اتوار، 27 نومبر، 2016

قطب الدین ایبک (Success Story)


وہ ترکستان کا رہنے والا تھا ، بچپن میں غلام بنا کر اس کو نیشاپور لایا گیا، غلاموں کی منڈی میں کھڑا کیا گیا ۔ قاضی فخرالدین وہاں سے گزرے وہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد میں سے تھے۔ قاضی صاحب کی نظر اس بچے پر پڑی انہوں نے اس کی قیمت ادا کی اور اس کو گھر لے آئے اور اس کا نام قطب الدین رکھا اور اس کی بیٹوں کی طرح پرورش شروع کر دی۔قاضی صاحب ضعیف تھے اور علیل بھی وہ جلد انتقال کر گئے ۔ قاضی صاحب کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے نے اس بچے کو منڈی میں جا کر ایک سوداگر کے ہاں بیچ دیا اور وہ بچہ ایک مرتبہ پھر غلام بن گیا۔ وہ سوداگر اسے غزنی لے گیا اس وقت غزنی میں شہاب الدین غوری کی حکومت تھی ۔ شہاب الدین غوری کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی اس نے اس کا حل غلاموں کی شکل میں نکالا وہ غلام خریدتا اور ان کی شاہانہ تربیت کرتا پھر انہیں مختلف علاقے اور شعبے سونپ دیتا۔ شہاب الدین کے یہ غلام آگے چل کر خاندان غلاماں کہلائے۔ سوداگر شہاب الدین کی اس عادت سے واقف تھا لہذا وہ قطب الدین کو لیکر شہاب الدین کے پاس چلا گیا ، شہاب الدین کو قطب الدین پسند آگیا اس نے اسے اپنے غلاموں میں شامل کر لیا۔قطب الدین باصلاحیت تھا وہ جلد ہی بادشاہ کے قریب ہو گیا۔شہاب الدین غنی تھا اور وہ مانگنے والوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا تھا اسے پتا چلا کہ قطب الدین اس سے بڑا غنی ہے یہ اپنے تصرف میں ہر چیز محل کے خادموں میں تقسیم کر کے سوتا ہے۔بادشاہ کو یہ عادت پسند آئی اور اس نے اسے اپنا بیٹا بنا لیا۔ جب دہلی اور اجمیر فتح ہوئے تو یہ دونوں شہر قطب الدین کے حوالے کردیے گیے اس کے ہندوستان میں فتح کا سلسلہ شروع ہوا یہاں تک کہ قطب الدین کی جاگیرسمانا،میرٹھ،ہانسی ، بنارس، گوالیار،گجرات، کالنجر، مہوہ ، برایوں، ملتان اور لاہور اس کی ملکیت بن گئے اور یوں وہ ہندوستان کا مختار کل بن گیا ۔ اس کے باوجود وہ اپنے آقا کو کبھی نہیں بولا ۔قطب الدین نے تاج الدین یلدوز کو شکست دے کر غزنی پر بھی اپنی حکومت قائم کر لی .1210ء میں قطب الدین لاہور قلعے کے باہر چوگان کھیل رہا تھا وہ اچانک گھوڑے سے گرا ، گھوڑے کی کاٹھی اس کی چھاتی پر گر گئی، پسلیاں ٹوٹ کر اس کے پھیپھڑوں اور دل میں پوست ہو گئیں اور یوں اسی وجہ سے اس کا انتقال ہو گیا اور اس کو چوگان کے میدان میں ایک کونے میں دفن کردیا گیا۔
قطب الدین کے ایک ہاتھ کی چھوٹی انگلی ٹوٹی ہوئی تھی، جب وہ شہاب الدین غوری کے محل میں داخل ہوا تو دوسرے غلاموں نے ٹوٹی ہوئی انگلی کی وجہ سے اسے ایبک کہنا شروع کر دیا یہ لفظ اس کی چھیڑ تھا لیکن شائد اللہ تعالیٰ کو اس کی سخاوت پسند آگئی باری تعالیٰ نے اس کی اس چھیڑ کو اس کا اعزاز بنا دیا۔ چنانچہ آج تاریخ جب تک قطب الدین کو ایبک نہ کہہ لے اس وقت تک خود کو مکمل نہیں سمجھتی۔
(رات آہستہ آہستہ اتر رہی تھی، جاوید چوہدری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں