زاد ہ راہ ان چیزوں کو کہتے ہیں جو سفر میں آپ اپنے ساتھ
رکھتے ہیں یہ سامان آپ کی منزل نہیں ہوتا مگر یہ آپ کو منزل مقصود تک پہنچنے میں معاون و مددگار ہوتا ہے ۔ دنیاکے تمام صوفی
فکری طور پر اس مقام پر پہنچ جاتے
ہیں انہیں یہ بات سمجھ آجاتی ہے کہ دنیا
کا مال واسباب، آسائشیں، گھر ، گاڑی یہ
سب زادہ راہ ہیں یہ منزل نہیں ہیں اس کے
برعکس جتنے دنیا دار لوگ ہوتے ہیں وہ زادہ راہ کو اپنی منزل سمجھ لیتے ہیں ۔حضرت
موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کی
کہانی ایک بہت بڑا سبق ہے کہ تاریخ میں جب کبھی سمجھنا ہو کہ کس کی سوچ موسیٰؑ جیسی ہے اور کس کی سوچ
فرعون جیسی ہے تو پھر زادہ راہ کو سمجھنا
بڑا آسان ہو جاتا ہے ۔ جتنے بھی دنیا دار لوگ ہیں
وہ اس حقیقت تک نہیں پہنچ پاتے کہ
وہ تمام چیزیں جو زندگی میں آتی ہیں وہ تمام زادہ راہ ہیں وہ کوئی منزل یا مقام نہیں ہیں
جبکہ اس کے برعکس ایک صوفی دنیاوی
چیزوں کو معاونت کے طور پر استعمال کرتا ہے
اور منزل تک پہنچ جاتا ہے۔
جب ہم نظریہ ترجیحات
کو پڑھتے ہیں تو پتا چلتا ہے
کہ دنیا میں بہت لوگ ایسے ہیں جو زندگی کا
بڑا حصہ گزارنے کے باوجود بھی ترجیحات کا
تعین نہیں کر پاتے انہیں یہ نہیں پتا چلتا کہ زندگی میں اہم کیا ہے اور کیا اہم نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی احمق کی آسان تعریف جاننا چاہیں
تووہ یہ ہے کہ وہ ان چیزوں کو بہت زیادہ قدر دے گا جو قدر کے لائق نہیں ہیں اور کسی بھی سمجھ دار انسان کی تعریف جاننی ہے تو وہ یہ ہے کہ وہ ان تمام
چیزوں کو اہمیت دیتا ہے جو شائد دنیا کی نگاہ میں تو بے کار ہوں لیکن اصل میں وہ بڑی ہی فائدہ مند ہیں ۔ سفر جس
کو اگر زندگی کا سفر کہا جائے اس کی بڑی آسان سی تعریف یہ ہے کہ پیدائش سے موت تک کا وقت سفر کا وقت
ہے اور یہ زندگی کا سفر ہے اس سفر کے اندر وہ تمام چیزیں وہ تمام آسانیاں جو ہمیں ملتی ہیں آخر کار ان کو چھوڑ کر جانا
ہوتا ہے یہ ہماری ساتھ نہیں جا سکتیں سکندر اعظم نے دنیا فتح کی لیکن جب وہ مرنے لگا
تو اس نے کہا میرے دونوں ہاتھ کفن سے باہر
نکال دینا تاکہ دنیا کو پتا لگ جائے کہ
دنیا کو فتح کرنے والا جب دنیا سے جاتا ہے تو خالی ہاتھ جاتا ہے ۔
جتنے بھی صوفیا کرام
ہیں وہ بڑی جلدی اس حقیقت تک پہنچ جاتے ہیں کہ تمام دنیاوی چیزیں یہ معاون تو ضرور ہیں مگر
یہ انجام نہیں ہیں ،یہاں کہانی ختم نہیں
ہوتی، یہ حاصل نہیں ہے جس حاصل پر دنیا دار فخر کرتی ہے ۔ ہمیں یہ
ضرور دیکھنا چاہیے کہ وہ تمام قلعے اور محل جو سدا رہنے کے لیے بنائے گئے تھے محل تو رہ گئے مگر
ان قلعوں میں رہنے والے فنا ہو گئے تاج
محل محبت کی نشانی کے طور پر بنایا گیااس کو بنانے والے غرق ہو گئے مگر تاج محل آج بھی موجود ہے اس سے ثابت ہواکہ پتھروں کی زندگی زیادہ
ہے انسانوںکی زندگی کم ہے ۔
زادہ راہ کی حقیقت کو سمجھنے کے بعد دنیا کو چھوڑنا بڑا آسان ہو جاتا ہے جو زادہ راہ کو نہیں سمجھتا اور وہ دنیا کے
ساتھ جڑا ہوا ہے وہ آسانی سے چھوڑ نہیں سکتا
جیسے جسم پر ایک پھوڑا نکلا ہوتا ہے اس کو ختم کرنے کے لیے سرجری کرنی پڑتی ہے ۔ وہ تمام
لوگ جو زادہ راہ کی حقیقت کو نہیں سمجھ پاتے وہ کنجوس ہوتے ہیں ، تنگ دل
ہوتے ہیں اگر آپ کا مال یا کمائی آپ کے
کام میں نہیں آ رہی تو پھر ساری کمائی غرق
ہو جائے گی وہ مال جو بڑا سنبھال کر رکھا ہے آپ دوسروں کو ایسے دے کر چلے جائیں
گے جیسے وہ کبھی آپ کا نہیں تھا پھر جب
انسان تما م دنیا وی چیزوں کو چھوڑ کر
جاتا ہے تو یہ ساری چیزیں اس کے لیے حسرت بن جاتی ہیں ۔
ایک لمحے کے لیے سوچیں وہ تمام فکریں جوہمارے ساتھ جڑی ہوئی ہیں ان کو ایک ٹرے میں
رکھ دیا جائے اور سو سال پیچھے چلے جائیں تو ہم
دیکھیں گے اس وقت بھی جو ہماری طرح لوگ تھے ان کی فکریں بھی ہمار ی جتنی تھیں وہ بھی چلے گئے اور
ان کے ساتھ ان کی فکریں بھی چلی
گئیں، انکے ساتھ محبت کرنے والے بھی چلے گئے جن سے وہ محبت کرتے تھے وہ بھی چلے گئے ۔ ہماری اپنے والدین سے محبت و
شفقت ہوتی ہے لیکن اگر ہمار ے سامنے ہمارے
پڑدادہ آ جائیں تو ہمیں ان سے محبت نہیں
ہو گی ہمیں یہ تو پتا ہوگا
کہ ہم ان کی نسل ہیں لیکن ان سے
ہمار ا کوئی جذباتی تعلق نہیں ہوگا یہ اس لیے ہے کہ زمانہ بدل گیا ۔ لفظ انتقال
پراپرٹی میں استعمال ہوتا ہے اور اس کو
زندگی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے اور
کہاجاتا ہے کہ فلاں شخص انتقال کر گیا ہے
انتقال منتقل سے نکلا ہے اس کا
مطلب ہے یہ چیز کسی کی تھی اور اب کسی کی ہو گئی ہے اسی طرح زندگی ہمیں ملی ہوتی ہے یہ ہم سے چھن
جاتی ہے کسی اور کو مل جاتی ہے
اور یہ زندگی کا کارواں چلتا رہتا ہے
فقط ہم نہیں ہوتے جو یہ سمجھ جاتا
ہے کہ زندگی اتنی بے معانی سی چیزہے پھر وہ تمام دنیاوی چیزوں کو زادہ راہ
بناتا ہے
اور کوئی بڑا مقصد حاصل کر لیتا ہے
۔
زادہ راہ کی سب سے
پہلی نشانی یہ ہے بندہ چھوٹے جھگڑوں میں نہیں پڑتا وہ چھوٹے جھگڑوں کو اپنی زندگی
سے نکالنا شروع کر دیتا ہے اس کی زندگی سے
میں اور تو کے جھگڑے ختم ہوجاتے ہیں
کیونکہ اس کو پتا ہوتا ہے کہ جس کو وہ میں کہہ رہا ہے وہ اس کا نہیں ہے اور
نہ وہ کسی کا رہنا ہےجب یہ پتا لگ جاتا ہے تو زندگی کو چھوڑنا آسان ہو جاتا ہے
۔حضرت واصف علی واصف ؒ فرماتے ہیں "باقی کی محبت بقا کی طرف لے کر جاتی ہے
اور فانی کی محبت انسان کو فنا کی طرف لے کر جاتی ہے " یہ بہت بڑا ثبوت ہے
زادہ راہ کو سمجھنے کے بعد کسی بڑی منزل کے مسافر بننے کا۔ اسی رازکو
جب حضرت علی بن عثمان الحجویرؒ نے
پالیا تو
ہزار سال بعد بھی وہ زندہ ہیں ، اسی راز کو حضرت بابا بلھے شاہ ؒ
نےپالیا تو سینکڑوں سال بعد بھی ان کا نام
ہے، اسی راز کی سقراط کو سمجھ آگئی کہ
مجھے مارا جا سکتا ہے میر ی فکر ، سچ،سوچ ،بات اور خیال کو نہیں مارا جاسکتا، ان نظریات اور عقائد کو ختم
نہیں کیا جاسکتا جو میں سوچتا ہوں۔
کیا جسم کی موت
فقط موت ہے یہ صر ف اس کےلیے موت ہے جو صرف مادی سطح پر جی
رہا ہے جو فکری سطح پر جی رہا ہے اس کا جسم مرے بھی تو وہ شائد نہیں مرے گا کیونکہ
اس کی سوچ نہیں مری اس کی سوچ میں اتنی طاقت ہو تی ہے کہ وہ صدیوں پر محیط ہو جاتی
ہے آنے والے وقت میں اس سوچ کے کئی محافظ پید ا ہو جاتےہیں وہ زمانوں پر راج کرتی ہے ۔انسان کی
جسمانی عمر شائد چند سال ہے لیکن نظریات کی عمر جسمانی عمر سے زیادہ ہوتی
ہے دنیا کے بہت سارے ایسے نظریات ہیں جو آج تک قائم ہیں آج بھی ہم ڈھونڈنے جائیں
تو ہمیں عدل پہ ایسا جملہ نہیں ملے گا کہ
کوئی شخص یہ کہہ دے کہ "دجلہ وفرات کے کنارے اگر کتا مر جائے تو عمر اس کا
جواب دہ ہے"آج بھی ہم بہادری ڈھونڈنے جائیں
تو تاریخ میں یہ جملہ کہیں نہیں ملے گا کہ "شیر کی ایک دن کی زندگی
گیڈر کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے"بڑے بڑے نام تو چلے گئے لیکن ان کی سوچ اب بھی باقی ہے دنیا میں جہاں
کہیں بھی قانون پڑھایا جاتا ہے تو حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا نام آتا ہے اور
کہاجاتا ہے کہ ان سے بڑا منصف کوئی نہیں آیا ۔
جب سوچ اور فکر کو
دوام ہے تو کیا ہماری سوچ اور افکار اس قابل ہیں کہ صدیوں بعد زندہ ہوں گے کیا وہی
روٹی کے جھگڑے ، وہی چھوٹے چھوٹے مسئلے، ٹکے ٹکے کے عشق مجازی، صرف بچے پالنے کے
لیے حرام کمانا، فقط گھر بنانے کےلیے دھوکہ دینا، چھوٹی سی گاڑی لینے کے لیے چار
لوگوں سے ہاتھ کر دینا ۔ کیا یہ سوچ اس قابل ہے کہ اگر اس سوچ کو اللہ تعالیٰ کی
بارگاہ میں پیش کیا جائے تو قبول ہو جائے گی ؟۔۔۔۔۔۔ کیا یہ سوچ اس قابل ہے کہ ہم
اس پر شکر ادا کر سکیں ، کیا یہ فکر خودہی
چل رہی ہے یا شعور ی طور پر چل رہی ہے کیا اس پر
فخر کیا جا سکتا ہے ، کیا یہ سوچیں اس قابل ہیں کہ کسی کو بتائی جا سکیں،
کیا یہ سوچیں ایسی ہیں کہ اس سوچ کے سفر
میں کسی کو شامل کیا جا سکے ، کیا یہ سوچیں اس قابل ہیں اگر ہمارے ماں باپ کے
سامنے سوچیں کھولنی پڑیں شرم تو نہیں آنے
لگ پڑے گی ۔ اگر ہم فخر اور اللہ تعالیٰ کے شکر کے ساتھ اپنی سوچوں کو زمانے کے
سامنے رکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں تو پھر ہم عام انسان نہیں رہیں گے اگر سوچیں اس قابل نہیں ہیں تو پھر توبہ کرنی
چاہیے اس نام پر تہجد پڑھنی چاہیے کہ ائے میرے مالک مجھے اچھا سوچنا سیکھا، اے
میرے مالک میری فکروں سے آزاد کر ۔
ہمیں زندگی میں یہ سوچنا چاہیے کہ مادی چیزیں بہت ضرور ی ہیں مگر یہی سب کچھ نہیں ہیں یہ مادی چیزیں تو اقبال ؒ اور جناحؒ کے پاس بھی
تھیں مگر ان کی سوچ بڑی تھی ان کا ٹارگٹ بڑا تھا ، ان کا مشن کا بڑا تھا ،
ان کا کام اتنا بڑ ا تھا کہ وہ تمام چیزیں
جن پر لوگ بڑے فخر کرتے ہیں ان کے
لیے وہ فخر نہیں تھیں حضرت واصف علی واصف ؒ فرماتےہیں "بندہ اندر سے خالی ہو
اس کے پاس حسن خیال نہ ہو تو وہ اپنی ہر مادی چیز کی تعریف چاہتا ہے" اگر
کپڑوں کے اندر کا انسان زبردست نہیں ہے تو
اسے ہر اس مادی چیز کی ضرورت پڑے گی جس کی
دنیا میں تعریف ہوتی ہے ، اسے عہدے کی بھی ضرورت پڑے گی،اسے پروٹوکول کی بھی ضرورت
پڑے گی، اس کا دل کرے گا کہ سارے لوگ کھڑے
ہوں، اس کا دل کرے گا کہ اس کا نام لیا
جائے، اس کا دل کرے گا کہ سارے اس کے آگے جھک جائیں یہ تب تک ہوگا جب تک اس کے اندر کا دیا روشن نہیں ہو جاتا ۔ ایلے شفک
کہتی ہے کہ "روشن اندر ہوتا ہے تو بندہ باہر سے روشن نظر آتا ہے"یہ کتنی عجیب بات ہے کہ آپ کی روشنی مستعار ہو آپ خود چمک ہی نہ رہے
ہوں اور چمکنے کا ڈرامہ کر رہے ہوں اگر آپ کے سوچ اور افکار
چمک رہے ہیں تو پھر آپ خوش قسمت
ہیں آپ سمجھ گئے ہیں کہ یہ سب کچھ زادہ
راہ ہیں۔
چیزوں کو چھوڑنا سیکھیں
کبھی ان میں جذبات نہ ڈالیں چیزیں
بیچتے اور دیتے ہوئے کبھی تکلیف نہیں ہونی چاہیے
جوچیز دوبارہ آ سکتی ہے اس کے لیے رونا نہیں چاہیے جبکہ زندگی میں ہم کتنی چیزوں کے لیے روتے ہیں حالانکہ وہ دوبارہ آ سکتی ہیں جبکہ جن چیزوں
کےلیے رونا چاہیے اس کے لیے نہیں روتے ہمیں کوئی نہیں کہتا کہ خدا کے بندوں اگر
ایمان نہیں ہے تو اس کے لیے التجاء کرواگر عشق رسول ﷺ نہیں ہے آنکھوں سے کبھی ان کی یاد میں آنسو نہیں ٹپکے تو التجاء کرو
اپنی عاجزی پیش کرو، اگر ضد اور اکڑ ہے تو اس کے لیے دعا کرو کہ اے میرے مالک میں سر تو جھکاتا ہوں مگر وہ
اندر سے نہیں جھکتا میں سجدے تو کرتا
ہوں لیکن وہ سجدے صرف میر ی ٹکریں ہیں
میرا وجود تو ہوتا ہے مگر میر ی روح شامل نہیں ہوتی ۔ اللہ تعالیٰ برداشت نہیں
کرتا کہ بندہ بندے سے عشق کرے وہ کہتا ہے محبت ٹھیک ہے لیکن عشق کے قابل صرف میں ہوں تو نے کیسے سمجھ
لیا کہ اتنی پرستش کسی اور کی بھی کرنی ہے جب بندہ ایسا کر تا ہے تو وہ اسی سے ذلیل کروا
دیتا ہے وہ کہتا ہے جو تیری چاہ تھی وہ چاہ ہی غلط تھی اگر تو اس چاہت کی طرف آ
جاتا ہے جو اصل چاہ تھی تو پھر یقین کر تیرا سر بھی فخر سے بلند ہوتا تیرے راستے
بھی آسان ہوتے اور جن چیزوں کےلیے تو مر رہا تھا شائد وہ تیرے قدموں میں گری ہوئی
ہوتیں لیکن تو نے ڈیل ہی چھوٹی کی کہ وہ
تمام چیزیں جو معتبر نہیں تھیں تو ان کو اتنا معتبر جانا توآج ان غیر معتبر چیزوں
کے لیے خوار ہورہا ہے ۔
آج ہی فہرست بنائیں کہ
زادہ راہ کیا کیا ہیں آپ کوجان کر حیرت ہوگی کہ ایک لمبی فہرست ہے
، زادہ راہ سے دل نہ لگائیں دل کسی بڑے مقصد سے لگائیں کسی انقلاب سے لگائیں کسی بڑی سوچ سے لگائیں ۔ہدف بہت بڑا ہوناچاہیے
کیا عجیب ہے کہ ہماری زندگی صرف ہم تک ہی ہو اور کیا عجیب ہے کہ ہماری کی زندگی سے
کتنی زندگیا ں جنم لے لیں کیا کمال ہے کہ
ہماری زندگی ہمارے کام نہ آئے اور کیا
کمال ہے کہ ہماری زندگی سے کتنی زندگیوں میں معاونت پیدا ہو جائے ،آسانیاں پید ا ہو جائیں ۔ جو کسی مقصد
کے لیے مر تےہیں وہ مرتے نہیں ہیں اور جو بغیر مقصد کے جیتے ہیں وہ جیتے نہیں ہیں
جن کی زندگی میں کوئی فہم ہے فراست ہے کوئی مقصد ہے کوئی شعور ہستی ہے کوئی جواز ہستی ہے پھر وہ تمام چیزوں کو زاد
راہ بنا کر آگے نکل جائے گااللہ تعالیٰ سے دعاہے
کہ ائے میرے مالک اگر ہستی ہے تو جواز ہستی بھی ہواگر زندگی ہے تو مقصد
حیات بھی ہو۔
(Weekly Sitting “Zad e Rah” Syed Qasim Ali Shah)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں