نریانا مرتھی چھوٹی موٹی نوکریاں کرتا تھا اسے کمپیوٹر کا جنون تھا نوکری کے دوران اس نے ایک فیصلہ کیا یہ فیصلہ اس کی زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا ۔ اس نے ذاتی سافٹ ویئر ہاؤس کھولنے کا فیصلہ کیا،مگر سوال یہ تھا کہ پیسے کہاں سے آئیں گے؟ اس کے لیے اس نے ادھار لیا اور کاروبار شروع کر دیا مگر وہ چل نہ سکا لیکن اس تجربہ کے بنا پر نریانا کو ایک کمپنی میں جنرل مینجر کی ملازمت مل گئی اور وہ امریکہ چلا گیا ۔ واپسی پر اس کے دل میں سافٹ ویئر کمپنی کا خیال زور پکڑ چکا تھا مگر اس کے پاس سرمایہ نہیں تھا اس نے 10 ہزار ادھار لیا۔ پھر اسے اس کی بیوی نے تین برس کا ٹارگٹ دیا کہ میں تین برس گھر چلا لوں گی اور یوں اس نے چھ ساتھیوں کے ساتھ اپنے کام کا آغازکیا۔1982ء میں اس نے پونا میں ایک کرائے کے گھر میں کمپنی کا دفتر بنایا.1983ء میں بنگلور میں پہلا کلائنٹ ملا اس دوران اس کے ہاں ایک بیٹے اور بیٹی کی ولادت ہوئی اور نریانا امریکہ چلا گیا اور ڈیڑھ برس وہاں مقیم رہا واپسی پر اس نے ایک بڑا گھر کرائے پر لیا اور اسے اپنی کمپنی کا ہیڈ کوارٹر بنایا۔ تھوڑے ہی عرصہ میں اسے بیرون ملک سے آرڈر ملنا شروع ہو گئے اور اس کی کمپنی دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرنے لگی چند برسوں میں یہ بھارت کی تیسری بڑی کمپنی بن گئی اور اس کے 29 ممالک میں سیلز آفس قائم ہو گئے۔ اس کے ملازمین کی تعداد ایک لاکھ53 ہزار تک پہنچ گئی اور نیویارک اسٹاک ایکسچینج میں رجسٹر ہو گئی اور اس کا سالانہ منافع سات کھرب تک جا پہنچا۔وال سٹریٹ جرنل نے اسے 2000ء سے اب تک سب سے معیاری کمپنی کا درجہ دیا۔
نریانا اور اس کی بیوی کا کہنا ہے کہ اتنا سب کچھ ہونے کو باوجود ہم نے اپنے بچوں کے لیے کچھ اصول طے کر رکھے ہیں مثلا اگر میری بیٹی نے دو نئے سوٹ لینے ہیں تو اپنے دو پرانے سوٹ کسی کو دینا ہوں گے، میں گھر کے برتن اور باتھ روم خود صاف کرتا ہوں۔ ہم نے اپنی زندگی کو پرتعیش نہیں بنایا ہماری سب سے بڑی عیاشی نئی کتابیں خریدنا ہے۔ اس کہانی سے ہمیں پانچ سبق ملتے ہیں۔
1۔ انسان کو وہی فیصلہ کرنا چاہیے جس پر اسے یقین اور اعتماد ہو۔
2۔ انسان کو جانچنے کا معیار دولت نہیں بلکہ اس کے اصول اور اخلاق ہونا چاہیئے۔
3۔ انسان جتنی بھی ترقی کر لے اسے سادہ اور پرہیز گار ہونا چاہیئے اور دولت دوسرے لوگوں پر خرچ چاہیے۔
4۔ انسان کا اصل سرمایہ اس کی اولاد ہوتی ہے اس کی تربیت کرنی چاہیئے۔
5۔ میاں بیوی کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیئے۔
کامیابی کی سچی داستان، عمار چوہدری

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں