مدینہ طیبہ کا پہلا
نام یثرب تھا ۔ یثرب بن قابل حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے سام
کے پو تے قابل کا بیٹا تھا۔جو سب
سے پہلے وہاں اترا۔ علامہ سمہودی ؒ کی تحقیق یہ ہے کہ حضر ت نو ح ؑ کے طوفان کے
بعد سب سے پہلے یہی بستی آباد ہوئی۔حدیث مبارک:حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ جب
کشتی نوحؑ سے 80 افراد اترے جہاں انہوں نے قیام کیا۔ وہ جگہ سوق الثمانین کہلائی۔
یہ لوگ وہاں بڑھے تو 72 زبانوں میں منقسم ہو گئے۔ ان میں سے ایک جماعت نے بذریعہ
الہام عربی زبان وضع کی اور سر زمین مدینہ پاک میں سکونت اختیار کی۔ انہیں لو گوں
نے سب سے پہلے یہاں زراعت کی اور کھجور کے درخت لگائے انہیں عمالقہ کہا جاتا ہے۔
علامہ سمہودیؒ کے بیان کے مطابق: سب سے پہلے عوض کا بیٹا
عبیل یثرب میں آباد ہوا (اس سے معلوم ہوا کہ یثرب اس سےپہلے تھا)یہ بھی کہا گیا ہے
کہ یہاں سب سے پہلے یثرب بن فائتہ بن میلائل بن ارم بن عبیل بن عوص بن سام بن حضرت
نوحؑ ہوا۔ اسی وجہ سے یہ یثرب کہلایا۔ علامہ سمہودیؒ کی ایک اور روایت ہے کہ حضرت
موسیٰ اورحضرت ہارون ؑ دونو ں بھائی حج بیت اللہ کے لئے آئے تو دونوں نے مدینہ
منورہ میں قیام فرمایا۔ ان دنوں یہ شہر یہود کامرکز تھا۔ احتیاط کے طور پر دونوں
بھائیوں نے احد شریف کی چوٹی پر قیام کیا۔ احد شریف پر ہی سیدنا ہارون ؑ کا انتقال
ہوا۔
کلبی نے لکھا کہ عبیل عاد بن عوس بن ارم بن سام مقام جحفہ
جو مکہ اور مدینہ کے درمیان آج کل
میقات احرام ہے یہاں رہتا تھا اس کا بڑا خاندان تھا عاربہ کے ایک قبیلے کا مورث اعلی تھا اور جس نے
یثر ب کو آباد کیا وہ انہی میں سے تھا۔مسعود ی نے لکھا ہے کہ جس نے یثر ب کو آباد
کیا وہ یثرب بن بائلہ بن مہابل بن بن عبل عوص تھا۔سہیلی نے لکھا ہے کہ یثرب کو آباد کرنے والا عمالیق سے یثرب بن مہلائل بن عوص بن عملیق تھا۔حدیث
مبارک:ابی منذر فرماتے ہیں انہیں سلیمان بن عبداللہ بن حنظلہ نے بیان کیا ہے کہ جب
سیدنا موسیٰ ؑ حج بیت اللہ کے لیے آئے تو مدینہ منورہ سے گزرہوا۔ اس مقام پر انہوں
نے نبی کریم ﷺ کے شہر ہونے کے آثار پائے۔ ابن زبالہ لکھتے ہیں: جب عمالقہ مکہ
مکرمہ اور مدینہ منورہ میں قیام پذیر ہوئے تو تکبرو سر کشی کرنے لگے ۔سیدنا موسیٰ
ؑ نے فرعون کے غرق ہونے کے بعد ملک شام کو فتح کیا۔ یہاں کے موجودہ کنعانی ہلاک کر
دیے گئے تو عمالقہ کو ہلاک کرنے کے لئے ایک بڑی فوج حجاز روانہ کی ۔ جب بخت نصر نے
بیت المقدس پر اور یہود کو ہلاک کیا تو
قوم نے مشورہ کیا کہ امن کی جگہ عرب کے علاوہ کہیں نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ ان کے
احبار و علماء نے حضور سید عالم ﷺ کے متعلق پڑھا تھا کہ وہ ذات نخل کے شہر میں
ظہور فرمائیں گے۔ چنانچہ شام سے نکلنے کے بعد جہاں انہیں ان صفات کا ظہور معلوم ہوتا
ٹھہر جاتے۔ پھر مزید تحقیق کرتے گئے۔ یہاں تک کے یثرب کو تمام صفات مذکورہ سے مو
صوف پا یا اور اس اپنا مستقل ٹھکانہ بنا لیا۔
حضور اکرم ﷺکی مدینہ آمد سے ایک ہزار سال پہلے تبع اول
حمیری مدینہ منورہ سے گزرا ۔ تبع اول اور اہل مدینہ اوس اور خزرج کے درمیان شدید جنگ رہی۔ تبع اول
نے مدینہ پر چڑھائی کی اور اسے برباد کرنے کی قسم اٹھائی۔ علماء یہود نے کہا کہ تو
ایسا نہیں کر سکے گا کیونکہ ہم نے اس کا نام تورات میں پڑھا ہے۔ یہ نبی آخرالزمان
ﷺ کی بستی ہے۔ جو بنی اسماعیل میں سے ہوں گے۔ ہم یہاں نہیں جائیں گے۔ ہو سکتا ہم اس
نبی محترم کی زیا رت کر لیں ۔ ورنہ ہمار ی قبروں پر تو کبھی نہ کبھی ان کے جوڑوں
کا غبار پڑ ہی جائے گا۔ جوہمارے لئے کافی ہوگا۔ اس نے سبھی علماء کی رہائش کا
اہتمام کر دیا اور ایک خط لکھ کر بڑے عالم کو دیا اور کہا جب حضور ﷺتشریف لائیں تو
پیش کر دینا۔چنانچہ ایک ہزار سال بعد اس عالم کی نسل میں سیدنا ابو ایوب انصاری ؓ
پیدا ہوئے۔
جب حضور ﷺکی جلوہ گری ہوئی تو آپ نے یہ خط حضرت ابو یعلیؓ
کو دیا کہ حضور ﷺ کے سپرد کر دیں۔ حضور ﷺ نے ابو یعلی ؓ کو دیکھتے ہی فرمایا؛ابو
یعلی ؓ تو ہے؟ عر ض کی جی ہاں؛ فرمایا تبع اول کا خط جو میرے نام ہے مجھے دے دو،
ابو یعلیؓ فرماتے ہیں میں یہ سن کر حیران
رہ گیا اس اسے قبل میں آپﷺ کو پہچانتا نہ تھا۔ میں نے عرض کیا آپﷺکی صورت مبارکہ
کا ہنوں جیسی نہیں پھر آپ نے مجھے کیسے پہچان لیا۔فرمایا میں محمد رسول اللہ ہوں۔ "لاؤ
وہ خط" جب میں نے خط دیا تو پڑھ کر تین بار فرمایا، ترجمہ "تبع
جی آیا نوں"۔
1۔ (المواہب الدنیہ،صفحہ 75)
2۔ (خلاصتہ
الوفاء)
3۔ (وفاء الوفا، خلاصتہ الوفا، جذب القلوب)
4۔ (خلاصتہ
الوفاء)
5۔ (تاریخ ابن خلدون)
6۔ (خلاصتہ
الوفاء)
7۔ (وفاء الوفا،
خلاصتہ الوفا، جذب القلوب)
8۔ (ثمرات
الاوراق، وفاء الوفاء، جذب القلوب، مقدمہ میزان الادیان، بالفاظ متقاربہ حجتہ اللہ علی العلمین، تاریخ ابن عساکر)
9۔ (مدینہ الرسولﷺ ، ابو النصر منظور احمد شاہ صاحب)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں