جمعہ، 30 دسمبر، 2016

ہم دوسراگال پیش نہیں کرتے

امت مسلمہ کا حال بالکل سید الانبیاءﷺ کی اس حدیث میں بیان کردہ پیش گوئی کے مصداق ہو چکا ہے جس میں آپؐ نے فرمایا تھا، ’’تم پہلی امتوں کی اسی طرح پیروی کرو گے جس طرح بالشت بالشت کے برابر اور گز گز کے برابر ہوتا ہے‘ یہاں تک کہ اگر وہ لوگ گوہ کے سوراخ میں گئے ہوں گے تو تم ان کی پیروی کرو گے۔ ہم لوگوں نے عرض کیا‘ یا رسول اللہﷺ‘ کیا یہود و نصاریٰ کی پیروی کریں گے‘ آپ نے فرمایا اور کون ہو سکتا ہے‘‘ (متفق علیہ)۔ یہود پر بار بار عذاب اترے اور انھیں بار بار اللہ کے غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑا۔
اللہ قرآن پاک میں ان کی ذلت و رسوائی اور ان پر عذاب کی جو وجوہات بتاتا ہے‘ کیا وہ ہم سے مختلف ہیں۔ ’’پھر ذرا یاد کرو‘ ہم نے تم سے مضبوط عہد لیا تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کا خون نہ بہانا اور نہ ایک دوسرے کے گھر سے بے گھر کرنا۔ تم نے اس کا اقرارکیا تھا‘ تم خود اس پر گواہ ہو‘ مگر آج تم ہی ہو جو اپنے بھائی بندوں کو قتل کرتے ہو‘ اپنی برادری کے کچھ لوگوں کو بے خانماں کر دیتے ہو‘ ظلم و زیادتی کے ساتھ ان کے خلاف جتھے بندیاں کرتے ہو‘ اور جب وہ لڑائی میں پکڑے ہوئے تمہارے پاس آتے ہیں تو ان کی رہائی کے لیے تاوان کا لین دین کرتے ہو‘ حالانکہ انھیں ان کے گھر سے نکالنا ہی سرے سے حرام تھا۔ تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو۔ تم میں سے جو لوگ ایسا کرتے ہیں ان کی سزا اس کے سوا کیا ہے کہ دنیا میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں (البقرہ 85)۔
قرآن پاک کی اس آیت میں یہودیوں کی حرکات‘ جرائم اور بداعمالیوں کو ایک نکتے سے واضح کیا ہے اور آیت کا بہاؤ یہود کے ان جرائم کی بنیادی وجہ کی جانب لے جاتا ہے اور وہ وجہ یہ ہے کہ ’’تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو‘‘۔ یہ وہ تفریق تھی جو یہود نے اللہ کی تعلیمات اور احکام کے بارے میں کی۔
آج پوری مسلم امہ میں آپ کو ایسے ہزاروں علماء‘ دانشور‘ ادیب‘ مذہبی اسکالر بلکہ مذہبی کالم نگار ملیں گے جو یہودیوں کی اس روش کے مطابق کتاب اللہ کی تعلیمات کو اپنی مرضی سے تقسیم کرتے ہیں۔ سب سے بڑی تقسیم تو یہ ہے کہ یہ دنیا کے معروضی حالات و واقعات ہیں‘ یہ الیکشن‘ جمہوریت‘ پارلیمنٹ‘ بین الاقوامی تعلقات‘ عالمی برادری‘ سودی معاشی نظام‘ سب کے سب جدید دنیاوی زندگی کے بکھیڑے ہیں‘ ان کے بارے میں قرآن پاک یا رسول اکرمﷺ کی سنت سے رہنمائی لینے کی کیا ضرورت ہے۔
دین تو لوگوں کی تربیت اور تزکیے کے لیے آیا ہے‘ اجتماعی خیر تو یتیمیوں‘ بیواؤں کی مدد اور پڑوسی سے حسن سلوک کے رویوں سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ لیکن شام‘ عراق‘ افغانستان میں اگر مسلمانوں کا خون بہایا جاتا ہے تو ایسے میں ہمیں اپنا مفاد اور اپنے ملک کا مفاد دیکھنا چاہیے۔
ایسے میں اس امت مسلمہ کے پچاس سے زیادہ ممالک ایک جیسی سوچ رکھتے ہیں اور قرآن کے ان واضح احکامات کا انکار یعنی کفران کر دیتے ہیں جو سورہ النساء کی آیت میں ہے ’’اور تم کو کیا ہوا کہ نہیں لڑتے اللہ کی راہ میں ان کے واسطے جو مغلوب ہیں‘ مرد اور عورتیں اور بچے جو کہتے ہیں اے رب ہمیں نکال دے ان ظالموں کی بستی سے اور بھیج دے ہمارے واسطے اپنی طرف سے کوئی حمایتی اور بھیج دے ہمارے واسطے اپنی طرف سے کوئی مدد گار (النساء 75)۔
پاکستان میں سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ بلند ہوتا ہے اور اس کے ہوائی اڈوں سے 57ہزار دفعہ امریکی جہاز اڑاتے ہیں اور مسلمان افغان بھائیوں کے گھر برباد کرتے ہیں اور جسموں کے پرخچے اڑاتے ہیں۔ ملکی مفاد میں ہی سعودی عرب یمن پر بمباری کرتا ہے‘ اس کی بستیاں اجاڑتا ہے اور چونتیس اسلامی ممالک ایک فوج بنا لیتے ہیں کہ سعودی عرب کی سالمیت کو مسلمان کے خون پر ترجیح دی جا سکے۔ یہ ہے معروضی اور زمینی حقائق۔ ایران اپنے مفاد کے لیے عراق اور شام میں موجود مسلمانوں پر نہ صرف خود حملہ آور ہوتا ہے‘ وہاں کی حکومتوں کا ساتھ دیتا ہے بلکہ وہ ایک غیر مسلم ملک کی مدد حاصل کرتا ہے۔
روس کے جنگی جہاز حلب شہر میں بسنے والے کلمہ گو مسلمانوں کے گھروں کو کھنڈر اور بستیوں کو قبرستان بنا دیتے ہیں۔ قرآن و سنت تو ایک طرف‘ سیدنا علیؓ کی زندگی کو دیکھ لیں‘ ان کی تمام جنگیں کلمہ گو مسلمانوں کے ساتھ ہوئیں‘ کیا انھوں نے کبھی اپنے دشمنوں پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے پڑوس میں عیسائی رومن حکومت کی مدد حاصل کی۔
یہ حرکت تو ان کے مخالفین حضرت امیر معاویہؓ اور خارجیوں نے بھی نہیں کی تھی۔ لیکن معروضی حالات‘ زمینی حقائق‘ بشارالاسد کی حکومت کو بچانا اور ایران کی بالادستی کے قیام کا قرآن کے پیغام سے کیا تعلق۔ یہ سب تو علاقائی سیاست ہے اور جدید قومی ریاستوں کی ضروریات ہیں۔ قومی ریاست کے تحفظ کے لیے مسلمان کا خون بھی حلال ہو سکتا ہے۔
اس امت مسلمہ کے مقابل ایک اور امت ہے‘ ایک ایسی امت جس پر اللہ نے ذلت و مسکنت مسلط کر دی تھی۔ جنھیں 70ء میں رومن حکومت نے یروشلم پر حملہ کر کے‘ ان کے ہیکل کو تباہ کر دیا اور انھیں وہاں سے نکال دیا۔ اس کے بعد یہ قوم پوری دنیا میں دربدر ہو گئی۔ ہر ملک میں ان پر ظلم کے پہاڑ ٹوٹے‘ بار بار بے گھری اور ہجرت دیکھی‘ لیکن دو ہزار سال تک وہ اس بات پر پختہ یقین رکھے رہے کہ انھوں نے ایک دن یروشلم واپس آنا ہے اور پھر وہاں ان کا مسیحا آئے گا جو ان کی حضرت داؤدؑ اور حضرت سلیمان کی سطح کی عالمی حکومت قائم کرے گا۔
اپنے صیحنوں میں درج روایات اور اپنے اخیار اور رہبان کے نظریات کے مطابق یہ لوگ 1920 میں فلسطین میں قافلہ در قافلہ آباد ہونا شروع ہوئے۔ ان میں اکثریت ان کی تھی جو پیرس‘ لندن‘ برلن‘ نیویارک اور دیگر بڑے شہروں میں بہترین گھروں میں رہتے تھے اور وسیع کاروبار کرتے تھے لیکن یہ لوگ اپنے مذہب میں بتائی گئی پیش گوئیوں کے مطابق حیفہ اور تل ابیب جیسے ریگستان میں جا کر آباد ہو گئے جہاں چاروں طرف عرب مسلمان ان کی جان کے دشمن تھے۔ چودہ مئی 1948 میں ان کا ملک بنا تو انھوں نے اعلان کیا کہ ’’اسرائیل آئین نہیں بنائے گا کیونکہ ہمارا آئین تورات ہے‘‘۔
1967 میں انھوں نے رنگ‘ نسل‘ زبان اور علاقے میں بکھری ہوئی مسلم امہ کو بدترین شکست دے کر اپنے مقدس شہر یروشلم پر قبضہ کر لیا۔ فتح کا جشن پیرس میں منایا گیا‘ جہاں اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں کسی اور ملک سے کوئی خطرہ نہیں۔ سوائے پاکستان کے کیونکہ یہ ہمارا نظریاتی حریف (Ideological equal) ہے۔ آج‘ یروشلم کے ارد گرد ہر بڑا شہر تباہ ہو چکا‘ بغداد‘ دمشق‘ حلب‘ موصل اور بیروت۔ یہودی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اب وہ وقت نزدیک ہے جب دنیا بھر کی طاقت کا مرکز یروشلم ہو گا۔
اس کے لیے دنیا کے معاشی دارالحکومت (financial Capital) کو نیویارک سے یروشلم منتقل کرنا ضروری ہے اور یہ سارے کا سارا صرف ایک وال اسٹریٹ پر مشتمل ہے۔ دنیا بھر کی 45ہزار کارپوریشنوں کو 22بینک کنٹرول کرتے ہیں۔ یہ سب اس ایک گلی میں موجود ہیں۔اس منتقلی کے لیے امریکا سے ایک کھلی جنگ ضروری ہے۔ امریکی معاشرے کے تعصبات کو اجاگر کرکے ڈونلڈ ٹرمپ کو جتوایا جا چکا ہے۔ اکیاون ریاستوں پر مشتمل امریکا کس قدر آسانی سے اکیاون ملکوں میں تقسیم ہو سکتا ہے‘ اس کا اندازہ صرف اسرائیل کو ہے۔
کیا دنیا کو اس بات پر حیرت نہیں ہوئی کہ وہ امریکا جس کے ہر ادارے میں اسرائیلی صیہونی لابی چھائی ہوئی ہے‘ جس کا میڈیا ان کی دسترس میں ہے‘ وہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں اسرائیل کے خلاف قرار داد کو ویٹو نہ کرے‘ وہ اوباما حکومت جس کے دور میں مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے پر سب سے زیادہ گھر تعمیر ہوئے ہوں۔ 2009 میں 4,905,737 گھر تھے اور 2014 میں 5,94,000 یہودی گھر تعمیر ہو گئے۔
اس قرار داد کے منظور ہوتے ہی اسرائیل نے سکیورٹی کونسل کے رکن پندرہ ممالک کے شہروں کو بلا کر غم و غصے کا اظہار کیا۔ یروشلم کے میئر نے کہا کہ ہم 5,600 نئے گھر بنا رہے ہیں لیکن وزیراعظم نیتن یاہو نے پوری مسیحی دنیا کو للکارتے ہوئے کہا ’’اسرائیل ایک ایسا ملک ہے جسے یہودی قومیت پر فخر ہے۔ ہم تم لوگوں کی طرح حضرت عیسیٰ کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے کہ اگر کوئی تمہیں ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا گال آگے کر دو‘ ہم دوسرا گال آگے نہیں کرتے۔
اسرائیل کے وزیراعظم کا یہ بیان معروضی‘ تزویراتی اور زمینی حقائق پر مبنی نہیں ہے بلکہ اس یقین کی بنیاد پر ہے انھوں نے ایک دن سب کو شکست دے کر عالمی قوت بن جانا ہے۔ کیا امت مسلمہ کو قرآن کی آیات اور سید الانبیاء کی پیش گوئیوں پر اتنا یقین ہے۔ کیا وہ اس آخری جنگ کے لیے تیار ہیں۔
اوریا مقبول جان


جمعرات، 29 دسمبر، 2016

کیا اب بھی (فارن پالیسی)

یہ ایک چھوٹا سا واقعہ تھا۔
مصر نے چار ماہ قبل نہر سوئیز میں کویت کا ایک بحری جہاز روک لیا‘ جہاز’’ ایم ڈبلیو اکاز‘‘ کویتی شپنگ کمپنی کی ملکیت تھا‘ یہ کسی ڈچ کمپنی نے چارٹر کرایا‘ یہ جہاز 11 اگست 2016ء کو کویت پہنچا‘یہ وہاں سے سکندریہ گیا اور یہ سکندریہ سے ہالینڈ جانا چاہتا تھا لیکن یہ جوں ہی نہر سوئیز میں داخل ہوا‘ مصری حکومت نے جہاز روک لیا‘ جہاز کے ذمے دو کروڑ روپے تھے‘ کویتی اور ڈچ کمپنی کے درمیان پھڈا ہو گیا‘ یہ کمپنیاں رقم ایک دوسرے پر ڈالنے لگیں‘ یہ جہاز پاکستان کے  لیے بہت اہم تھا‘ کیوں؟ کیونکہ جہاز کا عملہ پاکستانی تھا‘ کپتان سمیت 17 پاکستانی اس جہاز میں سوار تھے۔
مصری حکام نے ان تمام پاکستانیوں کے پاسپورٹ ضبط کیے‘عملے کو جہاز میں بند کیا اور جہاز گودی پر کھڑا کر دیا‘ پاکستانیوں کو چار ماہ تک جہاز میں محصور رکھا گیا‘ انھیں ساحل پر اترنے اور خوراک کا بندوبست کرنے کی اجازت بھی نہ دی گئی‘ یہ لوگ اس دوران خوراک کی قلت کا شکار بھی ہوئے اور بیمار بھی ‘ چھ پاکستانی ورکرز کی حالت تشویشناک ہو گئی لیکن وہ بیماری کے عالم میں جہاز میں پڑے رہے‘ مصری حکام نے انھیں طبی امداد تک نہ دی‘ عملے نے پاکستانی میڈیا سے رابطہ کیا‘ خبریں چلیں۔
پاکستان میں موجود مصری سفارتخانے پر دباؤ آیا‘ پاکستان کے دوست ملکوں نے مدد کی اور یوں 21 دسمبر کے بعد عملے کو پاسپورٹ ملے اور بیماروں کو طبی معائنے کی سہولت ‘ ہمارے لوگ چار ماہ تک بنیادی سہولتوں سے کیوں محروم رہے‘ مصر نے ان کے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا؟ اس کا جواب ہماری فارن پالیسی کی فائلوں میں دفن ہے‘ ہماری خارجہ پالیسی بدقسمتی سے پچھلے ساٹھ برسوں سے صرف امریکا‘ سعودی عرب‘ یورپ‘ چین اور بھارت تک محدود ہے‘ ہم نے ان ملکوں کے علاوہ آج تک کسی ملک کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا اور جب دیکھا تو ہمارے تعلقات اس کے ساتھ مزید خراب ہو گئے اور ان محروم ملکوں میں مصر بھی شامل ہے‘ مصر ہمیں وعدہ خلاف‘ بے وقوف اورمتکبر سمجھتا ہے‘ کیوں؟
اس کی بے شمار وجوہات ہیں‘مثلاً آپ 1956ء کے واقعات کو لے لیں‘ 1956ء میں عرب اسرائیل جنگ ہوئی‘ پوری مسلم دنیا مصر کے ساتھ کھڑی تھی لیکن ہم نے مصر کے ساتھ بے اعتنائی برتی‘ ہمارے وزیر خارجہ نے اس دور میں نہرسوئیز کے ایشو پر لندن کانفرنس میں مصر کو حمایت کی یقین دہانی کرائی لیکن ہم عین وقت پر مکر گئے‘ اس پر جمال عبدالناصر پاکستان سے ناراض ہو گئے‘دوسرا واقعہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں پیش آیا‘ جنرل ضیاء الحق نے مصر کو یقین دلایا تھا وہ بھٹو کو رہا کر دیں گے لیکن یقین دہانی کے باوجود بھٹو کو پھانسی دے دی گئی‘ مصر مزید ناراض ہو گیا‘ ہم نے اسے راضی کرنے کی کوشش نہ کی۔
یہ واقعات ہمیں مصر میں وعدہ خلاف اسٹیبلش کر گئے‘ پاکستانیوں کو بے وقوف ثابت کرنے کی ذمے داری یوسف رضا گیلانی نے پوری کی‘ مصر کے سیاحتی شہر شرم الشیخ میں18مئی 2008ء کو ورلڈ اکنامک فورم کا اجلاس تھا‘ گیلانی صاحب نے شرکت کا اعلان کر دیا‘ وزارت خارجہ نے گیلانی صاحب کوبتایا حسنی مبارک 28 سال سے حکمران ہیں‘ یہ آج تک پاکستان نہیں آئے‘ ہمیں بھی نہیں جانا چاہیے لیکن یوسف رضا گیلانی روکنے کے باوجود بھاری وفد کے ساتھ شرم الشیخ پہنچ گئے‘ یہ اس وقت نو آموز تھے‘ یہ ابھی پروٹوکول کے تقاضوں سے بھی واقف نہیں تھے اور ان کا بین الاقوامی ایکسپوژر بھی نہیں تھا۔
شرم الشیخ میں ان کی جارج ڈبلیو بش اور حسنی مبارک کے ساتھ ملاقات طے ہو گئی‘ وہ دونوں گھاگ سیاستدان تھے‘ یوسف رضا گیلانی ان کے سامنے اعتماد کھو بیٹھے‘ حسنی مبارک سے ملتے ہوئے گیلانی صاحب کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور زبان لرز رہی تھی‘ حسنی مبارک نے ہنسنا شروع کر دیا اور وہ ہنستے ہنستے واپس چلے گئے‘ جارج بش کے ساتھ ملاقات کے دوران بھی یہی ہوا‘ وہ پوچھتے کچھ تھے اور گیلانی صاحب جواب کچھ دیتے تھے‘ کانفرنس کے آخری دن خاتون اول نے شاپنگ کے لیے قاہرہ جانے کا اعلان کر دیا‘ مصری حکومت نے صاف انکار کر دیا‘حکومت کا کہنا تھا‘ ہماری پوری انتظامیہ اس وقت شرم الشیخ میں ہے۔
قاہرہ میں حکومت کا کوئی بڑا عہدیدار موجود نہیں‘ ہم وزیراعظم کو وہاں پروٹوکول نہیں دے سکتے‘ پاکستانی اسٹاف نے وزیراعظم کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ بیگم صاحبہ کے سامنے مجبور تھے‘ جہاز کو قاہرہ لے جانے کے لیے کوئی ٹھوس بہانہ درکار تھا‘ وزیراعظم نے اسٹاف کو بتایا’’ مصر کا لیبر منسٹر میرا دوست ہے‘میں اس سے ملاقات کے لیے قاہرہ جانا چاہتا ہوں‘‘ اسٹاف نے مصری حکام کو قاہرہ جانے کی وجہ بتائی‘ ان کی ہنسی نکل گئی اور انھوں نے دوسری بار بھی انکار کر دیا‘ وزارت خارجہ نے مجبوراً پاکستان میں مصری سفیر سے رابطہ کیا اور مصری سفیر نے ہمارے وزیراعظم کو قاہرہ جانے کی اجازت لے کر دی‘ وزیراعظم کا طیارہ قاہرہ اترا‘ وفد کے لوگوں کو بسوں میں ٹھونس کر اہرام مصر بھیج دیا گیا۔
بیگم صاحبہ چاندی کے برتن خریدنے خان خلیلی بازار چلی گئیں جب کہ وزیراعظم پروٹوکول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لیبر منسٹر کے دفتر چلے گئے‘ یہ وزیر کے دفتر پہنچ گئے لیکن وزیر اپنے دفتر پہنچ نہ سکا‘ وہ کسی سرکاری مصروفیت میں الجھ گیا‘ پاکستانی وزیراعظم مصری وزیر کے دفتر میں بیٹھ کر اس کا انتظار کرتے رہے یہاں تک کہ ٹیک آف کا وقت ہو گیا اور مصری اہلکار وزیراعظم کے اسٹاف کی طرف دیکھنے لگے یوں وزیراعظم لیبر منسٹر سے ملاقات کے بغیر ائیرپورٹ آ گئے‘ یہ واقعہ آج بھی مصری وزارت خارجہ میں لطیفے کی طرح سنایا اور سنا جاتا ہے اور مصری ہمیں غیرسنجیدہ اور بے وقوف کہتے ہیں۔
ہم اب آتے ہیں انا پرستی کی طرف‘ محمد مرسی مصر کے صدر منتخب ہوئے لیکن مصر کی پوری اسٹیبلشمنٹ محمد مرسی کے خلاف تھی ‘یہ صدر مرسی صدر آصف علی زرداری کی دعوت پر 18 مارچ 2013ء کو پاکستان آئے‘ ہم نے والہانہ استقبال کیا‘ جنرل عبدالفتاح السیسی نے چار ماہ بعد 13 جولائی 2013ء کو اقتدار پر قبضہ کر لیا‘ ملک میں مارشل لاء لگایا اور محمد مرسی کو گرفتار کر لیا‘میاں نواز شریف اقتدار میں آ چکے تھے‘میاں صاحب نے مصر میں فوجی مداخلت کی بھرپور مخالفت کی۔
وزارت خارجہ نے 25 جولائی کو مصر سے محمد مرسی کی رہائی کا مطالبہ کر دیا‘قومی اسمبلی نے 15 اگست 2013ء کو مذمتی قرار بھی پاس کر دی‘ مصر کوہماری قرارداد اور مطالبہ برا لگا‘ اس نے احتجاج کیا لیکن ہم باز نہ آئے‘ مئی 2014ء میں مصر میں صدارتی الیکشن ہوئے‘مصری عوام نے جنرل السیسی کو صدر منتخب کر لیا لیکن ہم نے انھیں مبارکباد نہ دی‘ مصری عدلیہ نے مئی 2015ء میں محمد مرسی کو سزائے موت سنا دی‘ ہماری وزارت خارجہ نے محمد مرسی کی سزائے موت کے خلاف بھی بیانات جاری کر دیے‘ مصری حکومت نے ہمارے سفیر کو دفتر خارجہ طلب کر کے احتجاجی مراسلہ دے دیا۔
مصر کا کہنا تھا ’’آپ ہمارے داخلی معاملات میں مداخلت کرنے والے کون ہوتے ہیں‘‘ یہ معاملہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا کہ رہی سہی کسر ریاض میں پوری ہو گئی‘سعودی عرب میں 15 دسمبر 2015ء کو 34 مسلم ممالک کی مشترکہ فوج کی تقریب تھی‘ میاں نواز شریف مصری صدر السیسی کے ساتھ بیٹھے تھے‘ مصری صدر نے پاکستانی وزیراعظم کو ’’انگیج‘‘ کرنے کی کوشش کی لیکن میاں صاحب نے لفٹ نہ کرائی‘ وہ زیادہ تر وقت دائیں بائیں دیکھتے رہے‘ مصری حکام نے اس رویئے پر بھی احتجاج کیا لیکن حکومت نے نوٹس نہیں لیا‘ کیوں؟ شاید میاں صاحب 12 اکتوبر 1999ء کی وجہ سے پوری دنیا کی فوج سے ناراض ہیں‘ یہ جنرل السیسی کو جنرل پرویز مشرف کا بھائی سمجھتے ہیں۔
ہمیں یہ ماننا ہوگا سکندر مرزا کی غلط سفارت کاری ہو‘ جنرل ضیاء الحق کی غلطیاں ہوں‘ یوسف رضا گیلانی کی حماقتیں ہوں یا پھر میاں نواز شریف کی انا ہو اس کا نقصان پاکستان کو ہوتا ہے‘ یہ دنیا گلوبل ویلج ہے اور آپ اس ویلج میں لوگوں کو ناراض کر کے اچھی اور باعزت زندگی نہیں گزار سکتے‘ہمیں اپنا رویہ ٹھیک کرنا ہوگا اور یہ کام طارق فاطمی آسانی سے کر سکتے ہیں‘  یہ میاں نواز شریف کو سمجھائیں اگر مصر کے عوام کو السیسی کی صدارت پر کوئی اعتراض نہیں تو ہم اعتراض کرنے والے کون ہوتے ہیں‘یہ انھیں بتائیں اقوام متحدہ میں امریکا اور مصر دونوں کا ووٹ ایک ہے۔
ہمیں دوسرے ملکوں کے ساتھ بھی اپنے معاملات درست کرنے چاہئیں‘ہماری وزارت خارجہ کو بھی چاہیے اگر ہمارا کوئی وزیراعظم منہ اٹھا کر کسی وزیر کے دفتر کی طرف چل پڑے تو وزارت خارجہ اسے روکے اور ہماری قومی اسمبلی کو بھی یہ سمجھنا چاہیے ہم اگر دوسرے ملکوں کے معاملات میں مداخلت کرتے رہیں گے تو پھر اس کا وہی نتیجہ نکلے گا جو 17 پاکستانی پچھلے چار ماہ سے نہر سوئیز میں بھگت رہے ہیں‘ پھرمصر جیسے ملکوں کو جہاں کوئی پاکستانی نظر آئے گا یہ اسے خوفناک مثال بنا دیں گے‘ کیا اب بھی ہمارے سنبھلنے کا وقت نہیں آیا‘ کیا ہمیں ابھی مزید جوتوں کی ضرورت ہے۔
جاوید چوہدری


اتوار، 25 دسمبر، 2016

عالم اسباب

دمشق نبی اکرم ؐ کے وصال کے تین سال بعد 635ء میں فتح ہوا‘ شہر میں دنیا کی قدیم ترین شاہراہ ’’صراط مستقیم‘‘ کے قریب زمین کا ایک مقدس قطعہ تھا‘ یہ قطعہ اراضی زمانہ قدیم سے متبرک چلا آ رہا تھا‘ رومیوں نے اپنے دور میں اس جگہ خوبصورت معبد بنایا‘ یہ وہاں صدیوں تک عبادت کرتے رہے‘ عیسائیوں کا دور آیا تو یہ جگہ ان کے قبضے میں چلی گئی‘ پادریوں کا خیال تھا حضرت عیسیٰ ؑ دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے تو وہ آسمان سے اس مقام پر اتریں گے‘ پادریوں نے مقام کی نشاندہی کے لیے وہاں ایک چبوترا بنا دیا ‘شام جب مسلمانوں کے قبضے میں آ یا تو یہ بھی اس مقام پر عبادت کرنے لگے یوں یہ جگہ تمام مذاہب کے لیے مقدس ہو گئی۔
خلیفہ ولید بن عبدالملک کا دور آیا تو وہاں دنیا کی عظیم ترین مسجد بنانے کا فیصلہ کیا گیا لیکن پادری یہ جگہ خالی کرنے کے لیے تیار نہیں تھے‘ مذاکرات ہوئے‘ بادشاہ نے دمشق میں شاندار چرچ اور زمینوں کے بدلے پادریوں کو راضی کر لیا‘ ولید بن عبدالملک کو جگہ مل گئی مگر عیسائیوں نے یہ شرط رکھی مسلمان حضرت عیسیٰ ؑ کے مقام واپسی کو نہیں چھیڑیں گے‘ خلیفہ نے شرط مان لی‘ خلیفہ نے زمین حاصل کرنے کے بعد وہاں شاندار مسجد تعمیر کروائی‘ تعمیر پر دس سال اور گیارہ ملین سونے کے سکے لگے‘ یہ مسجد جامع امیہ کہلاتی ہے‘ یہ 1300 سال بعد بھی عالم اسلام کے لیے مقدس اور متبرک مقام ہے۔
حضرت یحییٰ ؑ اور حضرت امام حسین ؓ کے سرمبارک بھی جامع امیہ میں مدفون ہیں‘ مسجد کے تین مینار ہیں‘ یہ تینوں مینار بناوٹ میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں‘ خلیفہ ولید بن عبدالملک نے مسجد کا مشرقی مینار عین اس جگہ بنوایا جہاں حضرت عیسیٰ  ؑ دوبارہ اتریں گے‘ یہ مینار سفید رنگ کا ہے اور لوگ اسے مینار عیسیٰ بھی کہتے ہیں‘ عیسائیوں اور مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق دجال شام پر حملہ کرے گا‘ حضرت امام مہدیؒ بھی دمشق تشریف لے آئیں گے‘ مسلمان دجال کے مقابلے کے لیے اکٹھے ہوں گے۔
عصر کا وقت ہوگا (بعض روایات کے مطابق فجر کا وقت) نماز کے لیے صفیں درست ہورہی ہوں گی اور اچانک حضرت عیسیٰ ؑ دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر سفید مینار پر اتر آئیں گے‘ وہ زردرنگ کی دو چادروں میں ملبوس ہوں گے اور ان کے بالوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہوں گے‘ یہ مسلمانوں اور عیسائیوں کا مشترکہ عقید ہے لیکن یہ عقیدہ ہمارا موضوع نہیں‘ ہمارا موضوع حضرت عیسیٰ ؑ ؑکادنیا میں تشریف لانے کے بعدعام لوگوں کے ساتھ پہلا مکالمہ ہے۔
حضرت عیسیٰ  ؑ جامعہ امیہ میں موجود لوگوں کو حکم دیں گے ’’سیڑھی کا بندوبست کرو‘ میں مینار سے نیچے اترنا چاہتا ہوں‘‘ لوگ یہ مطالبہ سن کر ہنسیں گے اور عرض کریں گے ’’حضور آپ آسمان سے زمین پر تشریف لے آئے لیکن آپ کومینار سے اترنے کے لیے سیڑھی چاہیے‘ کیا یہ بات عجیب نہیں‘‘ حضرت عیسیٰ ؑ جواب دیں گے ’’میں اس وقت عالم اسباب میں کھڑا ہوں اور عالم اسباب میں آپ ہوں یا میں ہم سب اسباب کے محتاج ہیں‘‘ لوگ یہ سن کر سبحان اللہ‘ سبحان اللہ کہیں گے‘ سیڑھی کا بندوبست کریں گے اور حضرت عیسیٰ ؑ زمین پر قدم رنجہ فرما دیں گے‘ امام مہدیؒ کی اقتداء میں سنت محمدی کے مطابق نماز ادا کریں گے اور دجال سے مقابلے کے لیے کھڑے ہو جائیں گے۔
میں نے جب کتابوں میں یہ وقعہ پڑھا تو عالم اسباب کی ساری تھیوری سمجھ آ گئی‘ہم مسلمان خوفناک حد تک ذہنی‘ نفسیاتی اور روحانی مغالطے کا شکار ہیں‘ ہم پوری زندگی روحانی معجزوں کا انتظار کرتے رہتے ہیں اور اس انتظار میں یہ تک فراموش کر بیٹھتے ہیں حضرت موسیٰ  ؑ کلیم اللہ تھے‘ وہ اپنے عصا سے سمندر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیتے تھے لیکن وہ بھی اپنی امت کے لیے عالم اسباب کے تقاضے نرم نہ کر سکے‘ حضرت عیسیٰ ؑ مُردوں کو زندہ کر دیتے تھے لیکن وہ اور ان کے ساتھی رومن ایمپائر کے اسباب کا مقابلہ نہ کر سکے اور نبی اکرمؐ اللہ تعالیٰ کے آخری اور محبوب ترین نبی ہیں لیکن انھیں بھی عالم اسباب میں تلوار‘ گھوڑے‘ زرہ بکتر‘ اونٹ‘ پانی‘ خوراک اور لباس کا بندوبست کرنا پڑا۔
یہ بھی اپنا دفاع کرتے رہے‘ یہ بھی جنگیں لڑتے رہے اور یہ بھی پیٹ پر دو دو پتھر باندھتے رہے‘ انھیں بھی ساتھیوں‘ دوستوں‘ بھائیوں‘ ہجرتوں‘ معاہدوں‘ جوڑ توڑ اور معاش کی ضرورت پڑتی رہی‘ یہ بھی تجارت فرماتے رہے‘ یہ بھی اپنے حسب نسب پر فخر کرتے رہے اور یہ بھی اپنے گھر آباد کرتے رہے‘ آپ کسی دن فرقے اور مسلک کی عینک اتار کر سیرت کا مطالعہ کیجیے‘ آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے ہمارے رسولؐ نے پوری زندگی کوئی ’’سب اسٹینڈرڈ‘‘ چیز استعمال نہیں کی‘ دوست بنائے تو شاندار لوگوں کا انتخاب کیا‘ غلام‘ خادم اور کنیزیں چنیں تو تہذیب‘ شائستگی اور مروت کے شاہکار پسند فرمائے۔
آپؐ نے پوری زندگی کمزور تلوار خریدی اورنہ ہی بیمار گھوڑے اور لاغر اونٹ پر سفر کیا‘ آپؐ نے لباس بھی ہمیشہ صاف‘ ستھرا اور بے داغ پہنا اور رہائش کے لیے شہر بھی معتدل‘ پر فضا اور مرکزی پسند کیا‘ آپؐ نے زندگی بھر عالم اسباب میں اسباب کا پورا خیال رکھا‘ اچھا کھانا کھایا‘ اچھا پھل پسند فرمایا‘ اچھی جگہ اور اچھے لوگ پسند کیے اوراس دور کی شاندار ٹیکنالوجی استعمال کی‘آپ غور کیجیے عرب حملہ آوروں سے مقابلے کے لیے شہروں سے زیادہ دور نہیں جاتے تھے لیکن آپؐ جنگ بدر کے موقع پر مدینہ سے 156 کلو میٹر دور بدر کے میدان میں خیمہ زن ہو ئے‘ آپؐ غزوہ احد کے موقع پر بھی احد کے پہاڑ پر چلے گئے۔
آپؐ نے عربوں کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مدینہ کے گرد خندق بھی کھودی اور آپؐ نے کافروں سے مقابلے کے لیے یہودیوں کے ساتھ معاہدے بھی کیے‘ یہ کیا تھا؟ یہ عالم اسباب میں اسباب کی بہترین مثالیں ہیں‘ نبی اکرمؐ عالم ارواح میں چند سیکنڈ میں معراج سے مستفید ہو گئے‘ وہ واپس آئے تو وضو کا پانی گرم اور دروازے کی کنڈی ہل رہی تھی‘ آپؐ نے انگلی کے اشارے سے چاند کے دوٹکڑے بھی کر دیے لیکن آپؐ جب عالم اسباب میں واپس آئے تو آپؐ  کا دندان مبارک بھی شہید ہوا‘ آپؐ طائف میں زخمی بھی ہوئے‘آپ کو بھوک‘ پیاس‘ گرمی‘ سردی اور خوف بھی محسوس ہوتا رہا‘ آپؐ کی چھت بھی ٹپکتی رہی‘ آپؐ بیمار بھی ہوئے‘ آپؐ پر زہرکا اثربھی ہوا۔
آپؐ جادو کے اثر سے نکلنے کا بندوبست بھی کرتے رہے اورآپؐ غربت اور بیماری سے پناہ بھی مانگتے رہے‘ یہ عالم اسباب کے وہ سبب ہیں جن سے کوئی ذی روح آزاد نہیں ہو سکتا‘ آپ اگر وجود رکھتے ہیں‘ آپ کی گردن پر اگر سر موجود ہے اور آپ اگر سانس لے رہے ہیں تو پھر آپ نبی ہوں‘ ولی ہوں یا پھر عام انسان ہوں آپ عالم اسباب کے تمام اسباب کے محتاج ہیں‘ آپ کو پھر مینار عیسیٰ ؑ سے اترنے کے لیے بھی سیڑھی کی ضرورت پڑے گی‘ آپ کو پھر حضرت حمزہؓ کی شہادت بھی تکلیف دے گی۔
آپ پھر والدہ کی قبر پر آنسو بھی بہائیں گے اور آپ کو پھر اچھی تلواروں‘ اچھے گھوڑوں‘ اچھے اونٹوں اور ٹرینڈ فوج کی ضرورت بھی پڑے گی‘ آپ کو پھر شفاف پانی‘ اچھی خوراک‘ طاقتور قانون‘ تیز رفتار انصاف‘ ماہر ڈاکٹرز‘ معیاری تعلیم‘ رواں سڑک اور شاندار لائف اسٹائل کی ضرورت بھی ہو گی اور آپ کو پھر سردی‘ گرمی اور وباء تینوں کا مناسب بندوبست بھی کرنا پڑے گا‘ ہم اگر عالم اسباب میں ہیں تو پھر ہمیں اسباب کا انتظام کرنا ہوگا‘ پھر ہمیں ترقی یافتہ قوموں کی طرح سبب کو ’’اسٹیٹ آف آرٹ‘‘ بنانا ہو گا‘ ہمیں پھر ایسی سیڑھی کا بندوبست بھی رکھنا ہوگا جو حضرت عیسیٰ  ؑ کو مینار سے اتار سکے۔
ایسی دوائیں بھی ایجاد کرنا ہوں گے جو امت مسلماں کو صحت مند رکھ سکیں‘ ہمیں ایسی ٹیکنالوجی بھی ایجاد کرنا ہوگی جو سردی میں گرمی اور گرمی میں سردی پیدا کر سکے‘ ہمیں انسانوں کے سکون اور آرام کا بندوبست بھی کرنا ہوگا‘ ہمیں کرہ ارض پر دم توڑتی حیات کا خیال بھی رکھنا ہوگا‘ہمیں دنیا کو ماحولیاتی آلودگی سے بھی بچانا ہوگا ‘ ہمیں مسلمانوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں سے تحفظ بھی دینا ہوگا اور ہمیں یہ بھی ثابت کرنا ہوگا مومن اسباب کی دنیا میں بھی دنیا کو اپنے برابر نہیں آنے دیتا‘ ہم محمدی ہیں اور قینچی ہو یا راکٹ ہو ہم کسی بھی فیلڈ میں دنیا کو آگے نہیں نکلنے دیں گے۔
ہم کیسے مسلمان ہیں‘ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اسباب کی دنیا میں بھیجا لیکن ہم اسباب ہی سے منہ موڑ کر بیٹھ گئے‘ اس امت کو کون بتائے گا انسان اس عالم اسباب میں سبب کے بغیر بے سبب ہو جاتا ہے اور بے سبب لوگ دنیا اور آخرت دونوں میں مار کھا جاتے ہیں‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ حلب کے مسلمانوں کو دیکھ لیجیے‘یہ لوگ اگرعالم اسباب میں اسباب کے مالک ہوتے تو کیا دنیا ان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھتی؟خدا کے لیے! آپ مسلمان ہوتوآپ عالم اسباب کو عالم اسباب مان کر اسباب کا بندوبست کرو‘ ورنہ دنیا آپ سے جینے کا حق تک چھین لے گی۔
جاوید چوہدری


جمعہ، 23 دسمبر، 2016

ہری سبزیوں اور انڈے کی زردی سے اپنی یاداشت کو بہتر بنائیں

شکاگو
تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ جن بالغ افراد کے جسم میں لیوٹین کی مقدار ذیادہ ہوتی ہے وہ کئی برس پہلے سیکھے ہوئے کاموں کو یاد کرسکتے ہیں اور معلومات کو دُہرا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ سبز پتوں والی سبزیاں ، بروکولی ( شاخ گوبھی) اور انڈے کی زردی کا استعمال جاری رکھا جائے تاکہ ادھیڑ عمری اور بڑھاپے میں نسیان سے محفوظ رہا جاسکے۔
یونیورسٹی آف الینوائے کے ماہرین نے 65 سے 75 سال کے 122 افراد کا بغور جائزہ لیا جس میں ان کے خون کے نمونوں میں لیوٹین کو نوٹ کیا اور اس دوران ایم آر آئی سے دماغی ساخت کاجائزہ بھی لیا گیا۔ ماہرین نے دماغ کے ٹیمپرل کارٹیکس پر توجہ رکھی جو کرسٹلائزڈ انٹیلی جنس کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
جن افراد کے خون میں لیوٹین زیادہ تھا انہوں نے یادداشت کے ٹیسٹ میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس تحقیق کے بعد اس پر کام کرنے والے سب سے اہم ماہر نے کہا کہ ہم محض یہ مفروضہ پیش کررہے ہیں کہ لیوٹین دماغی ساخت پر بھی اثر انداز ہوتا ہے، شاید یہ سوزش کم کرکے ایک خلیے کے دوسرے خلیے سے رابطے کو مضبوط بناتا ہے۔
دوسری جانب ماہرین نے کہا ہے کہ بعض خوراک اور اجزا عمر کے ساتھ ساتھ دماغی صلاحیت کو متاثر ہونے سے روکتے ہیں جب کہ ہری سبزیوں میں پایا جانے والاجزو لیوٹین نظر کوکمزور نہیں ہونے دیتا۔ صحت و حسن کے ماہرین کے مطابق پالک اور بروکولی کا استعمال چہرے پر جھریوں کو دور کرتا ہے اور جلد کو نمی فراہم کرتا ہے، ان سبزیوں میں ایک خاص جزو لیوٹین پایا جاتا ہے جو ’’قلمی ذہانت‘‘ کرسٹلائزیشن انٹیلی جنس والے دماغی حصے کو محفوظ اور توانا رکھتا ہے۔
روزنامہ ایکسپرس


جمعرات، 22 دسمبر، 2016

دماغ کو پرسکون اور خود اعتماد کرنے والی سانس کی مشق

کامیابی کے گر بتانے والے ماہر کیرول گیسکل اور دیگر کوچ کا کہنا ہےکہ صبح اٹھ کر صرف 3 منٹ تک سانس کی ورزش کی جائے تو اس سے پورا دن بہت تازہ دم، کامیاب اور بہترین نتائج کے ساتھ گزرتا ہے۔ دنیا کے امیر اور کامیاب ترین افراد اس ورزش کو اپنا کر اپنی صلاحیت بڑھا سکتے ہیں۔
کیرول کے مطابق گہرے سانس لینے کی مشق کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہےکہ دماغ کو کونے کونے تک آکسیجن پہنچتا ہے، اس سے ذہنی تناؤ کم ہوتا ہے، معاملات پر ارتکاز بڑھتا ہے اور تخلیقی صلاحیتیں ابھر کر آتی ہیں، دماغی سطح پر معلومات جذب کرنےاور یاد رکھنے میں بھی مدد ملتی ہیں تاہم اس پر مہارت حاصل کرنے میں کچھ وقت لگتا ہے۔
سانس لینے کا طریقہ:
خواہ آنکھیں کھلی رکھیں یا بند، اپنے ناک سے  بھرپور انداز میں سانس لیتے ہوئے تصور کریں کہ توانائی آپ کے سینے سے ہوتی ہوئی پیٹ کی جانب جارہی ہے۔ اس کے بعد بہت آہستہ آہستہ اور دھیرے سے سانس باہر نکالیں، ساتھ میں تصور کریں کہ منفی جذبات اور آپ کو پیچھے رکھنے والی ہر شے بھی باہر آرہی ہے۔
اس کی مشق کرتے رہیں اور مہارت کے بعد پورا دن آپ کا دماغ، دل اور دیگر اعضا ایک مفید توانائی کے بہاؤ سے جڑے رہیں گے۔ اس سے فیصلہ کرنے، دماغی سکون، بہتر کارکردگی اور خود اعتمادی پیدا ہوگی جسے نوٹ کرکے آپ خود حیران رہ جائیں گے۔ اسے جدید زبان میں ’’مائنڈ فل بریدنگ‘‘ کا نام بھی دیا گیا ہے۔ اس سے دماغی آوارگی کم ہوتی ہے اور انسان یکسو ہوکر بہترین نتائج حاصل کرسکتا ہے۔
مائنڈ فل انداز میں سانس لینے سے دماغ میں معلومات جذب کرنے اور اسے پروسیس کرنے میں بہت مدد ملتی ہے۔ اس سے انسان کی کارکردگی میں بہت بہتری واقع ہوگی۔ لیکن سانس کے عمل میں اس کا پورا شعور رکھیں کہ آیا سانس آنے اور جانے کا عمل بہترین ہے، کیا توانائی کے بہاؤ کو آپ کس طرح محسوس کررہے ہیں وغیرہ۔
اگر مشق میں کامیابی ملتی ہے تو سانس لینے کے عمل سے پوری طرح خبردار رہتے ہوئے سانس اندر جانے اور باہر نکالنے کا وقت بھی نوٹ کریں۔ جسم میں ہونے والے احساس کو بھی نوٹ کریں، مزید یہ بھی نوٹ کریں کہ کہیں دباؤ یا تناؤ تونہیں؟ اب سانس جو جسم کے تناؤ والے حصوں میں لے جائیں اور وہاں توانائی بھیج کر دیکھیں کہ اب کیا محسوس ہوتا ہے۔ اسی طرح مشق کرتے ہوئے اس سے فائدہ اٹھائیں اور جلد آپ کی زندگی پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
روزنامہ ایکسپرس


منگل، 20 دسمبر، 2016

چلنے سے معذور خاتون نے پہاڑ عبور کر ڈالا (عزم و ہمت کی مثال)

ہانگ کانگ
33 سالہ لائی چی وائی پانچ سال پہلے پہاڑیوں پر چڑھنے کی چیمپیئن تھیں لیکن 9 دسمبر 2011 کو ایک موٹرسائیکل حادثے نے انہیں ہمیشہ کے لیے چلنے پھرنے سے معذور بنادیا۔ اس حادثے میں کمر سے نیچے ان کا حصہ مفلوج ہوچکاتھا۔
اس سانحے کے بعد ان کے اہلِ خانہ اور دوستوں نے ان کی بھرپور مدد کی اور وہ وھیل چیئر باکسنگ کے مقابلوں میں حصہ لینے لگیں جو چلنے سے معذور افراد میں ارتکاز اور فوکس میں مدد دینے والا ایک نیا کھیل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے دل میں دوبارہ پہاڑ چڑھنے کا شوق پروان چڑھتا رہا۔پھر 2014 میں انہوں نے دوبارہ مشہور لائن راک پہاڑی پر چڑھنے کا اعلان کردیا لیکن اس بار انہوں نے 495 میٹر بلند اور دشوار پہاڑی پر وھیل چیئر کے ساتھ چڑھنے کا تہیہ کیا۔ 9 دسمبر 2016 لو چی وائی لائن راک عبور کرنے والی پہلی معذور کوہ پیما کا اعزاز حاصل کرلیا۔ انہوں نے فیس بک اسٹیٹس پر لکھا کہ عین اسی تاریخ کی رات میں نے یہ پہاڑ تسخیر کیا جب میں حادثے کا شکار ہوئی تھی اور اب میں پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھی ہوں۔
روزنامہ ایکسپرس



اتوار، 18 دسمبر، 2016

شکر کرو، توبہ کرو اور خوش رہو

ہوائی امریکا کی 40 ویں ریاست ہے‘ یہ ریاست بحر الکاہل میں ایک وسیع جزیرہ ہے‘ یہ آسٹریلیا سے قریب اور امریکا کی دوسری ریاستوں سے دور واقع ہے‘ امریکا میں تین طویل ترین ڈومیسٹک فلائیٹس چلتی ہیں‘ پہلی فلائیٹ 13 گھنٹے‘ دوسری 12 گھنٹے اور تیسری 11 گھنٹے لمبی ہے‘ یہ تینوں فلائیٹس ہوائی جاتی ہیں‘ ہونولولو ہوائی کا دارالحکومت ہے‘ یہ دنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے‘ دنیا کے اس خوبصورت شہر کی قربت میں 28 اپریل 1988ء کو ایک عجیب واقعہ پیش آیا‘ یہ واقعہ 58 سالہ ائیر ہوسٹس لانسنگ کلارا بیل (Lansing Clarabelle) کے ساتھ پیش آیا اور اس نے دنیا کے لاکھوں لوگوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔
کلارا بیل الوہا ائیر لائین میں ملازم تھی‘ یہ 28 اپریل کو فلائیٹ 243 کے ذریعے ہیلو (Hilo) سے ہونو لولو جا رہی تھی‘ فلائیٹ میں 90 مسافر اور عملے کے پانچ ارکان سوار تھے‘ جہاز نے اس دن 8 فلائیٹس کی تھیں‘ تمام فلائیٹس ہموار اور نارمل تھیں‘ موسم بھی خوش گوار تھا‘ دونوں پائلٹس بھی تجربہ کار تھے‘ وہ 8 ہزار گھنٹوں سے زیادہ فلائنگ کر چکے تھے‘ ہیلو اور ہونولولو کے درمیان 35 منٹ کی فلائیٹ تھی‘ جہاز نے ایک بج کر 25 منٹ پر ٹیک آف کیا اور یہ 20 منٹ میں 23 ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچ گیا‘ مسافر اور عملہ فلائیٹ کو انجوائے کر رہے تھے۔
پائلٹ کو اچانک فرسٹ کلاس کیبن میں کسی چیز کے ٹوٹنے اور غبارے کی طرح پھٹنے کی آواز آئی‘ وہ پریشانی میں کیمرے گھمانے لگا‘ وہ ابھی وجہ تلاش کر رہا تھا کہ اس نے ایک عجیب منظر دیکھا‘ اس نے دیکھا‘ کلارا بیل فرسٹ کلاس کیبن میں کھڑی ہے‘ اچانک جہاز کی چھت میں خلا پیدا ہوا‘ کلارا بیل اپنی جگہ سے اٹھی‘ جہاز سے اڑی، باہر گری اور خلا میں گم ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی جہاز ڈولنے لگا‘ جہاز کی چھت میں سوراخ ہو چکا تھا‘ پائلٹ نے جہاز کو کنٹرول کرنا شروع کر دیا لیکن جہاز ’’آؤٹ آف کنٹرول‘‘ ہو چکا تھا‘ جہاز کے اندر ہوا بھر گئی‘ ہوا کا دباؤ انجن کی طاقت سے کئی گنا زیادہ تھا‘ جہاز کے اندر درجہ حرارت منفی چالیس ڈگری سینٹی گریڈ ہو گیا۔
قریب ترین جزیرہ ماؤ تھا‘ پائلٹ 13 منٹ کی سر توڑ کوشش کے بعد جہاز کو ماؤ ائیرپورٹ پر اتارنے میں کامیاب ہو گیا‘ مسافر اور عملے کے ارکان محفوظ تھے‘ صرف کلارا بیل غائب تھی‘ وہ آج تک نہیں مل سکی‘ حادثے کے بعد تحقیقات ہوئیں‘ پتہ چلا‘ نمی کی وجہ سے جہاز کی چھت کے پیچ کمزور ہو گئے تھے‘ وہ ہوا کا دباؤ برداشت نہ کر سکے اور پرواز کے دوران عین اس جگہ سے اکھڑ گئے جہاں کلارا کھڑی تھی‘ پیچ نکلنے سے چھت کا ایک حصہ اڑ گیا‘ جہاز میں خلا پیدا ہوا اور کلارا اس خلا سے باہر نکل گئی‘ وہ کہاں گئی اور اس کی لاش کہاں گری امریکی فضائیہ کو آج تک اس سوال کا جواب نہیں مل سکا‘ یہ ایک واقعہ تھا‘ آپ اب دوسرا واقعہ ملاحظہ کیجیے‘ یہ واقعہ بھی ایک ائیر ہوسٹس کے ساتھ پیش آیا۔
ویسنا ولووک (Vesna Vulovic) کا تعلق سربیا سے تھا‘ وہ یوگو سلاوین ائیر لائینز میں ملازم تھی‘ وہ 26 جنوری 1972ء کوفلائیٹ جے اے ٹی 367 میں سوار تھی‘ یہ فلائیٹ اسٹاک ہوم سے سربیا جا رہی تھی‘ اس دن ویسنا کی ڈیوٹی نہیں تھی لیکن انتظامیہ نے زبردستی اس کی ڈیوٹی لگا دی‘ ویسنا نے ڈیوٹی سے بچنے کی کوشش کی لیکن اس کی ساتھی اس دن بیمار تھی اور سپروائزر کے پاس ویسنا کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا چنانچہ ویسنا کو طوعاً وکراہاً فلائیٹ میں سوار ہونا پڑ گیا۔
جہاز نے ٹیک آف کیا اور معمول کے مطابق اڑنے لگا‘ فلائیٹ جب چیک ریپبلک کی حدود میں داخل ہوئی تو دھماکا ہوا اور جہاز چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم ہو کر فضا میں بکھر گیا‘ جہاز کو بم سے اڑا دیا گیا تھا‘ بم سامان کے حصے میں لگایا گیا تھا اور وہ ٹائم بم تھا‘ تحقیقاتی اداروں کو دس دن بعد ملبے سے بم کا کلاک بھی مل گیا اور کریش کے اگلے دن ایک کروش گروپ نے ذمے داری بھی قبول کر لی‘ جہاز میں 27 مسافر سوار تھے‘ وہ تمام مسافر ہلاک ہو گئے لیکن آپ قدرت کا کمال دیکھئے ویسنا ولووک اس حادثے میں بچ گئی‘ وہ بم سے بھی محفوظ رہی اور 32 ہزار فٹ کی بلندی سے زمین پر گرنے کے بعد بھی زندہ رہی‘ یہ معجزہ کیسے ہوا؟
تحقیقات کے دوران پتہ چلا کیٹرنگ کی ایک ٹرالی حادثے کے وقت اس کی کمر کے ساتھ جڑ گئی تھی‘ اس ٹرالی نے سیٹ بیلٹ کا کام کیا اور اس نے اسے جہاز کے ٹوٹے ہوئے حصے سے الگ نہ ہونے دیا‘ وہ باہر نہ گر سکی‘ دوسرا، حادثے کے وقت کوئی لاش اڑ کر اس کے سر پر گر گئی تھی‘ لاش نے اسے اوپر سے محفوظ رکھا جب کہ جہاز کی باڈی اس کے نیچے محفوظ رہی یوں وہ 32 ہزار فٹ کی بلندی اور بم دھماکے کے باوجود زندہ رہی تاہم اس کی دونوں ٹانگیں اور کھوپڑی کی ہڈی ٹوٹ گئی‘ وہ کوما میں بھی چلی گئی ‘ وہ 23 دن کوما میں رہی‘ اسے جہاز سے نکالنے کا فریضہ ایک جرمن ڈاکٹر نے انجام دیا تھا‘ وہ ڈاکٹر دوسری جنگ عظیم میں اس نوعیت کے زخمیوں کا علاج کر چکا تھا چنانچہ اس نے اسے بڑی احتیاط سے ملبے سے نکالا اور اسپتال پہنچا دیا‘ وہ کئی ماہ زیر علاج رہی‘ وہ صحت مند ہوئی تو اسے دوبارہ سروس میں رکھ لیا گیا‘ یوگو سلاویہ نے اسے قومی ہیروئین کا درجہ بھی دیا‘ وہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی شامل ہوئی اور اسے دنیا بھر کے سول ایوی ایشن ایوارڈز بھی ملے۔
آپ اب ان دونوں واقعات کا تجزیہ کیجیے‘ ہوائی کی کلارا بیل کی موت کا وقت آ چکا تھا‘ وہ 23 ہزار فٹ کی بلندی پر تھی‘ جہاز کی چھت میں اچانک سوراخ ہوا اور وہ اڑ کر خلا میں گم ہو گئی جب کہ باقی 95 مسافر جہاز کی پھٹی ہوئی چھت اور منفی چالیس ڈگری سینٹی گریڈ کے باوجود سلامت رہے‘ اسی طرح یوگوسلاوین ائیر لائین کے 27 مسافروں کا وقت پورا ہو چکا تھا لہٰذا وہ فضائی حادثے کا شکار ہوگئے جب کہ ویسنا ولووک کی زندگی ابھی باقی تھی‘ وہ بم دھماکے اور 32 ہزار فٹ کی بلندی سے گرنے کے باوجود محفوظ بھی رہی اور وہ ابھی تک بھرپور زندگی گزار ہی ہے‘ یہ کیا ثابت کرتا ہے؟
یہ حضرت علیؓ کا وہ قول ثابت کرتا ہے جس میں آپؓ نے فرمایا تھا‘ زندگی کی سب سے بڑی محافظ موت ہوتی ہے‘ ہم بھی کیا لوگ ہیں‘ ہم موت سے بچنے کے سیکڑوں جتن کرتے ہیں لیکن یہ جب آتی ہے تو پھر یہ سمندر دیکھتی ہے‘ پہاڑ‘ خلا‘ صحرا‘ غار اور نہ ہی ایٹمی مورچہ‘ یہ انسان پر وہاں سے وار کرتی ہے جس کے بارے میں اس نے سوچا تک نہیں ہوتا‘ پانی کے دو قطرے ہماری سانس کی نالی میں پھنستے ہیں اور ہم اوندھے ہو کر گر پڑتے ہیں‘ چیل کے منہ سے ہڈی گرتی ہے‘ ہمارے سر پر لگتی ہے اور ہم دم دے جاتے ہیں‘ امیر تیمور نے آدھی دنیا میں کھوپڑیوں کے مینار بنا دیے‘ وہ تلواروں‘ تیروں اور نیزوں سے بچ گیا۔
طاعون بھی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکی لیکن وہ آخر میں سردی لگنے سے مر گیا‘ ہمایوں کو اس کے اپنے اور پرائے مل کر قتل نہیں کر پائے لیکن وہ آخر میں سیڑھی سے پھسل کر مر گیا‘ یہ کیا ہے؟ یہ موت کا وہ وقت ہے جسے کوئی ٹال نہیں سکتا اور جب انسان کا وقت نہیں ہوتا‘ قدرت اسے ابھی زندہ رکھنا چاہتی ہے تو پھر وہ برستے بموں‘ پھیلتی آگ اور ٹوٹتے پھوٹتے پہاڑوں کے درمیان بھی زندہ رہتا ہے‘ وہ مگر مچھ کے پیٹ سے بھی سلامت نکل آتا ہے‘ وہ شیروں کے غار اور سانپوں کے کنوئیں میں بھی حیات رہتا ہے‘ یہ زندگی اور موت کا کھیل ہے‘ یہ عجیب کھیل ہے۔
آپ نے بچنا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کو مار نہیں سکتی اور آپ کا وقت آ پہنچا ہے تو دنیا کے تمام ڈاکٹرز‘ تمام طبیب مل کر بھی آپ کو بچا نہیں سکتے‘ آپ سلامت ہیں تو آپ میزائل لگنے کے بعد بھی سلامت رہیں گے اور آپ کا وقت آ چکا ہے تو آپ کے لیے مچھر کا ڈنگ بھی کافی ہو گا‘ آپ کو پانی کا گلاس بھی لڑ سکتا ہے‘ ہم لوگ زندگی اور موت کے معاملے میں مکمل بے بس ہیں‘ ہم اپنی زندگی میں اضافہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی کمی چنانچہ ہمیں موت سے بھاگنے کے بجائے موت کو اپنا دوست بنا لینا چاہیے‘ یہ دوست ہماری زندگی کی حفاظت بھی کرے گا اور ہمیں زندگی کی غلاظت سے بھی بچائے گا‘ یہ ہمیں روز وہ نکتہ سمجھائے گا جو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو سمجھایا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا‘ موسیٰ جب میں کسی شخص کو کوئی چیز دینا چاہتا ہوں اور ساری دنیا مل کر اس سے وہ چیز چھیننا چاہتی ہے اور میں جب کسی کو کسی چیز سے محروم رکھنا چاہتا ہوں اور ساری دنیا مل کر اسے وہ چیز دینا چاہتی ہے تو مجھے لوگوں کی کوشش پر بہت ہنسی آتی ہے‘ ہم یہ نکتہ سمجھ لیں‘ ہم اگر موت کو اپنا دوست بنا لیں تو موت ہمیں روزانہ یہ بتائے گی‘ اے بے وقوف شخص تم غم نہ کرو‘ یہ اگر تمہارا نصیب ہے تو کوئی اسے تم سے چھین نہیں سکے گا اور یہ اگر تمہارے نصیب میں نہیں تو یہ تمہیں کبھی نہیں مل سکے گا‘ شکر کرو‘ توبہ کرو اور خوش رہو‘ زندگی بس یہی ہے۔
تحریر جاوید چوہدری



ہفتہ، 17 دسمبر، 2016

کوچنگ اور کونسلنگ


ہمیں زندگی  پہلے مل جاتی  ہے   جبکہ عقل اور شعور بعد میں ملتا ہے  جب عقل و شعور کی باری آتی ہے  تو بسا اوقات  صحیح کیا ہے ، غلط کیا ہے  ، چیز کو  حاصل کیسے کرنا ہے ، منزل کیسے پانی ہے ، منزل کی شناخت کیسے کرنی ہے ، جانا کدھر ہے ،پانا کیا ہے ، کھونا کیا ہے ، حقیقت کیا ہے  اور حقیقت  کے علاوہ کیا ہے  ان  سب چیزوں میں  ہم  کسی اور  کے محتاج ہوتے ہیں ۔ ہماری اپنی عقل ، اپنی سمجھ  اگر اپنی زندگی کو  ایک شاندار زندگی نہیں بنا رہی  تو پھر یقینی بات ہے  تو  ہمیں معاونت  اور کوچنگ کی ضرورت ہے  ۔
اس  کی تاریخ بڑی پرانی ہے   یہ سفر بابوں سے شروع  ہوتا  ہے   کسی گاؤں میں  بابا جی  کسی درخت کے نیچے بیٹھے ہوتے تھے  اور اس   گاؤں کے بچوں اور نوجوانوں  کو  سمجھایا کرتے تھے   الفاظ سےمعانی تک  کاسفر  یہ طے کرنے والے  دنیا میں بے شمار  بابے موجود تھے۔ یہی کلچر دنیا میں آج بھی  کئی جگہوں میں موجود ہے  جیسے مصر میں یونیورسٹیوں کے اندر  شام کے اوقات میں  لوگ اپنی  نوکریوں  ، اپنے کاروبار   سے ہٹ کر  بیٹھتے ہیں  آپس  میں بات کرتے ہیں   باتیں یہی ہوتی ہیں کہ  ہمیں کیسے جینا ہے ، کیسے مرنا ہے ، زندگی کیا ہے، موت کیا ہے، فکر کیا ہے، حیات کیا ہے،  مسئلے کیا ہے،  مسئلے کیا نہیں ہیں،  کیا  خوشی ہے، کیا غم ہیں۔ آج اس کی پروفیشنل شکل آ گئی  ہے   اور یہ شکل کونسلنگ    کے عنوان سے ہے  ۔ کونسلردراصل وہ شخص ہے   جومسئلے اور بندے کےدرمیان  جو تنازعہ ہوتا  ہے  اس   کی شدت کو  کم کر دیتا ہے  وہ نئے طریقے بتاتا ہے ، نئی سوچیں  بتاتا ہے اور بسا اوقات صرف احساس دلاتا ہے ۔
 جو  پرانے بابے تھے  یا ہیں  ان کا بسااوقات  پیشہ وارانہ  تجربہ  نہیں ہوتا تھا   انہوں نے  زندگی سے  اور تجربوں سے  سیکھا  ضرورہوتا تھا  اس میں کوئی شک نہیں  کہ زندگی میں تجربہ بہت بڑا استاد ہے  لیکن باقاعدہ نفسیات پڑھنا ، سماجیات پڑھنا، زمانے کے جدید علوم کو پڑھنا ، آج کا نوجوان کیسے سوچتا ہے،  آج کے چیلنج کیا ہیں  ان کو جاننا  اور پھر مسئلو ں کےحل کی طرف جانا  ان دونوں میں بڑا فرق ہے ۔ اگر ایک بندہ پروفیشنل ہے توپھر یقینی بات ہے  کہ اس کی سمجھ بوجھ بھی ویسی ہی ہو گی ، اس  کا مشاہدہ ، اس کا تجربہ  ، اس کی تعلیم ، اس کو جواطالیق ملے  وہ بھی ایسے ہی ہوں گے جنہوں نے   اسے سکھایا ہو گا  کہ کیسے آپ نے  آگے بڑھنا اور  اور کیسے آپ نے زندگی گزارنی ہے  اور کیسے کسی نتیجے پرپہنچنا ہے ۔ پرانے بابوں کے پاس بسا اوقا ت اس چیز کی باقاعدہ سمجھ بوجھ  نہیں ہوتی تھی  وہ صرف  اپنے علاقوں کو جانتے ہوتے تھے  ان کا زندگی کا مشاہد ہ کم تھا  آج یہ صورتحال بدل گئی ہے  آج باقاعدہ   کونسلر  کو تلاش کیا جاتا ہے۔زندگی کے چھ سات شعبے ہیں ، گیارہ قسم کے مسائل ہیں  ، بے شمار  طرح کے چیلنج ہیں  یہ سب چیزیں مل کر انسان کو بتاتی ہیں  کہ ہم نے ان مسئلوں کو حل کرنا ہے ۔جس طرح  آنکھوں کا علیحدہ ، دل کا علیحدہ ،  معدے  کا علیحدہ  غرض   کہ ہرمرض کا علیحدہ سے ڈاکٹر ہوتا ہے  اسی  طرح جتنے مسائل  ہیں ان تمام مسائل کے   کچھ ایکسپرٹ  ہوتے ہیں     ان کے پاس ان مسائل کا حل ہوتا ہے ۔جس طرح  ہر شخص کو  کوچنگ  کی ضرورت ہوتی  اسی طرح اداروں کوبھی ضرورت ہوتی ہے وہ مختلف شعبوں کے  کنسلٹنٹ  رکھتے ہیں  تاکہ  اپنے کاروبار میں بہتری   لائی جا سکے۔ ہر شعبے میں کہیں نہ کہیں  یہ چیزیں آ جاتی ہیں  پھر ان کی ضرورت پڑ  جاتی ہے ۔
پاکستا ن ایک ایسا ملک ہے  جہاں پر تعلیم  اور تربیت علیحدہ ہو چکی  ہیں   ان کا آپس میں فاصلہ بہت بڑھ چکا ہے ۔ماں کو اچھی ماں بننے کی تربیت نہیں ہے ، بیٹے کو اچھا بیٹا بننے کی تربیت نہیں ہے ، پاکستانی  کو اچھا پاکستانی بننے کی تربیت نہیں ہے، طالب علم کو اچھا طالب علم بننے کی تربیت نہیں ہے، نمبر لینا ہی کافی نہیں ہے گروممنگ   بھی  بڑ ی چیز ہوتی ہے ، شخصیت  کے کچھ حصے ہوتے ہیں   ان میں بہتری کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے ۔یہاں  ایک رکشے والے  کو  نہیں پتا،پیدل چلنے والے کو نہیں پتا ،  پان  کی پیپ  پھینکنے والا دیکھتا  ہی نہیں ہے  کہ  تھوکنے  کابھی کوئی طریقہ ہوتا ہے ۔ ہمیں چھوٹی بچی  کو تمیز سکھانی ہے  کہ کل کو اس نے  ماں بننا ہے ، ہمیں ایک لڑکے کو بھی سکھانا ہے کہ  اس نے پروفیشنل بننا ہے  ،باپ بننا ہے ، ذمہ داریاں اٹھانی ہیں  اس لیے جگہ ٹریننگ  کی ضرورت ہے ۔
اس وقت پاکستان میں  کونسلرز کی تعداد  بہت کم ہے  لیکن آنے والا وقت صرف ڈاکٹرز ، انجینئرز  کا نہیں ہے  بلکہ   وہ کوچ  اور کنسلٹنٹ کا  وقت ہے  کیو نکہ دنیا ایکسپرٹ کو مانتی ہے ۔ اگر آپ کسی ایک شعبے میں ایکسپرٹ ہیں  اور  اپنے آپ کو بہتر کرتےہیں تو  ایک وقت آئےگا کہ آپ نہ صرف پاکستان  بلکہ  دنیا کے نقشے پر نظر  آئیں گے اگر دیکھا جائے  دنیا میں ایک ہی بل گیٹس ہے  اس کو ضرورت ہی نہیں ہے کہ وہ مارکیٹنگ کرے    کیو نکہ  وہ پہلے ہی برانڈ بن چکا ہے ۔ جب بھی کوچنگ  لینی  ہو   تو اس شعبے کے ایکسپرٹ کو تلاش کریں ۔ 
اگر کسی شعبے کے ایکسپرٹ سے  کوچنگ لینی ہے  لیکن  جیب اجازت نہیں دیتی  تو اس کا بہتر حل یہ ہے کہ گوگل پر  ، یوٹیوب پر  یا کسی بھی سرچ انجن پر سرچ کر لی جائے  کیو نکہ  آج کل نیٹ پر ہر چیز موجود ہے اس کے  علاوہ  کو چنگ  کے کچھ قدرتی ذرائع ہیں جیسے اپنے بڑوں کی مجلس میں بیٹھیں  اور سیکھیں ، دوسروں کے تجربے اور مشاہدے سے سیکھیں  ، اپنا علم بڑھائیں  ، اپنا ویثرن بڑھائیں ، اپنے کو بہتر کریں اور بہتر کرنے کے حوالے   جو بھی چیزیں موجود ہیں ان سے فائدہ اٹھائیں ۔ اپنی ذاتی زندگی کو بہتر کریں ، سچے کھرے انسان بنیں ، پلاننگ کیا کریں  اگر یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہوں گی تو   پھر کونسلنگ  کسی حد تک مینج ہو جائے گی  یہ چیزیں   کسی ایکسپرٹ  کا  متبادل تو نہیں ہوسکتیں  لیکن    مسئلے  حل  میں  معاون  ہوتی ہیں  ۔بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ  وہ لوگ جولاعلم   ہوتےہیں  جن کا تجربہ  مشاہدہ کم  ہوتاہے  ان کو کونسلنگ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے   کیو نکہ لاعلمی  انسان کو زیادہ مسائل کی طرف لے کر جاتی ہے  وہ شخص جس میں خود اعتمادی ہے ، کامیاب ہے ، علم ہے، تجربہ مشاہدہ اچھا ہے   اس  کو زیادہ مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا  اور اس کو نسلنگ کی بھی کم ضرورت پڑتی ہے۔
نوجوانوں کے تین چار بڑے مسئلے ہیں  جس میں پہلا  مسئلہ تعلیم ہے  وہ ان سے مینج نہیں ہوتی  جس  کی وجہ سے انہیں  مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے  اس لیے انہیں کوچ کی ضرور ت ہوتی  جو انہیں پلاننگ سمجھائے ، گول سیٹنگ  سمجھائے ۔ نوجوانوں کا دوسرا مسئلہ  جوانی ہے  جس میں  محبت کا ہوجانا، خوف کا ہونا،  سیلف مینجمنٹ کی کمی ، زندگی میں فوکس کی کمی  اس قسم  کے جو مسائل ہیں ان کے حل کے لیے  بھی کونسلر کی ضرورت ہوتی ہے ۔ بسا اوقات نوجوانوں کو نفسیات  کا مسئلہ ہوتا ہے ، کوئی کمی ہوتی ہے، شخصیت کی کمزوری ہوتی ہے یہ چیزیں انہیں  مریض بنا دیتی ہیں  ایسے نوجوانوں کو بھی  کونسلر کی ضرورت ہوتی ہے ۔ شادی ایک سنجیدہ معاملہ ہے   کیو نکہ شادی کے ذریعے  پورا سماج بنتا ہے ہم شادی سے پہلے  کسی کوچ یا کونسلر کی طرف نہیں جاتے  ہم ایک بندہ  لیتےہیں  اور اس کو بغیر کسی  ٹریننگ   کے  دولہا بنا دیتے ہیں    پھر اسے  مسائل کا سامنا  کرنا پڑتا ہے۔
 کچھ لوگ  کونسلنگ  کو  میڈیسن   کے طور پر لیتے ہیں  وہ سمجھتے ہیں  کہ شائد  کونسلنگ  ان کے مسائل کا حل ہے ۔ ادویات کی اپنی اہمیت ہے لیکن کونسلنگ  ایک  ایڈوائس  انڈسٹری ہے  یعنی نصیحت  دینے کی  انڈسٹری ہے  اس میں کوئی میڈیسن نہیں ہوتی کونسلر کی   سمجھانے کی صلاحیت  اتنی اچھی ہوتی ہے کہ  وہ باتوں ہی باتوں سے   بندے  کو سمجھا دیتا ہے  لیکن  کونسلر  بندے کو بتا سکتا ہے  لیکن بندے نے کرنا خود ہی ہوتا ہے ۔کونسلر تین حصوں میں کام کرتا ہے  پہلے وہ اس مسئلے کو سمجھتا ہے  پھر حقائق بتاتا ہے   پھر  بندے کو  نصیحت کرتا ہے ۔
 بعض کونسلر بہت زیادہ موثر ہوتے ہیں ان کی شخصیت ، ان کا انداز اور ان کا علم زیادہ  موثر ہوتا ہے  ۔اچھا کونسلر بننے کے لیے  علم ہونا چاہیے اسے اپنے بارے میں پتا ہو ، اسے انسان کی نفسیات کا پتا ہو، زمانے کے علم کا پتا ہو۔ کونسلرکو ہمدرد ہونا چاہے اگر وہ ہمدرد نہیں ہے  تو پھر وہ اچھا کونسلرنہیں بن سکتا ۔ کونسلر کے پاس ویثر ن ہونا چاہیے اسے پتا  ہو  کہ جو میں نصیحت کر رہا ہوں  اس کا  کیا انجام ہو گا ،  یہ کدھر جائے گی  اور اس  کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔  کونسلر  کے اندر  یہ خاصیت ہونی چا ہیے کہ وہ اگلے کی جگہ پر آ کر سوچ سکے ۔کونسلر کو پتا ہونا چاہیے   یہ  جو کیس میں نے شروع کیا ہے  اس کو میں نے نبٹانا بھی ہے  بہت سارے لوگ ایسے ہیں  جو  کیس تو کھول لیتےہیں  پھر انہیں سمیٹنا  نہیں آتا  ۔ کونسلنگ میں اسی فیصد  کونسلر کو سننا ہوتا ہے  جبکہ بیس فیصد بولنا ہوتا ہے  جو کونسلر  صرف  بولتا ہے  سنتا نہیں ہے وہ کونسلنگ  نہیں  کر سکتا۔ جو بندہ علم کے راستے پر چلتا ہے  اس  کا مطالعہ بڑھتا ہے ، اس  کی شخصیت میں بہتری آتی ہے۔ جس بندے نے عشق  مجازی کے مثبت اور منفی  پہلو نہیں دیکھے  اور اس نے اس   سے  کچھ سیکھا نہیں ہے  تو پھر وہ عشق  مجازی میں   پھنسے ہوئے  شخص  گائیڈ نہیں کر  سکتا  علم اور تجربہ یہ دو چیزیں ایسی ہیں  جو ڈگری سے  بڑی چیزیں ہیں ۔
اس معاشرے کا سب سے بڑا  مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پر  اچھی چیزیں متعارف   نہیں ہوئیں مغر ب میں   علم متعارف ہو چکا ہے ۔ بدھا پسٹ میں    لوگوں کے ہاتھ میں ٹکٹ تھے اور ایک لمبی  لائن لگی ہوئی تھی  ایک پاکستانی پوچھتا ہے کہ  یہاں کوئی فلم لگی ہوئی ہے  تو کسی نے جواب دیا  کہ اس دفعہ      جس شخص نے لٹریچر  میں نوبل انعام لیا ہے  اس کو سننے کےلیے   یہ سارے یہاں کھڑے ہیں ۔ پاکستان میں علم کا، کونسلنگ کا  اور سیکھنے کا کلچر ابھی  تک نہیں آیا  یہاں پر لوگ کتاب پر پیسے نہیں لگاتے ، سیکھنے پرپیسے نہیں لگاتے ، اپنی ذات پر پیسے نہیں لگاتے  یہاں صرف  ایک ہی دوڑ لگی ہوئی  ہے کھانے پر کتنے پیسے لگائے جا سکتے ہیں جب یہی ہو گا تو پھر جو لوگ  سیکھنے والے ہوں گے تو  انہیں مسائل کا سامنا ہوگا۔ ہمارے ملک میں کونسلنگ کی ، ٹرینرر  بننے  کی کوئی باقاعدہ  ڈگری نہیں ہے  جبکہ دنیا   اس پر کام  کر رہی ہے ۔
جو شخص کونسلر بننا چاہتا ہے  اسے چاہیے  کہ پہلے نفسیات   کی ڈگری ضرور حاصل کریں کیونکہ اس میں باقاعدہ وہ  تمام چیزیں ہوتی ہیں  جو انسانی نفسیات  کے  بارے  میں ہوتی ہیں  ۔ وہ لوگ جن کے پاس  نفسیات کی ڈگری نہیں ہے  یا پھر انکے  لیے ڈگری لینا ممکن نہیں ہے  اور وہ کسی اور سمت میں جا چکے ہیں  ان کے لیے یہ ہے آج  بھی دنیا میں سرٹیفیکیشن ہو رہی ہیں اس کا ڈگری کے ساتھ تعلق نہیں ہے  لیکن اس  سرٹیفیکیشن  کو  کر کے  اس فیلڈکی طرف آیا جا سکتا ہے۔ اپنا مشاہد ہ اور تجربہ   بہت زیادہ ہونا چاہیے  کیونکہ یہ کام  بڑے حوصلے  والا ہے  اس میں   زندگی لگ جاتی ہے  اور  بندہ   پھر اس قابل ہوتا ہے   کہ کسی کو  کہے تو وہ اس کو مانے ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ  اس میں چھلانگ  لگائیں  اور لوگ ماننا شروع ہو جائیں  یہ بلکل ایسے جیسے سینما میں  ٹکٹ لے کر  بیٹھ جاتے ہیں  لیکن  پہلے پندرہ بیس منٹ  فلم کی سمجھ نہیں آتی   ۔اگر کوئی شخص اس پروفیشن میں آتاہے تو جس طرح دوسری فیلڈ میں زندگی  لگتی اور اس کے بعد  بندہ پروفیشنل بنتا ہے  اسی طرح ٹرینرر اور کوچ بننے  کےلیے بھی زندگی  درکار ہوتی ہے ۔


جمعہ، 16 دسمبر، 2016

میں سات سو مرتبہ جاؤں گا (سیاحت)

ازبکستان میں رحمت کا لفظ شکریہ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے‘ لوگ دایاں ہاتھ سینے پر رکھتے ہیں‘ ذرا سا جھکتے ہیں اور بڑی محبت سے رحمت کہتے ہیں‘ آپ کو یہ عاجزی پورے ملک میں ملے گی‘ ازبک بلا کے مہمان نواز بھی ہیں‘ آپ کسی کے گھر چلے جائیں وہ میز پر کھانے کا انبار لگا دے گا‘ غریب سے غریب ترین ازبک بھی مہمان نوازی میں کمال کر دے گا‘ اس کے گھر میں کچھ نہیں ہوگا تو وہ محلے میں نکل جائے گا‘ ہمسایوں کو بتائے گا ’’میرے گھر مہمان ہیں‘‘ اور ہمسائے اپنی خوراک اس کے حوالے کر دیں گے‘ یہ لوگ کھانا پکانا اور کھانا کھانا بھی جانتے ہیں۔
ازبکستان کے ہر گھر میں کھانے کے تین چار کورس چلتے ہیں‘ یہ سوپ بہت شوق سے پیتے ہیں‘ یہ سوپ کو ’’شوربہ‘‘ کہتے ہیں اور یہ شوربہ ہمارے شوربے جیسا ہوتا ہے‘ یہ لوگ گوشت بھی بہت کھاتے ہیں‘ گوشت بڑا ہو‘ چھوٹا ہو‘ مرغی کا ہو‘ گھوڑے کا ہو یا پھر یہ خشک ہو یہ ان کے دستر خوان کا ضرور حصہ ہوتا ہے‘ یہ لوگ سالاد اور فروٹ بھی پسندکرتے ہیں‘ یہ پلاؤ بنانے کے ماہر ہیں‘ ہندوستان میں پلاؤ ازبکوں نے متعارف کرایا تھا‘ یہ دو قسم کی روٹیاں کھاتے ہیں‘ پہلی قسم بیکری میں بنتی ہے‘یہ بن جیسی اور سخت ہوتی ہے‘ یہ لوگ اسے شوربے میں ڈبو کر‘ زیتون کے تیل میں بھگو کر یا پھر اس پر مکھن لگا کر کھاتے ہیں‘ دوسری روٹی افغانی نان جیسی ہوتی ہے‘ یہ اسے سالن کے ساتھ کھاتے ہیں‘ یہ دودھ سے ٹافی جیسی ایک ڈش بھی بناتے ہیں‘ یہ ڈش کُرت کہلاتی ہے‘ یہ دودھ کو باریک کپڑے میں ڈال کر دیوار کے ساتھ لٹکا دیتے ہیں۔
دودھ کا پانی نکل جاتا ہے اور کھویا پیچھے رہ جاتا ہے‘ یہ نمک ملا کر اسے دوبارہ کپڑے میں باندھتے ہیں اور دھوپ میں لٹکا دیتے ہیں‘ رہا سہا پانی بھی خشک ہو جاتا ہے‘ یہ کپڑے کو کھول کر کھوئے کی ٹکیاں بنا لیتے ہیں‘ یہ ٹکیاں کرت کہلاتی ہیں‘ کرت توانائی سے بھرپور ہوتا ہے‘ یہ لوگ اسے قہوے کے ساتھ بھی کھاتے ہیں اور اسے عام طور پربھی کھاتے رہتے ہیں‘ ازبکستان میں فروٹ اور ڈرائی فروٹ بہتات میں پایا جاتا ہے‘ یہ فروٹ کو میوہ کہتے ہیں اور دل کھول کر کھاتے ہیں‘ یہ گرین ٹی اور بلیک ٹی بھی پیتے رہتے ہیں‘ ان کے کھانے لمبے ہوتے ہیں۔
یہ لنچ ہو یا ڈنر گھنٹہ دو گھنٹہ میز پر بیٹھتے ہیں‘ یہ لوگ اس دوران دس پندرہ کپ قہوہ پی جاتے ہیں‘ ان کے کھانوں میں چربی اور گھی کم ہوتا ہے‘ یہ سالاد زیادہ کھاتے ہیں چنانچہ ان کا کھانا ہیوی نہیں ہوتا‘ ملک میں لاکھوں کی تعداد میں ریستوران ہیں اور ہر ریستوران دوسرے سے بہتر‘ معیاری اور قابل دید ہے‘ یہ لوگ ریستورانوں میں کھانا کھانا پسند کرتے ہیں‘ آپ کسی ریستوران میں چلے جائیں ویٹر مین کورس سے پہلے آپ کی میز سالاد‘ ڈرائی فروٹ‘ خشک گوشت‘ زیتون‘ اچار‘ چٹنیوں‘ مکھن‘ پنیر‘ بریڈ اور دہی سے بھر دے گا اور یہ تمام سازوسامان فری ہو گا‘یہ عادت ان لوگوں کی مہمان نوازی کو ظاہر کرتی ہے۔
ازبکستان کی اکانومی اچھی نہیں‘ آپ منی چینجر کو ایک ڈالر دیں تو وہ آپ کو سات ہزار سم دے گا‘ لوگ تھیلوں اور بوریوں میں نوٹ ڈال کر مارکیٹ جاتے ہیں‘ آپ کو ہر دکان میں نوٹ گننے کی مشین نظر آتی ہے‘ میں نے ایک گرم جیکٹ خریدی‘ قیمت پوچھی ‘ پتہ چلا 20 لاکھ سم۔ ڈالرز میں کنورٹ کر کے دیکھا‘ تین سو ڈالر بنتے تھے‘ میں نے دو ملین کی نفسیاتی لگژری کو انجوائے کرنے کے لیے جیکٹ خرید لی‘ میرے ایک دوست جب بھی ازبکستان جاتے ہیں‘ وہ سب سے پہلے ہزار ڈالر کے سم لیتے ہیں‘  نوٹ بوری میں ڈالتے ہیں‘ کندھے پر رکھتے ہیں اور اس عالم میں ہوٹل جاتے ہیں لیکن اس تمام تر کساد بازاری کے باوجود آپ کو ازبکستان میں غربت دکھائی نہیں دیتی‘ لوگ جی بھر کر کھانا کھاتے ہیں اور شاندار لباس پہنتے ہیں‘ آپ کو کسی شخص کا لباس گندہ اور جوتا خراب نظر نہیں آتا‘ خواتین سال میں ایک لباس خریدیں گی لیکن مہنگا اور خوبصورت خریدیں گی اور جب بھی باہر نکلیں گی وہ یہ لباس پہن کر نکلیں گی‘ مرد بھی ہر وقت سوٹ بوٹ اور ٹائی میں نظر آتے ہیں‘ گھر چھوٹے ہیں لیکن صاف ستھرے ہیں۔
کھانے پینے کی اشیاء سستی اوروافر ہیں‘ لوگ گھروں میں پھل دار درخت ضرور لگاتے ہیں‘ فرغانہ کے ہر گھر میں انگور کی بیل تھی‘ گوشت بہت سستا اور سبزیاں ارزاں ہیں‘ گاڑیاں بھی سستی ہیں اور زیادہ تر لوگ ذاتی کاروں کے مالک ہیں‘ حکومت عوام کو گھر بنا کر دیتی ہے‘ میں نے ہر شہر کے باہر نئے سرکاری گھر دیکھے‘ یہ گھر حکومت نے بنائے تھے اور ان میں زندگی کی تمام سہولتیں موجود تھیں‘ لوگ لبرل ہیں‘ یہ مسجدوں میں بھی جاتے ہیں اور شہر میں کلب اور شراب خانے بھی عام ہیں‘ مساجد بہت خوبصورت اور جدید ہیں‘ قاری خوبصورت لہجے میں تلاوت کرتے ہیں‘ خطبہ حکومت کی طرف سے آتا ہے‘ تمام مساجد میں عملہ حکومت مقرر کرتی ہے‘ لاؤڈ اسپیکر کی آواز مسجد کے احاطے سے باہر نہیں جاتی‘ لوگ نماز صرف مسجد یا گھر میں پڑھ سکتے ہیں‘ سرِعام اور دفاتر میں نماز پر پابندی ہے‘ تبلیغ اور دوسروں کے مذہبی عقائد پر تنقید کی اجازت نہیں‘ مدارس حکومت کے کنٹرول میں ہیں‘ ملک میں مذہبی سیاسی جماعت نہیں بنائی جا سکتی‘ مذہبی لوگوں کی سیاست میں شمولیت پر بھی پابندی ہے۔
ریاست کا عوام پر کنٹرول مضبوط ہے‘ میں سات مرتبہ ازبکستان گیا‘ میں تقریباً پورا ملک گھوم چکا ہوں‘ میں نے آج تک کسی شخص کولڑتے‘ جھگڑتے‘ الجھتے نہیں دیکھا‘ میں نے کسی کو اونچی آواز میں بات کرتے بھی نہیں دیکھا‘ آپ کو ملک میں ہر جگہ خواتین دکھائی دیتی ہیں‘ خواتین محلے کی دکان سے لے کر سپر اسٹور تک کام کرتی نظر آتی ہیں‘ یہ شام کو گھر کا کام بھی کرتی ہیں‘ تعلیم اچھی اور معیاری ہے‘ طالب علم یونیورسٹی سطح کی تعلیم آسانی سے حاصل کر سکتے ہیں‘ پاسپورٹ ان کی واحد شناختی دستاویز ہے‘ بیگم کا نام اور بچوں کی تعداد تک پاسپورٹ میں درج ہوتی ہے لہٰذا وہاں کوئی شخص خود کو کنوارہ ڈکلیئرنہیں کر سکتا‘ یہ لوگ صفائی کے بہت پابند ہیں‘ یہ گھر بھی صاف رکھتے ہیں اور محلہ اور شہر بھی۔ یہ اجتماعی صفائی کو حشر کہتے ہیں‘ یہ لوگ قومی تہواروں سے قبل باہر نکلتے ہیں اورپورے شہر کو صاف کردیتے ہیں۔
محلے کے لوگ بھی گھر کی تعمیر کے دوران ہمسایوں کو حشر کے لیے بلا سکتے ہیں‘ لوگ ان کی آواز پر اکٹھے ہوتے ہیں اور مل کر کاٹھ کباڑ اور کچرہ ٹھکانے لگا دیتے ہیں‘ لوگ موسیقی‘ رقص اور عبادت تینوں کے رسیا ہیں‘ یہ راتوں کو سجدے‘ تلاوت اور تسبیح بھی کرتے ہیںاور شادی‘ بیاہ‘ عقیقہ اور نو روز کے دنوں میں جی بھر کر گاتے اور ڈانس بھی کرتے ہیں‘ صدر اور وزیراعظم بھی گانے اور ڈانس میں پیچھے نہیں رہتے‘ یہ بھی اسٹیڈیم میں عوام کے سامنے ناچ رہے ہوتے ہیں‘ یہ ملک آزادی کے بعد اوپن ہوا تو دنیا بھر کے عیاشوں نے سستی عیاشی کے چکر میں ازبکستان کا رخ کر لیا‘ حکومت کو جلد ہی احساس ہو گیا چنانچہ اس نے کنٹرول شروع کر دیا‘ ملک میں اب زیادہ تر قحبہ خانے‘ شراب خانے اور رقص گاہیں بند ہو چکی ہیں‘ مساج کے نام پر ہونے والی عیاشی بھی ختم ہو چکی ہے لہٰذا ازبکستان میں اب صرف تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے لوگ آتے ہیں اور یہ سیدھا خیوا‘ بخارا‘ سمر قند‘ شہر سبز اور فرغانہ جاتے ہیں اور تاریخ کو کروٹیں بدلتے دیکھتے ہیں‘ یورپ سے سیکڑوں فلائیٹس آتی ہیں اور سیاح بخارا اور سمرقند میں ڈوبتے طلوع ہوتے سورج کا نظارہ کرتے ہیں۔
چار دسمبر کو ازبکستان میں صدارتی الیکشن تھا‘ حکومت نے دنیا بھر سے ساڑھے تین سو آبزرورزکو الیکشن کے مشاہدے کے لیے بلایا‘میں بھی ان آبزرورز میں شامل تھا‘ الیکشن کمیشن نے آبزرورز کی دلچسپی کو سامنے رکھ کر میزبانی کے لیے مختلف اداروں کو خطوط لکھ دیے تھے‘ اداروں نے اپنے بہترین افسر الیکشن کمیشن کے حوالے کر دیے‘ یہ افسر آبزرورز کے میزبان تھے‘ حکومت نے ہر مہمان کو ترجمان کی سہولت بھی دی‘میزبان اور ترجمان نے مہمان کو ائیر پورٹ سے لیا اوریہ واپس جانے تک ان کے ساتھ رہے‘ مجھے حکومت نے اسلامک یونیورسٹی کے ڈین عثمانوف ابراہیم اور انگریزی کے پروفیسر ارمان کی میزبانی میں دے رکھا تھا جب کہ قرشی میں ایک صحافی‘ شہر سبز میں جوڈوکراٹے کے ایک ٹرینر اور فرغانہ میں نفسیات کے ایک پروفیسر میرے میزبان تھے‘ یہ تمام لوگ پڑھے لکھے‘ تہذیب یافتہ اور محبت سے لبریز تھے‘ میں پوری زندگی اپنے میزبانوں کی مہمان نوازی نہیں بھول سکوں گا۔
ازبکستان ’’ایک بار دیکھا ‘ دوسری بار دیکھنے کی تمنا ہے‘‘ کا جیتا جاگتا ثبوت ہے‘ میں سات مرتبہ ازبکستان گیا ‘ میں سات سو مرتبہ وہاں جانا چاہتا ہوں لیکن مجھے یقین ہے میری پیاس اس کے باوجود نہیں بجھ سکے گی‘کیوں؟ کیونکہ ازبکستان اسلامی دنیا کا ماضی ہے اور ماضی کی پیاس کبھی نہیں بجھتی
تحریر جاوید چوہدری