ڈاکٹر جاوید اقبال پر کالم لکھنے کا ارادہ متزلزل
ہورہا تھا۔ اپنی کتاب ”زندہ اقبال“ کے سلسلے میں رہنمائی حاصل کرنے کیلئے میری ان
سے فقط دو ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب نے شفقت کا اظہار کرتے ہوئے کتاب کا
مطالعہ کیا اور حوصلہ افزائی کیلئے خط لکھا۔ کالم بن نہیں پارہا تھا۔ یہ میرا وہم
ہے خیال ہے یا خواب ہے کہ رات سوتے ہوئے یوں محسوس ہوا کہ جیسے ڈاکٹر جاوید اقبال
کہہ رہے ہوں کہ میرے بارے میں خوشامدانہ اور جذباتی کالم لکھے جارہے ہیں۔ میری
شناخت ”زندہ ردو“ اور ”اپنا گریباںچاک“ ہیں۔ اس احساس اور وسوسے نے میرا ارادہ
پختہ کردیا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کی کتاب ”زندہ رود“دو جلدوں پر مشتمل ہے اور علامہ
اقبال کی مکمل سوانح حیات ہے۔ تحقیق پر مبنی یہ مستند اور یادگار کتاب نسل درنسل
زندہ رہنے والی کتب میں شمار ہوتی ہے۔ اس کتاب میں ڈاکٹر صاحب نے علامہ اقبال کی
زندگی کی آخری رات کے بارے میں تحریر کیا ہے۔” آخری رات انکی چار پائی گول کمرے
میں بچھی تھی۔ عقیدت مندوں کا ہجوم تھا میں کوئی نو بجے کے قریب اس کمرے میں داخل
ہوا تو پہچان نہ سکے۔ پوچھا ”کون ہے“ میں نے جواب دیا ”میں جاوید ہوں“ہنس پڑے اور
بولے ”جاوید بن کر دکھاﺅ تو جانیں“۔
پھر اپنے قریب بیٹھے ہوئے چوہدری محمد حسین سے مخاطب ہوئے ”چوہدری صاحب اسے جاوید نامہ
کے آخیر میں وہ دعا، خطاب بہ جاوید ضرور پڑھوا دیجئے گا“۔ ڈاکٹر جاوید اقبال اپنے عظیم
والد کی خواہش کےمطابق عمر بھر جاوید بننے کی کوشش کرتے رہے مگر برگد کے سایے سے
باہر نہ نکل سکے۔ خطاب بہ جاوید تیرہ بند پر مشتمل فارسی کی طویل نظم ہے جس کے
آخری شعر کا ترجمہ یہ ہے۔ ”اے کہ تو جاوید میری بے قرار جان کیلئے تسکین کا باعث
ہے تو اگر رقص جاں سے تسکین حاصل کرلے پھر میں تجھے دین مصطفی کا راز بتاﺅں گا اور میں تیرے لیے قبر کے اندر بھی دعا کرتا رہونگا“۔پاکستان
کی تاریخ کا المیہ ہے کہ ہم جذباتی رنگ آمیزی بلکہ رنگ بازی کرکے عظیم شخصیتوں کے
کردار اور پیغام کو ہی مسخ کردیتے ہیں۔ دانشور اور مورخ علامہ اقبال کے تصور اور
فکر کو اپنے اپنے مخصوص ایجنڈے کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے رہے مگر ڈاکٹر جاوید
اقبال نے علامہ اقبال کا دفاع کیا۔ انکے فکر اور فلسفے کو پرکھا، جانچا اور اسے
اصل ہی¿ت میں نئی نسلوں کے سامنے پیش کیا۔ یہ کوئی معمولی کام نہیں تھا۔ وہ علامہ
کے تصور ریاست کے بارے میں لکھتے ہیں۔ ”اقبال کے تصور ریاست کیمطابق صرف پارلیمنٹ
کو ہی اجتہاد کا عمل جاری رکھنے کا اختیار ہے۔ اراضی کی ملکیت کی حد اس قدر مقرر
کردی جائے جو جاگیردار خود کاشت کرسکے زرعی انکم ٹیکس عام انکم ٹیکس کی شرح کے
مطابق نافذ کیا جائے۔ بے زمین کاشت کاروں کو سرکاری اراضی آسان قسطوں پر دی جائے۔
قرآنی احکام کےمطابق امیروں کی دولت میں غریبوں کا حصہ ہے جو ضرورت سے زائد ہے۔ وہ
غریبوں کو دے دیا جائے۔ مزدوروں کی کم از کم اجرت، پنشن، طبی اخراجات، رہائش اور
بچوں کی تعلیم کیلئے قانون سازی کی جاسکتی ہے۔ اسلامی فلاحی قوانین (زکوٰة، عشر)
اور وراثت کے قوانین سختی سے نافذ کیے جائیں“۔[زندہ رود صفحہ 485] ڈاکٹر جاوید
اقبال پاکستان کے عظیم محقق، دانشور اور قانون دان تھے۔ وہ چیف جسٹس لاہور ہائی
کورٹ اور سپریم کورٹ کے جج کے منصب پر فائز رہے۔ پاکستان کی آزادی اور قیام کیلئے
علامہ اقبال کی جدوجہد تاریخ کا حصہ ہے۔ استحصالی حکمران اشرافیہ نے ان کے عظیم
فرزند (جن کی اپنی شناخت تھی) کی وفات پر تعزیت بھی ضروری نہ سمجھی۔ اس افسوسناک
رویے سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکمران اشرافیہ کس حد تک زوال پذیر ہوچکی ہے۔ چیف جسٹس
پاکستان انور ظہیر جمالی جنازے کے موقع پر منیب اقبال اور ولید اقبال کے ہمراہ
کھڑے رہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس منظور احمد ملک تدفین کے موقع پر بھی
موجود تھے۔ گورنر پنجاب ملک محمد رفیق رجوانہ جنازے میں شریک ہوئے۔ عمران خان نے
گھر پر جاکر تعزیت کی۔ وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعظم پاکستان نے تعزیت کیلئے فون
بھی نہ کیا۔ دولت کے پجاریوں کو عقل و دانش سے کیا واسطہ اور نہ ہی انکے اس
سنگدلانہ رویے سے مرحوم کا مرتبہ کم ہوا۔علامہ اقبال نے کہا تھا۔
اپنی عظمت سےاگر یہ با خبر ہوں آج بھی
پھر قلندر،خان اورسلطان
تینوں ایک ہیں
جس جگہ انسان کو کوئی ہم زباں ملتا نہ ہو
بحرو بر ہو، شہر ہو، ہر آن تینوں ایک ہیں
شک نہیں اس میں کہ اندھے جوہری کے سامنے
سنگِ خارا لعل اور مرجان تینوں ایک ہیں
حضرت رحمان باباؒ
مصنف : ڈاکٹر جاوید اقبال
تبصرہ: قیوم نظامی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں