منگل، 22 نومبر، 2016

مشکوک

خلیفہ ہارون الرشید کا ایک دوست تھا‘ وہ دوست دنیا دار بھی تھا‘ عقل مند بھی تھا اور تجربہ کار بھی لہٰذا خلیفہ اسے بہت پسند کرتا تھا‘ وہ اس کے ساتھ کھانا بھی کھاتا تھا‘ گفتگو بھی کرتا تھا اور مشاورت بھی کرتا تھا‘ ہارون الرشید انصاف پسند تھا‘ اس نے حکم دے رکھا تھا‘ میرے محل کے سامنے جب بھی کوئی فریادی آئے‘ اسے فوراً میرے سامنے پیش کر دیا جائے‘ دربان اکثر وقات فریادیوں کو بادشاہ کے سامنے پیش کرتے رہتے تھے اور بادشاہ معمول کے کاموں کے دوران فریادیوں کے بارے میں احکامات جاری کرتا رہتا تھا‘ بادشاہ ایک دن اپنے اس دوست کے ساتھ ڈنر کررہا تھا‘ دربان ایک فریادی کو اندر لے آیا‘ فریادی نے روتے ہوئے عرض کیا ’’حضور آپ کے اس دوست نے میری زمین پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے‘‘ بادشاہ نے پریشانی کے عالم میں دوست کی طرف دیکھا‘ دوست نے نیپکن سے ہاتھ صاف کیے اور فریادی سے مسکرا کر پوچھا ’’میں نے تمہاری کتنی زمین پر قبضہ کر رکھا ہے‘‘ فریادی نے زمین کا سائز بتا دیا‘ دوست نے کہا ’’جاؤ اپنی زمین اور اس زمین کے اردگرد موجود میری ساری زمین تم لے لو‘‘ فریادی اور بادشاہ دونوں حیران رہ گئے۔
دوست نے دربان سے کاغذ اور قلم منگوایا اور اسی وقت زمین لکھ کر فریادی کے حوالے کر دی‘ فریادی کاغذ لے کر چلا گیا‘ دوست نے دوبارہ کھانا شروع کر دیا‘ بادشاہ نے حیرت سے پوچھا ’’کیا تم نے واقعی اس کی زمین پر قبضہ کیا تھا‘‘ دوست نے احترام سے جواب دیا ’’بادشاہ سلامت بخدا میں نے اس شخص کو زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھا تھا‘ اس کا دعویٰ سو فیصد غلط تھا‘‘ بادشاہ نے پوچھا ’’تم نے پھر اسے اپنی ساری زمین کیوں دے دی‘‘ دوست نے مسکرا کر عرض کیا ’’بادشاہ سلامت آپ پوری امت کے خلیفہ ہیں‘ دنیا میں اس وقت آپ سے بڑا کوئی بادشاہ نہیں‘ مجھے آپ جیسی ہستی کا قرب حاصل ہے‘ آپ مجھے عزت بخشتے ہیں‘ میں جب چاہتا ہوں میں آپ کے دربار‘ آپ کے محل میں آ سکتا ہوں‘ آپ کا یہ قرب میرا سب سے بڑا اثاثہ ہے ۔
میں اگر زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کے عوض یہ اثاثہ کھودوں تو مجھ سے بڑا بے وقوف کون ہو گا چنانچہ میں نے اپنی ساری زمین اس جھوٹے دعوے دار کو دے کر اپنا عظیم اثاثہ بچا لیا‘‘ بادشاہ مسکرایا اور بولا ’’کیا تمہیں میرے یا میری سپریم کورٹ کے انصاف پر یقین نہیں تھا‘‘ دوست نے ادب سے عرض کیا ’’جناب دنیا میں آپ سے بڑا منصف کوئی نہیں‘ مجھے یقین تھا پہلی پیشی میں میرے حق میں فیصلہ ہو جائے گا لیکن میں نے سوچا رعایا جب بادشاہ کے دوست کو کٹہرے میں دیکھے گی تو وہ مجھ پر ہنسے گی۔
میں رعایا کی اس ہنسی کو آپ کی بے عزتی سمجھتا ہوں‘ مجھے خواہ قاضی بعد ازاں بے گناہ بھی قرار دے دے لیکن لوگوں کی ہنسی واپس نہیں جائے گی اور میں اگر آپ کا سچا دوست ہوں تو پھر میری وجہ سے آپ کی بے عزتی نہیں ہونی چاہیے‘‘ وہ رکا اور دوبارہ گویا ہوا ’’بادشاہ سلامت‘ آپ یہ بھی ذہن میں رکھئے‘ دنیا میں جب کسی پر الزام لگ جاتا ہے تو  تمام عدالتیں خواہ اسے دس ہزار مرتبہ بے گناہ قرار دے دیں لیکن وہ شخص مشکوک ضرور ہو جاتا ہے اور میں نہیں چاہتا تھا میں آپ کا دوست ہو کر ایک لمحے کے لیے بھی مشکوک ہو جاؤں‘ یہ زمین اللہ کی ہے‘ میں نے اللہ کے نام پر اسے جھوٹے دعوے دار کو دے کر آپ اور اپنی عزت بچا لی‘‘ بادشاہ اٹھا‘ دوست کو گلے لگایا‘ قلم دوات منگوائی اور فرات کے کنارے چالیس میل کا رقبہ اس کے نام کر دیا۔
(ایکسپائر ی ڈیٹ، جاوید چوہدری)


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں