جمعرات، 6 جولائی، 2017

امیر اور غریب ہونے کی وجوہات۔۔۔۔۔۔۔۔۔سید قاسم علی شاہ


امیر اور غریب ہونے کو قسمت کا چکر  کہا  جاتا ہے  اس  میں  کچھ حقیقت  بھی ہے  لیکن زیادہ تر  جو نظریات ہیں   وہ حقیقت  پر مبنی  نہیں ہیں ان کو حتمی  رائے نہیں کہا جا سکتا۔ دنیا میں امیر اور غریب  ہونے پر بہت تحقیق ہو چکی ہے۔  جن لوگوں  نے اس موضوع  پر تحقیق  کی ہے انہوں نے بتایا ہے  کہ  امیر  ہونے  کے  کچھ اصول وضوابط ہیں ۔ دنیا کے تمام امیر لوگ کسی حدتک شعوری  یا لاشعور ی طور پر  ان اصولوں  کی پیروی  کرتےہیں ۔ دنیا میں پانچ فیصد ایسے لوگ ہیں جن کے پاس  دنیا کا اسی فیصد پیسہ  ہے    دنیا کے  پچانوے فیصد  بقیہ بیس فیصد  پیسے  پر گزارہ  کر رہے ہیں۔ پانچ فیصد  لوگ  جن کے پاس دنیا  کا اسی فیصد پیسہ ہے وہ ان اصولوں کی پیروی کرتے ہیں  جن کی وجہ سے  کامیابی ممکن ہوتی ہے۔ تحقیق کے  مطابق  امیر ہونا ایک سائنس  ہے اور اس سائنس  کا انحصار  سو چ پر ہے ۔ اگر سوچ مثبت اور آگے بڑھنے والی ہے  تو وہ سوچ  بندے کوامیر بنا دیتی ہے دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیا جائے کہ سوچ  یا توامیر  ہوتی ہے   یا  پھر غریب ہوتی ہے۔  ہر  کام  کی  ابتداء  سوچ اور  خیال سے ہوتی ہے  اور پھر وہی سوچ اور  خیال  نتائج پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جب تک   امیر  ہونے کے بارے میں سنجیدگی  سے سوچا نہیں  جائے گاتب تک  رویہ  نہیں بنے گا اور   جب تک  رویہ  نہیں بنے گا امیر  ہونا ممکن نہیں  ہوگا ۔باہر کی تبدیلی  کی ابتداء اندر کی تبدیلی سے ہوتی ہے اور جو اندر کی تبدیلی ہے اس  کا مطلب ہے سوچ کو تبدیل  کرنا۔Rich Dad Poor Dadایک  معروف  کتاب  ہے  یہ بتاتی ہے کہ  جتنے بھی   امیر  لوگ  ہوتےہیں   ان  میں شعوری  یا لاشعوری طور پر کچھ  سوچیں اور انداز  ہوتے ہیں  جن  کو  وہ  اپناتےہیں  جس کی وجہ  سے  خوشحالی ان کا مقدر  بن جاتی ہے ۔ اس  کتاب کے  متعلق امریکہ  کے  سابق صدر  کا کہنا  ہے  کہ کاش  میں نے اس کتاب کو  جوانی میں پڑا  ہوتا  یا پھر میرے  والدین  نے اس  کتاب کا مطالعہ  کیا ہوتا   تو میرے  خاندان بہت  بڑی تبدیلی واقع ہو چکی ہوتی۔ اس کتاب  کے  بارے میں  مارک وکٹر کہتا ہے کہ  امیر بننے اور امیر رہنے کے لیے اس  کتاب کے  دانش کے فقروں کو جاننا بہت ضروری  ہیں۔ اس  کتاب کے  مصنف  نے تحقیق  کر کے بتایا  ہے کہ امیر اور غریب  میں  بنیادی  فرق سوچ  کا فرق ہے ۔ حالات کو بدلنا ممکن نہیں ہوتا   بلکہ  خیالات  کو بدلنا ہوتا ہے حضرت واصف علی واصف ؒ فرماتےہیں "پریشانی حالات  سے نہیں خیالات سے پیدا ہوتی ہے ۔" اگر ہم اپنے خیالات  کو گرفت میں  کر لیں  تو  زندگی  گزارنا آسان ہو جاتا ہے ۔سوچ  کا فرق حالات کو بدلتا ہے جب تک کسی کی سوچ نہیں بدلے گی اندر تبدیلی نہیں آئے گی ۔
ہمارے ہاں معاشرے میں امیر ہونے کو مقدر کے ساتھ جوڑا جاتا ہے  ۔ لوگ مقدر  کی بہت  غلط تعریف  کرتےہیں ۔اگر  مقدر کی تعریف  کو ٹھیک کر لیا جائے تو بہتری  آسکتی  ہے۔ لوگ مقدر کو جامد سمجھتےہیں وہ سمجھتےہیں  کہ  مقدر  ایک ایسی چیز ہے  جس  بدلانہیں  جا سکتا ۔  اگر ایک فہرست  بنی  ہو  اوراس میں ان چیزوں  کے  متعلق  لکھا ہو جن کو بدلا نہیں  جا سکتا  ۔  ایک اور فہرست  بنی ہو  جس  میں ان چیزوں کے  متعلق  لکھا  ہو  جو  بدلی جا سکتی ہوں  تو  معلوم  ہوگا کہ جو  واقعات  ہوتے ہیں  ان  واقعات  کے نتیجے میں ہونے  والا ردِ عمل  اختیار میں ہے ۔ اسی طرح  جب اختیارات  کی فہرست  واضح ہو جائے گی  تو  معلوم ہوگا کہ  مقدر دو طرح کا ہے ۔ مقدر  کا ایک حصہ وہ ہوتا ہے  جو  جامد ہوتا ہے   جس کو بدلا نہیں جا سکتا جبکہ  دوسرا حصہ وہ ہوتا ہے  جس کو بدلا جا سکتا ہے ۔ ہمیں اس حصے پر کام   کرنے  کی ضرورت  ہوتی ہے  جس کو بدلا  جا سکتا ہے ۔مقدر  کو  جامد  سمجھنا ایک  ناکام سوچ ہے  یہ  ناکام سوچ  ناکامی کی طرف لے جاتی ہے ۔ دولت  درحقیقت    بندے کی سوچوں ، ذات ، صفات  کا نتیجہ ہے ۔ اگر  کسی  امیر  شخص سے پوچھا جائے  کہ آپ اتنے امیر کیسے بنیں  تو  وہ جواب دے گا  کہ اللہ تعالیٰ  کا کرم ہے ۔ اللہ تعالیٰ  کا کرم اصل  میں وہ  خوبیاں  ہوتی ہیں  جوانسان کے اندر پائی  جاتی  ہیں ۔ اللہ تعالیٰ  کا جب بھی  کرم ہوتا ہے   وہ  بندے  میں خوبیاں پیدا  کر دیتا ہے ۔ بعض  اوقات  بندہ اپنی خوبیوں سے آشنا   نہیں ہوتا اس  کو اندازہ  ہی نہیں ہوتا  کہ اس  میں  کیا کیا خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ کچھ  نہ کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم   سے ضرور  ہوتا ہے  جو خوشحالی  کا سبب بنتا ہے۔
لوگوں  کی بہت بڑی تعداد  کا امیر یا غریب ہونے  کے  متعلق  گمان بہت  منفی  ہوتا ہے۔قرآن  پاک میں ارشاد ہے کہ زیاد ہ  گمان  نہیں  کرنا چاہیے  کہ بعض  گمان شرک تک لے جاتےہیں ۔ حدیث شریف  کا مفہوم ہے کہ "اللہ تعالیٰ سے اچھا گمان لگاؤ کیونکہ تم جیسا گمان  لگاتےہو اللہ تعالیٰ تم سے ویسا  رویہ  اپنا لیتاہے۔"جب  بندہ توقع  لگاتا ہے  کہ  میرے ساتھ  برا ہی ہوگا  تو کائنات  کے کشش کے قانون  کے تحت   اس کے  ساتھ برا ہی ہوتا ہے  اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ گمان بری شعاعوں کو  اپنی طرف  متوجہ کرتا ہے ۔ امید بڑی طاقتور چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بڑے  انعاموں  میں سے ایک انعام  یہ ہے  کہ  بندے کی امید سلامت  رہے۔امید  کی سلامتی  اتنی کمال کی چیز ہے  کہ بندے کا سلامت  رہنے کو دل کرتا ہے ۔ اگر امید چلی  جائے تو زندگی بوجھ بن جاتی ہے۔ سب  کچھ گزر سکتا ہے اگر امید کا چراغ  بج  گیا تو پھر سمجھ  لیں  زندگی ختم ہو گئی ۔ اگر جینے کا سبب ختم ہو گیا تو  پھر جینے کا مزا کیسا ۔باباجی اشفاق احمد  فرماتےہیں ہم اپنے بابا جی کے پاس گئے  اور کہا"   مکھی کی چھیاسی آنکھیں ہوتی ہیں   " باباجی کہنے لگے "لعنت ہے ایسی  مکھی پر  جس  کی چھیاسی آنکھیں ہوتی ہیں  لیکن پھر  وہ  گند پر بیٹھتی ہے ۔  بعض  لوگ  اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتےہیں  لیکن  انتہا درجے   کے منفی  ہوتےہیں ہر وقت  ان کا گمان منفی ہوتا ہے۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں"اگر با پ کے خیالات  بیٹے کو پتا لگ جائیں  تو بیٹا  باپ   کا جنازہ بھی نہ پڑھے۔ "اگر ہماری اصل  شکلیں  لوگوں کے سامنے آ جائیں  تو لوگ دیکھنا پسند  نہ کریں ۔  جو  لوگ  منفی  ہوتے ہیں  انہیں خود پر اختیار نہیں  ہوتا۔خود پر اختیار  رکھنا  انسان کو  کامیاب  کر  دیتا ہے لیکن  خود پر اختیار  رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔ خودپراختیار  رکھنا  تب آسان ہوتا ہے جب  زندگی  میں کوئی مقصد ہو۔اگر زندگی میں  کوئی مقصد  نہیں ہے  تو پھر بندہ ڈی ٹریک  ہو جاتا ہے ۔  جتنے لوگ دوسروں   کی ٹانگیں کھینچتے نظر آتےہیں یہ وہ   لوگ ہوتےہیں  جن  کےپاس     کرنے کوکوئی  کام نہیں  ہوتا ۔ جب زندگی میں مقصد نہ  ہوتو پھر زندگی  کے دن پورے ہوتےہیں  لیکن ان کا   کوئی  نتیجہ نہیں ہوتا۔   جب زندگی میں  مقصد ہوتو پھر منفیت اثر انداز نہیں ہوتی ۔

دنیا  میں بعض  لوگوں کی زندگی میں مسائل آتےہیں ، مشکلات آتی ہیں  لیکن وہ ان  مسائل اور مشکلات کو  چیلنج کے طور پر  لیتے ہیں  اور ان کو  عبور کر کے  ثابت کرتےہیں چیلنج بڑا نہیں تھا  ہماری ہمت  بڑی تھی۔  جتنے ہارنے والے لو گ  ہوتے ہیں وہ چیلنج کی زد میں آجاتےہیں  وہ  بجائے اس کے  کہ   مشکلات کے سامنے  کھڑے ہوں  وہ  خود مشکلا ت کے  نیچے دب جاتےہیں ۔اگر  بندہ   مشکلا ت  کا سامنا کرنا  کے  لیے  اپنی ہمت کو  بڑھا لے تو ایک وقت آئے گا کہ   اس   کے  مشکلیں آسان ہو جائیں گی ۔ اگر ایک ہی  مسئلہ بار  بار   آ رہا ہے تو اس کا مطلب ہے  کہ  بندہ سیکھ نہیں رہا جو عقل مند  ہوتا ہے  وہ  مسئلے کا حل نکال  لیتا ہے ۔ حدیث شریف  کا مفہوم ہے کہ "مومن ایک سوراخ سے دو بار  نہیں ڈسا جاتا"رسول کریم ﷺ کی ذات  کریم  وہ ذات ہے کہ دانش آپﷺ کے قدموں پر  نثار  کی جا سکتی ہے آپﷺ  کا یہ جملہ ہے دنیا کے  بڑے بڑے  جو دانشور  ہیں  اگر ان  کے جملوں  کو سامنے رکھا  جائے  تو آپ ﷺ  کے جملے  کی حثییت  بادشاہ والی ہوگی ۔ مومن   پہلی  بار کی غلطی سے سیکھ  لیتا ہے اس کے بعد اپنے رویے  میں  ایسی تبدیلی   لے کر آتا ہے  کہ اس کےلیے    مشکلا ت آسان ہو جاتی ہیں ۔
کامیابی اور ناکامی ، امیر ی اور غریبی  کا  بچپن  کی عادات سے بہت گہرا تعلق ہوتا ہے۔بچپن  سے بچہ جو  کچھ سیکھ لیتا ہے  وہ اس  کی عادت بن جاتا ہے پھر وہی عادت اس  کو چلاتی  ہے ۔بچے  شعور ی  طور پر  نہیں سیکھتےوہ لا شعور ی طورپر سیکھ رہے  ہوتے ہیں  ۔ بچہ والدین  کی  نصیحتوں سے  زیادہ  ان کے  طور طریقوں سے سیکھتا ہے ۔  وہ  بچے جو زیادہ  گالیاں  نکالتےہیں  ان کے گھروں میں گالیاں نکالی جاتی ہیں۔ ہمارے  کتنے ایسے رویے ہیں  جن  کو ہم سیکھتے  ہیں  پھر  بناتےہیں ۔ جتنے  کامیاب  بزنس مین ہیں      انہیں  معلوم  ہوتا ہے  کہ پیسہ  ہمار ا اثاثہ  ہے لیکن  اس سے بھی بڑا  اگر  کوئی اثاثہ  ہےتو وہ ہمارے بچے ہیں  اگر ہم نے ان کو فن  نہ دیا  تو یہ ہمارے اثاثو ں  کو اجاڑ دیں گے۔ ہر کامیاب  انسان اپنے بچے کو  کامیابی  کے گر سکھا تا ہے ۔  سکھانے  کی غرض سے  بچوں کو  کامیاب  لوگوں  کے پاس  لے  کر  جایا  جائے  اور انہیں  ان کی کامیابیوں  کے متعلق  بتایا جائے ۔ بچے  کو وراثت  میں   جائیداد  دیں نہ  دیں  لیکن آگے بڑھنے  کا جذبہ  ضرور پیدا  کریں۔
اگر  کسی کے حالات اچھے نہیں ہیں اسے چاہیے  کہ  وہ  ایسے  بندے کو تلاش کرے  جو کامیاب ہو ، خوشحال ہو  وہ اس   کی کمپنی  میں رہے ۔  جب بندہ  کسی  کی کمپنی  میں رہتا ہے  یا  کسی کو اپنا مینٹور   مان لیتا ہے تو پھر اس  کا اثر  پڑنا شروع ہو جاتا ہے ا س کی شعاعیں  اثر انداز ہونا شروع   ہو جاتی ہیں  ، ہمت بڑھ جاتی ہے ، سوچنے کا،دیکھنے کا انداز بدل جاتا ہے ، مسئلے چھوٹے  لگنا شروع ہو جاتےہیں ۔کسی نے  کیا خوب کہا ہے کہ اپنے اندر خوشحال اور امیر لوگوں کی عادات پیدا  کر لیں آپ خوشحال  ہو جائیں گے۔انگلینڈ میں ایک تحقیق ہوئی  کہ وہ   لوگ  جن کو اچانک بہت سا پیسہ   مل جاتا ہے   لیکن کچھ عرصہ بعد  وہ کنگال  ہو جاتےہیں   اس  کی وجہ یہ ہوتی ہے  کہ ان کے پاس پیسہ تو آ جاتا ہے  لیکن  پیسہ سنبھالنے کی صلاحیت نہیں آتی ۔ بے شمار  کاروباری حضرات ہیں  جو اپنے بچوں کو  تعلیم  تو دلا دیتےہیں  لیکن  جو کاروباری گر ہوتےہیں  وہ  ان میں پیدا نہیں کرتے۔  تعلیم بہت ضروری ہے  لیکن تجربے  کی  تعلیم   کی بہت زیادہ اہمیت ہے ۔ بڑے  بابے ایسے  ہوتے ہیں  جن  کے پاس  کاغذ کی کوئی ڈگری نہیں ہوتی  لیکن  ان کے کام  کرنے کا انداز  بتاتا ہے کہ  وہ قابل ہے۔ کامیابی کا سفر  مقابلے کا سفر ہوتا ہے  اور سب سے بڑ ا مقابلہ  انسان کا اپنے ساتھ ہوتا ہے ۔جب انسان  اپنی فتح  کا سوچتا ہے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت  اسے  کامیاب ہونے سے نہیں روک سکتی۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں