جمعرات، 27 اکتوبر، 2016

اندر کے خزانے کی دریافت (میلینیرر)


امیر وہ شخص ہے جس نے اپنے اندر کے  خزانے کی دریافت کی  اگر  ایک بندہ ڈبے  پہ بیٹھا ساری زندگی  بھیک مانگتا رہے   اور  پھر کسی  دن سردی کی وجہ سے  مر جائے اس کے  مرنے کے بعد  اس  ڈبے کو  کھولا جائے   تو پتا لگے گا  کہ  ساری  دنیا  کا خزانہ  تو اس  کے اندر پڑا ہواتھا ۔جس نے خود کو تلاش کیا ، اپنی صلاحیت کو استعمال کیا  اور   کوئی بہتر نتیجہ دیا  وہ   شخص امیر ہے۔ امارت کا تعلق  بینک بیلنس  کے ساتھ نہیں ہے ، لگثرری   کے ساتھ نہیں ہے، مال و اسباب کے ساتھ نہیں ہے  اور اس کا تعلق گھر ، گاڑی اور بنگلے کے ساتھ بھی نہیں ہے اس  کاتعلق اپنی  ذات کی  تلاش کے ساتھ ہے ۔ دنیا میں  ہر شخص   کسی نہ کسی خواہش کے ساتھ زندگی گزارتا ہے  یہ  ممکن نہیں ہے  کہ خواہش نہ ہو  ،جس کو نوکری نہیں  ملی وہ نوکری تلا ش کر رہا ہے ، جس کو مل گئی ہے  وہ اچھے عہدے پر جانا چا ہ رہا ہے، جو ایک عہدے پر  ہے وہ اگلے عہدے پر جانا چاہ رہا ہے ، کوئی  ملک کو چھوڑنا چاہ رہا ہے، کوئی ملک میں آنا چاہ رہا ہے، کوئی  پسند کی  شادی کرانا چاہ رہا ہے  یہ سارے کے سارے  انسانوں کے ٹارگٹس  ہیں ۔ وہ تمام خواہشیں   جسے دنیا میں انسان لیے پھر رہا ہے  وہ تمام خواہشیں  اس کے اندر ہوتی ہیں ۔المیہ  یہ ہے کہ انسان  اپنے  اندر  پڑے ہوئے خزانے  کو تلاش کیے بغیر  ان خواہشوں کو حاصل کرنا چاہتا ہے یہی وجہ  ہے  کہ لوگوں کے اندر  کا  خزانہ   نہیں نکلتا ۔ڈگری   تو مکمل ہو جائے لیکن اندر  کے خزانے   کی تلاش نہ ہو تو پھر وہ نتیجہ نہیں نکلے گا  جو وہ حاصل کرنا چاہتا ہے ۔
دنیا کا سارے کا سار ا تعلیم  کا  نظام  انسان کو امیر بنانے کےلیے  ہے  لیکن  اصل میں تعلیم تو خود شناس کرتی ہے  اور اگر تعلیم خود شناس نہیں  کر رہی   تو پھر امارت  نہیں ملے گی ۔ دنیا کے بڑے دماغ  بغیر استعمال کیے قبرستان تک پہنچ جاتےہیں  یہ وہ سارے دماغ ہوتےہیں    جنہوں نے  اپنے آپ کو تلاش  نہیں کیا ہوتا ۔ چیز اہم  نہیں ہوتی   مشین  اہم ہوتی ہے  کیونکہ  اگر چیز ضائع بھی ہوجائے تو  مشین  دوبارہ  چیز کو تیا ر کردے گی، جو نتیجہ دے رہا ہے  وہ  خواہ پیسے کی شکل میں ہو ، شہرت کی شکل میں ہو، آسانیوں کی شکل میں  ہو اصل میں وہ بندہ  میلینیرر  ہے  جو چیزیں  بنا رہا ہے  ا گر وہ  نہیں بنا ہوا  تو پھر پروڈکٹ کبھی نہیں بنے گی ۔ ہم  سب قابلیت کے بغیر نتیجہ چاہتےہیں ، ہم چاہتے ہیں     کہ ہم مشہور ہو جائیں  دنیا ہمیں جانیں  ، ہر ٹرینرر چاہتا ہے  کہ ٹونی رابنز  اس کے گھنٹوں کو ہاتھ لگائے ،  ہرکاروباری شخص چاہتا ہے   کہ کسی  دن بل گیٹس    اس سے ٹائم مانگے،  ہر دانشور چاہتا ہے   لوگ ٹکٹس لے  کر  مجھے سنیں ۔ دنیا کے  ہر شخص کے پاس خواہش ہے لیکن وہ اپنے  میلینیرر کو  جانے بغیر   اس خوا ہش  حاصل کرنا چاہتا ہے۔  وہ  جو  کہا  جاتا ہے دل دریا سمندروں ڈھونگے  یہ  میلینیرر ہے ، اپنی اندر جھاتی  مار یہ میلینیرر ہے ، اپنے من  میں  ڈوب  کے  پا جا سراغ زندگی  یہ میلینیر ر ہے  ، تیرے اندر آپ  حیاتی ہو  یہ میلینیر رہے  اس کو جانے بغیر  ہے  کبھی ممکن نہیں ہے  کہ کوئی بڑا شاعر بن جائے ، کوئی بڑا دانشور بن جائے،  کوئی بڑا بزنس مین بن جائے،  کوئی بڑا رائٹرر بن جائے یا   کوئی بڑا پینٹرر بن جائے ۔
 غور کریں جنہوں نے ادارے بنائے ، جنہوں نے ملک بنائے  ، جنہوں نے بڑے کام کیے ان کو کس بنایا ۔ ہم کہتے  ہیں  پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے بنا یا  یہ ٹھیک  ہے  لیکن کبھی جناح ؒ  بننے کی کہانی  تو پڑھیں    پتا لگے گا  کہ  وہ کتنا بڑا میلینیرر تھا  اس  کو کوئی غرض نہیں  تھی وہ سب کچھ دے کر چلا گیا ، اس نے  کہا میں پیسے سے بڑی ڈیل  کر رہا ہوں    ، اپنے مقصد سے عشق  کر رہا ہوں    میرا نام  نہیں مٹے گا ۔شیکسپیئر میلینیرر ہے، حضرت بابا بھلے شاہؒ  میلینیرر  ہیں ،  حضرت علامہ اقبالؒ  میلینیرر  ہیں ، حضرت وارث شاہ ؒ  میلینیرر ہیں ، غالب  میلینیرر ہے، فیض  میلینیرر  ہے یہ وہ تمام لوگ ہیں  جنہوں نےاپنے اندر جھاتی  ماری  اور  اپنے اندر  کے خزانے کو  تلاش کیا ۔ ایسا ممکن ہے   کسی کی  پیسہ  کمانے   کی انتہا کی خواہش ہو  اس کے لیے میلینیر ر پیسہ ہے  عین ممکن ہے  کسی  کی خواہش پیسہ نہ ہو  اس کے لیے میلینیرر ہونا کچھ اور ہو۔ ہمیں یہ تلاش کرنا ہے  کہ ہمارے  لیے میلینیرر   کیا ہے ۔
ہر ایک  کا راستہ جدا جدا ہے ، ہر بندے  کی منزل  جدا جدا ہے کوئی   کھیل میں  چیمپئن بننا چاہتا ہے  ، کسی کے لیے  ٹاپ کرنا چیمپئن  ہے،   کسی کے لیے  بزنس کی ڈیل چیمپئن  ہے،  کوئی اپنی صلاحیت کو بہتر کرنا چاہتا ہے غرض ہر  شخص کی خواہش جدا ہے ۔دنیا میں کام کرنا اہم نہیں ہے  بلکہ اہم  یہ ہے  کہ کام کونسا کرنا ہے۔ محنت کریں،استقامت  میں بڑی برکت ہے یہ سب  باتیں ٹھیک ہیں  مگر اہم  یہ ہے کہ  میں جو کام  کر رہا ہوں  کیا وہ میری لائن کے مطابق  ہے  بھی کہ نہیں ہے  ۔اگر قدرت نے کسی کو  بزنس مین بنایا ہے  تو   وہ  تدریس  میں  جتنی  مرضی  کوشش کرتا رہے  وہ فیل  ہو جائے گا  لیکن اگر قدرت نے اسے  بنایا ہی تعلیم کے لیے ہے   تو وہ چاہے  بزنس میں پی۔ایچ ۔ڈی  کی ڈگری ہی کیوں نہ لے لے   وہ ایک دکا ن نہیں چلا سکتا ۔ بڑی دنیا ایسی ہے جو لیڈرشپ کی  ڈگری لیتی ہے  اور ملازمت کر رہی ہوتی ہے  ، جو بزنس کو پڑھار ہے ہیں وہ بزنس کو نہیں جانتے ۔
خود کو جاننا ایک لمحے کی بات نہیں ہے  یہ ایک سفر کا نام ہے  ممکن  ہے ایک نشت میں اس کا آغاز ہو  اور اس  کاانجام پانچ سال بعد آئے ، دس سال بعد آئے ، بیس سال بعد آئے  لیکن خودشناسی کے لمحے پر چلنا پہلا کام ہے ۔ یہ اہم نہیں  ہے  میں نےکہیں جانا ہے  بلکہ اہم یہ ہے  کہ میں نے جانا کہاں ہے ، یہ اہم نہیں ہے  کہ  میں نے منزل کا انتخاب کرنا ہے  بلکہ اہم  یہ ہے کہ  مجھے  کونسی منزل  سوٹ کرتی ہے  اس  کا  جواب دو گراؤنڈز پر تلا ش کرنا ہے  نمبر ایک دماغ کیا  کہتا ہے  دوسرا  دل کیا  کہتا ہے ۔ پاکستانی  قوم   یہ سنتی ہے کہ دل کیا  کہتا ہے لیکن   دماغ  کیا کہتا ہے یہ کبھی نہیں سنا ، دل سے جنون لینا چاہیے  لیکن اس  کو کم سننا چاہیے ، ہم دل کی  سنتے  ہیں  اور دماغ سے جنون چاہتے ہیں  لیکن دماغ  کے پاس جنون  نہیں ہے ۔
اندر کے  خزانے  کو جاننے کی فہرست:
1۔        ان لمحات  کی فہر ست  بنائیں  جب   اپنے آپ کا  پتا چلا،  وارن  بفٹ سے  کسی نے پوچھا  تم نے کب ڈھونڈا  کہ تم  دنیا کے  اتنے بڑے  بزنس مین   بنو گے  اس  نے جواب  دیا میں  پارک میں لوگوں کو دیکھتا تھا  تھوڑے  سے پیسے پکڑتا تھا  بوتلیں خریدتا  اور تھوڑے سے مارجن سے  انہیں بیچ کر  پلان بناتا تھا کہ   میں نے دنیا کا سب سے بڑا بزنس مین بننا   ہے وہ لمحہ ہوتا تھا  جب میں  بوتل پر  منافع  کا مارجن  نکال کر سوچتا تھا کہ     میں پڑھوں نہ پڑھوں  لیکن  ہوں  میں کاروباری ۔ 
2۔      زندگی میں  ان تمام  تعریفوں  کی فہرست بنائیں  جو زندگی میں اندر  کے خزانے  کی تلاش  کے حوالے  سے   ملیں۔  جاوید چوہدری کہتے ہیں   جب میں ممتاز  مفتی پر  پہلا فیچر لکھا  تو مفتی نے بلا کر کہا  تیری تحریر  زمانہ پڑھے گا ، میں نے جب اپنی تحریر کی طرف  دیکھا  تو سوچا    کہ میری تحریر کہاں زمانہ پڑھے گا  میں نے تو کبھی  لکھا ہی نہیں  یہ تو پہلی تحریر ہے   لیکن اسی پشین گوئی  نے مجھے کالمسٹ بنایا۔ زندگی  میں  کسی کا ایک جملہ  ایسا ضرور  ہوتا ہے  جو آپ کو جگا دیتا ہے ۔ عین ممکن  ہے آپ   کام کوئی اور کر رہے ہوں   لیکن  شاباشی کسی اور کام  میں ملی ہو ۔
3۔      ایسے  کام  کی فہرست بنائیں  جس کو کرتے ہوئے تھکاؤٹ  محسوس  نہ  ہوتی ہو   کیونکہ کام دنیا میں  تھکانے والی چیز ہے اور اگر کوئی ایسا  کام ہے  جو تھکاتا نہیں ہے  تو اس کا  مطلب ہے وہ کام  نہیں ہے وہ محبت ہے  اور محبت سے کوئی بندہ نہیں تھکتا۔
4۔      وہ  کونسے  لو گ ہیں  جن  میں بیٹھ کر آپ کو انرجی   ملتی ہے، حضرت مولانا جلال الدین رومی ؒ فرماتےہیں  میں نے دیکھا ایک بھیڑوں  کے  لشکر میں  شیر کا بچہ رہنے لگ پڑا  دیکھتے ہی دیکھتے اس کی ساری عادات بھیٹروں والی ہو گئیں  ، ایک دن اس نے شیروں  کے  لشکر کو دیکھا  اس  لشکر میں ایک شیر نکلا  اور اس نے بھیٹر کو  چیر پھاڑ دیا    اس عمل سے اس  بچے  کے اندر کا شیر جاگ گیا ۔  دنیا میں کئی لوگ ایسے ہیں  اگر آپ  ان کے ساتھ رہیں   آپ  کی موٹیویشن   کا لیول ہائی  ہو جاتا ہے۔
5۔      ان کہانیوں،   ان کتابوں ، ان فلموں  کہ فہرست بنائیں  جن سے  آپ کو موٹیویشن ملتی ہے ۔
6۔       زندگی کی ان خواہشوں  کی فہر ست بنائیں جن کو مانگتے ہو ئے  آنکھوں میں نمی آجاتی  ہے ۔
7۔      زندگی کے ان خوابوں کی فہرست بنائیں جن کے بارے  میں آپ اکثر سوچتے رہتےہیں ۔
8۔      ان خیالات کی فہرست بنائیں  جو آپ کو اکثر آتے رہتے ہیں۔
9۔      اگر دنیا میں  آپ  کو دوبارہ آنے کا موقع   ملے تو  کیا کر یں گے۔
10۔    کس نا م کے ساتھ  آپ دنیا میں  جینا چاہتےہیں، آپ کی شناخت کیا ہوگی، شناخت انسان کی مجبوری ہے یہ مادہ اللہ تعالیٰ نے صرف انسان کے اندر  رکھا ہے  کسی اور مخلوق  میں نہیں رکھا  ۔
11۔    جس شناخت کے ساتھ آپ جینا چاہتے ہیں  اس  کے ساتھ کون سی سروس جوڑنا چاہتےہیں۔
وہ لوگ  جو وسائل کا انتظار کر رہے ہیں  وہ غلط کر رہے ہیں دنیا میں وسائل کو ئی چیز  نہیں ہوتی ارادہ پہلی چیز ہوتی ہے  جب ارادہ سچا ہوتو   جو  کچھ  ہے اس  کو   لگا کر شرو ع کر دیں ۔ ہم  لوگ  دو غلطیاں کر تےہیں ایک  ہم  اچھے وقت  کا انتظار کرتےہیں  جبکہ اچھا وقت  کبھی نہیں  آتا جس  وقت   میں آپ رہ  رہے ہوتے ہیں وہی سب سے اچھا وقت ہوتا ہے  ۔ انسان عجیب مخلوق ہے   کہ جب وہ  دنیا سے جا رہا ہوتا ہےوہ تب بھی کہتا ہے ابھی بہت وقت ہے  یہ بہت بڑا دھوکہ ہے حضرت شیخ سعد ی شیرازیؒ  فرماتےہیں " جو  کہتا ہے  میرا کل آئے گا تو  میں کروں گا اس   کا کل کبھی نہیں آتا"، آج آپ کے  پاس جو ذرائع ہیں  انہیں کے ذریعے   کشتی کو پار لگا نا ہے ۔  بڑے لوگ ایسے  ہیں  جو  کہتے  ہیں ہمارے پاس پیسہ بہت  ہے  لیکن خوشی  نہیں ہے  جب ان سے پوچھا جاتا ہے  خوشی کیوں نہیں ہے   تو جواب دیتےہیں  پیسہ تو آ گیا  ہے لیکن  اندر  کا   میلینیرر کہیں دب گیا ہے۔
میلینیرر کون ہے:
1۔      میلینیرر  وہ  ہے  جس   کے پاس  سکون اور خوشی والا دماغ ہے  جس  کے پاس بینک بیلنس  ہے  لیکن سکون قلب نہیں ہے  وہ میلینیر ر نہیں ہے ، میلینیر ر وہ شخص ہے  جس کے پاس  وسائل نہیں بھی ہیں  لیکن سکون قلب ہے ۔
2۔      میلینیر ر وہ ہے  کہ جس کے پاس اطمینان  ہے  حضرت واصف علی واصف ؒ فرماتےہیں "خوش نصیب انسان وہ  ہے  جو اپنے نصیب سے خوش رہے" ہم میں ہر کوئی زندگی  تبدیل کرنا چاہتا ہے  ہر  کوئی چاہتا ہے میری زندگی اس کو مل جائے  اوراس کی مجھے مل جائے  ہم زندگی  تو تبدیل کرنا چاہتے لیکن   جس زندگی  کو اپنانا چاہتےہیں اس   کے مسائل  کو  نہیں اپنانا چاہتے ۔بندہ اپنی تکلیف کو دنیا کی سب سے بڑی تکلیف سمجھتا ہے  جبکہ حقیقت یہ ہے کہ  اس    علاوہ بھی بہت  تکلیفیں ہیں  دنیا کس کس تکلیف میں ہے  ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔
3۔      اللہ تعالیٰ نے جو وسائل دیئے ہیں ان  کا ذائقہ چکھیں  اس سے بڑا  میلینیرر  ہونا اور  کوئی نہیں ہے ، بڑی دنیا ایسی  ہے  جب ان کے پاس  چیزیں ہوتی  ہے تب انہیں انجوائے نہیں کرتی۔  جوبندہ  اپنی زندگی سے  مطمئن ہے   وہ بندہ امیر ہے ۔
4۔      جو وسائل اللہ تعالیٰ نے دیئے ہیں  ان کے  ذائقے  کو    محسوس کریں۔ بہت  سارے لوگ ایسے ہیں  جب ان کے پاس  وسائل ہوتے ہیں  تب  وہ ان کے ذائقے کو محسوس نہیں کرتے اور جب  ان کے پاس وسائل نہیں ہوتے  تب ان کی تمنا کرتے ہیں  یعنی  وہ   "ویلے  کی نماز نہیں پڑھتے " ۔ جو اپنے موجودہ وسائل کو انجوائے  کو  نہیں کرتا  وہ میلینیر ر نہیں ہے   میلینیرر  وہ ہے  جو  سوکھی روٹی کو  بھی انجوائے کرتا ہے ۔
5۔      جس کے ہاتھ، پاؤں اور  جسم  کے دوسرے اعضاء سلامت ہیں  وہ  ان  کو  محسوس کرتا ہے   اور ان کو کام  میں  لاتا ہے   وہ  میلینیرر  ہے  کیو نکہ  یہ  اللہ تعالیٰ کا انعام ہے ۔ جب بندہ  کسی محروم کو دیکھتا ہے  تو پتا لگتا ہے  کہ یہ جو  اعضاء ہیں جن  کی قیمت اربوں روپے سے بھی زیادہ ہے   اگر ان میں ذرا سی بھی تکلیف  ہو  جائےتو زندگی اجیرن  ہوجاتی ہے۔ جوبندہ اربوں  کے ہاتھ پاؤں استعمال کر رہا ہے   وہ میلینررہے ۔
6۔      وہ  بندہ میلینیرر ہے  جو آج کے لمحے میں زندہ ہے ، کل کا  نہیں پتا وہ تو جب آئے گی  دیکھا جائے گا،آج  کے  لمحے میں  موجود رہ کر دیکھیں ۔ لمحہ موجود  کو وہ انجوائے کر سکتا ہے جو تبدیل نہیں کرنا  چاہتا  وہ کہتا ہے جو کچھ اس لمحے میں  ہو رہا ہے  وہ سب کچھ ٹھیک ہے  اور میں اس  لمحے میں موجود ہوں  اور خوش ہوں،  کبھی اس لمحے میں موجود  رہ کر دیکھیں  سکون  ہی سکون ملے گا ۔ ہم  سکون  کے لمحے  کو کھولے بغیر  یا تو ماضی میں  رہ رہے ہوتےہیں  یا پھر مستقبل میں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے   " جو میرا دوست ہے  نہ اس کے پاس ماضی کا خوف ہے  اور نہ مستقبل کا حزن ہے"خوف اور حزن سے آزادی اللہ تعالیٰ  سے  دوستی کی علامت ہے ۔ 
جس بندے کا یہ سوال سچا ہے  کہ میں نے خود کو جاننا ہے  قدرت اس کو جواب دینا شروع کر دیتی ہے ، ہمارا المیہ یہ ہے کہ  ہمارا یہ سوال ہی سچا  نہیں ہوتا ۔  جیسے جیسے انسان  کا خود شناسی  کا سفر  بڑھتا ہے  جواب ملنا شروع ہو جاتا ہے  ۔    تخیل  میں سوچیں   کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کہاں   یہ  فائلیں  آرہی ہوں کہ ائے  اللہ مجھے  مجھے امیر  بنادے، مجھے اولاد دے دے ، ، مجھے کاروبار دے دے اور کہاں یہ فائل ہو کہ  ائے اللہ   " میں اپنی تلاش کرنا چاہتا ہوں "  ان فائلوں  میں وہ فائل علیحدہ رکھ لی جاتی ہے ، وہ اس  لیے   علیحدہ  رکھ دی  جاتی ہے  اس  میں مقصد کو  مانگا  جا رہا ہوتا ہے ۔ حضرت امام  مالکؒ فرماتےہیں "انسان کی دو پیدائشیں ہیں ایک  پیدائش وہ  ہوتی ہے جب وہ پیدا ہوتا   دوسری پیدائش وہ  ہوتی ہے  جس دن وہ تلاش کرتا ہے  میں کیوں پیدا ہواتھا"۔
اگر  ہمارے دنیا  میں آنے سے کوئی فرق نہیں پڑا  تو پھر جانے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑ ے گا  لیکن اگر آنے سے فرق پڑا ہے  تو پھر جانے سے بھی فرق پڑے گا ۔ آج  سے  خود شناسی کو تہجد بنائیے ،  خود شناسی کو سجدہ  بنائیے ، خود شناسی  کو دعا بنایئے ، خود شناسی کو  آنسو بنائیے ۔اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں  کہ  ائے میرے مالک  جہاں اتنی خواہشیں     تونے پوری کی ہیں  اسی طرح میرے اندرکے میلینیرر  کو بھی مجھ پر آشکار کر دے ۔
(Workshop “Unlock Your Inner Millionaire” Syed Qasim Ali Shah)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں