ہماری معاشرے میں ازدواجی زندگی کو کچھ
نہیں سمجھاجاتا ماں کی تربیت یہ ہوتی ہے کہ میری بیٹی اپنے شوہر کو ہاتھ میں رکھے جبکہ باپ اپنی
زندگی میں مصروف ہوتاہے اس کی نظر میں
میرا ایک ہی کام تھاکہ بیٹی کو پالنا اور عزت کے ساتھ رخصت کرنا دوسری
طرف بیٹے کی ماں کہتی ہےمیرے بیٹے
نے میر ی مرضی کے برعکس اپنی مرضی سے شادی
کر لی ہے اس نے بہت بڑی گستاخی کر لی ہے۔ والدین کو اس طرح نہیں سوچنا چاہئےکیونکہ اسلام اگر شریعی
حق دیتا ہے تو وہ کر سکتا ہے یہ ساری سوچ رسمی اسلام کی عکاسی کرتی ہے جب کہ حقیقی
اسلام کی تعلیمات کچھ اور ہیں۔
ہمارے معاشرے میں بچوں کی تربیت اس نقطہ نظر سے ہونی
چاہیے کہ کل کو وہ اپنی ازدواجی زندگی اچھے طریقے سے گزار سکیں ہم اچھا بچہ بناتے ہیں اس نظر سے کہ وہ میری فرمانبرداری کرے ،اچھا
کمائے، اور میر ے بڑھاپے کا سہارا بنے یہ بہت اچھی نیت ہے مگر کسی ماں یا باپ
نے اس نیت سے اس کی تربیت نہیں کی ہوتی
کہ جس سے اس کی شادی ہونی ہے وہ دعائیں دے گی صرف روزی روٹی کمانے والا بچہ
تیار ہو تا ہے یا فرمانبردار بیٹی اچھی ماں تیا ر نہیں ہوتی ۔ ہمارے اس
کلچر میں اس کی طرف دھیان ہی نہیں دیا جاتا ہر ادار ہ اپنی شناخت کے حساب سے تربیت کر تا ہے ایک بینک
کا ملازم اپنی کرسی پر بیٹھنے کے لیے پہلے اس کی ٹریننگ لیتاہے
وہ ٹریننگ اس طرح کی ہوتی ہے کہ پتا چل سکے کہ یہ فلاں بینک کا ملازم ہے جبکہ خاندانوں میں کلچر ہی نہیں ہے کہ جن بچوں کو ہم تیا ر کر رہے ہیں ان کی اس نیت سے تیاری ہو کہ کل کو اس پہ اتنی ذمہ داری پڑنی ہے اس نے
ایک گھرانہ ،ایک خاندان بنانا ہے مگر ہوتا
کیا ہے وہ ادھورا انسان جو مالیاتی طور
پربہت اچھا ہوتا ہے ، بہت اچھا بیٹاہوتا ہے مگر اچھا شوہر نہیں ہوتا یہی صورتحال بیٹی کے معاملے میں ہےنتیجہ اچھا
خاندان نہیں بنتا ۔
(Workshop,
Husband & Wife Relationship, Syed Qasim Ali Shah)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں