کے ٹو
دنیا کی دوسری بلند
ترین چوٹی کے-ٹو پاکستان کے علاقہ گلگت
بلتستان میں سلسلہ کوہِ قراقرم میں واقع
ہے۔ اس کی بلندی 8611 میٹر ہے۔ سب سے پہلے
1856ءمیں تھامس منٹگمری، برطانوی انجینئرزکے ایک
لیفٹیننٹ کرنل اور ہندوستان کے مثلث سروے کے ایک پیمائش کنندہ، نے قراقرم پہاڑی
سلسلے میں 2 بلند چوٹیوں کا مشاہدہ کیا اور ان کی عددی بنیادوں پر نقشہ بندی کی ۔
اس کا مقامی نام چوگوری ہے، جس کا بلتی زبان میں مطلب "بڑاپہاڑ" جبکہ اس کو ماؤنٹ گڈون آسٹن اور شاہگوری بھی کہا جاتا ہے۔ سب سے1902ء میں اس پر چڑھنے کو
شش کی
گئی جو کہ ناکام رہی۔اس کے بعد 1909ء، 1934ء، 1938ء،
1939ء اور 1953ء میں بھی اس پر چڑھنے کی کوششیں
کی گئیں لیکن ناکام رہیں ۔31 جولائی 1954ء کو اٹلی کے کو ہ پیمالیساڈلی اور کمپانونی اس پر چڑھنے
میں کامیاب ہوئے۔ پاکستان کی طرف سے اشرف
امان نے سب پہلے 1977ء میں اس پر چڑھنے کا اعزاز حاصل کیا۔ نذیر صابرپاکستان کا وہ
سرمایہ افتخار ہیں جنہوں نے کےٹوکو مغربی چڑھائی کی طرف سے سر کرکے تاریخ ساز
کارنامہ انجام دیا۔ 1981ء میں کی جانے والی اس کوہ پیمائی میں نذیر صابر کے ساتھ
جاپانی کوہ پیما بھی شامل تھے۔ مہربان
شاہ، رجب شاہ اور حسن سدپارہ بھی کے ٹو کی بلندیوں کو چھو چکے ہیں۔ 2014ء میں پہلی
بار پاکستانی بار برداروں اور گائیڈز پر مشتمل ٹیم نے اطالوی کوہ پیماؤں کے ساتھ
کے ٹو کی چوٹی پر قدم رکھ کر اسے سر کرنے کے ساٹھ سال پورے ہونے کا جشن منایا۔ جولائی2017ءمیں 52 سالہ وینیسا او برائن امریکی
خاتون نے اس کو سر کیا۔16 جنوری 2021ء میں
منگما جی اور نرمل پرجا
کی زیرقیادت نیپال کی
کوہ پیماؤں کی ٹیم نے پہلی بار موسم سرما اس چوٹی کو سرکرنے کا اعزاز
حاصل کیا۔ کے ٹو کو ماؤنٹ ایورسٹ کے مقابلے میں زیادہ
مشکل اور خطرناک سمجھا جاتا ہے۔اپنی خطرناک چڑھائیوں ڈھلانوں کی بنا پر اس کو وحشی یا ظالم پہاڑی چوٹی بھی کہا جاتا ہے۔
چڑھائی کے دوران "بوٹل نیک" ایک
ایسا مقام (یہاں پر دیوہیکل ستون اور تودے ہیں )ہے جہاں پر
کئی جان لیوا حادثے رونما ہو چکے
ہیں ان میں 2008ء میں کاوہ سانحہ بھی شامل ہے جس میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے
والے گیارہ کوہ پیما زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے ۔کے ٹو کو سر کرنے کے لیے جون تا
اگست بہترین مہینے ہیں باقی سال یہاں کا موسم کوہ پیمائی کے لیے انتہائی نا مناسب
ہے۔ چین کی جانب سے کوہ پیمائی
زیادہ مشکل ہے،اسی لیے تقریباً سبھی کوہ پیما پاکستان کی طرف سے کے ٹو پہ چڑھتے
ہیں۔ان کا پہلا پڑاؤ یا بیس کیمپ بھی پہاڑ کے قریب واقع ہے۔کوہ پیما عموماً اس وقت
چڑھائی کرتے ہیں جب موسم پرسکون ہو۔جیسے ہی تیز برفانی ہوائیں چلیں،وہ کے ٹو پر
کسی جگہ ٹھہر کر موسم کی سختی نرمی میں بدلنے کا انتظار کرتے ہیں۔کوہ پیمائی کی
دنیا میں پہاڑوں پہ آٹھ ہزار میٹر سے زیادہ بلند علاقہ ’’ڈیتھ زون‘‘کہلاتا ہے۔وجہ
یہ کہ اس علاقے میں آکسیجن کی شدید کمی ہوتی ہے۔تب انسان مصنوعی تنفس کے بغیر زندہ
نہیں رہ سکتا۔اس وقت کوہ پیما چاہے کتنا ہی طاقتور اور جی دار ہو،آکسیجن کی کمی
بڑوں بڑوں کے حواس مختل کر ڈالتی ہے۔اس چوٹی کو سر کرنے کے لیے زیادہ تر "ابزوزی" روٹ
اختیار کیا جاتا ہے جو کٹھن اور خطرناک ہونے کے باوجود تکنیکی بنیادوں پر استعمال کیا جانے والا راستہ ہے۔ اب تک کے ٹو پر300 سے زائد افراد جن میں 18 خواتین بھی شامل ہیں چڑھ چکے ہیں جبکہ 70 سے زائد
افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔1953ء میں ایک امریکی کوہ پیما،جارج بیل نے اس کو ’’قاتل پہاڑ ‘‘کا لقب دیا تھا۔انڈ پینڈنٹ
اردو کے مطابق سکائی
بلیو ٹریک اینڈ ٹورز ایک پاکستانی کمپنی ہے، جو کوہ پیماؤں کو ٹور سروسز فراہم
کرتی ہے۔ کمپنی کی طرف سے کوہ پیماؤں کو پورٹرز کی سروس بھی فراہم کی جاتی ہے، جو
انہیں بیس کیمپ تک پہنچاتے ہیں۔کمپنی کی طرف سے سٹاف بھی ہوتا ہے، جو ان کے لیے
کھانا پکاتا اور دیگر کام کرتا ہے، جن کی روزانہ اجرت پانچ ہزار روپے ہوتی ہے۔ کے
ٹو سر کرنے کے لیے دو مہینے کی سمٹ ہوتی ہے جس میں کوہ پیما کوشش کرتے ہیں کہ وہ
چوٹی کو سر کرنے میں کامیابی حاصل کریں۔کے ٹو اور باقی چوٹیوں کو سر کرنے پر لگ
بھگ 40 سے 60 لاکھ روپے تک خرچہ آتا ہے۔ اس خرچے میں لاجسٹک، ٹکٹس، خوراک، آکسیجن
سیلنڈر، کلائمبنگ کی مخصوص جیکٹس اور دیگر آلات شامل ہوتے ہیں۔ ایپری کاٹ ٹورز بھی
ایک پاکستانی کمپنی ہے، جو کوہ پیماؤں کو سروسز فراہم کرتی ہے۔ اس کمپنی کے مطابق
26 ہزار فٹ سے اوپر بلندی والی چوٹیوں کے ریٹ لسٹ کے مطابق کے ٹو سر
کرنے کا خرچہ 52 لاکھ روپے سے زائد ہے۔ اسی طرح پاکستان میں نانگا پربت سر
کرنے کے لیے 43 دن درکار ہوتے ہیں اور اس پر مجموعی طور 34 لاکھ سے زائد کا خرچہ
آتا ہے۔ کوہ پیما اپنے ساتھ ایل پی جی گیس لے جاتے ہیں، جو وہاں پر اپنے آپ کو گرم
رکھنے کے لیے آگ جلانے اور کھانا پکانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔خوراک میں کوہ پیما
کوشش کرتے ہیں کہ ہلکی خوراک کھائیں تاکہ ان کو اوپر جانے میں آسانی ہو۔ کوہ پیما
اپنے ساتھ چاکلیٹ اور ڈرائی فروٹ بھی لے جاتے ہیں جو ہلکی خوراک ہے۔ مشہور سفرنامہ گار مستنصر حسین تارڑ صاحب نے "شاہگوری" اور "کے ٹو
کہانی" کے نام سے اس پر دو کتابیں لکھی
ہیں جبکہ Vertical Limits اور K2 دو فلمیں بھی بن چکی ہیں۔ پہلی دفعہ کے ٹو ڈرون کے ذریعے 2016ء میں اس کی
عکس بندی کی گئی جو کہ صرف چھ ہزار میٹر
تک ہی ممکن ہو سکی ۔
کاوش: علی حسین
ذرائع: وکی پیڈیا،
نوائے وقت، روزنامہ ایکسپرس، انڈپینڈنٹ اردو
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں