ہم شروع کی زندگی میں یہ سوال ہی نہیں اٹھا تے کہ ہم نے کیا
کرنا ہے۔ جس میں کوئی تڑپ ہے ، لگن ہے ، بے سبب آنسوہیں ،اضطراب ہے وہ
زیادہ ترقی کر تا ہے یہ ساری علامتیں ظاہر
کرتی ہیں کہ قدرت نے اس سے کوئی کام لینا
ہے ۔
سوال یہ ہے کہ کام کرنا کیا ہے اگر
آپ اس کو دل سے اٹھاتے ہیں قدرت آپ کو اس
کا جواب دیتی ہے ۔ آپ "الکیمسٹ
" ناول پڑھیں ، کتا ب "دی
ہیرو" ضرور پڑھیں اس میں ان علامتوں کا ذکر کیا گیا ہے کہ دنیا میں
جتنے عظیم لوگ ہیں وقت سے پہلے قدر ت نے انہیں اشارے دینے شروع کر
دیئے تھے کہ تم یہ کرو تم ترقی کر جاؤ گے ۔ہمار ے ساتھ یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ ہمیں قدرت کہہ رہی ہوتی ہے مگر ہم سن نہیں رہے ہوتے ہم دنیا کو سن رہے ہوتے ہیں جس کی وجہ ہے ہم
فیصلہ نہیں کر پاتے پھر وہ چیز پچھتاوا بن
جاتی ہے ۔
NetSol کے سربراہ سلیم غوری صاحب کا کہنا ہے کہ میں آسٹریلیا میں سٹی بینک
میں بہت اچھی نوکری کر رہا تھا اور ساتھ
ہی ایک چھوٹا سا اپنا کام کر رہا تھا ایک دن
میرے باس نے مجھے کہا کہ تم یہ نوکری کرو گے یا اپنا کام تو میں نے
فیصلہ کیا کہ میں نے ایک کامیاب کہانی بننا ہے لہذا
میں نے بینک کی نوکری چھوڑ دی آج
میں ایک ادارہ چلا رہا ہوں ۔ بند ہ جب
جرات کا مظاہر ہ کرتا ہےتو پھر وہ آگے نکل
جاتا ہے کبھی یہ مت بتا ئیں
کہ میں کیا کرنے جا رہا ہوں کر کے
دکھائیں تا کہ دنیا کو پتا لگ جائے ۔ اپنے
آپ کو اس جگہ پر لے کر جائیں جہاں زمین ختم ہوتی ہے آپ وہاں سے اڑنا شروع کریں ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ہمارا طیارہ
ایئرپورٹ ہی نہیں چھوڑتا وہ آگے کہاں جائے
گا ۔
جو لوگ انٹرن شپ کر
رہے ہیں وہ اس کو انجوائے کیا کریں اس سے سیکھیں
ہمیں پندرہ سولہ سال کتابیں پڑھنے کی اتنی عادت پڑ جاتی ہے جس کی وجہ سے کام کرنا مشکل لگ پڑتاہے اس وقت
جتنی بھی ٹاپ کی کمپنیاں ہیں گورنمنٹ کی
ادارے ہیں ہر جگہ پر پیشہ وارانہ کردار پڑھایا جا رہا ہے یہ اس وجہ سے پڑھایا جا
رہا ہے آفیسرز کو کام لینا نہیں آتا ،
لیڈر شپ کی کمی ہے، ٹیم بنا کر کام کرانا نہیں آتا ، ٹارگٹ کو پورا
کرنا نہیں آتا عملی طور پر انسانوں کے
ساتھ ڈیل کرنا نہیں آتا ۔ آگر آپ انجینئر ہیں تو صرف انجینئر ہونا کافی نہیں
ہے اس کے ساتھ کوشش کریں آپ کچھ مہارت پیدا کریں اگر وہ بہتر ہو جاتی ہیں پھر آپ ترقی کرنے لگ پڑیں گے ۔
آپ
بہادر بنیں ،دل
کے ساتھ والدین کا ادب کریں مگر کا م وہ
کریں جس کی طرف آپ کا رجحان ہو ، کام کرنے کو دل کرتا ہو ممکن ہے آپ کے والدین اس کام
کے بارے میں زیادہ نہ جانتے ہوں آپ
نے نئے زمانے میں آنکھ کھولی ہے لہذا آپ کو کامیابی حاصل کرنے کے لیےنئے زمانے کے
انداز کے مطابق کام کرنا پڑے گا ۔ سمت
کاطعین آپ نے خود کرنا ہے اس کے لیے آپ
اپنے اند ر بہادری پیدا کریں اور معذرت
کریں زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ جو کام آپ کر رہے ہیں وہ غلط ہو جائے گا ۔ طالب علمی کے
دور سے آپ لازمی کمانا شروع کریں تاکہ آپ
کے والدین کو پتا چلے کہ میرا بیٹا اب خود کمانا شروع ہو گیا ہے ۔ بچے گھر والوں
کی مان کر اگر کوئی کام کر بھی لیں
گزارہ تو چلتا رہتا ہے مگر بندہ
آگے نہیں جاتا ۔
کسی
ٹاپ کی سیٹ پر جانے کے لیے قربانیاں دینی
پڑتی ہیں ۔ سلیم غور ی صاحب کہتے ہیں
" جو لوگ نوکری کرتے ہیں امیر وہ بھی ہو جاتے ہیں لیکن ان کی زندگی میں کہانی نام کی کوئی چیز
نہیں ہوتی ۔" کامیاب کہانی قربانیوں سے بنتی ہے جوبندہ پچھلی ٹرین نہیں چھوڑ سکتا وہ اگلی نہیں
پکڑ سکتا ہم میں حوصلہ ہی نہیں ہوتا کہ کہیں ہم نے یہ ٹرین چھوڑ دی تو اگلی بھی نہ
پکڑ ی جائے اس کا مطلب ہے ہمیں اپنے آپ پر اعتماد نہیں
ہے جب خود پر اعتما د نہیں ہوگا تو آپ فیصلہ نہیں کر سکیں گے پھر آپ
محتاج ہو جائیں گے کہ اباجی میں کیا کروں آپ ان کا ادب کریں وہ آپ کے والدین ہیں ان کے سارے لوازمات پورے کریں جو آپ کر سکتے ہیں لیکن کیرئیر آپ کا اپنا ہے آپ اپنے اند ر خود دیکھ سکتے ہیں کیونکہ یہ انعام اللہ تعالیٰ نے صرف آپ کو دیا
ہے دنیا میں ترقی کر کے جب بھی کوئی بڑا
انسان بنا ہے وہ جو کام کررہا
ہوتا ہے وہ اس کے بارے میں نہیں بتاتا
وہ کہتا ہے کہ وقت بتائے گا کہ میں نے کیا کرنا ہے ۔
نک کی کہانی میں سب سے اہم بات تبدیلی ہے وہ کہتا ہے کہ
دنیا میں دو تبدیلیاں ہے ایک جو باہر سے آتی ہیں تاکہ آپ خود کو بدلیں مثال کے طور
پر آپ کسی ایسی تنگ گلی میں جاتے ہیں جہاں پر آسانی کے ساتھ بازو کھول کر نہیں چلا جا سکتا باہر کی تبدیلی آپ کو بتائے گی کہ آپ سمٹ کر
چلیں دوسری تبدیلی اپنے آپ کو اندر سے بدلنا کیونکہ آپ حالات کو تو
نہیں بدلے جا سکتے اس سے بہتر ہے آپ خود کو بدلیں ۔
نک کے پیدا ہونے کے بعد اس کی ماں پھوٹ پھوٹ کر روتی ہے وہ کہتی ہے کہ یہ میرے
ساتھ ہی کیوں ہوا ہے میرا بچہ ہی اس
بیماری کا شکا ر کیوں ہوا اسے پیدا نہیں
ہونا چاہیے تھا اسے مر جانا چاہیے تھا ۔ بغیر بازو ، بغیر ٹانگیں اور بغیر پاؤں
والا شخص جس کی زندگی میں آنسو ہیں ، تکلیفیں ہیں، اپنی زندگی کو ختم کرنے
کے بارے میں سوچنے لگ پڑتا ہے آخر کار وہ ان سب چیزوں پر قابو پا کر سوچتا ہے کہ
میں نے کچھ کرنا ہے میں نے محتاجی کی
بجائے کچھ دینے کے مقام پر آنا ہے ، میں نے رکنا نہیں ہے ، میری منزل یہ نہیں ہے ،
دنیا مجھے اگر اپاہج کہتی ہے تو میں نے
ثابت کرنا ہے کہ میں ایک سلامت انسان سے زیادہ
کامیاب ہوں اور آج پوری دنیا اس کو جانتی ہے کیو نکہ اس کی ایک کہانی
ہے وہ ثابت کرتا ہے کہ اگر انسان کرنا
چاہے تو جو صحت مند ہیں جن کے پاس وسائل
ہیں جن کے پاس سب کچھ ہے ان سے بہتر کیا
جا سکتا ہے اور اگر انسان نہ کرنا چاہے تو پھر ٹانگیں ، بازو ہونے کے باوجود بھی
بندہ کچھ نہیں کر سکتا ۔
(Workshop
on Book “Life without Limits”, Syed Qasim Ali Shah)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں