کوئی بندہ نہیں
چاہتا کہ وہ ضائع ہو، کوئی نہیں چاہتا
کہ میں ناکام ہو جاؤں اور کوئی
نہیں چاہتا کہ وہ بھیک مانگے۔ جب وہ ناکام نہیں ہونا چاہتا تو پھر
وہ سنجیدگی کے ساتھ غوروفکر کرتا ہے
اور انتہا کی سنجیدگی رہنمائی کی
طرف بھگاتی ہے ۔سنجیدگی کی سب سے پہلی نشانی
یہ ہے کہ آپ دریافت کرتےہیں کہ
میرے لیے ہدایت کہاں پر ہے، میں نے جاناں کس طرف ہے ، میں نے کس سے پوچھنا ہے ۔ اس
احساس کا نہ ہونا کہ مجھے جاننے کی ضرورت ہے یہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی رحمت سے
دوری ہے۔ وہ لوگ جنہیں خیال
نہیں آتا کہ ہم نے سیکھنا ہے وہ لوگ صرف
قبرستان میں پائے جاتے ہیں ۔ زندہ انسان ہمیشہ اپنے آپ میں بہتری لانا
چاہتا ہے وہ اپنے کل کو آج سے بہتر بنانا چاہتا ہے ۔ وہ بہت سمجھ دار ہے جو اپنے
آج کے مزے کو خراب کرتا ہے اپنے کل کےلیے لیکن اس سے بھی بڑا سمجھ دار وہ ہے جو اپنےآج کے مزے کو خراب کر رتا ہے اپنی آخرت
کےلیے۔
دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں جن میں ایک طبقہ بہت زیادہ ہے جبکہ دوسروں کی تعداد بہت کم ہوتی
ہے۔پہلی طرح کے وہ لوگ ہوتےہیں جنہیں صبح
اٹھنا عذاب لگتا ہے ،رات کو سو بھی جلدی جاتےہیں ، ان کی زندگی میں کوئی چمک نہیں
ہوتی ، یہ بورنگ زندگی گزار تےہیں اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کو اپنے کام سے محبت
نہیں ہوتی ۔ دوسری طرح کے وہ لوگ ہوتےہیں جن کو کام کے ساتھ محبت ہوتی ہے
اور ان کا کام ان کو صبح اٹھنے پر مجبور
کرتا ہے ، رات کو جاگنے پر مجبور کرتا ہے ، ان کو چین نہیں آتا ، ان کو تھکاوٹ نام
کی کسی چیز کا پتا نہیں ہوتا ، یہ اپنے جسم سے کام نہیں کر رہے ہوتے بلکہ یہ اپنی روح سے کام کر رہے
ہوتےہیں۔ اس طرح کےلوگ دوسروں سے زیادہ سپارکل ہوتے ہیں ، یہ زیادہ چمک والے ہوتے
ہیں ، زیادہ ایکٹیو ہوتےہیں، زیادہ شوق
والے ہوتےہیں اس کی وجہ یہ ہے ان لوگوں کو اپنا کام پسند ہوتا ہے ۔
زیادہ تر لوگ وہ کام کر رہے ہوتے ہیں جس کام کے لیے انہیں
اللہ تعالیٰ نے پیدا ہی نہیں کیا ہوتا ۔ دنیا کے اٹھانویں فیصد لوگ شوق کے بغیر
رہ رہے ہوتے ہیں وہ زندہ تو ہوتےہیں لیکن مر چکےہوتےہیں۔ دو فیصد ایسے لوگ
ہوتےہیں جن کے پاس جو شوق ہوتا ہے وہی ان
کا کام ہوتا ہے ۔ زندگی کے دو حصے ہوتےہیں
پہلے حصے میں انسان کو شعور نہیں ہوتا
دوسری زندگی وہ ہوتی ہے جس میں شعور ہوتا ہے ۔عام طور پر لوگ شعوری زندگی میں یہ سوچتے ہیں نہیں ہیں ہمیں اللہ تعالیٰ نے کس
کام کےلیے پیدا کیا ہے زیادہ تر لوگ صرف
یہی سوچتےہیں کہ ڈاکٹر یا انجینئرر بن جائیں۔ دنیا میں صرف دو فیلڈ ہی نہیں ہیں
دنیا میں اور بھی بہت ساری فیلڈ ہیں لوگ اتنا محدود سوچتےہیں اگر کوئی ڈاکٹر نہیں بن سکا یا انجینئرر نہیں
بن سکا تو وہ ناکام ہے حالانکہ اس کے لیے
پوری کائنات پڑی ہوتی ہے ۔ کامیابی تک جانے
کے شائد سو زیادہ راستے ہیں لیکن
ہم کامیابی کے لیے صرف دو راستوں
کا انتخاب کرتےہیں۔ ہم اپنے لیے
کبھی نہیں سوچتے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں
انجینئرر بننے کےلیے پیدا کیا تھا کہ نہیں
، ہم کبھی نہیں سوچتے اللہ تعالیٰ نے ہمیں صرف ڈاکٹر بننے کے لیے نہیں پیدا کیا ۔ ہم کبھی اپنے اندر
آرٹسٹ کو نہیں دیکھتے ، ہم کبھی اپنے اندر کے سائنسدان کو نہیں دیکھتے، ہم کبھی
اپنےاندر کے ٹیچر کو نہیں دیکھتے، ہم یہ
کبھی نہیں دیکھتے کہ میرا ٹیلنٹ جو اندر سو یا ہوا ہےوہی میرا اصل ہے ۔
انسان کے دو چہرے ہوتے ہیں ایک
وہ جو نظر آتا ہے جبکہ دوسرا
چہرہ کام کا چہر ہ ہوتا ہے ۔ ہمارا اصل چہر ہ ، اصل نام وہ ہوتا ہے جو ہمارا کام ہوتا
ہے وہ ہماری شناخت ہوتا ہے۔ ہم نے زندگی میں سفر شروع کرنا ہوتا
ہے اور
وہ سفر بقول فیض حسن سیال کے خود شناسی کا سفر ہوتاہے جو کبھی ختم نہیں
ہوتا ۔ آج سے ضرور سوچیے کہ ہمارا شوق کیا ہے ، یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ہمارے اندر خزانہ نہ ہو۔ دنیا کے ہر بندے کے اندر خزانہ ہوتا ہے اور وہ خزانہ
شوق کا خزانہ ہوتاہے ، وہ اس کی دلچسپی کا خزانہ ہوتا ہے ۔ انسان کی جس چیز
میں دلچسپی ہوتی ہے نہ چاہتےہوئے بھی اس کے پاس
اس کی معلومات آ جاتی ہے ، اسے اس طرح کی کتابیں مل جاتی ہیں ، اس طرح کی
مجالس مل جاتی ہیں ، ویسے دوست مل جاتےہیں ، ویسا ماحول مل جاتا ہے ، ویسے
ہیروز مل جاتےہیں ۔ہماری زندگی کے ہیروز
مختلف ہوتےہیں کیونکہ ہماری زندگی کی
انسپائریشن مختلف ہوتی ہے جیسے ایک لیڈر
کے لیے محمد علی جناح ؒ ہیرو ہوگا ، ایک
مفکر کے لیے حضرت علامہ محمد اقبال ؒ ہوگا لیکن یہ بھی ممکن ہے کی ایک روایتی شاعر کے
لیے فیض احمد فیض رول ماڈل ہوں ہمارے مزاج
کی وجہ سے ہمارے رول ماڈل بدلتےہیں۔
انسان کا دوسروں سے انسپائر ہونا اللہ تعالیٰ کی انسان پر رحمت ہے ۔انسان دنیا
میں انسپائر ہونے والی مخلوق ہے کبھی کوئی جانور کسی سے انسپائر نہیں ہوا ۔ اللہ
تعالیٰ نے انسان کے اندر انسپائر ہونے کا
مادہ اس لیے ڈالا ہے کیونکہ اس کے اندر
ایک شوق ہے اور اس شوق نے انسپائریشن
کی وجہ سے جاگنا ہوتاہے ۔ جس طرح بندہ اپنے عزیز کو پہچان لیتا ہے بلکل اسی
طرح اندر کا شوق جب اس طرح کے لوگ سامنے آ
تا ہے تو وہ پہچان لیتا ہے ۔اس سے بڑا جرم اور کوئی نہیں ہے کہ کوئی بندہ اپنی زندگی
شوق کے بغیر گزارے۔ وہ زندگی جو شوق کے بغیر ہے وہ ایسے ہی جیسے چھریوں پر سونا اور تلواروں پر
چلنا۔ انسان کو تلوار نہیں کاٹ سکتی اگر اس کا شوق سلامت ہو ۔ حضر ت سلطان باہوؒ
فرماتےہیں "ایمان سلامت ہر کوئی
منگے۔۔۔شوق سلامت کوئی ہو"کیونکہ شوق اللہ تعالیٰ کے دربار کی سوغات ہے اسے
