#واہ_کینٹ سے چند کلومیٹر فاصلے پر واہ گارڈن کی پہاڑی کے دامن میں آباد واہ کا 500 سال پُرانا گاؤں ’واہ گاؤں‘ نواب محمد حیات خان کی رہائش گاہ اور دیگر وجوہات کی بنا پر تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔
نواب حیات خان کون تھے ؟ اور واہ کی تاریخ میں ان کا کیا کردار تھا آئیے آپ کو بتاتا ہوں۔
نواب محمد حیات خان کھٹڑ سن1833کو واہ گاؤں میں سردار کرم خان کے گھر پیدا ہوئے،
ان کا تعلق ’’ واہ‘‘ کے کھٹڑ خان قبیلے سے تھا ۔
محمد حیات خان کے والد سردار کرم خان اپنے اس علاقے ’واہ‘ کے سردار تھے اور 1847میں سکھوں کے خلاف لڑی جانے والی پہلی جنگ کے اختتام پر پنجاب میں قتل و غارت گری روکنے کے لئیے برطانیہ (ایسٹ انڈیا کمپنی) کی طرف سے سر ہنری لارنس کے ماتحت نامزد کئے گئے تھے۔
نواب حیات خان کون تھے ؟ اور واہ کی تاریخ میں ان کا کیا کردار تھا آئیے آپ کو بتاتا ہوں۔
نواب محمد حیات خان کھٹڑ سن1833کو واہ گاؤں میں سردار کرم خان کے گھر پیدا ہوئے،
ان کا تعلق ’’ واہ‘‘ کے کھٹڑ خان قبیلے سے تھا ۔
محمد حیات خان کے والد سردار کرم خان اپنے اس علاقے ’واہ‘ کے سردار تھے اور 1847میں سکھوں کے خلاف لڑی جانے والی پہلی جنگ کے اختتام پر پنجاب میں قتل و غارت گری روکنے کے لئیے برطانیہ (ایسٹ انڈیا کمپنی) کی طرف سے سر ہنری لارنس کے ماتحت نامزد کئے گئے تھے۔
ان دنوں واہ اور ٹیکسلا اور اس پورے علاقے کا انتظام بریگیڈئیر جان نکولسن کے پاس تھا ( یہ وہی بریگیڈئیر جان نکولسن ہے جس کی یاد میں 1868 میں ٹیکسلا بائی پاس کے قریب نکولسن ٹاور تعمیر کیا گیا تھا جو آج بھی موجود ہے)
اس دوران ایک سکھ فوجی کے حملے سے جان نکولسن زخمی ہو گیا اور سردار کرم خان نے اپنی جان پر کھیل کر اس کی جان بچائی۔
اس دوران ایک سکھ فوجی کے حملے سے جان نکولسن زخمی ہو گیا اور سردار کرم خان نے اپنی جان پر کھیل کر اس کی جان بچائی۔
اور اس کے بعد نواب محمد حیات خان کے والد سردار کرم خان اور بریگیڈئیر نیکولسن میں گہری دوستی ہو گئی۔ان دنوں نواب محمد حیات خان کی عمر صرف 15 سال تھی۔
ایک سال بعد سن 1848میں سردار کرم خان کے سوتیلے بھائی فتح خان نے ان کا قتل کر دیا جس کے بعد ان کے بیوی اور بچے پناہ لینے کے لئیے اپنے آبائی گاؤں ہری پور (ہزارہ) چلے گئے جہاں ان کی ملاقات ایک اور برٹش انڈین آرمی آفیسر James Abbot
سے ہوئی۔( اسی جیمز ایبٹ کے نام پر پاکستان اور ہزارہ کے بہت خوبصورت سیاحتی مقام ایبٹ آباد کا نام ایبٹ آباد رکھا گیا تھا
اتفاق سے میرا آبائی گاؤں بھی ایبٹ آباد سے 25 کلومیٹر آگے مانسہرہ میں ہے جو مُغل دور کے راجہ مان سنگھ کا نام پر ہے)
:)
ایک سال بعد سن 1848میں سردار کرم خان کے سوتیلے بھائی فتح خان نے ان کا قتل کر دیا جس کے بعد ان کے بیوی اور بچے پناہ لینے کے لئیے اپنے آبائی گاؤں ہری پور (ہزارہ) چلے گئے جہاں ان کی ملاقات ایک اور برٹش انڈین آرمی آفیسر James Abbot
سے ہوئی۔( اسی جیمز ایبٹ کے نام پر پاکستان اور ہزارہ کے بہت خوبصورت سیاحتی مقام ایبٹ آباد کا نام ایبٹ آباد رکھا گیا تھا
اتفاق سے میرا آبائی گاؤں بھی ایبٹ آباد سے 25 کلومیٹر آگے مانسہرہ میں ہے جو مُغل دور کے راجہ مان سنگھ کا نام پر ہے)
جیمز ایبٹ نے سردار کرم خان کے یتیم بیوی بچوں کو واپس اپنے دوست بریگیڈئیر نیکولسن کے پاس بھیج دیا اور یوں نواب حیات خان اور ان کے بہن بھائی نیکولسن کی کفالت میں آ گئے کیوں کہ یہ نیکولسن کے مرحوم دوست کی اولاد تھے۔
نوجوان نواب حیات خان کے فارسی زبان کی طرف لگاؤ کو دیکھتے ہوئے نیکولسن نے ان کو اپنا ترجمان اور رازدان بنا لیا۔
نوجوان نواب حیات خان کے فارسی زبان کی طرف لگاؤ کو دیکھتے ہوئے نیکولسن نے ان کو اپنا ترجمان اور رازدان بنا لیا۔
1857 کی جنگِ آزادی کے دوران ایک بہادر خان نے مارگلہ بائی پاس (ٹیکسلا) کے قریب بریگیڈئیر جان نکولسن پہ وار کر کے اس کو زخمی کر دیا اسی حالت میں اسے دہلی لے جایا گیا جہاں اس کی موت ہو گئی۔اور گیارہ سال بعد1868 میں یہاں ٹیکسلا کی اس چھوٹی پہاڑی پہ 40 فٹ اونچا نکولسن ٹاور تعمیر کیا گیا ۔
لیکن نواب حیات خان کو نیکولسن کی خدمت کا بہت اچھا صلہ ملا اور وہ یوں کہ جنگِ آزادی کے فوراََ بعد پہلے ان کو تلہ گنگ میں تھانیدار بنایا گیا لیکن جلد ہی انہیں Civil Administration کی طرف منتقل کرکے پہلے تحصیلداراور پھر 1862 میں بنوں کا اسسٹنٹ کمشنر بنا دیا گیا۔
پھر سن 1864میں افغان جنگ کے دوران نواب حیات خان کو افغانستان میں ایک مشن سونپا گیا جس سے واپسی پر1872 میں انہیں CSI(Companion of the Order of the Star of India) کا ایوارڈ دیا گیا۔
اسی دوران سن 1875میں نواب محمد حیات خان نے اپنی جائے پیدائش ’’ واہ گاؤں‘‘ میں اپنے لئیے ایک رہائشی عمارت ’’Marri‘‘ تعمیر کروائی جو آج بھی واہ گاؤں میں موجود ہے۔
اسی دوران سن 1875میں نواب محمد حیات خان نے اپنی جائے پیدائش ’’ واہ گاؤں‘‘ میں اپنے لئیے ایک رہائشی عمارت ’’Marri‘‘ تعمیر کروائی جو آج بھی واہ گاؤں میں موجود ہے۔
افغان جنگ کے بعد نواب حیات خان 1880 سے 1888کے دوران ڈسٹرکٹ سیشن جج کے فرائض انجام دیتےرہے۔
سردار محمد حیات خان اس وقت کے ایک بہت مشہور سکالر ’سر سید احمد خان‘ کے بہت قریبی دوست سمجھے جاتے تھے اور انہوں نے مسلم علی گڑھ یونیورسٹی بنانے میں بھی سر سید احمد خان کا نہ صرف ساتھ دیا بلکہ سر سید احمد خان کی شروع کی گئی محمدن ایجوکیشنل کانفرنس میں بھی 1890 کے دوران سردار محمد حیات خان کی بے مثال کاوشیں تھیں۔
سردار محمد حیات خان اس وقت کے ایک بہت مشہور سکالر ’سر سید احمد خان‘ کے بہت قریبی دوست سمجھے جاتے تھے اور انہوں نے مسلم علی گڑھ یونیورسٹی بنانے میں بھی سر سید احمد خان کا نہ صرف ساتھ دیا بلکہ سر سید احمد خان کی شروع کی گئی محمدن ایجوکیشنل کانفرنس میں بھی 1890 کے دوران سردار محمد حیات خان کی بے مثال کاوشیں تھیں۔
اس کے علاوہ 1870 میں یونیورسٹی کالج، پنجاب (موجودہ یونیورسٹی آف پنجاب) کے قیام میں بھی سردار محمد حیات خان کا اہم کردار تھا۔
اس کے بعد سن 1899میں سردار محمد حیات خان کی برٹش انڈیا کے لئیے بے مثال خدمات کے پیشِ نظر ان کو ’ نواب‘ کا خطاب دیا گیا۔
اس کے بعد سن 1899میں سردار محمد حیات خان کی برٹش انڈیا کے لئیے بے مثال خدمات کے پیشِ نظر ان کو ’ نواب‘ کا خطاب دیا گیا۔
نواب محمد حیات خان کے پانچ بیٹے نواب زادہ اسلم حیات خان، سردار محمود حیات خان ،سردار غیرت حیات خان، سردار لیاقت حیات خان اور سردار سکندر حیات خان تھے (اتفاق سے پاکستان آرڈنینس فیکٹریز (POF) واہ کینٹ کے موجودہ چئیرمین لیفٹیننٹ جنرل عمر محمود حیات بھی نواب محمد حیات خان کے بیٹےسردار اسلم حیات خان کے فرزند ہیں۔ان کے دوسرے بھائی جنرل زبیر محمود حیات بھی پاکستان آرمی میں اس وقت چیف آف جنرل سٹاف (CGS) ہیں اور تیسرے بھائی میجر جنرل احمد محمود حیات آئی ۔ایس۔آئی میںDG Anylsis ہیں۔)
نواب محمد حیات خان کا انتقال سن 1901 میں یہیں اپنے آبائی علاقے ’واہ گاؤں‘ میں ہوا اور ان کو واہ گاؤں کے قریب واقع مغل دور کے خوبصورت باغ ’ مغل گارڈن واہ‘ میں تالاب کے کنارے دفن کیا گیا ۔(ان کی قبر کی تصویر آپ اس پوسٹ میں بھی دیکھ سکتے ہیں)
تحریر: عامر جمیل
تحریر: عامر جمیل

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں