اتوار، 20 اگست، 2017

معذور شخص اور پہاڑ۔۔۔۔۔۔۔۔۔روزنامہ ایکسپرس

اس ساری کہانی کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ یہ کام تنِ تنہا ایک معذور شخص نے کیا ہے۔ یہ کارنامہ 63 سالہ ملیتھوویٹل سسی نے انجام دیا ہے جو بمشکل چل سکتے ہیں اور ان کا سیدھا ہاتھ کام نہیں کرتا۔ انہوں نے تین سال کی مسلسل محنت سے اپنے گھر کے سامنے پہاڑی سے 200 میٹر طویل سڑک نکالی ہے اور اپنے خاندان کی دوبارہ کفالت شروع کر دی ہے۔
میلیتھوویٹل نے غربت کے ہاتھوں 15 برس کی عمر سے درختوں سے ناریل اتارنے کا کام شروع کیا اور اس کی زندگی آسانی سے گزر رہی تھی لیکن 18 برس قبل وہ درخت سے گر کرمعذور ہو گیا اور بستر پر پڑ گیا، والد کی معذوری کے باعث اس کے بیٹے نے تعلیم چھوڑ کر مزدوری شروع کر دی۔
ملیتھوویٹل سسی چلنا تو دور خود ہلنے سے بھی معذور گیا تھا لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اور ازخود چلنا سیکھا۔ فزیوتھراپی اور برسوں ادویہ کھانے کے بعد وہ دوبارہ چلنے پھرنے لگا اور سیدھے ہاتھ پر کنٹرول بڑھایا۔
وہ درخت پر نہیں چڑھ سکتا تھا لیکن تین پہیوں کی اسکوٹر خرید کر قریبی شہر میں لاٹری ٹکٹ فروخت کرنا چاہتا تھا تاہم اسکوٹر کے لیے اس کے پاس رقم نہیں تھی۔موٹرسائیکل کے لیے انہوں نے مقامی پنچایت سے رابطہ کیا تو وہاں اس کا مذاق اڑایا گیا کیونکہ اس کے گھر کے سامنے ایک وسیع پہاڑی تھی اور باہر جانے کا کوئی راستہ بھی نہ تھا۔ اس کے بعد ملیتھو ویٹل نے اس پہاڑ سے راستہ نکالنے کے لیے 10 سال تک مختلف اداروں کے چکر لگائے لیکن ہر جگہ سے ناکامی کے بعد 2013 میں اس نے ازخود ہھتوڑا اور چھینی اٹھا کر پہاڑ میں سے راستہ نکالنے کی ٹھان لی۔ اس کا عزم معذوری پر حاوی ہو گیا اور وہ ہر روز پابندی سے پہاڑ میں سے راستہ نکالنے کا کام کرنے لگے۔
بھارتی شہری کا کہنا ہے، ’’میں ہر روز صبح 5 بجے پہاڑی توڑنا شروع کرتا اور شدید گرمی کی وجہ سے ساڑھے آٹھ بجے کام روک دیتا۔ پھر جب تپتے ہوئے دن کی جلن کچھ کم ہو جاتی تو ساڑھے تین بجے دوبارہ کام شروع کرتا اور سورج غروب ہونے تک مسلسل پہاڑ صاف کرتا رہتا‘‘۔ اپنی معذوری کی وجہ وہ کبھی کبھی لڑکھڑا کر گرجاتا اور کئی بار زخمی بھی ہوا لیکن آہستہ آہستہ اس نے خود کو متوازن کرنا سیکھ لیا۔
ملیتھوویٹل سسی کے پاس لوگ جمع ہونا شروع ہو گئے لیکن مدد کی بجائے وہ اس کا مذاق اڑاتے اور اسے پاگل کہتے رہے، تاہم ملیتھو ویٹل نے سب سے بے پرواہ ہو کر اپنا کام جاری رکھا اور وقت کےساتھ ساتھ ان کاحوصلہ بڑھتا گیا اور ایک وقت ایسا آیا کہ محلے والے اس کی تعریف کرنے لگے۔
اس طرح روزانہ 6 گھنٹے تک مسلسل تین سال کوششوں کے بعد ملیتھو نے پہاڑ کاٹ کر راستہ بنا لیا اور ان کے گھر سے باہر جانے کا راستہ کھل گیا۔ اس کامیابی کے بعد انٹرنیٹ پر لوگوں نے اس کی مدد کی اور اب وہ ایک اسکوٹر کے مالک ہیں جس سے ان کی مالی حالت بہتر ہو رہی ہے۔

روزنامہ ایکسپرس

جمعرات، 17 اگست، 2017

25 ایسی ملازمتیں جو آپ کو کروڑ پتی بنا دیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج کل کسی بھی شعبے میں تعلیم حاصل کرنے والا فرد اکثر یہ سوال کرتا ہے کہ متعلقہ ڈگری لے کر وہ کتنی کمائی کرسکے گا اور اندرونِ ملک یا بیرونِ ملک اس کےلیے کیا مواقع موجود ہیں۔
اگر آپ کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے اور آپ امریکا یا کینیڈا جا کر اچھی آمدنی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو یہ تحریر ضرور پڑھنی چاہیے۔ یہاں یہ واضح رہنا بھی ضروری ہے کہ ذیل میں دیئے گئے شعبہ جات وہ ہیں جن میں افرادی قوت کی مانگ پر ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے بعد بھی کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔یعنی اگر آپ میں اتنی قابلیت ہے کہ ان میں سے کسی ملازمت کےلیے اہل قرار پا جائیں تو نہ صرف امریکی ویزہ کا حصول آپ کےلیے آسان ہوجائے گا بلکہ ممکنہ طور پر کینیڈا امیگریشن میں بھی آپ کےلیے خاصی سہولیات پیدا ہوجائیں گی۔یہ بھی واضح رہے کہ بالکل نئے اور ناتجربہ کار افراد کو ان شعبوں میں نسبتاً کم آمدنی ہی سے ابتداء کرنا ہوگی لیکن تجربے میں اضافے کے ساتھ ساتھ وہ جلد ہی اس سے بھی کہیں زیادہ آمدنی حاصل کرسکیں گے۔
1۔ ڈاکٹر
سالانہ اوسط تنخواہ: 180,000 ڈالر (ایک کروڑ 80 لاکھ روپے)
2۔ وکیل
سالانہ اوسط تنخواہ: 144,500 ڈالر (ایک کروڑ 44 لاکھ روپے)
3۔ ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ مینیجر
سالانہ اوسط تنخواہ: 142,120 ڈالر (تقریباً ایک کروڑ 43 لاکھ روپے)
4۔ سافٹ ویئر ڈیویلپمنٹ مینیجر
سالانہ اوسط تنخواہ: 132,000 ڈالر (ایک کروڑ 32 لاکھ روپے)
5۔ فارمیسی مینیجر
سالانہ اوسط تنخواہ: 130,000 ڈالر (ایک کروڑ 30 لاکھ روپے)
6۔ اسٹریٹجی مینیجر
سالانہ اوسط تنخواہ: 130,000 ڈالر (ایک کروڑ 30 لاکھ روپے)
7۔ سافٹ ویئر آرکٹیکٹ
سالانہ اوسط تنخواہ: 128,250 ڈالر (ایک کروڑ 29 لاکھ روپے)
8۔ انٹیگریٹڈ سرکٹ ڈیزائن انجینئر
سالانہ اوسط تنخواہ: 127,500 ڈالر (ایک کروڑ 28 کروڑ روپے تقریباً)
9۔ آئی ٹی مینیجر
سالانہ اوسط تنخواہ: 120,000 ڈالر (ایک کروڑ 20 لاکھ روپے)
10۔ سولیوشن آرکٹیکٹ
سالانہ اوسط تنخواہ: 120,000 ڈالر (ایک کروڑ 20 لاکھ روپے)
11۔ انگیجمنٹ مینیجر
سالانہ اوسط تنخواہ: 120,000 ڈالر (ایک کروڑ 20 لاکھ روپے)
12۔ ایپلی کیشن ڈیویلپمنٹ مینیجر
سالانہ اوسط تنخواہ: 120,000 ڈالر (ایک کروڑ 20 لاکھ روپے)
13۔ فارماسسٹ
سالانہ اوسط تنخواہ: 118,000 ڈالر (ایک کروڑ 18 لاکھ روپے)
14۔ سسٹم آرکٹیکٹ
سالانہ اوسط تنخواہ: 116,920 ڈالر (ایک کروڑ 17 لاکھ روپے تقریباً)
15۔ فائنانس مینیجر
سالانہ اوسط تنخواہ: 115,000 ڈالر (ایک کروڑ 15 لاکھ روپے)
16۔ ڈیٹا سائنٹسٹ
سالانہ اوسط تنخواہ: 115,000 ڈالر (ایک کروڑ 15 لاکھ روپے)
17۔ رِسک مینیجر
سالانہ اوسط تنخواہ: 115,000 ڈالر (ایک کروڑ 15 لاکھ روپے)
18۔ کری ایٹیو ڈائریکٹر
سالانہ اوسط تنخواہ: 115,000 ڈالر (ایک کروڑ 15 لاکھ روپے)
19۔ ایکچوئری
سالانہ اوسط تنخواہ: 115,000 ڈالر (ایک کروڑ 15 لاکھ روپے)
20۔ ڈیٹا آرکٹیکٹ
سالانہ اوسط تنخواہ: 113,000 ڈالر (ایک کروڑ 13 لاکھ روپے)
21۔ ٹیکس مینیجر
سالانہ اوسط تنخواہ: 110,000 ڈالر (ایک کروڑ 10 لاکھ روپے)
22۔ پروڈکٹ مینیجر
سالانہ اوسط تنخواہ: 107,000 ڈالر (ایک کروڑ 7 لاکھ روپے)
23۔ ڈیزائن مینیجر
سالانہ اوسط تنخواہ: 106,500 ڈالر (ایک کروڑ 7 لاکھ روپے تقریباً)
24۔ اینالیٹکس مینیجر
سالانہ اوسط تنخواہ: 106,000 ڈالر (ایک کروڑ 6 لاکھ روپے)
25۔ انفارمیشن سسٹمز مینیجر
سالانہ اوسط تنخواہ: 106,000 ڈالر (ایک کروڑ 6 لاکھ روپے)
روزنامہ ایکسپرس


7027 میٹر چوٹی "اسپانتک" کرنے والی پہلی خاتون۔۔۔۔۔۔۔۔۔


گلگت بلتستان میں واقع 7027 میٹر بلند چوٹی ’’اسپانتک‘‘ المعروف ’’گولڈن پِیک‘‘ سر کرنے والی پہلی خاتون کوہ پیما عظمیٰ یوسف نے اپنی اس کامیابی کو پاکستانی خواتین کے نام کردیا ہے۔
عظمیٰ یوسف نے یہ کارنامہ 2 اگست 2017 کو انجام دیا تھا۔ واضح رہے کہ اسپانتک کا شمار دنیا کی ایسی چوٹیوں میں ہوتا ہے جنہیں سر کرنا انتہائی مشکل ہے جبکہ گزشتہ چار سال میں کوئی بھی کوہ پیما یہ چوٹی سر نہیں کر پایا تھا۔غیر ملکی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں عظمیٰ یوسف کا کہنا تھا کہ اُن کی ٹیم کے علاوہ دو اور ٹیمیں بھی گولڈن پِیک سر کرنے کے لیے ان ہی کے ساتھ روانہ ہوئی تھیں جن کا تعلق چیک ری پبلک اور جاپان سے تھا لیکن خراب موسم کی وجہ سے وہ مہم ادھوری چھوڑ کر واپس ہو گئیں۔عظمیٰ یوسف کے ساتھی کوہ پیماؤں میں واجد اللہ، اصغر حسین اور یاسین بھی شامل تھے جبکہ اس ٹیم نے اسپانتک کی چوٹی سر کرنے کے بعد دو گھنٹے تک وہاں قیام بھی کیا۔قبل ازیں عظمیٰ یوسف پاکستان کے شمالی علاقوں میں قراقرم کے پہاڑی سلسلے میں واقع چوٹیوں ’’منگلنگ سر‘‘ اور ’’رش پیک‘‘ وغیرہ کو شدید سرد موسم یعنی منفی 28 درجہ سینٹی گریڈ میں بھی سر کرچکی ہیں جو اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔اپنے انٹرویو میں عظمیٰ یوسف نے پاکستانی خواتین کی ہمت، جرأت اور بہادری کو سلام کرتے ہوئے اپنی اس کامیابی کو تمام پاکستانی خواتین کے نام کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ہر عورت مضبوط ہے اور دنیا کا مشکل سے مشکل کام بھی کرسکتی ہے۔پاکستان میں کوہ پیمائی کے فروغ پر کام کرنے والی تنظیم ’’الپائن کلب‘‘ نے بھی عظمیٰ یوسف کے اعزاز میں ایک خصوصی تقریب کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔
روزنامہ ایکسپرس



منگل، 15 اگست، 2017

ہم سب مفتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔جاوید چودھری

جنرل گل حسن قیام پاکستان کے وقت قائداعظم محمد علی جناح کے اے ڈی سی تھے‘ یہ اس وقت فوج میں کیپٹن تھے اور یہ قائداعظم کے پاس آنے سے قبل فیلڈ مارشل ولیم سلِم کے اے ڈی سی رہے تھے‘ فیلڈ مارشل ولیم سلِم اتحادی فوجوں کی مشرقی کمانڈ کے چیف تھے‘ قائداعظم نے گل حسن کو تجربے کی بنیاد پر اپنے ساتھ وابستہ کر لیا‘ اگست 1947ء میں پاکستان کی پہلی سرکاری تقریب تھی‘ یہ تقریب گورنر جنرل ہاؤس کراچی میں منعقد
ہو رہی تھی‘ قائداعظم نے دعوتی کارڈز جاری کرنے کا حکم دے دیا‘ یہ حکم جاری ہوا تو قائداعظم نے کیپٹن گل حسن کو طلب کیا اور انہیں ہدایت کی گورنر جنرل ہاؤس سے سب سے پہلے کراچی کے ہندو تاجروں کو دعوت نامے جاری ہونے چاہئیں‘ کراچی کے حالات اس وقت بہت مخدوش تھے‘ ہندو تاجر بھارت جا رہے تھے‘ کراچی کے مسلمان ان کی جائیدادوں پر قبضے کر رہے تھے‘ ہندوستان سے فسادات اور مسلمانوں کے قتل عام کی خبریں آ رہی تھیں‘ ان خبروں کی وجہ سے مسلمانوں میں شدید اضطراب پایا جاتا تھا‘قائداعظم کے عملے کو محسوس ہوا ان حالات میں ہندو تاجروں کو دعوتی کارڈ بھجوانا خطرناک ہو گا‘ کراچی کے مسلمان بالخصوص بھارت سے آنے والے مہاجرین ناراض ہو جائیں گے اور یوں قائداعظم کا امیج خراب ہو گا‘ عملے نے یہ تحفظات گل حسن کے ذریعے قائداعظم تک پہنچانے کا فیصلہ کیا‘ گل حسن قائداعظم کے پاس حاضر ہوئے اور ان سے عرض کیا ”سرہندو تاجروں کو سرکاری تقریب میں بلانے سے آپ کا امیج خراب ہو گا“ قائداعظم نے اس اعتراض کا کیا جواب دیا آپ یہ جاننے سے پہلے یہ ذہن میں رکھئے قائداعظم نے پاکستان دو قومی نظریئے کی بنیاد پر حاصل کیا تھا‘ قائداعظم نے ایک طویل سماجی مقدمے اور ان تھک نظریاتی جدوجہد کے بعد انگریزوں کو یقین دلایا تھا مسلمان اور ہندو دو مختلف قومیں ہیں اور یہ کبھی اکٹھی نہیں رہ سکتیں لیکن
وہی قائداعظم پاکستان بننے کے بعد ہندو تاجروں کو مسلمانوں سے پہلے دعوتی کارڈز جاری کرانا چاہتے تھے اور آپ کا عملہ آپ کو اس سے باز رکھنا چاہتا تھا‘ قائداعظم نے گل حسن کی بات غور سے سنی اور اس کے بعد فرمایا ”پاکستان کسی ایک قوم کا ملک نہیں‘ یہ ہر اس شخص کا ملک ہے جو اس ملک کی حدود کے اندر رہ رہا ہے‘ وہ خواہ مسلمان ہو یا ہندو یا
پھر کسی اور مذہب سے تعلق رکھتا ہو‘ پاکستان کی حدود میں اقلیتوں کو اکثریت سے زیادہ حقوق حاصل ہیں‘ میں اس لئے ہندو تاجروں کو مسلمانوں سے پہلے دعوت دینا چاہتا ہوں“ قائداعظم کے اس فرمان کے بعد کراچی کے ہندو تاجروں کو مسلمان شہریوں سے پہلے دعوتی کارڈز جاری ہوئے اور ہندو تاجر یہ کارڈز وصول کر کے حیران رہ گئے۔
قائداعظم کی اقلیتوں کے بارے میں رائے کا ایک اور واقعہ بھی ملاحظہ کیجئے‘ قائداعظم کو سیکورٹی کیلئے پولیس کی طرف سے دو آفیسر ملے تھے‘ یہ آفیسر قائداعظم کی حفاظت کرتے تھے‘ ان میں سے ایک ڈی ایس پی تھا اور دوسرا اس کا اسسٹنٹ کم ڈرائیور۔ ڈی ایس پی پارسی تھا‘ بھارت کے ایک شدت پسند شخص نتھو رام گوڈسے نے 30 جنوری 1948ء کو مہاتما گاندھی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا‘ قائداعظم گاندھی کے بعد شدت پسندوں کا ہدف تھے‘ قائداعظم کے عملے نے محسوس کیا ان حالات میں پارسی آفیسر کو قائداعظم کے قریب نہیں رہنا چاہیے
یہ کسی بھی وقت قائداعظم کیلئے خطرہ بن سکتا ہے‘ گل حسن نے قائداعظم کے سامنے ایک دن اس خدشے کا اظہار کیا‘ قائداعظم برا مان گئے اور انہیں ڈانٹ کر کہا ”اس ملک کا ہر شہری پاکستانی ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو اور مجھے اگر اپنے پاکستانی بھائیوں پر اعتماد نہیں تو پھر مجھے ان کی رہنمائی کا کوئی حق نہیں“ قائداعظم کے اس فرمان کے بعد یہ ڈی ایس پی اس وقت تک قائداعظم کی حفاظت پر مامور رہا جب تک آپ علاج کیلئے زیارت شفٹ نہیں ہو گئے
یہ ڈی ایس پی اس وقت بھی قائداعظم اور محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ ہوتا تھا جب دونوں واک کیلئے اکیلے ملیر جاتے تھے اور اس وقت اے ڈی سی اور اس پارسی ڈی ایس پی کے سوا آپ کے قریب کوئی نہیں ہوتا تھا۔ آپ اقلیتوں کے بارے میں قائداعظم کے خیالات کی ایک مثال اور بھی ملاحظہ کیجئے‘ آپ زیارت میں علیل تھے تو آپ کوڈنہم نام کی ایک عیسائی نرس دی گئی تھی‘ یہ نرس کٹڑ عیسائی تھی‘ ہندوستان کے عیسائی قائداعظم کو پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ یہ ہندوستان کے واحد سیاستدان تھے جنہوں نے سیاست کے ساتھ ساتھ اپنی انا بھی برقرار رکھی تھی چنانچہ ہندوستان کے عیسائی قائداعظم کو دل سے پسند نہیں کرتے تھے اور قائد کے عملے کا خیال تھا یہ بھی قائداعظم کو نقصان پہنچا سکتے ہیں لیکن سسٹر ڈنہم آپ کی خدمت کیلئے زیارت آئی
نرس نے قائداعظم کا ٹمپریچر چیک کیا‘ قائداعظم نے اس سے اپنا ٹمپریچر پوچھا‘ نرس نے جواب دیا ”سر میں نرس ہوں اور طبی اخلاقیات کے مطابق میں مریض کی انفارمیشن مریض کے ساتھ شیئر نہیں کر سکتی‘ میں اپنی رپورٹ ڈاکٹر کو دوں گی اور اگر ڈاکٹر نے مناسب سمجھا تو یہ آپ کے ساتھ شیئر کر لے گا“ قائداعظم کو عیسائی نرس کا یہ جواب بہت پسند آیا‘ آپ نے اس کا شکریہ بھی ادا کیا اور اس کی ایمانداری کی تعریف بھی کی‘ یہ نرس اس وقت تک آپ کے ساتھ رہی جب تک آپ کراچی روانہ نہیں ہو گئے۔ آپ اب آئیے قائداعظم محمد علی جناح کے مذہبی نظریات کی طرف
یہ حقیقت ہے قائداعظم محمد علی جناح نماز پڑھتے تھے‘ آپ نماز کے دوران گڑگڑا کر دعا بھی کرتے تھے لیکن آپ نے کبھی اپنی نمازوں‘ اپنی دعاؤں اور اپنی گڑگڑاہٹ کو نمائش کا ذریعہ نہیں بنایا‘ آپ صبح کے وقت گھر کے کسی الگ تھلگ کمرے میں چلے جاتے تھے‘ سجدے میں گر جاتے تھے اور اللہ تعالیٰ سے رو رو کر دعا کرتے تھے‘ اس دوران کسی کو آپ کے کمرے میں آنے کی اجازت نہیں تھی‘ آپ مذہبی ریاکاری سے کس قدر دور تھے آپ اس کی دو مثالیں ملاحظہ کیجئے
قائداعظم کوئٹہ میں مقیم تھے‘ یحییٰ بختیار آپ کی تصویریں بنانے کیلئے کیمرا لے کر آپ کی رہائش گاہ پر چلے گئے‘ قائداعظم اس وقت احادیث کی کوئی کتاب پڑھ رہے تھے‘ یحییٰ بختیار نے کوشش کی وہ آپ کی کوئی ایسی تصویر بنا لے جس میں کتاب اور اس کتاب کا ٹائٹل فوکس ہو جائے‘ قائداعظم یحییٰ بختیار کی نیت بھانپ گئے چنانچہ آپ نے کتاب میز پر رکھ دی اور فرمایا ”میں اس مقدس کتاب کو پبلسٹی کا موضوع بنانا پسند نہیں کرتا“ قائداعظم 3 مارچ 1941ء کو عصر کی نماز کیلئے لاہور ریلوے سٹیشن کے سامنے کسی مسجد میں تشریف لے گئے
آپ داخل ہوئے تو مسجد کھچا کھچ بھری تھی‘ لوگوں نے قائداعظم کو دیکھ کر راستہ دینا شروع کر دیا مگر آپ پچھلی صف میں بیٹھ گئے‘ نماز کے بعد لوگ آپ کے جوتوں کی طرف لپکے مگر آپ نے فوراً جوتے اٹھا لئے‘ لوگ آپ کے ہاتھ سے جوتے چھیننے کی کوشش کرتے رہے لیکن آپ نے جوتا ہاتھ سے نہ جانے دیا اور مسجد سے باہر نکل کر اپنا جوتا خود پہنا۔یہ دونوں واقعات قائداعظم کے مذہبی جذبات اور نظریات کی عکاسی کرتے ہیں‘ قائداعظم مذہب کو نمائش اور اختلافات کا ذریعہ بنانے کے خلاف تھے
یہ پاکستان کی حدود میں رہنے والے ہر شخص کو مذہب اور نظریات سے بالاتر ہو کر پاکستانی سمجھتے تھے اور یہ کسی کو مذہب کی بنیاد پر برا نہیں سمجھتے تھے‘ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کے جھنڈے تک میں اقلیت کی نمائندگی موجود ہے‘ ہمارے جھنڈے میں دو رنگ ہیں‘ سبز اور سفید‘ سبز رنگ مسلمانوں کی نمائندگی کرتا ہے جبکہ سفید اقلیتوں کی۔ سفید امن کا رنگ بھی ہے لہٰذا ہم اگر جھنڈے کو قائداعظم کی نظر سے دیکھیں تو اس کا مطلب ہو گا پاکستان میں مسلمان اکثریت اس وقت تک پرامن نہیں رہ سکتی جب تک ہم اس ملک میں اقلیتوں کو امن اور تحفظ فراہم نہیں کرتے
کل ہم نے 70 واں یوم آزادی منایالیکن ملک میں اقلیتوں کی کیا صورتحال ہے اس کیلئے یہ خبر کافی ہو گی کہ ہر سال پانچ ہزار ہندو بھارت ہجرت کر جاتے ہیں‘ یہ ہندو علاقے کے زور آور اور عاقبت نا اندیش لوگوں سے تنگ ہیں‘ یہ لوگ انہیں اغواء بھی کرتے ہیں‘ ان سے بھتہ بھی وصول کرتے ہیں اور انہیں زبردستی مسلمان بنانے کی کوشش بھی کرتے ہیں‘ کیا یہ واقعہ افسوس ناک نہیں اور کیا یہ ملک کی 70 ویں سالگرہ پر قائداعظم کے فلسفے کی توہین نہیں؟
کیا ہم نے اعتدال کی چادر اتار کر شدت پسندی اور نفرت کی عبا نہیں اوڑھ لی اور کیا ہم ایک ایسے راستے پر نہیں چل نکلے جس کے آخر میں ہم سب کا اپنا اپنا اسلام ہو گا اور ہم دوسروں کو بندوق کی نوک پر اپنا اسلام قبول کرنے پر مجبور کریں گے اور جو شخص ہماری بات نہیں مانے گا ہم اسے گولی مار دیں گے اور گولی مارنے کے بعد خود کو مجاہد بھی قرار دیں گے‘کیاہمارے یہ رویئے ہمیں اس وحشت کی طرف نہیں لے جا رہے ہیں جس کے آخر میں آگ‘ خون اور نعشوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور انسانیت نے اس وحشت سے بڑی مشکل سے جان چھڑائی تھی
ہم نے اپنے قائد اور اپنے قائد کے ملک کا احترام نہیں کیا‘ قدرت احسان فراموشوں کو وحشی بنا دیتی ہے اور یہ قدرت کی طرف سے نافرمانی کی کم ترین سزا ہوتی ہے چنانچہ آج اس اسلامی ملک میں مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمان محفوظ ہیں اور نہ ہی غیر مسلم۔ ہم اپنے علاوہ ہر شخص کو قابل گردن زنی سمجھ رہے ہیں‘ ہم سب اپنے تئیں مفتی ہیں اور ہمارے اندر کا مفتی ہمارے علاوہ تمام لوگوں کو کافر اور سزائے موت کا حق دار سمجھتا ہے چنانچہ ہم نعشوں پر اذان دینے اور نماز پڑھنے کی تیاری کر رہے ہیں اور یہ 70 سال بعد اس قائداعظم کے ملک کا نقشہ ہے جس نے پہلی سرکاری تقریب میں ہندوؤں کو مسلمانوں سے پہلے دعوت بھجوائی تھی اور جس نے مقدس کتابوں کو پبلسٹی کا ذریعہ بنانے سے انکار کر دیا تھا۔
جاوید چودھری


اتوار، 13 اگست، 2017

پاکستانی پولیس کا سپوت۔۔۔۔۔جاوید چودھری

پشاور پو لیس کا کا نسٹیبل طا ہر خان پا کستا ن کے نو جوانو ں کے لیے ایک مثال بن گیا ہے غربت کے باعث اپنے لیے دس سال سے جو تے تک نہیں خریدے تھے لیکن با ئیوٹیکنا جی میں پی ایچ ڈی ضرور کر لی ہے۔ طاہر خان نے اپنی کانسٹیبل سے ڈاکڑ بننے کی کہا نی سناتے ہو ئے بتا یا کہ جب میری پو لیس کیلئے سلیکشن ہوئی تب ہمارے گھریلو حالات بہت خراب تھے۔انہوں نے بتا یا کہ بی ایس ای کر نے کے بعد میری پی ایچ ڈی کی
بہت خو اہش تھی مگر اس کی داخلہ فیس 3000 ہزار روپے تھی لیکن میری دیرینہ خواہش نے مجھے چین سے بیٹھے نہیں دیا ۔ میں نے اپنے والد صاحب کو کہا کہ میں نے پی ایچ ڈی کر نی ہے لیکن اس کی داخلہ فیس تین ہزار روپے ہے تو والد صاحب نے کہا کہ بیٹا خواہش تو میری بھی ہے کہ آپ پی ایچ ڈی کریں لیکن میرے پاس تین ہزار تو کیا تین روپے تک نہیں ۔طاہر خان نے بتا یا کہ پی ایچ ڈی کا اتنا شو ق تھا کہ پیسے بچانے کے چکر میں ، میں دس سال تک کبھی بھی با زار نہیں گیا۔ اپنے لیے کپڑے خریدے اور نہ ہی کبھی جو تے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اسی دوران میرے والدد صاحب کا انتقال ہو گیا (یہ بتاتے ہوئے ان کی آنکھیں نم ہو گئیں) مگر میں نے ہمت نہیں ہاری اور پی ایچ ڈی مکمل کر لی ۔ جو لو گ یہ با ت سمجھتے ہیں کہ پشاور پو لیس میں کوالیفائیڈ لو گ نہیں ہے تو میں یہ بتا دو ں کے پشاور پو لیس میں پی ایچ ڈی اور ما سٹرزکے ڈگری ہولڈر لوگ بھی موجود ہیں ۔ انہوں نے آخر میں پاکستان کے نوجوانوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ وہ کبھی بھی ہمت نہ ہاریں ۔ مشکلیں آتی ہیں مگر ہمارا کام بس آگے بڑھتے جانا ہے اور ہمیں یہی کرنا چاہئے ۔

جاوید چودھری

ہم اپنے محسنوں نہیں بھولتے۔۔۔۔۔۔۔۔جاوید چودھری

وہ دو تھیں‘ ایک میکسیکو میں پیدا ہوئی اور دوسری جرمنی کے شہر لائزگ میں۔ ایک نن تھی اوردوسری ڈاکٹر۔ سسٹربیرنس کا تعلق میکسیکو سے تھا جبکہ ڈاکٹر روتھ فاؤ جرمنی کی رہنے والی تھی‘ یہ دونوں انسانیت
کی خدمت کرنا چاہتی تھیں۔ ڈاکٹر روتھ نے 1958ء میں پاکستان میں کوڑھ (جزام) کے مریضوں کے بارے میں ایک فلم دیکھی‘ کوڑھ اچھوت مرض ہے جس میں مریض کا جسم گلنا شروع ہو جاتا ہے‘ جسم میں پیپ پڑجاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی انسان کا گوشت ٹوٹ ٹوٹ کر نیچے گرنے لگتا ہے‘ کوڑھی کے جسم سے شدید بو بھی آتی ہے‘ کوڑھی اپنے اعضاء کو بچانے کیلئے ہاتھوں‘ ٹانگوں اور منہ کو کپڑے کی بڑی بڑی پٹیوں میں لپیٹ کر رکھتے ہیں‘ یہ مرض لا علاج سمجھا جاتا تھا چنانچہ جس انسان کو کوڑھ لاحق ہو جاتا تھا اسے شہر سے باہر پھینک دیا جاتا تھا اور وہ ویرانوں میں سسک سسک کر دم توڑ دیتا تھا۔ پاکستان میں 1960ء تک کوڑھ کے ہزاروں مریض موجود تھے‘ یہ مرض تیزی سے پھیل بھی رہا تھا‘ ملک کے مختلف مخیرحضرات نے کوڑھیوں کیلئے شہروں سے باہر رہائش گاہیں تعمیر کرا دی تھیں‘ یہ رہائش گاہیں کوڑھی احاطے کہلاتی تھیں‘ لوگ آنکھ‘ منہ اور ناک لپیٹ کر ان احاطوں کے قریب سے گزرتے تھے‘ لوگ مریضوں کیلئے کھانا دیواروں کے باہر سے اندر پھینک دیتے تھے اور یہ بیچارے مٹی اورکیچڑ میں لتھڑی ہوئی روٹیاں جھاڑ کر کھا لیتے تھے‘ ملک کے قریباً تمام شہروں میں کوڑھی احاطے تھے‘ پاکستان میں کوڑھ کو ناقابل علاج سمجھا جاتا تھا چنانچہ کوڑھ یا جزام کے شکار مریض کے پاس دو آپشن ہوتے تھے‘ یہ سسک کر جان دے دے یا خود کشی کر لے۔
ڈاکٹر روتھ فاؤ اس وقت تیس سال کی جوان خاتون تھیں‘ یہ انتہائی جاذب نظر اور توانائی سے بھر پور عورت تھیں اور یہ یورپ کے شاندار ترین ملک جرمنی کی شہری بھی تھیں‘ زندگی کی خوبصورتیاں ان کے راستے میں بکھری ہوئی تھیں لیکن انہوں نے اس وقت ایک عجیب فیصلہ کیا‘ ڈاکٹر روتھ جرمنی سے کراچی آئیں اور انہوں نے پاکستان میں کوڑھ کے مرض کے خلاف جہاد شروع کر دیا اور یہ اس کے بعد واپس نہیں گئیں‘ انہوں نے پاکستان
کے کوڑھیوں کیلئے اپنا ملک‘ اپنی جوانی‘ اپنا خاندان اور اپنی زندگی تیاگ دی‘ ڈاکٹر روتھ نے کراچی ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ پر چھوٹا سا سینٹر بنایا اور کوڑھیوں کا علاج شروع کر دیا
کوڑھ کے مریضوں اور ان کے لواحقین نے اس فرشتہ صفت خاتون کو حیرت سے دیکھا کیونکہ اس وقت تک کوڑھ کو اللہ کا عذاب سمجھا جاتا تھا‘ لوگوں کا خیال تھا یہ گناہوں اور جرائم کی سزا ہے چنانچہ لوگ ان مریضوں کو گناہوں کی سزا بھگتنے کیلئے تنہا چھوڑ دیتے تھے‘ ڈاکٹر روتھ اور سسٹر بیرنس کیلئے پہلا چیلنج اس تصور کا خاتمہ تھا‘ انہیں بیماری کو بیماری ثابت کرنے میں بہت وقت لگ گیا اور اس کے بعد مریضوں کے علاج کا سلسلہ شروع ہوا
ڈاکٹر روتھ اپنے ہاتھوں سے ان کوڑھیوں کو دوا بھی کھلاتی تھیں اور ان کی مرہم پٹی بھی کرتی تھیں جن کو ان کے سگے بھی چھوڑ گئے تھے۔ ڈاکٹر روتھ کا جذبہ نیک اور نیت صاف تھی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں شفاء دے دی‘ یہ مریضوں کا علاج کرتیں اور کوڑھیوں کا کوڑھ ختم ہو جاتا تھا‘ اس دوران ڈاکٹر آئی کے گل نے بھی انہیں جوائن کر لیا‘ ان دونوں نے کراچی میں 1963ء میں میری لپریسی سنٹر بنایا اور مریضوں کی خدمت شروع کردی
ان دونوں نے پاکستانی ڈاکٹروں‘ سوشل ورکرز اور پیرامیڈیکل سٹاف کی ٹریننگ کا آغاز بھی کر دیا یوں یہ سنٹر 1965ء تک ہسپتال کی شکل اختیار کر گیا‘ ڈاکٹر روتھ نے جزام کے خلاف آگاہی کیلئے سوشل ایکشن پروگرام بھی شروع کیا‘ ڈاکٹر کے دوستوں نے چندہ دیا لیکن اس کے باوجود ستر لاکھ روپے کم ہو گئے‘ ڈاکٹر روتھ واپس جرمنی گئیں اور جھولی پھیلا کر کھڑی ہو گئیں‘ جرمنی کے شہریوں نے ستر لاکھ روپے دے دئیے اور یوں پاکستان میں جزام کے خلاف انقلاب آ گیا۔
ڈاکٹر روتھ پاکستان میں جزام کے سنٹر بناتی چلی گئیں یہاں تک کہ ان سنٹر کی تعداد 170 تک پہنچ گئی‘ ڈاکٹر نے اس دوران 60 ہزار سے زائد مریضوں کو زندگی دی‘ یہ لوگ نہ صرف کوڑھ کے مرض سے صحت یاب ہو گئے بلکہ یہ لوگ عام انسانوں کی طرح زندگی بھی گزارنے لگے۔ ڈاکٹر روتھ کی کوششوں سے سندھ‘ پنجاب‘ خیبرپختونخواہ اور بلوچستان سے جزام ختم ہو گیا اور عالمی ادارہ صحت نے 1996ء میں پاکستان کو ”لپریسی کنٹرولڈ“ ملک قرار دے دیا
پاکستان ایشیاء کا پہلا ملک تھا جس میں جزام کنٹرول ہوا تھا‘ ڈاکٹر روتھ فاؤ قبائلی علاقوں اور ہزارہ میں بھی جزام کا پیچھا کر رہی تھیں اور ان کا خیال تھا اگلے چند برسوں میں پاکستان سے جزام کے جراثیم تک ختم ہو جائیں گے لیکن ڈاکٹر روتھ فاؤ10 اگست کو کراچی میں انتقال کر گئیں‘ان کی عمر 88 برس تھی اوریہ 57 برس تک پاکستانیوں کی خدمت میں مصروف عمل رہیں۔ حکومت ڈاکٹر روتھ فاؤ کی ان خدمات سے واقف تھی چنانچہ حکومت نے 1988ء میں ڈاکٹر روتھ کو پاکستان کی شہریت دے دی تھی
انہیں ہلال پاکستان‘ ستارہ قائداعظم‘ ہلال امتیاز اور جناح ایوارڈ بھی دیا گیا اور انہیں نشان قائداعظم سے بھی نوازا گیا تھا۔ آغا خان یونیورسٹی نے ڈاکٹر روتھ فاؤ کو ڈاکٹر آف سائنس کا ایوارڈ بھی دیا تھا۔ جرمنی کی حکومت نے بھی انہیں آرڈر آف میرٹ سے نوازا تھا اور اب وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے ڈاکٹر روتھ فاؤ کو سرکاری اعزازات کے ساتھ سپرد خاک کرنے کا اعلان کیا ہے‘ یہ تمام اعزازات‘ یہ تمام ایوارڈ بہت شاندار ہیں لیکن یہ فرشتہ صفت خاتون اس سے کہیں زیادہ ”ڈیزرو“ کرتی ہیں
انہوں نے جوانی میں اپنا وہ وطن چھوڑ دیا جہاں آباد ہونے کیلئے تیسری دنیا کے لاکھوں لوگ جان کی بازی لگا دیتے ہیں اور یہ اس ملک میں آگئیں جہاں نظریات اور عادات کی بنیاد پر اختلاف نہیں کیا جاتا بلکہ انسانوں کو مذہب اور عقیدت کی بنیاد پر اچھا یا برا سمجھا جاتا ہے‘ جس میں بے ایمان سے بے ایمان مسلمان بھی جنت کا حقدار ہے اور دیانتدار سے دیانتدار عیسائی‘ یہودی‘ پارسی‘ بودھ اور ہندو کافر۔ جس میں لوگ خود کو زیادہ اچھا مسلمان ثابت کرنے کیلئے دوسروں کو بلا خوف کافر قرار دے دیتے ہیں
جس میں لوگ آج بھی کینسر کا علاج پھونکوں‘ شوگر کا علاج پانی اور نفسیاتی عارضوں کا علاج عاملوں کے ڈنڈوں سے کرتے ہیں اور جس میں ہم بغیر کسی وجہ کے ہر گورے کے خلاف ہیں اور ہم سیم باسیل جیسے بیمار ذہنیت کے لوگوں کی حرکتوں کی سزا پاکستانی چرچوں‘ پاکستانی اے ٹی ایم مشینوں‘ پاکستانی پٹرول پمپوں اور پاکستانی گاڑیوں کو دیتے ہیں اور جس میں سکول کھولنے کا مطالبہ کرنے پر ملالہ یوسف زئی جیسی بچیوں کو گولی مار دی جاتی ہے اور جس میں وہ لوگ پورا معاشرہ ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں جو میٹرک تک تعلیم حاصل نہیں کر پاتے اور جو عملی زندگی میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔
جس میں لوگ معاشرے کے انتہائی برے‘ نالائق‘کرپٹ اور بے ایمان لوگوں کو پہلے پارلیمنٹ میں بھجواتے ہیں اور پھر ان کے خلاف جلوس نکالتے ہیں اور جس میں مارشل لاء اور جمہوریت کھیل بن چکی ہے اور جس میں آج تک کسی سیاستدان (عمران خان کے علاوہ)‘ کسی بڑے عالم کو کسی بیماری کے خلاف جہاد کی توفیق نہیں ہوئی‘ جس میں لوگ قربانی کی کھالیں جمع کر کے ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کے بجائے مساجد اور مدارس پر لگا دیتے ہیں اور جس میں لوگ تعلیم‘ صحت اور صاف پانی کا بجٹ بھی کھا جاتے ہیں اور جس میں آج بھی لوگوں کو واش روم استعمال کرنا نہیں آتا۔
ڈاکٹر روتھ کا عین جوانی میں جرمنی سے اس پاکستان میں آ جانا اور اپنی زندگی کے 57 سال اجنبی ملک کے ایسے مریضوں پر خرچ کر دینا جنہیں ان کے اپنے خونی رشتے دار بھی چھوڑ جاتے تھے واقعی کمال ہے بلکہ اگر میں یہ لکھتے ہوئے دائرہ اسلام سے خارج نہ ہو جاؤ ں یا میرے ملک کے علمائے کرام مجھے معاف کر دیں تو یہ جہاد اکبر ہے۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ کی اس ملک سے محبت کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ انہوں نے زندگی ہی میں پاکستان میں تدفین کی وصیت کی تھی۔
ڈاکٹر روتھ اس ملک کے ہر اس شہری کی محسن ہے جو کوڑھ کا مریض تھا یا جس کا کوئی عزیز رشتے دار اس موذی مرض میں مبتلا تھایا جو اس موذی مرض کا شکار ہو سکتا تھا۔ ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے یہ خاتون‘ اس کی ساتھی سسٹر بیرنس اور ڈاکٹر آئی کے گل پاکستان نہ آتے اور اپنی زندگی اور وسائل اس ملک میں خرچ نہ کرتے تو شائد ہمارے ملک کی سڑکوں اور گلیوں میں اس وقت لاکھوں کوڑھی پھر رہے ہوتے اور دنیا نے ہم پر اپنے دروازے بند کر دئیے ہوتے‘ ہمارے ملک میں کوئی آتا اور نہ ہی ہم کسی دوسرے ملک جا سکتے۔ یہ لوگ ہمارے محسن ہیں چنانچہ ہمیں ان کی ایوارڈز سے بڑھ کر تکریم کرنا ہو گی۔
میری درخواست ہے ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں ڈاکٹر روتھ کا پروفائل چھوٹے بچوں کے سلیبس میں شامل کر لیں‘ یہ وفاقی دارالحکومت اور صوبائی دارالحکومتوں میں مرکزی جگہوں پر ڈاکٹر روتھ کی یادگار بھی بنوائیں‘ ڈاکٹر روتھ کی تصویر کنندہ کی جائے‘ اس کے ساتھ ان کا پروفائل تحریر کیاجائے اور عوام اور سکولوں کے بچوں کو تحریک دی جائے‘ یہ ڈاکٹر روتھ کی یادگار پر آئیں اور یہاں موم بتی جلا کر پاکستان کی اس محسنہ کا شکریہ ادا کریں۔ ہمارا سی ڈی اے پہل کر سکتا ہے
یہ شاہراہ دستور یا بلیو ایریا کے کسی نمایاں مقام پر ڈاکٹر روتھ کی یادگار بنا دے‘ ڈاکٹر روتھ فاؤہی کے کسی ٹیم ممبرکو بلوا کر اس یاد گار کا افتتاح کروائے اور ہمارا میڈیاڈاکٹر روتھ کو خراج تحسین پیش کرے تا کہ جرمنی سمیت یورپ اور امریکا کے لوگوں کو علم ہو سکے ہم جہاں سیم باسیل جیسے شیطانوں کی مذمت کرتے ہیں ہم وہاں ڈاکٹر روتھ جیسی فرشتہ صفت خواتین کی عظمت کا احترام بھی کرتے ہیں‘ ہم انہیں اپنے دل اور دماغ دونوں میں جگہ بھی دیتے ہیں اور‘ اور‘ اور ہم احسان فراموش نہیں ہیں‘ ہم اپنے محسنوں کوکبھی نہیں بھولتے۔
جاوید چودھری


آپ کی شخصیت کیسی ہے، اپنے ناخنوں سے پوچھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔روزنامہ ایکسپرس

ہر انسان کے ناخن دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں یہاں تک کہ بچوں کے ناخن بھی والدین سے جداگانہ ہو سکتے ہیں۔ البتہ ناخنوں کی ساخت میں شخصیت کے راز بھی پوشیدہ ہوتے ہیں۔
نائجیریا کے ایک ماہر نے ہزاروں افراد کے ناخنوں کی ساخت اور ان کے کردار کا جائزہ لینے کے بعد بتایا ہے کہ اگر ناخنوں کا بغور جائزہ لے لیا جائے تو اس سے انسان کی پوشیدہ شخصیت بھی بے نقاب ہو سکتی ہے۔ وہ کیسے؟ ملاحظہ کیجیے:
چوڑے، لمبے اور مستطیل نما ناخن
اس ساخت والے ناخن پرسکون، بردبار، متوازن، آزاد اور وسیع تر ذہنیت رکھنے والی شخصیت کے عکاس ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ قابلِ بھروسہ ہوتے ہیں اور وہ اپنی گفتگو سے لے کر عمل تک میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ پیدائشی لیڈر بھی ہوتے ہیں۔
بہت چھوٹے اور مربع شکل والے ناخن
ایسے ناخن جن لوگوں کے ہوتے ہیں وہ تیز دماغ، لچک دار مزاج اور دوسروں سے بہت اچھے تعلقات رکھنے والے ہوتے ہیں۔ وہ بہت جلدی غصے میں آجاتے ہیں لیکن اتنی ہی جلدی ان کا غصہ ختم بھی ہوجاتا ہے۔ البتہ وہ بہت لالچی اور پرتشدد مزاج رکھنے کے علاوہ دوسروں سے جلن اور حسد کرنے والے بھی ہوتے ہیں۔
لمبے لیکن کم چوڑے ناخن
یہ لوگ انتہائی انا پرست ہوتے ہیں اور موقع پرستی ان کی فطرت میں ہوتی ہے۔ یہ اپنے فائدے کے لیے کسی بھی موقعے سے فائدہ اٹھانا خوب جانتے ہیں۔ عیش پسندی ان کے مزاج کا لازمی حصہ ہوتی ہے اور وہ ہر وقت دوسروں کی توجہ کا مرکز بنے رہنا چاہتے ہیں۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی برا مان جاتے ہیں اور انہیں اپنی ذات پر حملہ تصور کرتے ہیں۔
چھوٹے ناخن
جن لوگوں کے ناخن دوسرے افراد کی نسبت چھوٹے ہوتے ہیں وہ عموماً جلد غصے میں آنے والے اور بے صبرے ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ بہت ذہین بھی ہوتے ہیں۔ ناخن جتنے چھوٹے ہوں گے، ایسا شخص اپنے لیے دوسروں سے اتنی ہی زیادہ توقعات رکھنے والا ہوگا اور اسی قدر خود غرض بھی ہوگا۔ البتہ یہ لوگ اپنی منزل پانے کے لیے شدید ترین محنت بھی کرتے ہیں اور ہر کام کو بہترین انداز میں کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں وہ اکثر کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔
بادام جیسے ناخن
حساس، نرم مزاج اور رومانوی مزاج رکھنے والوں کے ناخن عموماً ایسے ہی ہوتے ہیں۔ وہ خواب و خیال کی مثالی دنیا میں جیتے ہیں اور جب دوسرے انہیں اہمیت دیتے ہیں تو وہ بے حد خوش ہوتے ہیں۔ وہ بہت زیادہ جذباتی ہوتے ہیں جو ہلکے پھلکے مذاق پر بھی ناراض ہوجاتے ہیں۔
مثلث نما (تکون شکل والے) ناخن
جن لوگوں کے ناخن مثلث نما ہوتے ہیں وہ عموماً شاعری، ادب، موسیقی اور مصوری وغیرہ میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں اور ان کی شخصیت میں شائستگی کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔ لیکن وہ مستقل مزاج ہر گز نہیں ہوتے اور کوئی بھی کام زیادہ دیر کرنے پر اکتاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بہ الفاظِ دیگر، انہیں ’’متلون مزاج‘‘ کہنا چاہیے مگر ساتھ ہی ساتھ ان میں خلافِ مزاج باتیں یا صدمات برداشت کرنے کی صلاحیت بھی نہیں ہوتی اور ایسے حالات میں وہ نروس بریک ڈاؤن تک کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وہ معاشرے میں ممتاز اور مشہور مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں جبکہ انہیں ہارنے سے شدید نفرت ہوتی ہے
روزنامہ ایکسپرس