سیلف کا مطلب ہے
"میں " بے شمار لوگ جس چیز کو مینج کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں اس چیز کے بارے میں نہیں جانتے مثال کے طور پر گھر کو مینج کرنے سے پہلے یہ پتا ہونا چاہیے کہ گھر کیا ہے ، گھر
کسے کہا جاتا ہے اسی طرح معاش کو مینج کرنے سے پہلے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ معاش کیا ہے
ایسے ہی سسٹم ہے ۔
انسانی کی زندگی کے
پورے سفر میں دو تین مراحل ہوتےہیں اس میں پہلا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ جب وہ بہت چھوٹا ہوتا ہے جس میں اسے
اپنے ننگے ہونے کا احساس نہیں ہوتا
پھر ایک وقت ایسا آتا ہے جب عمر پانچ یا چھ سال ہوتی ہے اس کے اندر شرم و حیا کا رویہ فعال ہو جاتا ہے۔ جب شعور کا پودا لگتا ہے تو انسان
کو اپنی ذات کا پتا لگنا شروع ہو
جاتا ہے ۔ انسان کی سیلف یا خودی شعور کے
ساتھ جڑی ہوئی ہے اور جب شعور کاپہلا قدم
آتا ہے ساتھ ہی انسان جاننے لگ پڑتا کہ میں بھی ہوں۔ جب شعور آتا
ہے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ مجھے اپنے جسم
کو ڈھانپنا ہے ، مجھے اپنا آپ چھپانا ہے ۔ پھر اس کے بعد اس کے اندر چاہت آتی
ہے وہ چاہتا ہے کہ لوگ میری باتیں سنیں
اور میری باتیں مانی جائیں ۔ اسی طرح جب
اس کو کوئی شاباشی دیتا ہے تو اس کو خوشی محسوس ہوتی یعنی اس کے اندر خوشی
کا احساس بھی آ جاتا ہے ۔
یہ سارے احساسات انسان کو
سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ میں ہوں ۔ اگر کسی کی عمر زیادہ ہو
لیکن اس کے اندر یہ احساسات نہ ہوں
تو اس کو ماہر نفسیا ت کے پاس لے جایا جاتا ہے وہ بتاتا ہے کہ یہ نارمل نہیں ہے۔اسی طرح معاشرے میں جو لوگ کپڑوں کے بغیر پھر رہے ہوتے
ہیں معلوم کرنے پر پتا لگتا ہے کہ ان میں
شعور نہیں ہے۔جن کے پاس رونے کی وجہ بڑی عجیب ہو یاہنسنے کی وجہ بڑی عجیب ہو ایسے
لوگ اپنی زندگی کی ڈگر سے ہٹ گئے ہوتےہیں ان کے ساتھ کچھ ایسا معاملہ
ہوا ہوتا ہے کہ جس کی وجہ سے وہ اپنی سیلف مینجمنٹ کھو دیتے ہیں ۔ جب بھی
بندہ سیلف مینجمنٹ کو کھو دیتا تو پھر وہ بغیر
کپڑوں کے معاشرے میں چلتا پھرتا نظر آتا ہے۔دنیا میں کچھ لوگ ہوتےہیں جن
کی سیلف مینجمنٹ کا لیول اتنا ہوتا ہے کہ وہ دنیا سے چلے بھی جاتے ہیں مگر ان کے افکار
زندہ رہتے ہیں۔ جس طرح سدھارتھا (گوتھم
بدھ) نے کہ "خواہش مار دو تو غم مر جائے گا"آج لوگوں کو یہ نہیں پتا کہ گوتھم بدھ کی شکل وصورت کیسی تھی مگر اس کی سیلف یا خودی سے ایک ایسی بات نکلی جس کے متعلق دنیا آج تک
سوچ رہی ہے ۔ اسی طرح "اگردجلہ و
فرات کے کنار ے کتا بھی مر جائے تو عمراس کا بھی جواب دہ ہے" تو فورا حضرت
عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شخصیت سامنے
آتی ہےان کا کردار تو بہت بڑا ہے لیکن اگر صرف اس جملے کو ہی کو لے لیا جائے تو یہ جملہ ان کو زندہ رکھنے کےلیے کافی ہے۔دنیا میں کچھ لوگ سیلف مینجمنٹ کی اتنی بلندی پر ہیں کہ ان کے افکار زندہ ہیں لیکن کچھ لوگ اس پستی میں ہوتےہیں کہ ان سے جانور بھی پناہ مانگتےہیں ۔
سیلف مینجمنٹ
سے پہلے سیلف کی
شناخت ہے ، سیلف کا سفر ہے، سیلف کی پالش ہے ، سیلف کو جاننا ہے ۔ یہ سب کچھ کرنے
کے بعد مینجمنٹ آتی ہے عام طور پر ہم نے جو سیلف کی شناخت کی ہوتی ہے جب اس پر غور کیا جاتا ہے تو پتا چلتا ہے
اصل میں وہ سیلف ہی نہیں ہے ۔ اپنے
سیلف کے سفر کو ضرور جانیے ، اس کو خودی
کے سفر کا نام بھی دیا جا سکتا ہے ، اسے خود شناسی کا سفر بھی کہا
جا سکتا ہے یہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھنا
چاہیے اگر یہ وقت کے ساتھ ساتھ نہیں بڑھتا تو اس کا مطلب
آپ وہیں کے وہیں کھڑے ہیں آپ میں بہتری نہیں آ ئی۔ اس دنیا میں ایونٹ ، بندے ، حادثات،
خوشیاں ، غم اور تجربات خودشناسی کا
بہترین آئینہ ہے ۔ باہر کی چیزیں آپ کے
اندر کو باہر لانے میں معاون ہوتی ہیںسیلف
کو جاننے کے مواقع تب زیادہ بڑھ جاتےہیں جب آپ زندگی کی سٹر ک پر چلتےہیں۔ اللہ کے رسولﷺاس دنیا میں آئے انہوں نے آخری پیغام دیا ہمیں پتا لگ گیا چلتے رہنے میں
خود شناسی ہے اس پہلے خود شناسی کا
مطلب تھا کہ شادی نہیں کرنی ، دنیا کو
چھوڑ دینا ہے جنگلوں میں چلے جانا ہے۔ یہ زندگی بذات خود آپ کو آپ سے آشنا کرتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ آپ زندہ ہوں، آپ کے احساس
زندہ ہوں۔ یہ احساس کہ زندگی ایک با ر ملی ہے، یہ احساس کہ میں نے کچھ کرنا ہے، یہ
احساس کہ دوبارہ مو قع نہیں ملنا اگریہ
خیالات آ رہےہیں تو پھر آپ خوش قسمت انسان
ہیں ۔
اگر ہم اپنی زندگی میں صرف ایک سوئی کو
نکال دیں پتا لگ جائے کہ سوئی کے بغیر زندگی کس طرح ہوتی ہے۔ نتیجہ جو لوگ چھوٹی چھوٹی
ویلیو دے کر دنیا سے چلے گئے
ہیں وہ سیلف لیس لوگ تھے ۔ میسلو
کہتا ہے کہ دنیا میں بڑے لوگ ایسے ہیں جو سیلف کی شناخت کے بعد سیلف لیس ہو
جاتےہیں۔ دنیا میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد
ایسی ہے جو چھوٹی موٹی ریس میں پھنسی ہوئی ہے وہ بہت کچھ بنا لیتے ہیں مگر ان کے سیلف میں
کوئی تبدیلی نہیں آتی ۔بڑے لوگ ایسے ہیں
جو سو چتےہیں کہ کیوں مجھ سے کچھ نہیں ہو سکا تو کیوں نہ میں روحانیت میں آ
جاؤں ۔ کمال یہ ہے کہ آپ سب کچھ رکھتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ کا انتخاب کریں۔ہم کہتے ہیں کہ نیکی
تب ہو تی ہے جب لوگ دیکھیں جبکہ اللہ
تعالیٰ فرماتا ہے نیکی تب ہو گی جب میں قبول کروں گا اور قبول چیزوں سے نہیں ہوتی یہ نیت سے ہوتی ہے۔ سیلف کا ایک بڑا حصہ حالات
اورتزکیہ کے ساتھ جڑا ہوتا ہے ۔ سیلف کا
ایک حصہ ایسا ہوتا ہے جس کا حساب ہی نہیں ہے
اور وہ ہے نیچر۔ جوچیز نیچر میں ہے
اس کا حساب نہیں ہے لیکن جو چیز اختیار
میں ہے اس کا حساب ہوگا۔
سب سے بہادر انسان
وہ ہے جو اپنے افکار پہ سوال اٹھا
سکے یہ بہت مشکل ہے ۔ اپریشن کے ذریعے بازو کٹانا بہت آسان ہے لیکن اپنا اپریشن کر کے اپنے نظریا ت کو
نکالنا یہ بہت مشکل کام ہے۔ معاشرے میں
جتنی بھی جنگیں لڑی گئیں وہ نظریا ت کی بنا پر لڑی گئیں وہ
نظریات یہ ہیں کہ وہ غلط ہے میں
صحیح ہوں۔ایک مقام ایسا ہوتا ہے جس میں قرآن مجید بھی پڑ ھ کر سنا یا جائے اور اندر سے جواب آئے کہ نہیں تو پھر نتیجہ ابوجہل کی صورت میں
نکلتا ہے۔ بہت لوگ
اپنی طرف سے سمجھ رہے ہوتےہیں کہ
ہم میں بہتری آ رہی ہے لیکن اصل
میں وہ بہتری نہیں ہوتی۔ معاشرے کو دیکھ کر اگر آپ نے سیلف کا سفر کرنا
ہے تو پھر یہ سفر نہیں ہوگا ۔ سیلف
مینجمنٹ میں سب سے پہلا قدم خود کو جاننا ہے
اس کے بعد اپنے نظریا ت کو بدلنا۔ مذہب کہتا ہے عورت کا مقام بہت بڑا ہے نفسیات
کہتی ہے کہ یہ اس لیے بہت بڑا ہے کہ عورت زندگی میں مرتی ہے پھر تخلیق ہوتی
ہے کیو نکہ تخلیق ہمیشہ تکلیف سے جڑی ہوتی
ہے۔آپ کی وہ تمام سوچیں ، نظریات جو
پروگریسو نہیں ہیں ان پر ضرور سوال اٹھائیں ۔ اس کو سمجھنے کا آسان حل یہ ہے کہ آپ کی زندگی میں جس جس ایریاز میں بہتری
نہیں آرہی اس میں بہتری لائیں ۔ جب تک آپ کے پاس نئے افکار ،
نئی چیزیں اور نئے یقین نہیں آئیں گے سیلف
مینجمنٹ میں بہتری نہیں
آئے گی۔
ہماری زندگی میں جو ہماری ٹرین چل رہی ہوتی ہے بعض اوقات ہم
اسے اچھا نہیں دیکھ رہے ہوتے جتنا باہر کھڑا ہوا بندہ دیکھ رہا ہوتا ہے۔ اپنی
زندگی میں ایک مثبت کوچ کو شامل کریں
لازم نہیں ہے کہ اس کے لیے بیعت کرنی پڑے ، لازم نہیں ہے وہ کوئی مرشد
ہو وہ کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ اگر آپ کے دل کے دروازے کھلے ہیں تو پھر آپ کو
بہت لوگ مل جائیں گے۔ہمارے ساتھ یہ مسئلہ
ہے کہ ہم ایک ایسا پیمانہ بناتےہیں جس میں
لوگوں کو جانچتےہیں جس کی وجہ سے ہمیں
لوگ نہیں ملتے اس کی وجہ ہے کہ ہمارا
پیمانہ ہی ٹھیک نہیں ہوتا۔ حضرت واصف علی واصف ؒ فرماتےہیں "ہم دوسروں
کو مانپنے کے پیمانے بناتےہیں اور خود کو
ماپنے کا وقت ہی نہیں ملتا"۔ اگر آپ اپنی زندگی میں بہتری کے لیے
کوچ شامل کر سکتےہیں تو پھر آپ خوش
قسمت ہیں۔
جس کا جس چیز میں تجربہ نہیں ہے اس سے مشور ہ نہ لیں ،
ہم بڑا ظلم یہ کرتےہیں کہ ہم ان لوگوں
سے پوچھتےہیں جن کا کوئی تجربہ
نہیں ہوتا اس سے بڑا ستم یہ کرتےہیں کہ
مشورہ لینے کے عادی ہی نہیں ہوتے ۔جب تک آپ یہ نہیں مانتے کہ میری عقل عقل کل نہیں ہے ا س وقت نئی چیز اندر داخل نہیں
ہو سکتی۔ سیلف مینجمنٹ کو بہتر کرنے درج ذیل چیزوں کو اپنی زندگی میں شامل کریں :
1۔ سوچ مینجمنٹ
2۔ یقین مینجمنٹ
3۔ انسپائریشن
4۔ مطالعہ
5۔ ذاتی بہتری
کی فہرست
جب تک یہ سوال نہیں
اٹھائیں گے کہ اصل ہیرو تو اندر ہے تب تک
باہر کی سیلف کی چمک کوئی فائدہ نہیں دے گی۔ جس بندے کو یہ پتا ہے کہ
مجھ میں بہتری کی گنجائش ہے وہ جلد سیلف مینجمنٹ کی طرف جلدی جاتا ہے۔
(Lecture in LSM topic “Self Management”, Syed Qasim Ali Shah)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں