منگل، 25 اکتوبر، 2016

Notes from a Friend

یہ  ٹونی رابنز کی کتاب Notes from a Friends  کا خلاصہ ہے  جس میں  ٹونی رابنز  نے اپنا فلسفہ بیان کیا ہے ۔ ٹونی رابنز کا شمار  دنیا کے  ان سیپکر ز  میں جس نے ہزاروں لوگوں  کی زندگیوں کو بدل ڈالا ۔ یہ حجم  کے اعتبار سے  چھوٹی سی کتاب  ہے  لیکن اس  کا انداز سا عوامی ہے اس کو  باآسانی ایک دونشتوں میں ختم کیا جاسکتا ہے ۔ اس کتاب  کا آغاز ایک گھر کی کہانی سے ہوتا ہے  جس میں  غربت و افلاس نے ڈیرے ڈالے ہوتےہیں جس   کی وجہ سے گھر میں ہر وقت  میاں بیوی  کی لڑائی رہتی  ہے اور اس  لڑائی کی وجہ ہے  ان کا بچہ ہر وقت سہما سہما رہتا ہے۔ بچہ  ایک دن کا  واقعہ بیان کرتا ہے کہ      ایک دن میرے والدین  آپس میں لڑ رہے  تھے  کہ دروازے پر دستک ہو ئی   میں نے دروازہ کھولا تو سامنے ایک  شخص  ہاتھ  میں گف لیے کھڑا تھا  ، اس نے وہ گفٹ   مجھے دے دیا  جب  میرے والد نے دیکھا تواس نے  اسے لینے سے انکار کر دیا  لیکن  جب اس شخص نے اصرار  کیا  تو  وہ گفٹ ہم نے  لے لیا ، جب اس گفٹ کو کھولا تو اس میں ایک پرچی تھی  جس پر لکھا ہوا تھا  کہ "  یہ آسانی آپ پر اس لیے  ہو رہی ہے  کہ  جس پر  کبھی اس  پر بھی اسی طرح  کسی نے  آسانی کی تھی آج اسی آسانی کا بدلہ  کسی انجان پر  اتار رہا ہوں۔"اس  کہانی  کی فلاسفی یہ ہے  کہ ہم  پر کسی نے نیکی  کی ہوتی ہے  ہم  اس کا جواب دینے  کے لیے  کسی انسان   کو تلاش کرتےہیں  اور اس پر نیکی کرتےہیں   اور اس طرح نیکی کا سفر جاری ہو جاتا ہے ۔
ٹونی  رابنز  کہتا ہے   کہ یہ کہانی کسی اور  کی نہیں ہے  یہ کہانی  میری ہے   ، میرے گھر  غربت اور افلاس تھی لیکن  میری زندگی اس   بے لوث انسان  کے تحفے کی وجہ سے بدل  گئی ۔ اس  تحفے نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا  کہ" جب تک انسان اپنے قابل نہ  ہو جائے تب  تک وہ دوسروں کے قابل  بھی نہیں ہوتا۔ ہم  نے مدد وصول کرنے سے  مدد کرنے  تک کا سفر طے کرنا ہوتا ہے، یہ بہت بڑا مقام  ہوتا ہے کہ  مدد لینے والے کو  ہم  نے مدد دینے والا بنادیا ۔
 ٹونی رابنز کہتا ہے کہ آپ کی زندگی میں جتنے بھی ناپسندیدہ حالات کیوں نہ ہوں اصل میں وہ حالات ہی  آپ کو آگے بڑھنے کا  موقع دے رہےہوتےہیں  ، بعض اوقات ایسا ہوتا ہے   بندہ  نہیں چاہتا  لیکن پھر بھی ایسے حالات بن جاتے ہیں  اصل اس کے پیچھے قدرت کی  یہ حکمت کارفرما ہوتی ہے کہ  اس نے  آپ  کے  اندر وسعت پیدا کرنی ہوتی ہے ۔ وہ  کہتا   ہے  کہ  جس طرح  گاڑیوں کو ٹھیک  کرنے کے لیے اوزار  اور ہتھیار ہوتےہیں  اسی طرح قدرت کے پاس جو جو ہتھیار ہوتے  ہیں  وہ حالات کی صورت  میں  ہوتے ہیں، قدرت اس طر ح کے  حالات پیدا کر دیتی ہے کہ    بندہ جن چیزوں میں کمزور ہوتا ہے   ان حالات کی وجہ  سے  اس  کی  وہ چیزیں   مضبوط ہو جاتی ہیں ۔بعض اوقات   بندے کے ساتھ کوئی حادثہ  یا  واقعہ ایسا  ہوتا ہے  کہ  جس سے اس  کی سوچ بدل جاتی ہے  اور اسی سوچ  کی وجہ سے  اس  کی زندگی بدل جاتی ہے۔
جو حالات ناپسندیدہ ہیں اور ہمارے اختیار میں نہیں ہیں ہمیں   ان  کے متعلق مان لینا چاہیے   کہ  یہ ہماری  ہی ذاتی  بہتری  کے لیے ہیں ۔ جس طرح اپریشن ہو رہا ہوتا ہے  اس  وقت بندے کو سمجھ نہیں آتی   کیو نکہ وہ بے ہوش ہوتا ہے  لیکن اپریشن ہونے کے بعد پتا چلتا ہے کہ اس ناسور   کا نکالنا  کتنا ضروری تھا، اسی طرح بعض حالات  بڑی تکلیف دہ ہوتے ہیں   لیکن بعد  میں  کسی جگہ پر جا کر پتا لگتا ہے کہ  یہ ہماری  بہتری  کے لیے  تھے۔ وہ کہتا ہے  کہ دوسروں کو بدلنے کا  سوال  اور دوسروں  کو بدلنے  کی تمنا ا س شخص کی نہیں ہونی چاہیے   جس نے خود کو نہیں بدلا ،   مزید کہتا  ہے   کہ جو بندہ   اپنی بہتری  کر سکتا ہے  اس کو دوسروں کی بہتری کےلیے کام کرنا چاہیے ۔
یہ کتاب  آپ کو سوچنے اور محسوس کرنے  کا  نیا زاویہ دیتی ہے ، درحقیقت  خواب کا مکمل ہونا اور اس  کا مکمل چاہنا یہ کافی  نہیں ہے  ہمیں خواب کو حاصل کرنے  کے  طریقہ کار کا بھی علم ہونا چاہیے  اور اگر خواب حاصل نہیں ہورہا  تو ہمارے اندر  پوری گنجائش ہونی چاہیے  کہ ہم طریقہ کار  کو بدل دیں ۔  جو شخص بار بار ایک ہی غلطی کر تا ہے  دراصل وہ  غلطی سے سیکھتا نہیں ہے اور جو  شخص  غلطی سے سیکھ جاتا ہے  اسے احساس ہوتا ہے کہ  میں نے اس کی قیمت ادا کی ہے۔  قدرت اتنی سخت استاد ہے  کہ وہ بار بار  وہی عمل   دہراتی ہے اور  اس وقت تک  دہراتی ہے  رہتی  ہے جب تک بندہ سیکھ نہیں جاتا۔ماضی  گرزا ہوا   وقت  ہوتا ہے  اور اس میں بے شمار تجربات ہوئے  ہوتے ہیں   اور یہ تجربات  غلطیوں کی وجہ سے    آتے ہیں  پھر انہیں تجربات  کی  مدد سے  بندہ  اپنے مستقبل کو بہتر کرتا ہے۔  ماضی کے معنی کو بدل دیں ، زیادہ تر لوگوں کے لیے ماضی کا معنی  پچھتاوا ہوتاہے خوبصورت بات یہ ہے کہ  ماضی   کا معنی تجربہ بن جائے اور  پھر یہی تجربہ   بہتر  مستقبل  میں معاون ثابت  ہو۔
اپنے اچھے دوست بنیں   جو اپنا اچھا دوست نہیں ہوتا  وہ کسی  کا بھی اچھا دوست نہیں بن سکتا ۔ کبھی بھی رکنے والا چلنے والے  کا اچھا دوست نہیں بن سکتا چلنے والا ہی چلنے والے   کا دوست بنتا ہے  ،اڑنے والا   ہی اڑنے والے کا دوست بنتا ہے ۔یہ ممکن ہے  کہ عزائم مختلف ہوں لیکن  بڑی بات  یہ  ہے کہ  سارے چلتے رہیں ۔ چلتے رہنا اور  مستقل مزاجی   کے ساتھ  اپنے مقصد کو سامنے رکھنا بڑے اعزاز کی بات ہے۔ ہم چاہتےہیں    کہ فلاں شخص ہماری اڑان کو ممکن بنا دے  اور پھر  ہم اس  کی طرف دیکھتے ہیں  لیکن جب غور کیا جاتا ہے  تو اس  کے پر کٹے ہوئے ملتے ہیں تو  پھر پتا چلتا ہے یہ تو اڑنے والی مخلوق ہی نہیں ہے۔انسان  اڑنے والوں کے ساتھ چلنا چاہتا ہے  اور چلنے والوں کے ساتھ اڑنا چاہتا ہے  یہ اس  کی بہت بڑی غلطی ہے۔ غلط قدم  اس اعتبار  سے  بہت قیمتی  ہوتا ہے   کہ وہ   بندےکو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے   کہ مجھے  اپنے طریقہ کار  کو بدل  لینا چاہیے ۔ جو بندہ غلط قدم اٹھانے کے بعد  اپنا طریقہ کار تبدیل نہیں  کرتا  وہ  بہت احمق ہے  ۔غلطی کو غلطی نہ ماننا   یہ بہت بڑی غلطی ہے  غلطی  کو غلطی سمجھ  لینا  اور غلطی سے سیکھ لینا  بہت بڑی بہتری ہوتی ہے جبکہ  غلطی پر قائم رہنا  جمود کی نشانی ہوتی  ہے۔ 
جتنے لوگ بھی  کچھ کر کے دیکھاتے ہیں ان میں تبدیل کرنے  کا جذبہ ہوتا ہے  جس میں یہ مادہ جتنا  کم ہوتا ہے وہ  اتنا ہی  زیادہ جمود کا شکار ہوتا ہے اور جس  میں  یہ  مادہ جتنا  زیادہ ہوتا ہے  وہ  اتنا ہی متحرک ہوتا ہے۔ تبدیل کرنے کا جذبہ اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ  بعض اوقات انسان اپنے آپ سے شروع کرتا ہے  اور زمانہ بدل دیتا ہے ، بعض اوقات انسان  فتح خود کو کرتا ہے  اور پھر پتا لگتا  ہے  کہ اس  نے دنیا کو فتح کر لیا ہے ۔ یہ عجیب و غریب بات  ہے کہ بڑے  بڑے پڑھے لکھے لوگ   اعلیٰ تعلیم کے بعد    بڑی بڑی  پوزیشنوں   پر بیٹھنے کے   باوجود بھی کچھ نہیں کر پاتے اس کی ایک ہی وجہ  ہوتی ہے کہ ان میں تبدیل کرنے کا جذبہ نہیں ہوتا  جبکہ بڑے عام سے  لوگ وسائل نہ ہونے کے باوجود اپنے  جذبے کی وجہ  بڑی تبدیلی لے  آتے ہیں ۔  ہمیں تبدیل کرنے کے جذبے کو جگانا ہوتا ہے  یہ وقت کے ساتھ ساتھ برف  کی طرح پگھلتا رہتا ہے    اس برف کو سنبھالنے میں جتنی دیر   ہوگی  یہ اتنی  ہی کم ہو گی بعض اوقات   بندے  کے ہاتھ  میں  برف ہوتی ہے  لیکن وہ اس کی طرف توجہ نہیں دیتا  لیکن  جب کافی دیر وہ ہاتھوں کی طرف دیکھتا ہے  تو اس وقت تک  برف پگھل چکی ہوتی ہے پھر اس  کے  لیے تبدیل کرنا ممکن نہیں رہتا  ۔ اس جذبے  کا   صحیح وقت    پر استعمال بہت ضروری  ہے  اگر یہ صحیح وقت  پر استعمال ہوجاتا ہے  تو یہ اس قدر کارآمد ہے کہ    اس سے پوری زندگی  بدل جاتی ہے۔
دنیا میں خوش بخت ، خوش قسمت  اور خوش نصیب انسان وہ ہوتےہیں  جو   یہ چاہتےہیں  کہ ان کا مستقبل   ماضی کی طرح نہ بنے ۔بعض لوگ ایک ایسی ٹرین میں بیٹھے ہوتےہیں  جو رکی ہوتی ہے وہ جتنی دیر مرضی بیٹھے رہیں  وہ کسی منزل   پر  نہیں  پہنچ  سکتے۔ اگر آپ   اپنا مستقبل  بدلنا چاہتے  ہیں تو اس  ٹرین میں سوار  ہونا پڑے گا  جو  چل رہی ہے ۔
 مسئلہ ہمیشہ  کےلیے نہیں آتا لیکن انسان کی نفسیات ایسی بنی  ہوئی ہے کہ   وہ سمجھتا  ہے  یہ شائد ہمیشہ  کےلیے ہے ۔  مسئلہ  اصل میں انسان  میں وسعت پیدا کر تا ہے  جس  کی وجہ سے انسان آگے بڑھتا ہے ۔ جاوید چوہدری  کہتے ہیں قدرت ہماری زندگی کی ڈش میں  پانچ سو ہزار مسئلے رکھ دیتی ہے ہم  نے ان مسئلوں کو حل کرنا ہوتا ہے  جب  بندہ ان کو  حل کرتا  ہے  تو قدرت  کو اس   کی یہ ادا پسند آجاتی ہے   پھر قدرت  ایک دن اس کے سامنے بڑا مسئلہ رکھ دیتی ہے  وہ اس کو بھی حل  کر لیتا ہے    پھر قدرت  اس کو انعام  دیتی ہے  اور وہ انعام یہ ہوتاہے  کہ  ساری دنیا  اس کو نیوٹن کے  نام سے، آئن سٹائن کے نام سے اور حضرت امام غزالی ؒ  کے نام  سے جاننا شروع کر دیتی  ہے۔انسان صدیوں  سے چھوٹے چھوٹے  مسئلوں کو حل  کر رہا ہے  لیکن نیا کام یہ  ہے کہ  بندہ ان مسئلوں سے نکل کر  کسی بڑے مسئلے کی طرف نکل جائے   اور  اپنے مستقبل کو روشن کر لے ۔
انسا ن  کے پاس سب سے  بڑی طاقت فوکس کی طاقت ہے  جس طرح کاٹ دینے والی  چیز ہوتی ہے  ایسے   ہی فوکس کی طاقت ہوتی ہے    ۔  ہمارا فوکس  اسی طرح  ہوتا ہے  جس طرح کمر ے میں اندھیر ا ہو  اور  ہاتھ میں ٹارچ ہو جس طرف  ٹارچ  کا رخ  ہوگا  اسی طرف فوکس ہوگا، ہمیں پوری دنیا میں وہی نظر آرہا ہوتا ہے  جس پر  ہم فوکس کرتے ہیں  بعض اوقات فوکس ہی اتنا عجیب و غریب ہوتا ہے  کہ بندہ  کہتا ہے  کہ  مجھے   عجیب و غریب نظر آ رہا ہے ۔ باباجی اشفاق احمد اپنے استاد  سے  کہتے ہیں  کہ مکھی کی چھیاسی  آنکھیں  ہوتی ہیں  استاد نے  جواب دیا لعنت  ہے  ایسی  مکھی پر جس کی چھیاسی آنکھیں ہیں  لیکن پھر  بھی وہ  گند پر  بیٹھتی ہے۔زیادہ تر لوگوں  کی نفسیات ایسی ہوتی ہے کہ  وہ مسئلوں کو وہاں تلاش کر رہے ہوتےہیں  جہاں پر وہ پڑا نہیں ہوتا ، وہ  وہاں فوکس کرتےہیں جہاں پر فوکس کرنے کا  کوئی نتیجہ نہیں ملنا ہوتا ۔ ہمیں  حل  کی  طرف فوکس کرناچاہیے  جب بندہ حل کی طرف فوکس کرتا ہے تو  مسئلے کو حل کرنے کے نئے نئے طریقے  سامنے آنے لگ پڑتے ہیں ۔ فوکس  اس مجنوں  کی طرح ہے  جو ایک نمازی  کے سامنے سے گزرتا ہے  نمازی نماز توڑ کر  اس کا گریبان  پکڑتا ہے اور کہتا ہے   تم میری نماز  کے  آگے سے کیوں گزرے مجنوں جواب دیتا ہے   میں تو لیلی ٰ کے  پیچھے جا رہا تھا  مجھے تو تمہاری نماز    کا پتا نہیں  چلا  لیکن حیرت  ہے تمہاری نماز پر جس کو ادا کرتے ہوئے تم  نے    مجھے دیکھ   لیا۔
انسان  کو  کامیابی اس  کے اچھے فیصلوں   کی وجہ سے  ملتی ہے اور اچھے فیصلے تجربات  کی وجہ سے آتے ہیں   اور  جو تجربات ہوتے ہیں وہ  غلط فیصلوں کی وجہ   سے آتے ہیں۔ فیصلے  میں اتنی طاقت ہوتی ہے  کہ جس لمحے بندہ فیصلہ کر  رہا ہوتا  ہے اسی لمحے  اس کی تقدیر بن رہی ہوتی ہے اس لیے فیصلے پختہ ہونے چاہییں ۔ فیصلہ ایسا نہیں ہونا چاہے  جس طرح ریت  پر لکیر  لگی ہو  بلکہ  فیصلہ ایسا ہونا چاہے  جس  طرح  پتھر   پر لکیر ہو جو  مٹ   ہی  نہ  سکے ۔ اگر آپ  محنتی ہیں  اور جدوجہد کر رہے  ہیں تو کبھی کبھی  اپنے سینے پر  ہاتھ رکھیں  اور اپنے آپ سے کہیں "ابھی انتظار کرو دوست ابھی کہانی باقی ہے " اس جملے میں اتنی طاقت ہے  کہ اگر بندہ کبھی کبھی اپنے  آپ کو یہ جملہ کہتا ہے  تو  اس میں امید جاگ  جا ئے گی ۔
 اپنے آپ سے سوال   پوچھیں  کہ  میں کدھر جا رہا ہوں؟  جو میں کر رہا ہوں  اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ میں ایک عرصے  سے  کیا کرتا جا رہاہوں ؟ فلاں شخص میری زندگی میں کیوں  آیا؟ اس کے آنے  کا مطلب کیا ہے؟  اس وقت  ہی ایسا کیوں ہوا؟  پہلے کیوں نہیں ہوا ؟ ابھی تک ایسا کیوں  نہیں ہو رہا ؟   کیا میں کہیں جا رہا ہوں ؟  کیا میں رکا ہوا ہوں؟  میری زندگی کا کوئی مقصد بھی ہے؟  میری زندگی کسی معنی سے  بھی وابسطہ  ہے  کہ نہیں؟  مجھ سے کسی کو  کوئی فائدہ ہورہا  ہے  کہ نہیں؟  میں دنیا میں آنے کا حق ادا کر رہا ہوں؟  میں اس دنیا سے جاؤں گا تو یاد بھی رہوں گا کہ نہیں؟ یہ سارے وہ سوال ہیں   جو بندے  کے ذہن کو  تبدیل  کر دیتےہیں ، آپ  کسی ایک سوال  سے  خود کو جوڑ لیں   بار بار  اپنے آپ سے  وہی سوال پوچھیں  جب ایسا  ہوگا  تو آپ میں  سنجیدگی پیدا ہو جا ئیں گے اور تبدیلی آنا شروع ہوجائے گی۔ جب بندہ خود  ہی مجرم بنتاہے، خود ہی جج بنتا ہے  تو  پھر تبدیلی آتی ہے۔
زندگی  کے مطلق آپ نے  جو نام رکھیں ہیں ان کو تبدیل کریں  جیسے  زندگی جبر مسلسل ہے  اس کو اس طرح بدلیں کہ زندگی  ایک کھیل  ہے  ، انجوائے ہے ۔ اگر آپ صرف نام بدلیں گے توان ناموں  میں انتی  طاقت ہے کہ چند دن بعد  یہ نام آپ کی زندگی میں سرایعت  کر جائیں گے  اور آپ  کی زندگی  بدلنا شروع ہو جائے گی۔  بےبسی والی شاعری ، بے بسی والے جملے  ، بے بسی والا لٹریچر  بندے کو بے بس تو بنا دیتا ہے  لیکن انقلاب نہیں  لا سکتا، انقلا ب کےلیے  انقلابی ادب چاہیے ، انقلابی کتاب چاہیے  اورانقلابی شخص چاہیے تبھی  زندگی میں انقلاب آئے گا  ۔

(Anthony Robbin’s Book “Notes from a Friend, Syed Qasim Ali Shah)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں