پیر، 31 اکتوبر، 2016

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ


سلمان آپ کا نام ہے۔ ابو عبداللہ کنیت فارس کے ایک قصبہ جئیی کے رہنے والے تھے آپ کی عمر اڑھائی سو سے ساڑھے تین سو سال کے  درمیان تھی۔بعض اہل سیر کے مطابق آپ نے حضر ت عیسی علیہ السلام کےحواریوں کا زمانہ پایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں میرے والد بستی کے نمبردار تھے۔آتش کدہ کی نگرانی میرے سپرد تھی۔ایک دفعہ میں ایک گرجا کے قریب سے گزرا تو ان کی دعا ہو رہی تھی جس نے میرے  دل پر اثر کیا اور میں نے یقین کر لیا یہ عقیدہ بہتر ہے۔میں نے اپنے والد کو کہا کہ دین نصرانیت حق ہے۔ بس پھر کیا تھا مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑے اور مجھے گھر میں بند کر دیا۔  ایک قافلہ کے ساتھ شام بھاگ گیا اور وہاں جا کر پوچھا یہاں بڑا عالم کون ہے؟ لوگ کے کہنے پر میں ایک بڑے پادری کے پاس چلا گیا اور اپنی داستان سنائی میں اس کے پاس رہا مگر وہ اچھا عالم نہیں تھا۔ حریض، طماع اور خائن تھا۔ اس کے مرنے پر لوگوں کو معلوم ہوا اس کے پاس سات مٹکے اشرفیوں سے بھرے ہو ئے تھے۔ لوگوں نے اس کی میت کوسولی پر چڑھا کر سنگسار کر دیا اور اس کی جگہ دوسرے عالم کو رکھا لیا جو نہایت عابد، زاہد،متقی اور شب دار تھا مجھے اس سے اس قدر محبت ہوئی کہ پہلے کیسی سے نہیں ہوئی جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو میں نے پوچھا اب کہاں حاضری دوں۔اس نہ کہا کہ موصل کے فلاں عالم کے پاس چلے جاو۔ جب اس کی بھی موت کا وقت آیا تو اس نے کہا نصیبین کے فلاں عالم کے پاس چلے جاو۔ جب اس کی موت کا وقت آیا تو میں نے پوچھا اب کیا کرنا چاہیے۔ اس نے کہا کہ میری معلوما ت کےمطابق آخرالزمان نبیﷺ کے ظہور کا زمانہ قریب ہے۔وہ کھجوروں کے علاقہ کی طرف ہجرت کریں گے۔اس پادری نے آپؓ کو یہ علامات بتائں
1      وہ صدقہ کا مال نہیں کھائیں گے۔
2      وہ ہدیہ قبول کر لیں گے۔
3     نخلستانی علاقہ کی طرف ہجرت کریں گے۔
4 دونوں شانو ں کے درمیان مہر نبوت ہو گی۔
ایک دفعہ ایک قافلہ عرب جا رہا تھا میرے پاس گائیں بکریاں جمع ہو گئ تھیں میں نے کہا کہ میں یہ سارا مال تمیں دے دوں گا مجھے  اپنے ستا تھ عرب لے چلو مگر انھوں نے مجھے غلام بنا کر وادی قریٰ کے ایک یہودی کے ہاتھ بیچ دیااس یہودی نے بنو قریظہ کےیہودی کے ہاتھ بیچ دیا یہ یہودی مجھے سر زمین مدینہ الرسول ﷺ میں لے آیا باغا ت دیکھے، کھجوریں مشاہدہ کیں۔ دل نے یقین کر لیا نخلستان تو پہنچ گیا ہوں
سیدنا سلمان ؓ فرماتے ہیں دیار محبوب ﷺ میں پہنچنے تک میں دس بار بکا اور میرے خریداروں نے بڑی بے رغبتی لا پرواہی سے چند ٹکوں میں خریدا۔میں اپنے یہود ی مالک کے باغ میں کام کرتا رہااورپھر حضوراکرم ﷺ ہجرت فرما کر مدینہ میں پہنچ گئے۔میں درخت پر شاخوں کی کانٹ چھانٹ کر رہا تھا ۔ میرا مالک نیچے بیٹھا ہوا تھا میرے مالک کا ایک رشتہ دار آیا اس نے کہا ۔ اللہ تعالیٰ انصار کو غارت کرے قبا کے اندر کسی شخص کو رسول و نبی مانے بیٹھے ہیں۔ وہ مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے آیا ہے۔ جب اس یہودی کی آواز میرے کانوں تک پڑی تو مجھ پر وجد طاری ہو گیا جسم میں اس قدر لرزہ ہوا کہ مجھے خطرہ ہوا کہ میں نیچے نہ گر پڑوں یہودی آپ کی حالت پر سخت متعجب ہوا۔میں نیچے اترا اور اس یہودی سے کہا یار کیا بات کر رہے تھے اب ذرا پھر بتا۔ میرے مالک نے ناراضگی کے ساتھ مجھے طمانچہ مارااور کہا تمہیں ایسی باتوں سے  کیا تعلق۔ چلو اپنا کام کرو۔ خبردار ایسی بات کی۔
پہلی علامت کی تصدیق
پہلی علامت نخلستان والی تھا جو مدینہ آتے ہی پوری ہوگئ تھی۔یہ پہلی تصدیق باعث اطمینان تھی۔
دوسری علامت کی تصدیق
دوسری علامت کے مطابق میں صدقہ لے کر قبا حاضر ہوا اور عرض کی حضورﷺ یہ صدقہ قبول کریں آپ کے  لیے اورآپ کے صحابہ ؓ کے لایاہوں قبول فرمائیں۔آپ نے فرمایا میر ے لیے صدقہ جائز نہیں اور صدقہ صحابہ کرام ؓ کے سپرد کر دیا میں نے منظر دیکھ کر یقین کر لیا کہ یہی رسولﷺ ہیں۔
تیسر ی علامت کی تصدیق
جب حضور اکرم ﷺ قبا سے مدینہ جلوہ گر ہوے تو پھرکچھ لے کر حاضر ہوا عرض کی حضورﷺ تو آپ صدقہ قبول نہیں کرتے اب ہدیا لایا ہوں قبول فرمائیں تو آپ نے قبول کر لیا تو میرا یقین مزید بڑھ گیا۔
چوتھی علامت کی تصدیق
ایک حضور اکرم ﷺ جنت البقیع میں ایک جنازہ کے ساتھ تشریف لے گئے میں نے جھک کر سلام کیا میں آگے سے اٹھ کر پشت مبارک کے پیچھے آکر بیٹھ گیا کہ مہر نبوت کی زیارت کر سکوں۔ حضور ﷺ میر ی اس کیفیت کو جان گئے۔ فورا پشت مبارک سے چادر اٹھا دی میں مہر نبوت کو دیکھا چوما اور رو دیا ۔ حضورﷺ نے فرمایا؛ سامنے آؤ میں سامنے آگیا۔
آپ اسلام قبو ل کرنے کے بعد بھی اپنے مالک کے با غ میں کام کرتے رہے۔ ایک دن حضورﷺ نے فرمایا؛ اے سلمانؓ اپنے آقا سے کتابت کر لو وہ تمہیں آزاد کر دے گا۔ آپ نے اپنے آقا سے بات کی اس نے کہاچالیس اوقیہ سونا ادا کردو اور تین سو درخت کھجوروں کے لگا دو جب وہ پھل دینے لگ جائیں تو تم آزاد ہو۔
سیدنا سلمانؓ نے سارا واقعہ حضور ﷺ سے عر ض کیا ۔ آپ نے صحابہ کرام ؓ  سے فرمایا سلمانؓ کے لیےپودوں سے امداد کرو۔کوئی دس لے آیا، کوئی بیس یہاں تک کے تعداد پوری ہو گئ۔ سلمان فارسیؓ سے فرمایا جاؤ گڑھے بنا کر رکھو پودے میں خود آکر لگاؤں گا۔گڑھے تیار ہو گئے۔ حضورﷺ تشریف لائے اور اپنے دستے مبارک سے پودے گڑھوں میں رکھ دیئے اور دعا برکت فرما دی۔ ایک سال بھی نہ گزرنے پا یا تھا  کہ باغ نے پھل دے دیا۔ تین سو پودوں میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جو خشک ہو گیا ہویا پھل نہ دیا ہو۔پھر ایک دن ایک شخص نے دربار رسالت ﷺ میں حاضر ہو کر سونے کی ڈلی پیش کی آپ نے فرمایا سلمانؓ کہاں ہے؟عرض کی حاضر ہوں۔ فرمایا سونا لے جاؤ اور اپنے مالک کا یہ بھی قرض بھی چکا دو۔ میں نے عرض کی کہ سونا تھوڑا ہے۔ فرمایا اللہ تعالیٰ اس سے تمہارا قرض ادا کر دے گا۔ چنانچہ سونا تولا گیا تو وہ ٹھیک چالیس اوقیہ تھا۔اس باغ میں کھجور کےدو درخت 75-1974  تک زیارت گاہوعوام و خواص بنے رہے 1976ء میں یہ دونوں درخت کا ٹ دیے گئے بلکہ جلا دیے گئے کہ لوگ ان کا ادب و احترام کرتے ہیں۔
جب آپ مدائن کے امیر  تھے تو ایک مرتبہ شام کا ایک تاجر کچھ سامان لے کر مدائن آیا۔تو حضرت سلمان فارسی ایک عام آدمی کی طرح سٹر ک پر پھر رہے تھے۔شام کے اس تاجر نے آپ کو  مزدور سمجھااور آپ سے کہا کہ گٹھٹر ی اٹھا لو۔ آپ نے کسی تامل اور توقف کے بغیر اس کو اٹھا لیا ، کچھ دیر بعد جب مدائن کے باشندوں نے آپ کو دیکھا تو اس شامی تاجر سے کہا کہ "یہ امیر مدائن ہیں" اس پر وہ تاجر بہت حیران ہوا اور شرمندہ بھی اور آپ سے معذرت کے ساتھ درخواست کی کہ وہ بوجھ اتار دیں ۔لیکن آپ راضی نہ ہوئے اور فرمایا کہ "میں نے ایک نیکی کی نیت کر لی ہے  اب جب تک وہ پوری نہ ہو یہ سامان نہ اتاروں گا " چنانچہ سامان کو منزل پر پہنچا کر ہی دم لیا۔
1۔      (طبقات ابن سعد، ص88، جلد4)
2۔      (جہاں دیدہ، مفتی تقی عثمانی ،ص51،52)

3۔      (مدینہ الرسولﷺ،ص 282 تا 290 ، ابو النصر منظور احمد شاہ صاحب) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں