارہ داری  ہواور اسے مارکیٹنگ  کی ضرورت   نہ رہے ۔اگرایک ہی چیز ایک  ہی جگہ  سے   ملے  تو  اس صورت  میں  مارکیٹنگ کی ضرورت نہیں رہتی۔   مارکیٹ  میں  نمبر  ون رہنے  کے لیے  لوگوں  کے دلوں  میں اعتماد میں اپنا اعتماد بحال  رکھنا بہت ضروری  ہوتا ہے اور اس کے لیے مارکیٹنگ  کرنی پڑے گی۔  دنیا کی  بڑی  کمپنیاں   اپنے کسٹمرز کو ساتھ  لے  کر چلتی    ہیں  یہی ان کی  کامیابی  کا راز ہے ۔ جو لوگ   اس  چیز کو نہیں دیکھتے اوردرمیان  میں چھوڑ کر چلے جاتےہیں وہ  پیچھے رہ جاتے ہیں۔ سیٹھ کلچر  میں  مارکیٹنگ کا کانسپٹ کم  ہو تا ہے۔ان لوگوں کے پاس  خوش قسمتی سے وراثتی پیسہ ہوتا ہے ۔ایسے لوگوں  کے پاس کوئی ویثرن نہیں ہوتا  ۔  یہ لوگ اپنے آپ کو عقل  مند سمجھتے ہیں ، یہ جتنا  کماتے ہیں  بس اسی خوشی میں رہتے ہیں ۔  ایسے  لوگ  اکثر بتاتے  ہوتے ہیں  کہ ہمارے  بڑے  بہت امیر  ہوا  کرتے  تھے  ۔ ہمارے  بڑے بڑے  برینڈز  تھے  یہی وجہ ہے کہ اکستان  کی اب  تک   کوئی ایک  کمپنی  بھی ملٹی  نیشنل   نہیں  بنی  اس  کی  ایک بڑی  وجہ  یہ ہے کہ  ہم لوگ کہتےہیں ہمارے  پاس  جتنا  ہے  وہ کافی  ہے۔
بعض لوگ پراڈکٹ کو  بیچنا  ہی کافی سمجھتے ہیں۔اگر کسٹمر کے ساتھ  تعلق اور  اعتماد  پیدا   نہ ہو   تو پراڈکٹ  کی  سیل گرنا شروع ہو جاتی  ہے ۔اگر کسٹمر کے  ساتھ تعلق   پر فوکس  ہوگا  تو پھر سیل  میں اضافہ ہوگا ۔ ایک  سیمنٹ   کمپنی  نے 24 گھنٹے   کے لیے کال سینڑ  بنایا ہوا ہے  تاکہ اگر  کسی بھی کسٹمر کو کسی قسم  کا  مسئلہ ہوتو  وہ رابطہ  کر  سکے ۔ لوگ   میڈیا کو مارکیٹنگ کی غرض سے ایک  ایک  منٹ  کے لاکھوں روپے ادا  کرتے ہیں  اگر  یہی  لاکھوں  روپے  لوگوں پر لگائے جائیں  تو اس  سے ناصرف  معاشرے  میں بہتری  آتی  ہے بلکہ مارکیٹنگ بھی ہو جاتی ہے۔ پھر یہ  مارکیٹنگ  وقتی  نہیں  رہتی عرصہ دراز تک  لوگوں  کے ذہنوں میں رہتی  ہے۔ ٹی وی  پر اشتہار  دینے   کی بجائے  معاشرے  کے لیے  خدمات  دینی چاہییں ۔خدمات  کے لیے  سب سے پہلے     کمپنی سب سے پہلے   اپنے ملازمین سے شروع کرے ، ان   کی گرومنگ  کروائے ،  ان کی بات چیت بہتر  کروائے ، ان کی سوفٹ  صلاحیتوں  کو بہتر  کرے ہو سکتا ہے اس  طرح  کرنے سے  وہ بھی ترقی  کر جائیں اگر وہ ترقی نہیں  بھی  کرتے  لیکن  دل لگا کر ضرور  کام کریں گے۔ اس  کے علاوہ  جب ملازمین کی گرومنگ  ہوئی  ہو گی  تو جب  کوئی باہر  کا بندہ آ کر دیکھےگا  تو وہ کہنے   پر مجبور  ہو جائے گا کہ   کمپنی کا معیار اوپر سے  نیچے تک ایک جیسا ہے  اور یوں   کمپنی ایک برینڈ  بن جائے گی۔ بھارت   کے ایک گاؤں میں   جہاں پر بجلی نہیں تھی ، پانی  نہیں  تھا،  بچوں کے  لیے سکول  نہیں تھا ، غربت  بہت زیادہ تھی   نیسلے   کمپنی نے  اس گاؤں    کے لوگوں  کو تعلیم دی ، بجلی دی، پانی دیا   نتیجہ تین چار سال بعد اسی گاؤں سے  نیسلے  کودودھ کی شکل  میں خام مال ملنا شروع ہوگیا  اور  گاؤں  والوں کی حالت بھی بہتر  ہو گئی  ۔  اس چیز کو دیکھتے  ہوئے نیسلے  نے  کئی اور گاؤں  پر  بھی انویسٹمنٹ  کرنا شروع  کردی۔ اس طرح   دوسرے گاؤں سے ستر ہزار  لوگ نیسلے  منسلک ہو گئے اب   ان کے گھروں  میں بجلی  ہے،صاف پانی  ہے ،ان کے بچوں کے  لیے سکولز ہیں  اور ان کا  معیارِ زندگی  بھی بلند ہو رہا ہے  ۔ جب خدمات  پیش  کی جائیں تواس سے کاروبار میں برکت  بھی پڑتی  ہے اور کاروبار ترقی  بھی  کرتا ہے۔ اگر کسی کو بھوک لگی ہو اور اس کو مچھلی   دے  دی جائے تو یہ بڑی بات  نہیں ہے   لیکن  اگر اس کو مچھلی پکڑنا سکھا  دیا  جائے تو  وہ   محتاجی سے آزاد ہو جائے گا۔
اس وقت  ہمارے  ہاں  جو  مارکیٹنگ پڑھائی جا رہی ہے  وہ  باہر  کے  ملکوں کی  مثالوں اور  لکھی  ہو ئی  کتابوں  سے پڑھائی جا رہی ہے   ۔ اس میں  کوئی شک نہیں  کہ  کچھ  بنیادی اصول ہوتے ہیں  لیکن  یہ  یاد رہنا چاہیے کہ باہر کے ملکوں   کی  شرح خواندگی  اور ہے ان کا  معیار ِ زندگی  کچھ اور ہے  جبکہ  ہمارا   کچھ  اور  ہے  تو ایسی صورت  میں  مارکیٹنگ  بھی  یہاں کی  صورتحال  کو  مد ِ نظر  رکھ  پڑھائی جانی چاہیے۔  جو  بچے  پڑھ  رہے ہوتے  ہیں ان  کے پاس اس حوالے  نئے نئے آئیڈیاز ہوتے ہیں  ان کے آئیڈیاز پر  توجہ نہیں دی جاتی ۔کچھ  نیا کرنے کے لیے  تجربہ  کار   لوگوں  کی  بجائے  ایسے  نوجوانوں  سے   کام لینا چاہیے  اس کی وجہ  یہ ہے کہ  جو  تجربہ  کار  شخص ہوتا ہے  وہ  اپنے تجربے  کی حدود  میں رہ  کر  کام  کرتا ہے  اس  سے نئے  نئے آئیڈیا ز  نہیں  آتے ۔ نئے آئیڈیا ز وہی  لے کر آتےہیں   جو نیا سوچتے ہیں  ۔ہمیں چاہیے  کہ ہم  اپنے  نوجوانوں  پر انویسٹ  کریں ان کو آگے  لے  کر جائیں ۔ مینجمنٹ   میں  تجربہ  کار  لوگوں  کی ضرورت  ہوتی ہے  لیکن مارکیٹنگ    کے ڈیپارٹمنٹ    میں  تجربہ  کار  لوگوں کے ساتھ ساتھ نوجوان بھی  ہونے چاہییں  تاکہ تجربے  اور  نئے آئیڈیاز  کو لے  کر چلا   جائے۔







کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں