اس کی کتاب کی مصنفہ
ایمی مورن ماہر نفسیات ہے اور اس
کتاب کا موضوع ذہنی صحت ہے ۔اس کتاب
کا پس منظر یہ ہے کہ مصنفہ اپنی زندگی
بڑی خوش خرم گزاری رہی ہوتی ہے
کہ اچانک اسے دو اموات کا سامنا کرنا پڑ تا ہے جس میں
ایک اس کا عزیز ہوتا ہے اور دوسرا
اس کا شوہر۔ ان غموں کی وجہ سے اس کی زندگی
میں خوشیاں ختم ہو جاتی ہیں،
پھر اس کو ایک دوست ملتا
ہے جس سے اسے محبت ہو جاتی ہے اور
بعد میں یہ محبت شادی میں بدل جاتی ہے ۔ جب وہ دوبارہ اپنی نارمل زندگی گزارتی ہے
تو وہ لوگ جو پریشانیوں اور مصیبتوں کا شکار ہونے کے باوجود ان
سے نکل آتے ہیں ان پر تحقیق کرتی
ہے ، تحقیق کرنے کے بعد اس نے یہ کتاب لکھی۔ یہ بہت اہم
بات ہوتی ہے کہ بندے کا جو پروفیشن ہو وہ
اسی پر لکھے پھر وہ زیادہ اثرانداز
ہوتا ہے ۔
ذہنی طور پر
مضبوط ہونے کا مطلب یہ ہے کہ "وہ بندہ
جس کے خیالات ، رویے ، نظریات اور جذبات
اس کے کنٹرول میں ہوں"۔ بڑے
لوگ ایسے
ہیں جو بات بات پر غصہ نکالتے نظر آتے ہیں کیو نکہ غصہ ان کے کنڑول میں نہیں ہوتا،اگر بندے کا ردعمل اس کے کنٹرول میں نہیں ہے
تو وہ
ذہنی طور پر مضبوط نہیں ہے اس سے
بڑی ذہنی مضبوطی اور کیا ہوسکتی ہے کہ تلوار
دشمن کی گردن پہ ہو اور وہ تھوک دے اور
تلوار واپس ہو جائے
اور کہا جائے کہ میں بدلہ نہیں لوں
گا ، ا نہیں پتا تھا کہ اگر یہاں پر تلوار چلی تو اس کو ایمان نہیں
چلائے گا بلکہ غصہ چلائے گا جبکہ غصہ حرام ہے۔ ذہنی طور پر مضبوط لوگوں کی درج ذیل
خصوصیات ہوتی ہیں :
1۔ خودترس نہیں
ہوتے:
ذہنی طورپر مضبوط لوگوں
کی پہلی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ خودترسی کا
شکار نہیں رہتے ، خود ترسی کی
بیماری میں انسان کو اپنے آپ پرترس آنا شروع ہو جاتا ہے ۔ جن لوگوں میں خود
ترسی کی بیماری پائی جاتی ان
میں یہ علامات پائی جاتی ہیں : وہ
اپنے مسئلوں کو سب سے بڑے مسئلے سمجھتے ہیں ، اپنے آپ کو بدقسمت اور منحوس سمجھتےہیں، وہ سمجھتے ہیں ہم ہی سب سے زیادہ مشکل میں ہیں ، ایسے لوگ اکثر
شکائتیں کرتے نظر آتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں سب سے زیادہ محنت ہم کر
رہے ہیں جبکہ ثمر
دوسرے کو مل رہا ہے، ایسے لوگ مثبت لوگوں
میں اٹھنا بیٹھنا پسند نہیں کرتے ، ایسے لوگ ان لوگوں کو تلاش کرتےہیں جو ان کی تکلیفوں اور غموں کی حمایت کریں ۔ خود ترسی سے بچنے کا
بہترین حل یہ ہے اپنی گفتگو کو مثبت
کریں اور اس میں کم ازکم وہ گفتگو
ضرور ہونی چاہیے جو اپنے آپ سے ہو۔ اگر کسی کے ایسے دوست احباب
ہیں جو تحمل مزاج اور
مثبت ہیں ان میں اٹھیں بیٹھیں
ان سے رائے لیں ۔
2۔ اپنی طاقت
کاکنڑول اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں
رسول حمزہ کہتے ہیں کہ ادیب ،شاعر ، فلسفی ،دانشور
بسا اوقات محفل میں ا کیلا ہوتا ہے اور بسا اوقات
ایسا ہوتا ہے وہ تنہائی میں میلہ لگائے
بیٹھا ہوتا ہے یہ فوکس کا
لیول ہے کہ بندہ
سب کے ساتھ ہو لیکن وہ وہاں پر ہو جہاں پر وہ رہنا چاہ رہا ہے ۔
اکثر بچے جن کے پیپر ہو رہے
ہوتےہیں وہ اپنے پیپروں کی تیاری میں اتنے گم ہوتے ہیں کہ اپنے ناپسندیدہ کھانے کو بھی کھا لیتے ہیں۔ ذہنی طور پر مضبوط لوگ اپنی طاقت
کا ریموٹ کنڑول اپنے ہاتھ میں
رکھتے ہیں وہ دوسروں کو نہیں دیتے ۔ کسی
کو اجازت نہیں ہے کہ وہ آپ کے موڈ پر اثر ڈال سکے ، کسی کو پر میشن نہیں ہے کہ و ہ
آپ کا موڈ آف کر سکے،
کسی کو اجازت نہیں ہے کہ وہ آپ کو شک میں مبتلا کر سکے ، کسی کو اجازت نہیں ہے کہ وہ آپ کے نظریے کو بغیر کسی اپروچ کے بدل دے، کسی کو اجازت نہیں ہے کہ وہ آپ
کے جذبات کو کنڑول کرے ۔ جن لوگوں کی طاقت
دوسرے لوگ استعمال کرتےہیں ان میں یہ نشانیاں پائی جاتی ہیں
وہ تنقیدکا زیادہ اثر لیتےہیں، انہیں فیڈبیک کی بہت
زیادہ پروا ہوتی ہے اور کسی
کے کہنے پر بہت جلد غصے میں
آجاتےہیں۔
3۔ تبدیلی کو
قبول کرتے ہیں
جو لوگ ذہنی طور پر مضبو ط ہوتے ہیں وہ تبدیلی
سے نہیں گھبراتے ، وہ تبدیلی کو
قبول کرتےہیں ۔ آج کل دنیا میں سب سے زیادہ چینج مینجمنٹ پڑھائی جا رہی ہے ،
ٹیکنالوجی ایسی آ رہی ہے کہ
چینج مینجمنٹ کو پڑھنا بہت ضروری
ہو گیا ہے ۔ بعض بچوں کو یہ عادت ہوتی
ہے کہ اگر ان کا پین بدل جائے تو لکھ
نہیں سکتے جبکہ بعض بچوں
کو اس کی کوئی پروا نہیں ہوتی ان
کا کام پر فوکس ہوتا ہے ، بعض لوگوں کو سواری بدلنے سے بڑی تکلیف ہوتی ہے ، بعض لوگوں کو گھر تبدیل کرنا اچھا
نہیں لگتا ان کی چیزوں سے محبت ایسی جڑی ہوتی ہے کہ وہ ان سے نکل نہیں پاتے ۔ ایسے لوگ جب بھی تبدیلی کے
بارے میں سنتے ہیں تو وہ
اینزائٹی میں چلے جاتےہیں، ایسے لوگ کمفرٹ
زون سے باہر نہیں آتے ، ایسے لوگ ڈس کمفر ٹ کو پسند نہیں کرتے۔
4۔ تبدیل
ہونے والی چیزوں پر فوکس کرتے ہیں
ذہنی طور پر مضبوط
لوگ اپنا فوکس ان چیزوں پر رکھتے
ہیں جن کووہ تبدیل کر سکتےہیں ، وہ طے
کر لیتے ہیں کہ ہم ان چیزوں کو بدل سکتے ہیں ہم نے صرف انہیں چیزوں پرکام کرنا ہے ۔ جو ہتھیار نتیجہ دے سکتا ہے وہ
طاقت میں ضرور آتا ہے ۔ وہ لوگ
جو ذہنی طور پر کمزور ہوتےہیں ان
کے پاس بے شمار ایسی خواہشیں ہوتی
ہیں جن
کا ان کے ساتھ دور دور تک واسطہ
نہیں ہوتا، ایسے لوگ بہت سارے لوگوں کو بدلنا
چاہتے ہیں لیکن خود کو نہیں بدلیں گے، ایسے لوگ ان چیزوں پر اپنی انرجی ضائع کرتے
ہیں جن کا کوئی نتیجہ نہیں نکلنا ہوتا ۔
پہلے ایسے لوگ ساری اخبار پڑھ ایسی خبروں پر تبصرہ کرتے تھے
جنہیں وہ تبدیل نہیں کرسکتے لیکن آج کل ایسے لوگ فیس بک پر ایسے
کام کرتے ملیں گے وہ ایک عجیب پوسٹ
لگائیں گے لوگ
اس پر کمنٹ کریں گے اور پھر وہ ان کا جواب دیں ان کے دن اور رات
اسی کام میں گزر رہتے ہیں وہ صرف
اپنی ذہنی تسکین پوری کرتے ہیں ۔ ایسے
لوگوں کو لو گ کہنا بھی شروع کر دیتے ہیں کہ اب چھوڑ دو لیکن ان کے کنڑول میں نہیں ہوتا کیو نکہ ان کی عادت بن چکی ہوتی ہے ۔
5۔ ہرایک کو خوش کرنے کی کوشش نہیں کرتے
ذہنی طور پرمضبوط
لوگوں میں ہر ایک کو خوش کرنے کی فکرمندی نہیں ہوتی کیو نکہ ہر ایک کو خوش نہیں کیا جا سکتا ۔ ہر
ایک کا زاویہ نظر اپنا ہے اور وہ اپنے
زوایہ نظرسے دیکھتا ہے اس لیے اس کی تسلی
تشفی نہیں کی جاسکتی ۔ ایسے لوگ ہر ایک کو جواب نہیں دیتے وہ صرف یہی کہتے ہیں کہ وقت جواب دے گا ۔ مزا ہی اس بات
میں ہے کہ مخالفت ہو ، تنقید ہو لیکن اس کے
باوجود بھی بندہ آگے بڑھتا چلا جائے۔ بہتر
یہ ہے کہ بندہ کام کرے اور اور جوگی
کی طرح نظروں سے اوجل ہو جائے اس
لیے زندگی میں جوگی بننا سیکھیں ۔
کنواں کھودیں لیکن پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھیں کہ کون پانی پی رہا ہے ، اس بات سے
آزاد ہو جائیں کہ آپ کی چیزوں سے اور آپ کے کاموں سے لوگ کس طرح فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔
6۔ کیلکولیڈڈ رسک لینے کے عادی ہوتےہیں
ذہنی طور پر مضبوط
لوگ کیلکولیڈڈ رسک
لینے کے عادی ہوتےہیں ۔وہ لو گ جن کی زندگی میں چیلنج رہتےہیں وہ ذ
ہنی طور صحت مند اور نارمل رہتےہیں ، وہ
ڈپریشن کا شکار نہیں ہوتے کیونکہ چیلنج ان کو تازہ رکھتا ہے ، زندہ رکھتا ہے، لڑنے پر مجبور کرتا ہے، پھر سے سامنا کرنے پہ تیار کرتا ہے۔ جس
کی زندگی میں کوئی چیلنج نہیں ہوتا
وہ عمومی طور پر ڈیپرس کا شکار ہوجاتا ہے ، اگر ساری کامیابیاں اکھٹی ہی
مل گئی جائیں تو ذہنی طورپر
نارمل رہنا مشکل ہوجاتا ہے ۔ ایسے
لوگ اپنے فیصلے خود کرتےہیں، مشاورت
کرتےہیں لیکن فیصلہ خود کرتےہیں، رسک لینے والوں کی کہانیاں
پڑھتےہیں ، رسک کی بات کرتے ہوئے گبھراتے نہیں ہیں، اپنے عصاب کو قابو میں رکھتےہیں۔ کئی لوگ اپنی
بے وقوفی کو رسک کہہ رہے ہوتےہیں وہ
کشتیاں جلانے والی باتیں کرتےہیں یہ باتیں
طارق بن زیاد کے لیے تو اچھی لگتی
ہیں لیکن ہر بندہ طارق بن زیادہ نہیں ہوتا ۔
7۔ ماضی میں نہیں رہتے
ذہنی طور پر مضبوط
لوگ اپنے ماضی میں نہیں رہتے ۔ جن لوگوں کے پاس صرف اچھا ماضی
ہوتا ہے ان کا حال اکثر مشکل ہو جاتا ہے
انہیں بیماری لگ جاتی ہے جسے
نرگیسیت کہتے ہیں ۔ ایسے لوگ ہر وقت ماضی کا تذکرہ کرتے رہتےہیں
، ایسے لوگوں کے فن کی گروتھ رک
جاتی ہے، ایسے لوگ یہ دعا کرتے رہتے
ہیں کہ کاش ماضی آجائے ، ایسےلوگوں
کے پاس ماضی کے پچھتاوے ہوتےہیں ، یادیں بھی ماضی کی ہوتی
ہیں ، افسانے بھی ماضی کے ہوتےہیں ۔ ماضی سے سیکھ کر آگے نکلنا ہوتا ہے ۔ ماضی میں
رہنے والوں میں زیادہ تر مشہور لوگ ہوتےہیں ، شہرت
بہت خطرناک چیز ہے یہ انسان
کو اڑا کر رکھ دیتی ہے،
اگر برتن اس قابل نہیں ہے کہ وہ
قبول کر سکے تو پھر دعا یہ ہونی چاہیے
کہ شہرت نہ ملے ۔یہ تکبر کی طرف لے
کرجانے کا سب سے خطرناک راستہ ہے ،
یہ ذہنی گروتھ، شخصیت کی گروتھ کو روکنے والی سب سے خطرناک چیز ہے ۔
ماضی سے نکلنے کا طریقہ یہ ہے کہ اپنا حال
اچھا کریں ، اپنے حال میں رنگ بھریں
، اپنے حال کو پرلطف بنائیں۔
8۔ غلطی کو بار بار نہیں دہراتے
ذہنی طور پر مضبوط ایک ہی غلطی کو بار بار نہیں دہراتے ۔ آدھ گھنٹہ نکالیں
اور ماضی کی ان غلطیوں کی فہرست بنائیں جن کی وجہ سے آپ
کو بہت زیادہ تکلیف اٹھانا پڑی ، اپنے سامنے اپنے آپ کو رکھیں۔ جو لوگ ذہنی طور پر مضبوط نہیں ہوتے
وہ اکثر ایک جگہ پر پھنس
جاتےہیں کیو نکہ انہوں نے سیکھا نہیں ہوتا جب بھی
بندے نے سیکھا ہوگا تو وہ آگے نکل جائے
گا۔ ذہنی طور پر کمزور لوگ تجزیہ کرنے میں
وقت ضائع نہیں کرتے کیو نکہ وہ
اپنی غلطی کو دیکھنا نہیں چاہتے وہ اپنی عادت کی وجہ سے بغیر تجزیہ کیے آگے نکل جاتے ہیں ، ایسے لوگ منظم
نہ ہونے کی وجہ سے ڈیپریشن میں رہتے ہیں۔
9۔ حسد نہیں کرتے
ذہنی طور پر مضبوط
لوگ دوسروں کی کامیابیوں پر حسد نہیں کرتے
۔ جو بندہ حسد کرتا رہتا ہے وہ اپنی انرجی ضائع کرتا ہے ۔ چالیس کی عمر میں پہنچ کر
پیچھے مڑ کر دیکھیں تو آپ کو کئی
اپنی ہی عمر کے لوگ ملیں گے
جو اپنے کامیاب ساتھیوں پر تنقید
کر رہے ہو تےہیں ۔جب بندہ یہ
سوچتا ہے کہ ہمارا ساتھی آگے کیسے نکل گیا
،اس کو مواقع کیسے مل گئے ، یہ ہم میں
سے منفر د کیسے ہو گیا تو اس کا مطلب ہے ایسا بندہ ذہنی طورپر مضبوط نہیں ہے ۔ ایسے لوگ بے
وجہ نتقید کرتے رہتےہیں، ایسے لوگ
کامیاب لوگوں کو پسند نہیں کرتے۔ جوبندہ آپ کی عزت نہیں کرتا
اس کی عزت کرنا شروع کر دیں اگر پھر بھی ٹھیک نہ ہو تو
سمجھ جائیں اس میں کمینگی
ہے۔ حضرت علی المرتضی رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں " کسی کو عزت دے کر دیکھیں اگر وہ اہل ہوگا وہ اور اچھا ہو جائے گا
، اہل نہیں ہوگا تو اپنی کمینگی کا
اظہار ضرور کرے گا"۔
10۔ ہار نہیں مانتے
ذہنی طور پر
مضبوط لوگ پہلی ناکامی کے بعد جدوجہدنہیں چھوڑتے ، وہ اپنی پہلی ناکامی کو آخری ناکامی نہیں
سمجھتے ۔ جو بند ہ اپنی پہلی ناکامی کو
آخری ناکامی سمجھے گا وہ کڑے گا اندر ہی اندر جلے گا ۔ جب بھی بند ہ
پہلی غلطی سے سیکھ کر آگے بڑھتا ہے وہ
کامیاب ہو جاتا ہے۔ ذہنی طور پر
مضبوط لوگوں میں مستقل مزاجی ہوتی ہے
اگر انہیں کئی دفعہ بھی ناکامی کا
سامنا کرنا پڑے تو وہ اتنے ہی جنون کے
ساتھ دوبارہ جدوجہد شروع کر دیتے ہیں۔
11۔ اپنی تنہائی سے نہیں ڈرتے
ذہنی طور پر مضبوط لوگ اپنی تنہائی سے نہیں ڈرتے ۔ تنہائی میں بندے کی اپنے آپ سے ملاقات ہوتی ہے ، اگر بندہ اچھا
نہیں ہے تو جب اس کی تنہائی میں اپنے آپ سے ملاقات ہوتی ہے
تو اسے بہت
تکلیف ہوتی ہے لیکن بندہ اگر اچھا انسان ہے تو
اس کو تنہائی میں خوشی محسوس ہوگی۔
جب بھی بندہ اپنے آپ کو اندر سے مکمل محسوس کرے گا تو وہ تنہائی کو انجوائے کرے گا ۔
12۔ ا نہیں یقین
ہوتا ہے
کہ دنیا ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی
ذہنی طور پر مضبوط
لوگوں کو یقین ہوتا ہے کہ
دنیا ان سے کچھ چھین نہیں سکتی اور نہ
ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہے۔ ذہنی طور
پر کمزور لو گ سمجھتےہیں
کہ ساری دنیا ہماری
مخالف ہے ، ایسے
لوگ اپنی کوئی چیز شیئر نہیں کرتے،
ایسے لوگ کچھ بتاتے نہیں ہیں، وہ جن
پروجیکٹ پر کام کررہے ہوتے
ہیں وہ بالکل شیئر نہیں کرتے۔ اگر آپ کا ارادہ سچا ہے،
خواہش سچی ہے تو ساری دنیا کی طاقتیں
آپ کی معاون و مددگار ہو جاتی ہیں ۔
13۔ جلد نتیجہ نہیں لینا چاہتے
ذہنی طور پر مضبوط لوگ جلد نتیجہ نہیں لینا چاہتے ۔ زندگی
میں عادت بنائیں جلد نتائج نہیں لینے ۔ جلدی نتیجے میں گوبھی آلوہی بنتے
ہیں لیکن اگر نتیجہ آرام سے ہوتو
درخت بنتا ہے ۔اگر زندگی میں بڑا کر کے
دکھانا ہے تو پھر بڑی چیزوں کو جاننے
کےلیے بڑا وقت چاہیے ۔جس کا بڑا کام ہوتا ہے
اس کے کام کو زمانہ بتاتا ہے ۔جلد
باز بندہ اپنے ذہن کی توانائی صرف اس بات
پہ لگاتا رہتا ہے کہ کب نتیجہ آئےگا
جبکہ مضبوط انسان اپنے ذہن کی توانائی کو
بچائے گا پودا لگائے گا مڑ کر نہیں دیکھے آگے چلا جائے گا۔ جو بندہ پیچھے
مڑ مڑ کر دیکھتا ہے وہ نیا کام
نہیں کر سکتا ۔ایڈیسن یہ کہتا ہے
کہ " میں نے اپنی کوئی بھی ایجاد کی اس
ایجاد کے کرنے کی وجہ یہ تھی کہ پچھلی ایجاد بھول چکی ہوتی تھی اگر وہ مجھے یاد رہتی تو میں اس کے عظمت کے مینار
پہ ہی کھڑا ہو جاتا اور نئی چیز کو
ایجاد نہ
کر سکتا"
(Amy Morin’s Book “13 Things Mentally Strong People Don’t Do,
Syed Qasim Ali Shah)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں