بدھ، 26 اکتوبر، 2016

فیصلہ سازی


فیصلہ  کامیابی اور ناکامی دونوں پر اثر انداز ہوتا ہے ، فیصلے  کے اثرات مستقبل کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں  جس کی وجہ سے  مستقبل  فیصلوں کی وجہ سے بہت  زیادہ متاثر ہوتا ہے ۔ آج  ہم زندگی  کے جس  کسی مقام پر  بھی کھڑے ہیں تو   یہ شعوری  یا لاشعوری فیصلوں کی وجہ سے  کھڑے ہیں  یہ فیصلے  ہم نے کبھی ماضی  میں  کیے تھے   اور ان فیصلوں   کے نتائج کو آج بھگت رہے ہیں ۔ انسان کی خوش  بختی اور بدبختی   دونوں  اس کے فیصلوں  کے ساتھ جڑی ہوتی  ہیں، اگر کسی  قیدی سے پوچھا جائے   کہ آپ یہاں پر کیسے پہنچے  تو وہ جواب دے  گا  کہ مجھ سے  ایک غلط فیصلہ ہو گیا تھا  ، اگر  کسی کامیاب انسان سے پوچھا جائے کہ آپ یہاں پر کیسے  پہنچے تو وہ جواب دے گا کہ  میں نے کچھ فیصلے ایسے کیے تھے ان فیصلوں نے مجھے اس مقام  پر لا کر کھڑا کیا ہے ۔تاریخ کے جتنے بھی کامیاب یا  پھر ناکام انسان ہیں  وہ فیصلوں کی وجہ سے  کامیاب یا ناکام  ہوئے ۔کامیابی کے حوالے سے جتنی  تحقیق  ہوئی ہے  وہ یہ مانتی ہے  کہ کامیابی میں فیصلوں کا کردار  بہت اہم ہے ۔ نپولین ہل   نے کامیابی کے اوپر پچیس سال تحقیق کی   وہ  تحقیق بھی یہ بتاتی ہے  کہ  جتنے بھی کامیاب لوگ ہیں  ان   کے فیصلے بہت معیار کے ہوتے  ہیں  جبکہ  جو لوگ ناکام ہیں  وہ اپنے فیصلوں میں  کمزور ہوتےہیں  اور اس کمزوری کی وجہ  وہ ناکام ہو جاتےہیں۔
قسمت  کے دوحصے  ہیں ایک  حصہ  جس  کو بد لا نہیں جا سکتا اور  ایک حصہ وہ  جس کو بدلا جا سکتا ہے ، قسمت  کا   وہ حصہ جو بدلا جا سکتا ہے  اس کا انحصار  فیصلوں پر ہوتا ہے  اگر فیصلے  مضبوط   اور واضح ہیں اور ان کو سوچ سمجھ کر  کیا ہے  تو پھر  قسمت کا یہ حصہ  خوش قسمتی  میں بدل جاتا ہے ۔ جو لوگ فیصلہ نہیں کر پاتے  انہیں خوف ہوتا ہے   کہ کہیں ہم ناکام نہ ہو جائیں ، جب تک  بندہ اس خوف سے باہر نہیں نکل آتا  یا اس  پر قابو نہیں پاتا  اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا ۔جن لوگوں  کے پاس علم کی کمی ہوتی ہے وہ لوگ فیصلہ نہیں  کرپاتے  ۔ایک وجہ  یہ بھی ہوتی   کہ فیصلہ کرنا سکھایا نہیں گیا ہوتا  ، ہمارے ہاں  گھروں  کا کلچر  کچھ اس طرح کا  ہوتا ہے  کہ  سارے فیصلے   والدین کرتےہیں   کیا کھانا ہے ، کیا پینا  ہے  ، کیا پہننا ہے ، کہاں  داخلہ لینا ہے  ، کیا پڑھنا ہے  اور کیا بننا ہے   یہ سب فیصلے  والدین   کرتےہیں۔ بچے بڑے ہوجاتےہیں  لیکن اس کے باوجود   بھی   فیصلہ کرتے  وقت  اپنے   بڑوں سے  پوچھتے ہیں یہ اچھی بات ہے  بڑوں سے پوچھنا بھی چاہیے  لیکن   بڑوں کی یہ غلطی  کہ وہ فیصلے خود  ہی کرتے رہیں   اور بچوں سے فیصلہ نہ کروائیں  تواس  سے ان کے پاس قوت فیصلہ  نہیں   آتی اور پھر جب قوت فیصلہ نہیں  ہوتی تو  وہ بچہ   دوسروں کا محتاج ہو جاتا ہے۔ وہ  لوگ جن  کی قوت فیصلہ کمزور ہوتی ہے وہ  کمزور شخصیت کے مالک ہوتےہیں ۔ شعور کی پختگی  اور  شخصیت میں ٹھہراؤ   فیصلہ سازی   میں بہت معاون  ہوتا ہے۔  جو بندہ  کبھی فیصلہ نہیں کرتا  وہ  سیکھ نہیں  پاتا  یعنی سیکھنے کےلیے  تجربے کرنے بہت ضروری ہیں  اور ان تجربوں  کی  وجہ سے ہی کامیابی ممکن ہوتی ہے۔
جو لوگ فیصلے کرنے کے بعد  اپنا فیصلہ بدل لیتے ہیں انہیں   فیصلے  کے معانی  کا پتا نہیں ہوتا، فیصلہ   کا  معنی  یہ  ہے  کہ بند ہ پہلے جس بھی حالت میں تھا    اس حالت کو  ختم  کرکے نئی حالت میں  جانا ۔جو لوگ  قدم اٹھانے کے  بعد اپنے  قدموں پرقائم نہیں رہتے انہیں اپنے آپ پر اعتماد نہیں ہوتا، فیصلے کےلیے خود پر اعتماد بہت ضروری ہے ۔ وہ تمام لوگ  جن کا دوسرے لوگوں پر اعتماد ہوتا ہے  لیکن اپنے آپ پر نہیں ہوتا  ان کااعتماد مسئلے پر زیادہ ہوتا ہے  حل پر  زیادہ نہیں ہوتا ، خود پر نہیں ہوتا  وہ کبھی اچھا فیصلہ نہیں کر سکتے اگر وہ  فیصلہ کر بھی لیں تو غلط کریں  گے ۔ بندہ ہمیشہ  اچھے فیصلے برے  فیصلوں سے  کرنا سیکھتا ہے  کیو نکہ غلط فیصلوں  کے بعد  سبق  ملا ہوتا ہے ۔ جب یہ پتالگ جاتا ہے  یہ فیصلہ کرنا ہے اور یہ نہیں کرنا تو پھر اکثر فیصلے  صحیح ہونے لگ پڑتے ہیں  کیو نکہ وہ فیصلے تجربے کی بنیاد پر  ہوتے ہیں۔ دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں ہے  جس کے سارے فیصلے ٹھیک ہوں ، انسان ہونے کے  ناطے اس میں سو خامیا ں ہوتی ہیں  ، کوئی انسان کل  کو نہیں جانتا  ، اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے  اور  کل کو نہ جاننے کی وجہ سے  کچھ فیصلے غلط  ضرور ہوتےہیں  لیکن اس  کا  قطعی مطلب یہ نہیں ہے  کہ  بندہ قدم ہی نہ اٹھائے  اور  کوئی فیصلہ ہی نہ کرے ۔ جو لوگ فیصلہ کر کے بدل جاتےہیں  وہ پہلے رکیں ، سمجھیں ، غور کریں  اور کسی سے مشورہ کریں   کیو نکہ مشورہ کرنا سنت ہے۔جب کسی سے مشورہ  کیا جاتا ہے تو  اس سے  اس  کی عقل بھی اس فیصلے  میں شامل ہو جاتی ہے اور اس طرح فیصلے بہتر بھی ہو جاتےہیں  اور بندہ  اپنے فیصلوں پر قائم بھی رہتا ہے۔
غلط فیصلے بھی کچھ  نہ کچھ ضرور  دے کر جاتےہیں  ، کہا جاتا ہے  کہ برا وقت  بہت کچھ آپ سے چھین  کر  چلا جاتا ہے  لیکن  برا وقت  بہت  کچھ سیکھا  کر  بھی جاتا ہے، وہ فیصلے  جو غلط ہوتےہیں  ان  فیصلوں سے  بندہ  جو کچھ سیکھتا  ہے دراصل وہ  قیمت ادا کرتا  ہے   کیو نکہ  غلط فیصلے کے بعد  بندے کو  عقل اور سمجھ  مل جاتی ہے  پھر  یہ آنے والی زندگی میں  بندے  اور اس سے منسلک لوگوں  کے  کام  آتی ہے اور پھر وہ  لوگ  بھی اس سے فیصلے کرواتےہیں ۔ جہاں اللہ تعالیٰ  کا بندے پر  بےشمار کرم  ہے، بے شمار فضل ہے وہاں پر عقل اور شعور کا  مل جانا ، سمجھ کا مل جانابذات خود اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا کرم ہے ۔
وہ لوگ جو مناسب وقت   کی تلاش میں ہوتےہیں  وہ کبھی  فیصلہ نہیں کر پاتے، حضرت شیخ سعدیؒ فرماتےہیں  "جو کہتا ہے   میں کل بدلوں گا اس کا کل کبھی نہیں آتا" مناسب وقت کا بہانہ  بنا لینا یہ نالائقی ہے۔ اگر آپ نے مناسب وقت  میں فیصلہ کرنا ہے تو     اس کے لیے دوباتوں کا  خیال رکھنا  ضروری   ہے ایک اس  بات کی عادت نہیں ہونی چاہیے  کہ  میں مناسب وقت   ، مناسب وقت اور دوسری بات مناسب  وقت وہ بہترین وقت ہوتا ہے جب بندہ تکلیف میں ہوتا ہے   کیو نکہ بندہ  تکلیف میں رہ کر سیکھتا ہے کہ  اب میں نے ان غلطیوں  کو نہیں دہرانا ۔ جب بھی بندہ غلطیوں سے سیکھ کر فیصلہ کرتا ہے  تو وہ تبدیلی کا وقت ہوتا ہے  ۔ آئیڈیل  وقت وہ ہوتا ہے  جس  وقت  بندے کے پاس علم آ جائے ، شعور آجائے  ،سمجھ آ جائے ۔ بعض اوقات ہمیں  تھوڑی سی ہمدردی  چاہیے ہوتی ہے ، تھوڑا سا ساتھ چاہیے ہوتا ہے ، کندھ چاہیے ہوتا ہے ، جب کند ھا مل جائے، ساتھ مل جائے، سمجھ مل جائے اور  ہمدردی  مل جائے  تو یہ بھی   فیصلے کےلیے آئیڈیل وقت ہوتا ہے۔ فیصلے کا سب سے بہترین وقت وہ ہوتا ہے  جس میں آپ سمجھتےہیں  میں اس قابل ہو گیا ہوں کہ   میں فیصلے کے بعد  اس نے   نتائج  کو  سنبھال سکتا ہوں ، بے  شمار لوگ فیصلہ تو کر لیتے ہیں  لیکن اس کے  نتائج    کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے، اگر آپ فیصلہ کر کے  یہ کہنے کےلیے تیار  ہو گئےہیں  کہ اب طوفان آئے، بادوباراں آئے کچھ ہو جائے  میں   نتائج   کو قبول کروں گا  تو پھر یہ جرات  اور یہ ہمت  فیصلے کے  لیے  مناسب وقت دے دیتی ہے۔
 جنتے بھی ماہرین اور دانشور ہیں  وہ اس بات کے قائل ہیں  کہ کبھی  بھی  غصے کی حالت میں  اور نتہائی خوشی کی حالت  میں فیصلہ  نہیں کرنا چاہیے  یعنی وہ تمام حالتیں جس میں بندہ  جذبات   میں قید ہوتا ہے  اس  حالت  میں کبھی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے ۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ وہ تمام فیصلے  جو بندے  نے جذباتی حالت میں کیے ہوتےہیں  بعد میں ان پر پچھتانا پڑتا ہے ، حضرت واصف علی واصف ؒ فرماتےہیں "  غصہ وہ شیر ہے جو پورے مستقبل کو  بکرا بنا کر کھا جاتا  ہے "۔ ناامیدی   کی حالت میں بھی  فیصلہ نہیں کرنا چاہیے  کیو نکہ اس  حالت میں اندر کی آنکھ ایسی تصویریں دیکھا  رہی ہوتی ہیں  جس  سے لگتا ہے کہ  مستقبل  اچھا نہیں ہے ، اس حالت میں ناامید ی کے جذبات  غالب ہوتےہیں ۔ جب بھی فیصلہ کریں تو دیکھیں   کہ ہمارے دماغ کا وہ  حصہ  جو حقیقت پسندانہ  ہے وہ  کتنا ایکٹیو ہے  کیو نکہ وہ  اعداد و شمار  بناتا ہے، رسک  بتاتا ہے، مستقبل  کو سوچتا ہے ، اندازہ لگاتا ہے ۔ کہا جاتا ہے  کہ   کبھی جست  لگانے کا فیصلہ کرنا ہو  تو پہلے دیکھیں کہ زندگی میں جو پہلے چھلانگیں لگائیں ہیں  ان کو  دیکھیں  پھر  فیصلہ کریں    کیونکہ ان سے فیصلے کی قوت ملتی ہے ۔ کبھی جب فیصلہ  کرنا ہوتو اس کو کچھ وقت کےلیے روک لیں  تھوڑا سا وقت  لے لیں  کیو نکہ  جن جذبات نے  بندے کو قابو کیا ہوتا ہے وہ ان سے باہر نکل آتا ہے ۔
زندگی میں صدیوں  میں ، سالوں میں ، مہینوں میں  اور دنوں  میں نہیں بدلتی بلکہ  زندگی ایک لمحے میں بدل جاتی ہے  اور وہ لمحہ وہ ہوتا ہے  جب بندہ فیصلہ کرتا ہے کہ  میں نے اپنی زندگی کو بدلنا ہے ۔ اگر دوسمتیں بنی ہوں  ایک پر  ایوریج لکھا ہو اورایک  پر میموریبل  اور آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ  میں نے  باقی کی زندگی  معیاری  اور اعلیٰ گزارنی ہے  تو  اپنے اندر کی تصویر میں  میموریبل پر  ٹک لگائیں ۔ اس دنیا  میں  مثالیں  دینے والے بے شمارہیں  لیکن مثال بننے والے بہت کم ہیں ، مثال بننے والے انسان بنیں ۔ کہاجاتا  ہے اس دنیا میں  نہ کوئی کامیاب ہے  اور نہ کوئی ناکام ہے  اس  دنیا میں صرف  انتخاب ہے ا ور انتخاب فیصلوں سے ہوتا ہے  ۔ اپنے فیصلوں میں اللہ تعالیٰ کو شامل کریں  کیو نکہ جب آپ اللہ تعالیٰ  کوشامل کر تےہیں  تو وہ آپ کے فیصلوں  میں برکت ڈال دیتا ہے  اور وہ فیصلے ناصرف اچھے نتائج دیتےہیں  بلکہ ان فیصلوں سے  دوسروں  کو بھی فائدہ ہوتا ہے ۔دوسروں  کو بدلنے    کا فیصلہ چھوڑیں  خود کو بدلنے  کا فیصلہ   کریں  کیو نکہ خود  کے بدلنے سے کتنے لوگوں   کی زندگی بدل جاتی ہے ۔ ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوتا  کہ  ہم کتنے قیمتی انسان ہیں  جب ہم بدلتےہیں تو  کتنا کچھ بدل جاتا ہے  اس لیے اپنے آپ کو بدلنے  کا ضرور فیصلہ کریں۔
(How to make Good Decision, Syed Qasim Ali Shah)



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں