پیر، 8 مارچ، 2021

اَن جان دوست

 اَن جان دوست

قاسم علی شاہ

’’آپ کا مستقبل آپ کے ماضی جیسا نہیں ہونا چاہیے!‘‘(ٹونی روبنس)

یہ ٹونی روبنس کی کتاب Notes from a Friend کا خلاصہ ہے جس میں ٹونی روبنس نے اپنا فلسفہ بیان کیا ہے۔ ٹونی روبنس کا شمار دنیا کے ان اسپیکر ز میں سے ہے جس نے دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو بدل ڈالا۔ یہ حجم کے اعتبار سے چھوٹی سی کتاب ہے، لیکن اس کا انداز عوامی ہے۔ اس کو کتاب بہ آسانی ایک دونشستوں میں ختم کیا جاسکتا ہے۔ اس کتاب کا آغاز ایک گھر کی کہانی سے ہوتا ہے جس میں غربت و افلاس نے ڈیرے ڈالے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے گھر میں ہر وقت میاں بیوی کی لڑائی رہتی ہے اور اس لڑائی کی وجہ سے اُن کا بچہ ہر وقت سہما سہما رہتا ہے۔ بچہ ایک دن کا واقعہ بیان کرتا ہے کہ ایک دن میرے والدین آپس میں لڑ رہے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولا تو سامنے ایک شخص ہاتھ میں گفٹ لیے کھڑا تھا۔ اس نے وہ گفٹ مجھے دے دیا۔ جب میرے والد نے دیکھا تواس نے اسے لینے سے انکار کردیا، لیکن جب اس شخص نے اصرار کیا تو وہ گفٹ ہم نے لے لیا۔ جب اس نے یہ تحفہ کھولا تو اس میں ایک پرچی تھی جس پر لکھا ہوا تھا، ’’یہ آسانی آپ پر اس لیے ہو رہی ہے کہ کبھی اسی طرح کسی اَن جان نے یہ تحفہ بھیجنے والے پر آسانی کی تھی۔ آج اسی آسانی کا بدلہ کسی انجان پر اتار رہا ہوں۔‘‘

اس کہانی کا فلسفہ یہ ہے کہ ہم پر کسی نے نیکی کی ہوتی ہے، ہم اس کا جواب دینے کیلئے کسی انسان کو تلاش کرتے ہیں اور اس پر نیکی کرتے ہیں اور اس طرح نیکی کا سفر جاری رہتا ہے۔ ٹونی روبنس کہتا ہے کہ یہ کہانی کسی اور کی نہیں ہے، میری اپنی ہے۔ میرے گھر میں غربت اور افلاس تھی، لیکن میری زندگی اس بے لوث انسان کے تحفے کی وجہ سے بدل گئی۔ اس تحفے نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ’’جب تک انسان اپنے قابل نہ ہوجائے، تب تک وہ دوسروں کے قابل بھی نہیں ہوتا۔‘‘ ہمیں مدد وصول کرنے سے مدد کرنے تک کا سفر طے کرنا ہوتا ہے۔ اگر ہم مدد لینے والے کو مدد دینے والا بنادیں تو ہم نے معاشرے میں بہت بڑا کردار ادا کیا۔

حالات کا سامنا

ٹونی روبنس کہتا ہے کہ آپ کی زندگی میں جتنے بھی ناپسندیدہ حالات کیوں نہ ہوں، اصل میں وہ حالات ہی آپ کو آگے بڑھنے کا موقع دے رہے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے آدمی کو ایسے حالات سے پالا پڑجاتا ہے جو وہ نہیں چاہتا۔ اصل میں اس کے پیچھے قدرت کی یہ حکمت کارفرما ہوتی ہے کہ اس نے آپ کے اندر وسعت پیدا کرنی ہوتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جس طرح گاڑیوں کو ٹھیک کرنے کیلئے اوزار اور ہتھیار ہوتے ہیں، اسی طرح قدرت کے پاس جو جو اوزار ہیں، وہ حالات کی صورت میں ہوتے ہیں۔ قدرت اس طر ح کے حالات پیدا کردیتی ہے کہ آدمی جن چیزوں میں کمزور ہوتا ہے، ان حالات کی وجہ سے اس کی وہ چیزیں مضبوط ہوجاتی ہیں۔ بعض اوقات ایک فرد کے ساتھ کوئی حادثہ یا واقعہ ایسا ہوتا ہے کہ جس سے اس کی سوچ بدل جاتی ہے اور اسی سوچ کی وجہ سے اس کی زندگی بدل جاتی ہے۔

جو حالات ناپسندیدہ ہیں اور ہمارے اختیار میں نہیں ہیں۔ ہمیں ان کے متعلق مان لینا چاہیے کہ یہ ہماری ہی بہتری کیلئے ہیں۔ جس طرح آپریشن ہو رہا ہو تو اُس وقت مریض کو یہ شعور نہیں ہوتا کہ اس کے ساتھ کیا ہورہا ہے، کیونکہ وہ بے ہوش ہوتا ہے، لیکن آپریشن ہونے کے بعد پتا چلتا ہے کہ اس ناسور کا نکالنا کتنا ضروری تھا۔

خواب کی تعبیر کیسے؟

یہ کتاب آپ کو سوچنے اور محسوس کرنے کا نیا زاویہ دیتی ہے۔ درحقیقت، خواب کا مکمل ہونا اور اس کا مکمل چاہنا ہی کافی نہیں ہے۔ ہمیں خواب کو تعبیر بنانے کے طریقہ کار کا بھی علم ہونا چاہیے۔ اور اگر خواب حاصل نہیں ہورہا تو ہمارے اندر پوری گنجائش ہونی چاہیے کہ ہم طریقہ کار کو تبدیل کریں۔ جو شخص بار بار ایک ہی غلطی کر تا ہے، دراصل وہ غلطی سے سیکھتا نہیں ہے اور جو شخص غلطی سے سیکھ جاتا ہے، اسے احساس ہوتا ہے کہ میں نے اس کی قیمت ادا کی ہے۔ قدرت اتنی سخت استاد ہے کہ وہ بار بار وہی عمل دہراتی ہے اور اس وقت تک دہراتی رہتی ہے جب تک آدمی سیکھ نہیں جاتا۔ ماضی گزرا ہوا وقت ہوتا ہے اور اس میں بے شمار تجربات ہوتے ہیں۔ یہ تجربات غلطیوں سے آتے ہیں۔ پھر انھی تجربات کی مدد سے آدمی اپنے مستقبل کو بہتر کرتا ہے۔ ماضی کے معنی کو بدل دیجیے۔ زیادہ تر لوگوں کیلئے ماضی کا معنی پچھتاوا ہوتاہے۔ خوبصورت بات یہ ہے کہ ماضی کا معنی تجربہ بن جائے اور پھر یہی تجربہ بہتر مستقبل میں معاون ثابت ہو۔

اپنے اچھے دوست بنیں۔ جو اپنا اچھا دوست نہیں ہوتا، وہ کسی کا بھی اچھا دوست نہیں بن سکتا۔ کبھی بھی رکنے والا چلنے والے کا اچھا دوست نہیں بن سکتا۔ چلنے والا ہی چلنے والے کا دوست بنتا ہے۔ اُڑنے والا ہی اڑنے والے کا دوست بنتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ عزائم مختلف ہوں، لیکن بڑی بات یہ ہے کہ سارے چلتے رہیں۔ چلتے رہنا اور مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے مقصد کو سامنے رکھنا بڑے اعزاز کی بات ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ فلاں شخص ہماری اڑان کو ممکن بنا دے اور پھر ہم اس کی طرف دیکھتے ہیں۔ لیکن جب غور کیا جاتا ہے تو اس کے پر کٹے ہوئے ملتے ہیں۔ پھر پتا چلتا ہے کہ یہ تو اڑنے والی مخلوق ہی نہیں ہے۔ بعض انسان اڑنے والوں کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں اور چلنے والوں کے ساتھ اڑنا چاہتے ہیں۔ یہ ان کی بہت بڑی غلطی ہے۔ غلط قدم اس اعتبار سے بہت قیمتی ہوتا ہے کہ وہ آدمی کو سوچنے پر مجبور کردیتا ہے کہ مجھے اپنے طریقہ کار کو بدل لینا چاہیے۔ جو شخص غلط قدم اٹھانے کے بعد اپنا طریقہ کار تبدیل نہیں کرتا، وہ بہت احمق ہے ۔غلطی کو غلطی نہ ماننا، بہت بڑی غلطی ہے۔ غلطی کو غلطی سمجھ لینا اور غلطی سے سیکھ لینا عقل مندی ہے۔ جبکہ غلطی پر قائم رہنا جمود کی نشانی ہے۔

تبدیلی کا جذبہ

جتنے لوگ کچھ کر کے دکھاتے ہیں، ان میں تبدیل کرنے کا جذبہ ہوتا ہے۔ جس میں یہ مادہ جتنا کم ہوتا ہے، وہ اتنا ہی زیادہ جمود کا شکار ہوتا ہے اور جس میں یہ مادہ جتنا زیادہ ہوتا ہے، وہ اتنا ہی متحرک ہوتا ہے۔ تبدیلی کا جذبہ اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ بعض اوقات انسان اپنے آپ سے شروع کرتا ہے اور زمانہ بدل دیتا ہے۔ بعض اوقات انسان فتح خود کو کرتا ہے اور پھر پتا لگتا ہے کہ اس نے دنیا کو فتح کرلیا ہے۔ یہ عجیب و غریب بات ہے کہ بڑے پڑھے لکھے لوگ اعلیٰ تعلیم کے بعد بڑے عہدوں پر بیٹھنے کے باوجود کچھ نہیں کرپاتے۔ اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ ان میں تبدیلی کا جذبہ نہیں ہوتا۔ اس کے برخلاف عام سے لوگ وسائل نہ ہونے کے باوجود اپنے جذبۂ تبدیلی کے ذریعے بڑی تبدیلی لے آتے ہیں۔ ہمیں تبدیلی کے جذبے کو جگانا ہوتا ہے۔ یہ وقت کے ساتھ ساتھ برف کی طرح پگھلتا رہتا ہے۔ اس برف کو سنبھالنے میں جتنی دیر ہوگی، یہ اتنی ہی کم ہوگی۔ بعض اوقات انسان کے ہاتھ میں برف ہوتی ہے، لیکن وہ اس کی طرف توجہ نہیں دیتا۔ جب خاصی دیر بعد وہ ہاتھ کی طرف دیکھتا ہے تو اس وقت تک برف پگھل چکی ہوتی ہے۔ پھر اس کیلئے تبدیل کرنا ممکن نہیں رہتا۔

جذبے کا صحیح وقت پر استعمال بہت ضروری ہے۔ اگر یہ صحیح وقت پر استعمال ہوجاتا ہے تو یہ اس قدر کارآمد ہے کہ اس سے پوری زندگی بدل جاتی ہے۔

ٹھہری ہوئی ٹرین

دنیا میں خوش بخت، خوش قسمت اور خوش نصیب انسان وہ ہوتے ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ ان کا مستقبل ماضی کی طرح نہ بنے۔ بعض لوگ ایک ایسی ٹرین میں بیٹھے ہوتے ہیں جو ٹھہری ہوتی ہے۔ وہ جتنی دیر مرضی بیٹھے رہیں، وہ کسی منزل پر نہیں پہنچ سکتے۔ اگر آپ اپنا مستقبل بدلنا چاہتے ہیں تو اس ٹرین میں سوار ہونا پڑے گا جو چل رہی ہے۔ مسئلہ ہمیشہ کیلئے نہیں آتا، لیکن انسان کی نفسیات ایسی ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ تکلیف شاید ہمیشہ کیلئے ہے۔ مسئلہ اصل میں انسان میں وسعت پیدا کر تا ہے۔ چنانچہ انسان آگے بڑھتا ہے۔

آپ یوں تو اپنی زندگی کے چھوٹے چھوٹے مسائل روزانہ ہی حل کرتے ہوں گے اور عشروں سے حل کرتے چلے آرہے ہوں گے، لیکن جس دن کوئی بڑا اور غیر معمولی مسئلہ حل کرڈالا، اس دن آپ کی زندگی بھی غیر معمولی ہونا شروع ہوجائے گی۔ اس دن آپ کے روشن مستقبل کی جانب آپ کا سفر شروع ہوجائے گا۔

انسا ن کے پاس سب سے بڑی طاقت فوکس کی طاقت ہے۔ فوکس کیا ہے؟ ہمارا فوکس اسی طرح ہوتا ہے جس طرح فرض کیجیے، کمر ے میں اندھیر ا ہو اور ہاتھ میں ٹارچ ہو۔ آپ کی ٹارچ کا رُخ جس طرف ہوگا، آپ کا فوکس اسی طرف ہوگا۔ چنانچہ ہمیں پوری دنیا میں وہی نظر آتا ہے جس پر ہم فوکس کرتے ہیں۔ بعض اوقات فوکس ہی اتنا عجیب و غریب ہوتا ہے کہ آدمی کہتا ہے کہ مجھے عجیب و غریب نظر آرہا ہے۔ باباجی اشفاق احمدؒ اپنے استاد سے کہتے ہیں کہ مکھی کی ایک ہزار آنکھیں ہوتی ہیں۔ استاد نے جواب دیا لعنت ہے، ایسی مکھی پر جس کی ایک ہزار آنکھیں ہیں، لیکن پھر بھی وہ گندگی پر بیٹھتی ہے۔ زیادہ تر لوگوں کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ وہ مسائل تلاش کر تے رہتے ہیں۔ وہ وہاں فوکس کرتے ہیں جہاں فوکس کرنے کا کوئی حل نہیں ملتا۔ ہمیں حل کی طرف فوکس کرناچاہیے۔ جب بندہ حل کی طرف فوکس کرتا ہے تو مسئلے کو حل کرنے کے نئے نئے طریقے سامنے آنے لگتے ہیں۔ فوکس اس مجنوں کی طرح ہے جو ایک نمازی کے سامنے سے گزرتا ہے تو نمازی نماز توڑ کر اس کا گریبان پکڑتا ہے اور کہتا ہے کہ تم میری نماز کے آگے سے کیوں گزرے۔ مجنوں جواب دیتا ہے، میں تو لیلیٰ کے پیچھے جا رہا تھا، مجھے تو تمہاری نماز کا پتا نہیں چلا۔ لیکن حیرت ہے کہ تمہاری نماز پر کہ جس کے دوران تم نے مجھے دیکھ لیا۔

غلط فیصلوں کی اہمیت

انسان کو کامیابی اس کے اچھے فیصلوں کی وجہ سے ملتی ہے اور اچھے فیصلے تجربات کی وجہ سے آتے ہیں۔ اور یہ تجربات غلط فیصلوں کی وجہ سے آتے ہیں۔ فیصلے میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ جس لمحے آدمی فیصلہ کررہا ہوتا ہے، اسی لمحے اس کی تقدیر بن رہی ہوتی ہے۔ اس لیے فیصلے پختہ ہونے چاہئیں۔ فیصلہ ایسا نہیں ہونا چاہے کہ جیسے ریت پر لکیر لگی ہو، ذرا سی ہوا چلی اور وہ لکیر مٹ گئی۔ فیصلہ ایسا ہونا چاہے کہ گویا پتھر پر لکیر ہے جو مٹ ہی نہ سکے۔ اگر آپ محنتی ہیں اور جدوجہد کررہے ہیں تو کبھی کبھی اپنے سینے پر ہاتھ رکھیں اور اپنے آپ سے کہیں، ’’ابھی انتظار کرو، دوست ابھی کہانی باقی ہے۔‘‘ اس جملے میں اتنی طاقت ہے کہ کہنے والے کے اندر امید جاگ جاتی ہے۔

اپنے آپ سے سوال پوچھئے کہ میں کدھر جارہا ہوں؟ جو میں کر رہا ہوں، اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ میں ایک عرصے سے کیا کرتا جا رہاہوں؟ فلاں شخص میری زندگی میں کیوں آیا؟ اس کے آنے کا مطلب کیا ہے؟ اس وقت ہی ایسا کیوں ہوا؟ پہلے کیوں نہیں ہوا ؟ ابھی تک ایسا کیوں نہیں ہورہا ؟ کیا میں کہیں جارہا ہوں ؟ کیا میں رکا ہوا ہوں؟ میری زندگی کا کوئی مقصد بھی ہے؟ میری زندگی کسی معنی سے بھی وابستہ ہے کہ نہیں؟ مجھ سے کسی کو کوئی فائدہ ہورہا ہے کہ نہیں؟ میں دنیا میں آنے کا حق ادا کر رہا ہوں؟ میں اس دنیا سے جاؤں گا تو یاد بھی رہوں گا کہ نہیں؟ یہ سارے وہ سوالات ہیں جو آدمی کا ذہن تبدیل کر دیتے ہیں۔ آپ چاہیں تو کسی ایک سوال سے خود کو جوڑ لیں۔ بار بار اپنے آپ سے وہی سوال پوچھئے۔ جب ایسا ہوگا تو آپ میں سنجیدگی پیدا ہوگی اور تبدیلی آنا شروع ہوجائے گی۔ جب آدمی خود ہی مجرم بنتاہے، خود ہی منصف بنتا ہے تو تبدیلی آنا شروع ہوتی ہے۔

زندگی کے متعلق آپ نے جو نام رکھے ہیں، انھیں تبدیل کیجیے۔ جیسے زندگی جبر مسلسل ہے۔ اس کو اس طرح بدلیے کہ زندگی ایک امتحان ہے، اطمینان سے اس امتحان کی تیار کیجیے۔ اگر آپ صرف الفاظ بدلیں گے توالفاظ میں ا تنی قوت ہے کہ چند روز بعد یہ الفاظ آپ کی زندگی میں سرایت کرجائیں گے اور آپ کی زندگی بدلنا شروع ہوجائے گی۔ بے بسی والی شاعری، بے بسی والے جملے، بے بسی والا لٹریچر انسان کو بھی بے بس بنا دیتا ہے۔ وہ انقلاب نہیں لاسکتا۔ انقلا ب کیلئے انقلابی ادب چاہیے، انقلابی کتابیں چاہئیں اورانقلابی شخص چاہیے۔ تبھی زندگی میں انقلاب آئے گا۔


پیر، 1 مارچ، 2021

تِھنک اینڈ گرو رِچ

 تِھنک اینڈ گرو رِچ

قاسم علی شاہ

’’کچھ لوگ صرف خواب دیکھتے ہیں جبکہ کچھ لوگ اٹھتے ہیں اور اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کے لیے محنت شروع کر دیتے ہیں۔‘‘

’’دنیا میں ہر چیز دو بار بنتی ہے۔ ایک بار کسی کے ذہن میں، دوسری بار دنیا میں۔ اگر آپ کے ذہن میں آپ کی کامیابی کی تصویر نہیں تو حقیقت میں بھی آپ کامیاب نہیں ہو سکتے۔‘‘

’’تم وہ بن جاتے ہو، جو تم سوچتے ہو۔‘‘    (نپولین ہل)

1883ء میں جنوب مغربی ورجینیا کے پہاڑی علاقے میں ایک لڑکے نے ایسے حالات میں آنکھ کھولی جب اس کے والدین بڑی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے۔ معاشی بدحالی اس قدر تھی کہ پورا خاندان ایک کمرے کے کیبن میں رہ رہا تھا۔ جب وہ نو سال کا ہوا تو اس کی ماں وفات پا گئی۔

والد نے دوسری شادی کی اور خوش قسمتی سے اس کی سوتیلی ماں اچھی ثابت ہوئی جس نے ہر موقع پر اس کا ساتھ دینا شروع کیا۔ اس کو لکھنے کا شوق تھا۔ 13سال کی عمر میں اس نے اپنے والد کے اخبار میں لکھنا شروع کیا۔ رفتہ رفتہ اس کی تحریر میں نکھار آتا گیا اور اس کو کچھ نہ کچھ معاوضہ بھی ملنے لگا۔ چونکہ خاندان معاشی پسماندگی کا شکار تھا اس لیے اپنے تعلیمی اخراجات اس نے خود ہی پورے کرنے کا فیصلہ کیا۔

1908ء تک وہ مسلسل لکھتا رہا اور ساتھ کسی مستقل ذریعہ معاش کی تلاش میں بھی رہا۔ ایک دن اس نے اخبار میں ایک دلچسپ اشتہار دیکھا جو اس وقت کے سب سے موثر اور مالدار آدمی اینڈریو کارنیگی کی طرف سے تھا۔ اس کو اِس اشتہار میں کچھ انوکھی بات محسوس ہوئی اور اسی وجہ سے اگلے دِن وہ اینڈریو کارنیگی کے دفتر میں اس کے سامنے موجود تھا۔ اینڈریو نے اس کو ایک عجیب پیشکش کی، وہ بولا:’’میرے پاس ایک آفر ہے۔ میں کامیابی کے موضوع پرریسرچ کرانا چاہتا ہوں۔ اس وقت کی کامیاب ترین شخصیات میں سے اکثر میرے جان پہچان والے ہیں۔ تم ان کا انٹرویو کر سکتے ہو لیکن یہ بات بھی یاد رہے کہ اس سارے کام کا تمہیں کوئی معاوضہ نہیں ملے گا۔‘‘ ان کی یہ میٹنگ تین دِن تک جاری رہی۔ نوجوان نے سوچ و بچار شروع کیا۔اس آفر کے فوائد فی الحال واضح نہیں تھے، لہٰذا اس نے پیشکش کے دوسرے پہلوؤں (نقصانات) پر سوچنا شروع کیا اور بالآخر اس نے ہامی بھر لی، کیونکہ اس کے پاس کھونے کے لیے کچھ تھا ہی نہیں۔

اس نوجوان کو آج دنیا نپولین ہل کے نام سے جانتی ہے، جو عالمی شہرت یافتہ کتاب Think and grow richسمیت دس کتابوںکا مصنف اور ’’نپولین ہل فاؤنڈیشن‘‘ کا بانی ہے۔ ایک ایسا انسان جس نے غربت میں آنکھ کھولی، جو اعلیٰ تعلیم بھی حاصل نہ کر سکا اور جس کے پاس مناسب روزگار اور نوکری بھی نہیں تھی لیکن اس کے باوجود بھی اس نے شہرت کے جھنڈے گاڑدیے،کیونکہ اس کے کام نے دنیا کو کامیابی کا ایک نیا نظریہ دیا۔

وہ پچیس سال تک اپنی تحقیق میں لگا رہا، اس نے بیس ہزار کامیاب اور ناکام لوگوں پر ریسرچ کی ا ور اپنے وقت کے500 مالدارترین لوگوں کے انٹرویوز کیے، جن میں اینڈریو کارنیگی، گراہم بیل، برڈ سٹون، لوتھر بینک ، ایلمر گیٹس، جارج شیفرڈ، تھیوڈرروزویلٹ، ڈینیل رائٹ، فرینک رانڈرلپ، البرٹ گیری اور ہنری فورڈ شامل تھے اور ان تمام کامیاب شخصیات میں جو مشتر ک خصوصیات تھیں انہیں جمع کرکے ’’Think & Grow Rich‘‘کے نام سے ایک کتاب لکھی۔یہ کتاب اب تک کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب ہے جس کی دو کروڑ سے زیادہ اوریجنل کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔اس کتاب میں نپولین ہل نے بتایا کہ کامیابی اور ناکامی کیا ہوتی ہے، یہ کن لوگوں کو ملتی ہے اور دنیا کے کامیاب ترین افراد کن عادات اور صفات سے متصف ہوتے ہیں۔ یہاں ہم ان نکات کو آسان انداز میں پیش کرنے کی کوشش کریںگے۔

 (1)کامیابی کے بارے میں سوچنا

تمام کامیاب لوگ اپنی کامیابی کے بارے میں سوچتے ہیں۔ یہ دنیا کے تمام نظام اور ساری صورتِ حال کو دیکھ کر سوچتے ہیں کہ میں کیوں کامیاب نہیں ہو رہا؟ وہ سوچتے ہیں کہ میں جہاں سے چلا تھا آج بھی وہیں پہ ہوں،کیوں ؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ جس انسان کی زندگی میں نئے حالات، واقعات اور لوگ نہیں آ رہے تو وہ ترقی نہیں کر سکتا۔ سقراط کا قول ہے کہ ’’میں پڑھاتا نہیں ہو ں، میں سکھاتا نہیں ہوں، میں صرف سوچنے پر مجبور کرتا ہوں۔‘‘

(2) جذبہ و جنون

کامیاب لوگوں میں جنون ہوتا ہے، جس کو ہم عشق، پاگل پن اور خبط بھی کہہ سکتے ہیں۔ وہ جس چیزکے پیچھے پڑ جاتے اسے کرکے رہتے، چاہے اس کے لیے انہیں کتنا ہی صبر آزما انتظار اور سخت مشقتیں کیوں نہ برداشت کرنا پڑتیں۔

(3) یقین

کامیاب لوگوں میں تیسری خصوصیت یقین ہے۔ ان سب کو یقین تھا کہ ہم کچھ کر جائیں گے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جو طالب علم قابل ہوتا ہے اس کو یقین ہوتا ہے کہ اس کی محنت رنگ لائے گی اور اسی وجہ سے وہ محنت کرتا ہے جبکہ نالائق طلبہ میں ایک چیز مشترک ہوتی ہے، وہ یہ کہ ان کو یقین ہوتا ہے کہ محنت کا کوئی فائدہ نہیں اور اسی وجہ سے وہ پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اگر انسان کو اپنے آنے والے دنوں کی خیر پر یقین نہیں ہے تو وہ کوشش نہیں کرسکتا۔

(4) خود کلامی

جتنے بھی کامیاب لوگ تھے ان میں ایک چیز مشترک تھی کہ وہ Auto suggession یعنی خود کلامی کرتے تھے۔ انسان جس طرح کی خود کلامی اپنے ساتھ کرتا ہے ویسے ہی اس کے خیالات بنتے ہیں اور ان ہی خیالات سے اس کے حالات بنتے ہیں۔ یہ تمام کامیاب لو گ خود کلامی کے ذریعے خود کو یقین دلاتے رہتے کہ ہاں میں کرسکتا ہوں اور اسی یقین کی بدولت وہ کامیابی پاتے۔

(5) مخصوص شعبے میں محنت

ان تمام کامیاب لوگوں نے ایک مخصوص شعبے میں محنت کر کے کامیابی حاصل کی۔ جیسے ایڈیسن نے بلب پر کام کیا، برج اسٹون نے گاڑیوں کی صنعت کو اختیار کیا اور اینڈریو کارنیگی نے اسٹیل انڈسٹری پکڑ لی۔ ایک کام کو اختیار کر لینے کے بعد انہوں نے اس میں اپنی پوری توانائیاں جھونک دیں اور نتیجتاً وہ کامیابی کے حق دار ٹھہرے۔

(6) تخلیقیت

یہ تمام کامیاب لوگ تخیل نگاری اور امیجی نیشن کے گرو تھے، یہ خواب دیکھتے تھے اور اس کی تعبیر کے لیے جدوجہد شروع کر دیتے اور پھر کامیاب ہو جاتے۔ اللہ ہر انسان کو موقع دیتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ موقع صرف قسمت والے کو ملتا ہے، حالانکہ یہ غلط سوچ ہے۔ موقعے کی تیاری کا نام قسمت ہے۔

 (7) منصوبہ بندی

کامیاب لوگوں میں ساتویں بڑی خوبی یہ تھی کہ یہ لوگ انتہائی منظم انداز میں وقت گزارتے تھے۔ یہ بات یاد رکھیںکہ پلاننگ بڑے کاموں کی نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے کاموں کی ہوتی ہے۔ منصوبہ بندی کو اگر ہم ایک جملے میں سمونا چاہیں تو کچھ یوں ہوگا کہ ’’وسائل اور ذرائع کو بہترین انداز میں استعمال کرنا۔‘‘ اب جو اِن وسائل کو جتنا بہتر استعمال کرے گا وہ اتنا ہی کامیاب ہو گا۔

(8) ضبط نفس

کامیاب لوگوں میں ایک خوبی یہ تھی کہ یہ سب لوگ خود پر کنٹرول کرنا جانتے تھے۔ ان لوگوں نے خود کو اپنے موڈ کے تابع نہیں کیا تھا بلکہ موڈ کو اپنے تابع کیا۔ ہر وہ انسان جو اپنے مزاج اور کیفیت کے ساتھ لڑنا جانتا ہو اوراس کو کنٹرول کرسکتا ہو، وہ مختصر وقت میں شاندار نتائج حاصل کرسکتا ہے۔

(9) استقامت

ان لوگوں میں ایک اور خوبی استقامت تھی۔ یہ لوگ اپنے ارادوں پر ڈٹے رہتے اور کیسے بھی مشکل حالات ان پر آتے وہ اپنے عزائم سے پیچھے نہ ہٹتے۔ دانا کہتے ہیں: ’’استقامت میں ہی کرامت ہے۔‘‘ استقامت والے انسان کے ساتھ اللہ کی مدد ہوتی ہے اور یہی مدد اس کو کسی بڑے نتیجے تک پہنچا دیتی ہے۔

Power of master mind (10)

کامیاب لوگوں کی ایک خوبی یہ تھی کہ انہوں نے اپنی ذہانت، تجربے اور تحقیق سے بھی بھرپور مدد لی اور اس کے ساتھ جتنے بھی بڑے دماغ کے لوگ تھے انہیں اپنے حلقہ مشاورت میں شامل کیا اور ان کی خدمات سے پوری طرح مستفید ہوئے۔ان کے نزدیک ایک او ر ایک ’’دو‘‘ نہیں بلکہ’’ گیارہ‘‘ ہوتے ہیں ۔اعلیٰ دماغوں کی مدد سے انہوں نے عظیم الشان کامیابیاں حاصل کیں۔

(11) ایموشنل مینجمنٹ

نپولین اپنی اس کتاب میں کہتا ہے: ’’میں نے دو ہزار سالہ انسانی تاریخ کی بڑی شخصیات کی سوانح حیات کو پڑھا اور ایک چیزسب میں مشترک دیکھی کہ جو بھی بڑا انسان بنا ہے اس کے پیچھے کوئی اہم واقعہ تھا۔‘‘ اس واقعہ کی وجہ سے اس کا دل ٹوٹا، اس نے اپنے جذبات کو دوسرا رخ دیا اور وہ بڑا انسان بن گیا۔ انسان کے دو جذبات ایسے ہیں جن میں تباہ کرنے اور بنانے کی مکمل صلاحیت موجود ہے۔ایک غصہ اور دوسرا محبت۔ واصف علی واصف کا جملہ ہے کہ ’’چھوٹے انسان کا غم اسے کھا جاتا ہے اور بڑے انسان کا غم اسے بناجاتا ہے۔‘‘

(12) خوف کے بھوت پر کنٹرول

جو انسان اپنے خوف کو لگام ڈال دیتا ہے وہ کامیاب ہوجاتا ہے۔ نپولین نے ان سب لوگوں میں یہ چیز مشتر ک پائی کہ وہ اپنے خوف کو کنٹرول کرتے تھے۔ان کو یہ ڈر نہیں ہوتا کہ میں ناکام ہوگیا تو لوگ کیا کہیں گے۔کامیاب ہونے کے لیے انسان کو بے خوف ہونا پڑتا ہے۔ آپ کامیاب ہیں یا ناکام، لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا، البتہ آپ کو ضرور فرق پڑتا ہے۔

کتاب نے لوگوں کی زندگیاں کیسے بدلیں ؟

باربرا این کورکورنا: مشہور امریکی بزنس خاتون، مقررہ، مصنفہ اور کارکورن گروپ کی بانی، بتاتی ہیں: ’’اس کتاب میں موجود ہنری فورڈ کی کہانی نے مجھے پیسوں کے بارے میں بہترین آئیڈیا دیا۔ میرے اندر بہت سی خوبیاں تھیں لیکن پیسوں کے معاملات کو کیسے دیکھنا ہے، اس کی مجھے کچھ زیادہ سمجھ نہیں تھی۔ میں نے فوری طورپر ایک خاتون کی خدمات حاصل کیں تاکہ وہ میرے مالی معاملا ت اور دیگر چیزوں کو اچھے انداز میں منظم کرے۔ اس کتاب سے میں نے یہ سیکھا کہ تمہارے اندرجو خوبیاں موجود نہیں ان کے لیے دوسرے ماہر افراد سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ میں نے اس نکتے پر عمل کیا اور شاندار کامیابیاں حاصل کیں۔‘‘

سینڈے گلاگر: ’’پروکٹرگلاگر انسٹیوٹ ‘‘ کی سی ای او اور ایک مشہور ٹرینر ہیں۔ انہوں نے عالمی شہرت یافتہ ٹرینر باب پروکٹر کے ساتھ کئی ٹریننگ پروگرامز بھی کیے۔ ان کے بقول، ’’اس کتاب نے میری زندگی بدل دی۔ جب میں وکالت کی پریکٹس کر رہی تھی تو میری سہیلی نے مجھے ایک سمینار میں مدعو کیا۔ جب میں ہال میں پہنچی تو اسٹیج پر ایک مقرر بڑے بہترین انداز میں بات کر رہے تھے۔ وہ معروف ٹرینر باب پروکٹر تھے، ان کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی جس کا نام تھا :Think and grow rich،وہ بتا رہے تھے: ’’میں 45 سال سے اس کتاب کو پڑھ رہا ہوں۔

ہم میں سے ہر ایک اس کوشش میں ہوتا ہے کہ وہ ایک پرسکون زندگی گزارے جب تک کہ وہ مر نہیں جاتا۔‘‘ ان کی باتوں نے مجھے کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا اور جب میں سیمینار ختم ہونے کے بعد ہال سے باہر جا رہی تھی تو میں نے اپنے آپ سے ایک عہد کیا کہ میں نے اپنی زندگی ویسے ہی نہیں گزار دینی بلکہ کچھ نہ کچھ ضرور کرنا ہے اور پھر اسی سو چ نے مجھے زندگی میں بہت آگے بڑھایا۔‘‘

جم اسٹوول: بیسٹ سیلنگ ناول ’’The Ultimate Gift‘‘سمیت 13کتابوں کے مصنف، مقرر اور معروف ٹی وی اینکر اس کتاب کے بارے میں کہتے ہیں: ’’میرا ایک بہت بڑا خواب تھا کہ میں امریکی فٹ بال ٹیم کا حصہ بن جائوں۔ایک دِن میں ٹریننگ میں مصروف تھا کہ میری آنکھوں میں کچھ ہوا، چیک اپ کے بعد معلوم ہوا کہ میری بینائی آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہے۔

دس سال بعد میں مکمل طور پر نابینا ہو چکا تھا۔اس کے بعد مجھے لگا کہ میری زندگی ہی ختم ہوگئی۔ مجھے ایک سفید چھڑی تھما دی گئی اور کہا گیا کہ باقی کی زندگی تمہیں محتاجی میں گزارنی پڑے گی۔ میرے کمرے میں ایک ریڈیو، ٹیپ ریکارڈر اور ٹیلی فون پڑا ہوتا، مجھے کسی نے Think and grow richکی آڈیو کتاب دی تھی۔ میں نے سننا شروع کی، جیسے جیسے میں سنتا گیا میری سوچ کو نئے زاویے ملتے گئے۔ میں نے اسی کے مطابق سوچنا شروع کیا اور میری زندگی بدلنا شروع ہوگئی۔ وہ ایک آواز تھی جو مجھے خالص اور مثبت طاقت دے رہی تھی اور بتا رہی تھی کہ زندگی میں کچھ بھی حاصل کیا جاسکتا ہے اور پھر ایسا ہی ہوا۔میں نے اپنی بینائی کو شکست دے دی اور ایک کامیاب زندگی گزارکر ثابت کیا کہ اگر انسان میں سچی لگن ہو تو وہ کچھ بھی حاصل کرسکتا ہے۔‘‘

https://www.express.pk/story/2148007/509/