پہچانتا کوئی کوئی ہے ، اسے شناخت کوئی کوئی کر پاتا ہے ۔ شوق کا پتا لگ جانا آپ
میں اعتماد پیدا کر دیتا ہے ، دوسرا شوق کے راستے میں انسان کو رکاوٹ رکاوٹ نہیں
لگتی ۔ شوق کے راستے میں انسان کو جیت اور ہار کی پروا ختم ہو جاتی ہے ۔ شوق والے
بندے پر دوسروں کی تنقید کا اثر نہیں رہتا
وہ کہتا ہے کہ ان لوگوں کو پتا نہیں ہے ایک دن ان کو پتا لگ جائے گا۔ شوق
کے راستے پر چلنے والا مقابلہ نہیں کرتا مقابلہ ہمیشہ تب ہوتا ہے جب بندے کو
اپنی صلاحیت کا پتا نہ ہو ۔شوق کا راستہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کا راستہ ہے، یہ عبادت کا راستہ ہے کیو نکہ
شوق والا اپنا کام عبادت سمجھ کر کرتا ہے ۔یہ بہت بڑا مقام ہے کہ اگر آپ کو اپنا کام عبادت لگنے لگ پڑے عام طور پر لوگوں کو اپنا کام عذاب لگتا ہے ۔
دنیا کا سب سے قیمتی سوال یہ ہے کہ میرا شوق کیا ہے یہ اتنا سنجیدہ سوال ہے کہ جس کو اس جواب مل جاتا
ہے پھر اس کو کوئی نہیں خرید سکتا
۔ شوق والا معاوضے سے آزاد ہوجاتا ہے، وہ وقت کی قید سے آزاد ہوجاتاہے اس کو پتا ہی
نہیں لگتا کہ کتنا وقت گزر گیا ہے ۔ شوق اردگرد سے آزاد کر دیتا ہے وہ اتنا مصروف
ہوتا ہے کہ اسے اپنے اردگرد کا احساس ہی نہیں ہوتا ۔ایک رائٹر برتن بناتی
تھی کسی نے کہا تم برتن بناتی ہو اس نے جواب دیا میں برتن نہیں بناتی میں تو اپنے آپ کو بنا رہی ہوتی ہوں اسی طرح
شوق والا اپنے آپ کو دکھا رہا ہوتا ہےاس
نے اپنے کام پر اپنی مہرلگائی ہوتی ہے۔
وہ شوق کسی کام کا نہیں ہے
اگر اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا
۔ خوش قسمتی یہ ہوتی ہے کہ شوق اور زمانے کی ضرورت مل جائیں جب اس طرح ہو تا ہے تو بندہ عبدالستار ایدھی بن
جاتا ہے ۔شوق ہمیشہ یہ سوچ کر تلاش
کریں کہ ہم نے اس کو کام میں لانا ہے ۔ جن
لوگوں نے شوق دریافت نہیں کرتے وہ صرف
زندگی کا سرکل پورا کر رہے ہوتےہیں ۔ دنیا میں جینئس انسان وہ ہوتا
ہے جو اپنے وقت اور کام کی انویسٹمنٹ اس
انداز میں کرتا ہے کہ اس کی زندگی کے بعد
بھی لوگوں کو فائدہ ہوتا رہتا ہے ۔ انسان
کی سب سے بڑی تمنا یہ ہے کہ وہ مرنا نہیں چاہتا وہ زندہ رہنا چاہتا ہے۔ وہ بندہ جس کو اپنے شوق والا کام مل جائے اور وہ مثبت ہو پھر وہ کوئی ایسا کام کر جاتا ہے
کہ وہ مرتو جاتا ہے لیکن لوگوں کے ذہنو ں
میں زندہ رہ جاتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس دنیا میں بھیجا ہے تو اس
کے پیچھے بہت بڑا مقصد ہے اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک ذرے کے ہلنے کی بھی وجہ ہوتی ہے اس لیے اپنا شوق دریافت کریں کیونکہ آپ کے شوق نے کئی لوگوں کے کام آنا ہے ،
کتنے لوگوں کو زندگی ملنی ہے ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کریں کہ ائے اللہ ہمیں ہمیشہ دینے والا بنا، دینے کا
مطلب یہ نہیں ہے کہ صرف پیسے دینا دینے کا
مطلب سیکھانا بھی ہو سکتا ہے ، آسانیاں
باٹنا بھی ہو سکتا ہے ،ڈائریکشن دنیا بھی
ہو سکتا ہے ۔ زندگی میں مزا پیدا کرنے کےلیے اپنا شوق دریافت کریں کیونکہ اس کے بغیر مزا نہیں آئے گا اور نہ ہی کوئی کام آسکتاہے۔ 65 سال کی زندگی
میں انسان نوئے ہزار گھنٹے کام کرتا ہے اس کے دو ہی طریقے ہیں
ایک یہ کہ ان نوئے ہزار کو رو کر گزارہ جائے اور ایک یہ ہے کہ ان کو کسی مقصد کے تحت گزارہ جائے۔ شوق کے بہت
فائدے ہیں لیکن ان میں ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بندے
کو اپنے اندر کا اطمینان مل جاتا
ہے اس کو اندر سے جواب ملتا ہے کہ تو نے ٹھیک کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ انسان سے باتیں کرتا ہے وہ محسوس کراتا ہے کہ یہ تیری
لائن نہیں ہے وہ بتا تا ہے یہ
تمہارے کمانے کا ذریعہ تو ٹھیک ہے مگر یہ تمہار ا شوق نہیں ہے ۔ شوق
انسان کو خواب بنانے پر مجبور کر دیتا ہے
وہ سکون سے نہیں رہنے دیتا ۔ لوگ ایکسپرٹ
سے آٹو گراف لیتےہیں اگر آپ کسی شعبے کے ایکسپرٹ نہیں ہیں تو پھر آپ سے کوئی آٹو
گراف بھی نہیں لے گا ۔ شوق کی آگ کے ساتھ پکی ہوئی ہانڈی میں ٹیسٹ ہوتا ہے خلیل جبران کہتا ہے کہ وہ
روٹی مزیدار نہیں ہوتی جس کے اندر شوق یا
محبت نہیں ہوتی ۔
جتنے بھی دانشور ہوتے ہیں ان کی سوچ عام لوگوں سے کئی
گنا زیادہ ہوتی ہے اس لیے اگر آپ حضرت علامہ اقبال ؒ کو
پڑھیں تو وہ کہتےہیں کہ "اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی ۔۔۔آپ کی زندگی کا راز آپ کے
اندر ہے جب تک اندر نہیں ڈوبو گے قرار
نہیں آئے گا۔ بڑے انسان کے ہاتھ پر زمانے کی تقدیر لکھی ہوتی ہے اور چھوٹے انسان
کی تقدیر دوسروں کے ہاتھ پر لکھی ہوتی ہے
۔ حضرت قائداعظم محمد علی جنا ح ؒ کی وجہ سے کتنے بندوں کی زندگی بدل گئی کیونکہ ان کے ہاتھ پر زمانے کی تقدیر لکھی
ہوئی تھی ۔ کتنی بڑی بات ہے کہ زمانے کی تقدیر میرے آقا حضور اکرم ﷺ کے ہاتھ پر لکھی ہوئی تھی یعنی آپﷺ جہانو ں کے لیے
رحمت تھے۔
آپ نے اپنے ٹیلنٹ کا ایک حصہ اپنے اوپر لگانا ہوتا ہے جبکہ باقی حصے سے زمانے کو فائدہ ہونا ہوتا ہے ۔ ٹیلنٹ کو کام میں لا کر بڑے اچھے پیسے
کمائے جا سکتےہیں یہ ہمیں کسی نے سکھایا
ہی نہیں ہوتا ہم اپنا پورا زور غلط کام پر لگا دیتےہیں پھر بھی
گزارہ ہو رہا ہوتا ہے۔ ٹیلنٹ میں یہ کمال
ہوتا ہے اس میں تھوڑا زور لگتا ہے جس سے اتنی آمدن ہو جاتی ہے وہ بندے سے ختم نہیں ہوتی ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا
کیا کریں اے میر ے مالک مجھے ضائع ہونے
بچا ، مجھے چھوٹے چھوٹے مسئلوں سے نکال اور مجھے بامقصد انسان بنا ۔
(How to Discover Your Passion in Life, Syed Qasim Ali Shah)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں