جمعرات، 27 جولائی، 2017

علم کی دنیا کا سفر اور تبدیلی...........سید قاسم علی شاہ


غلام علی "علم  کی دنیا " ویب سائٹ  کے اونر  سید قسم علی شاہ سے "علم  کی دنیا " کے سفر  اور تبدیلی  کے موضوع پر  بات  کرتے  ہوئے  کہتے ہیں  کہ جب بچہ  میٹر ک کرتا ہے تو اس وقت سب سے  بہت بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آگے کیا  کرنا  ہے ۔یہ وہ وقت ہوتا ہے جہاں  پررہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے  لیکن  اس وقت   درست رہنمائی  کرنے والا کوئی  نہیں ہوتا ۔   جب  میں نے  میٹر ک  کیا تو مجھے بھی اس صورتحال سے گزرنا پڑا  تو اس وقت  میں نے سوچا کہ  کوئی ایسا ذریعہ ہونا چاہیے  جس سے  رہنمائی   مل سکے ۔میرے ذہن میں خیال آیا کہ ایسا  آن لائن   ذریعہ ہونا چاہیے  کہ بچہ جہاں پر بھی ہو اس  کو وہیں پر ساری معلومات  مل جائے۔ اسی  خیال  کو لے کر    میں نے  www.ilamkidunya.com ویب سائٹ  بنائی۔ کوئی بھی ادارہ  یا   کمپنی بنتی  ہے تو  اس کا آغاز ایک  مقصد  سے  ہوتا ہے اور وہ مقصد ہی اسے  آگے لے کر چلتا ہے ۔"علم کی دنیا"  کا شروع ہی سے یہ مقصد ہے کہ    طالب علموں کو، تعلیمی اداروں میں داخلے میں، فیلڈ کے انتخاب  میں، کیریئر  کے  انتخاب   میں ،  جابز  کے حصول میں رہنمائی فراہم کی جاسکے۔ سی ایس ایس  پاکستان  میں ایک  بہت بڑا امتحان ہے  نوجوانو ں کی  بہت بڑی تعداد  ایسی ہے  جو اس امتحان کو دینا چاہ رہی ہوتی ہے۔ اس صورتحال  کو مدِ نظر رکھتے ہوئےویب سائٹ پر پچھلے سالوں کے پیپرز ، نتائج ، معلوماتی ویڈیوز  اور امتحان کے بارے   رہنمائی دی گئی  ہے جو انہیں  ایک کلک  مل سکتی ہیں۔
کام کے آغاز میں  کافی  مشکلات  اورامتحانات  کا سامنا  کرنا پڑتا ہے ۔ کام کو چلانے کے لیے ٹیم  کی ضرورت  ہوتی ہے  مجھے  ایسے  لوگ درکار تھے جن  میں  کچھ  کرنے  کی جستجو تھی۔ جن کے ذہن میں یہ تھا کہ ہم نے سیکھنا ہے مگر  ایسے  لوگ آسانی سے  نہیں  ملتے ۔ ہمارے ہاں  زیادہ تر  لو گ یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں  محنت بھی نہ کرنی پڑے اور جلد از جلد باس بن جائیں اگر دیکھا جائے تو اس  سلسلے میں ان کا بھی  قصور  نہیں ہے ۔ ہمارے  تعلیمی  ادارے جس طرح کی بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں اس سے ان  کے ذہن  میں ایسی  باتیں بیٹھ جاتی  ہیں۔ اگر جذبہ  سچا ہو تو اللہ تعالیٰ بھی راستے  بنا دیتا  ہے اور اچھے  لوگ  بھی ملنا شروع ہو جاتے ہیں۔ کسی بھی  نئے  کام کے شروع کے دو تین سال کوشش، معاش اور وقت  کی انویسٹمنٹ کے ہوتے ہیں ۔ کامیابی  کے لیے یہ چلہ لگانا بہت ضروری ہوتاہے۔شروع کے انہیں سالوں  میں بندے کی قابلیت کا پتا چلتا ہے۔
جب  اس  ویب سائٹ کا آغاز ہوا  تو اس  وقت  کالجوں اور یونیورسٹیوں کو   انفارمیشن  ٹیکنالوجی  کا اتنا  پتا  نہیں تھا۔جب ان سے  اپنے پروجیکٹ کے  متعلق بات  کی  تو انہوں نے کافی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا۔ چیزیں شروع  میں مشکل  ضرور ہوتی ہیں  لیکن  جب  ان  کے سامنے  کھڑے  ہونے کا فیصلہ  کر لیا جائے تو آسانی آنا شروع ہو جاتی ہے۔جیسے جیسے  وقت گزرتا گیا  تعلیمی اداروں کا ہمارے  اوپر اعتماد بڑھتا گیا۔آج انفارمیشن  ٹیکنالوجی   میں بہت  تبدیلی آ چکی ہے۔  آج ہر  طالب علم  اپنی تمام تر  معلومات  انٹر نیٹ پر  ہی سرچ کرتا ہے ۔اب تعلیمی ادارے  سمجھنے لگ  گئے  ہیں  اس  کے بغیر کام  نہیں چل سکتا۔ اب  انہوں نے اپنے آپ کو انفارمیشن ٹیکنالوجی  پر شفٹ  کیا ہے ۔ اتنا کچھ ہونے کے باوجود  ابھی بہت   خلاء ہے خاص کر سرکاری تعلیمی اداروں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی  کااس طرح  استعمال نہیں ہو رہا  جس طرح ہونا چاہیے۔ اردگرد   کےممالک کے تعلیمی ادارے انفارمیشن ٹیکنالوجی  میں  بہت آگے  نکل چکے  ہیں  ۔ ہمارے ہاں  پہلا قد م  ہے ابھی بڑا کام ہونے والا  ہے۔
اس ویب سائٹ کا  ایک  مقصد یہ تھا کہ بچوں کے  تعلیمی معاملات  میں ان  کی رہنمائی کی جا سکے اس  کے ساتھ  ساتھ ایک  مقصد یہ بھی تھا کہ ان کی کردار سازی بھی کی جائے۔  لوگ ہمیشہ اچھی   شخصیات  کی پیروی  کرتے  ہیں  لیکن زیادہ  تر  لوگوں  کی ان شخصیات  تک رسائی  نہیں  ہوتی۔ ہم نے کوشش کی  کہ ان شخصیات  تک  رسائی  کو ممکن  بنایا  جا سکے ان  شخصیات میں جاوید چوہدری، بلال قطب،پروفیسر احمد رفیق اختر  اور بہت  سارے  لوگ  شامل ہیں ۔ ہم نے ان شخصیات کے لیکچرز  کروائے  اور ان کوویب سائٹ پر اپ لوڈ  کیا   اس  کے علاوہ  وہ  تمام  سوالات  جو  نوجوانوں کے ذہن میں آتے  ہیں  ان شخصیات  کے ذریعے  ان  کے جوابات دیئے ۔ کیر یئر  کونسلنگ  ایک ایسا شعبہ  ہے   جس میں پاکستان  میں بہت  مسئلہ ہے اس  مسئلے  کے حل  کے لیےبھی  ان شخصیات  سے  کیریئر  کونسلنگ   پر   لیکچرز  کروائے جارہے  ہیں ۔ اس   تجربے کا بہت شاندار نتیجہ رہا ہزاروں کی تعداد  میں  نوجوانو ں، طالب علموں ، والدین اور دوسرے لوگوں  نے  ان لیکچرز  کو دیکھا  ، سنا   اور لوگوں تک پہنچایا  یہ  بہت بڑی  کامیابی ہے ۔لوگوں کی بہت اچھی اور مثبت فیڈ بیک مل رہی ہے ۔ دنیا میں  بہت کم ایسا ہے  کہ تعلیم  کے حوالے  سے اتنا زیادہ ویب سائٹ کو وزٹ  کیا جاتا ہو  جتنا ہماری ویب سائٹ کو   کیا جاتا ہے۔اس وقت  یہ ویب سائٹ پاکستا ن  کی چند  بڑی ویب سائٹس  میں سے ایک ہے ۔آنے والے سالوں  میں ہمارا پروگرام  ہے کہ ہم آئن ٹیوشنز اور آئن لائن کلاسسز شروع کریں تاکہ  بچے  گھر  میں بیٹھے بیٹھے تعلیم حاصل کر سکیں۔
اس وقت جو تعلیمی ادارے  کام  کر رہے ہیں   وہ بغیر  مقصد کے  کام کر رہے ہیں  ان  کے  کوئی گولز  نہیں ہیں اور نہ ہی ان  کا  کوئی ویزن ہے  جس  کی  وجہ سے ان اداروں سے  جو بچے  فارغ ہو رہے ہیں ان  کا  کوئی مقصد نہیں  ہوتا اور نہ ہی ان میں  کوئی ویزن  ہوتا ہے ۔   زیادہ تر تعلیمی ادارے  کمرشلائزڈ   ہو گئے ہیں اس  میں اتنی  بری بات  بھی  نہیں ہے لیکن  ویزن  کا نہ ہونا بہت   بری بات ہے۔    بدقسمتی سے  تعلیمی اداروں  کا فوکس  یہ ہے  کہ  زیادہ  سے زیادہ  بچوں  کو اپنے ادارے   میں    لایا جائے   اور  اپنے  کاروبار  کو ترقی  دی جائے۔تعلیمی ادارے  بچوں کی  میموری میں اضافہ کر رہے ہیں  اور ان  کا ٹارگٹ  بچوں  کو سیکھنا نہیں  بلکہ  ڈگری دینا ہوتا ہے جب  یہ چیز  ہو تو پھر  نمبر تو آئیں  گے لیکن کردار سازی  نہیں ہوگی۔ اگر تعلیمی ادارے  بچوں  میں کردار سازی اور مثبت اپروچ پیدا کر یں تو بہتری آ سکتی  ہے۔ دوسری طرف   والدین اور طالب علموں کے ذہن   میں بھی یہ بات ہوتی ہے کہ ہم  نے ڈگری لینی ہے ،نوکری کرنی  ہے  اور بس ۔ کردار سازی کے حوالے سے میڈیا کا کردار اہم   ہے  میڈیاکو چاہیے  کہ وہ تخلیقی ذہن کے لوگوں کو آگے لے کر آئے ۔  میڈیا اداکاروں  اور کھلاڑیوں کو تو سپر سٹار  بناتا ہے  لیکن ایک اچھے تخلیقی رائٹر، اچھے پروفیسر ، اچھے سائنسدان   کو سپر سٹار  نہیں بناتا یہ بہت  بڑا المیہ  ہے۔ ہمیں  جن  لوگوں کو   ویلیو دینی  چاہیے تھی ان کو ویلیو نہیں دے رہے  جس  کی وجہ سے  معاشرہ تنزلی کی طرف  جارہا ہے جو صحیح لوگ ہیں  ان کی حوصلہ افزائی کی  جانی چاہیے ۔
 اس وقت   ملک میں صرف  نوکری  کارجحان  ہے اس کی وجہ  یہ ہے کہ   کاروبار کے مقا بلے میں  نوکری کو  بہت زیادہ پر موٹ کیا ہے ۔ ہر شخص کی خواہش ہے کہ اسے  گورنمنٹ  کی  جاب ملے  جہاں  پر  اسے  کام  نہ کرنا پڑے  لیکن یہ سمجھنا ہوگا کہ جب  کام نہیں  کیا  جائے اور نہ اپنے آپ  میں ذمہ داری پیدا  کی جائے گی  تو پھر صلاحیتوں دھیمک  لگنا شروع ہو جائے گی۔ دو تین گھنٹے  کام  کرنا اچھا تو لگے  گا لیکن  بندہ کچھ سیکھ  نہیں سکے گا جب ایک  مدت گزرے گی تو  بندہ  کہے گا کہ  میں نے نوکری  کر کے اپنے آپ کو ضائع  کیا ۔ نوکری    بریانی  کی  طرح  ہوتی  ہے  جس  کو  کھانے کا  مزا تو آتا ہے  لیکن اس  سے پیٹ  نہیں  بھرتا۔ کاروبار  میں  بہت سارے  لوگوں سے  ملنا   پڑتا ہے ، بندہ دنیا  گھومتا ہے ،  پیسہ  کماتا ہے  ایک وقت ایسا آتا ہے کہ  پیسہ  پیچھے  رہ جاتا ہے اور   مقصد آگے آ جاتا ہے ۔ کاروبار میں  لوگ اس  لیے  نہیں آنا چاہتے کہ   کیونکہ  اس میں  چیلنجز ہوتے   ہیں  ،مشکلات  آتی ہیں ، اتار چڑھاؤآتے  ہیں۔ کاروبار  میں نہ آنے کی  ایک  وجہ یہ بھی ہوتی ہے  جب  کوئی بندہ  کام شروع  کر  تا ہے  اگر وہ ایک دو  سال  نہ  چلے تو  اس کے گھر والے  اس  کو تانے  مار ماراسے کاروبار سے  بدزن  کر دیتے ہیں ۔  کسی بھی   کام  کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ جو بندہ  یہ سمجھتا ہے کہ اس   میں توانائی ہے ، صلاحیت ہے ، آئیڈیاز ہیں اسے  ضرور   کاروبار  کرنا چاہیے۔   کاروبار  میں مشکلات ضرور آئیں گی  لیکن انہیں  مشکلات   میں کامیابی   ملے گی۔ یہ کبھی  نہیں  ہوسکتا   ہر چیز  پر فیکٹ   مل  جائے  ۔  ذہن میں  یہ بات  ہونی   چاہیے   کہ  کوئی  بھی فیل ہو سکتا ہے ۔جب ذہن  یہ ہوتا ہے  کہ  میں نے کچھ  کرنا ہے  توا س میں انسان وہ  کچھ  کر جاتا ہے   جس کے بارے میں  دوسرے  لوگ  سوچ بھی  نہیں سکتے ۔ جب انسان راستے  کا انتخاب کر لیتا ہے  تو اللہ تعالیٰ  آسانیاں پیدا  کرنا شروع  کر دیتا ہے۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں