آپؒ کا نام بشر ،
کنیت ابوالنصر ، اور لقب حافی ہے ۔
آپؒ کی ولادت مرو
میں ہوئی ۔ آپؒ تخت وتاج ہیں ، تاج بلند چیز ہے جو شخص مسند آرائے معارفت ہو وہی تاجِ اہل معاملت ہو سکتا ہے اہل معاملت
وہ ہوتے ہیں جن کا
براہِ راست رب تعالیٰ سے معاملہ
ہوتا ہے ۔ آپؒ سریر ِ معارفت ہیں، سریرِ تخت ، مسند ، یا بلند جگہ کو کہا جاتا ہے ۔ جب کسی کوتشبیہ
دی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص
شیر جیسا بہادر ہے لیکن اگر وہ اس سے بھی زیادہ بہادر ہو تو
کہاجاتا ہے کہ وہ شیر ہے اس لیے آپؒ صاحبِ سریرِ معارفت نہیں بلکہ
خود سریرِ معارفت ہیں گویا کہ جو آپؒ کے پاس سے گزر جائے اسے بھی
معارفت نصیب ہو جا تی ہے ، جو پاس بیٹھ جائے اسے بھی معارفت نصیب ہو جا تی اور جس کو آپؒ کے ساتھ نسبت ہو جائے اس کو بھی معارفت نصیب ہو جا تی ہے۔ حضرت
ابو النصر بشرالحافی ؒ ان جلیل
القدر اولیائے کرام میں سے ہیں جن کا ایک
ایک قول، ایک ایک فعل آنے والے اہل طریقت
کے لیے مرشد کا حکم رکھتا ہے۔
توبہ اور روحانیت کے حوالے سے کسی نے پوچھا "حضور آپ ؒ کیسے اس طرف آئے " آپؒ نے جواب دیا "بھئی
ہم تو دنیا داری،شراب نوشی اور دوستوں کی محفل میں رہتے تھے ایک دفعہ اسی مستی میں جا رہے تھے کہ زمین پر
ایک کاغذ کا ٹکڑا جس پر اللہ تعالیٰ
کا اسم ِ گرامی "﷽" لکھا ہوا تھا گرا دیکھا
میری غیرت نے گوارا نہ کیا میں نے اس کو اٹھا یا، چوما پاس دو ہی درہم
تھے ان سے مشک اور گلاب کا عطر
خریدا اورپاس ندی میں جاکر اس کو دھویااور
گھر
کی راہ لی اورساری راہ اس کو چومتے
رہے اور گھر جا کر اس کو اونچی جگہ پر
رکھ دیا ۔" غورطلب بات یہ ہے کہ جو شخص نشے میں ہوتا ہے وہ اپنے نشے
کے بدلے میں پوری دنیا
وار سکتا ہے لیکن نشہ
نہیں چھوڑ سکتا لیکن آپ ؒ نشے کی
حالت میں ندی میں
اتر گئے ۔ ادب کرنے کا انعام
اللہ تعالیٰ نے آپؒ کویوں دیا کہ اسی رات
اپنا دیدار کرایا اور کہا
"ائے بشر ؛تو نے میرے نام بلند کیا
میں تیرے نام کو بلند کروں گا ، تونے میرے نام کو معطر کیا میں تیرے نام کو معطر کروں گا اور ایسا خوشبودار کر دوں گا کہ قیامت تک لوگ تیرا نام محبت سے لیں گے اور
تیری محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دوں گا ۔" یہ چیز
پانے کے لیے لوگ صدیوں سفر کرتے ہیں پھر
بھی یہ انعام نہیں ملتا جبکہ آپ ؒ نےصدیوں کا سفر لمحو ں میں طےکر لیا ۔
توبہ کے بعد آپؒ نےحضرت فضیل بن عیاض
ؒ کی صحبت اختیار کی اور اپنے ماموں حضرت علی بن خشرم ؒ سے بیعت کی اور ساری زندگی بغداد میں گزاری۔
جس جگہ پر اللہ
تعالیٰ کا اسمِ گرامی گرا
ہوا ہو وہاںملائکہ اس کی حفاظت
پرمامور ہوتےہیں اور اس کا طواف کرتے رہتےہیں اس میں ایک حکمت یہ ہے کہ انہیں حکم
ہوتا ہے کہ انہیں اٹھانا نہیں ،انہیں کوئی اللہ
کا والی آکر اٹھائے گا ۔آج بھی بعض
ایسے اولیائے کرام ہیں جو سڑکوں پر بس یہی کا م کرتے ہیں ۔ حضرت
مولانا روم ؒ فرماتےہیں " کسی قوم پر اس وقت تک عذاب نہیں آتا جب تک کسی صاحب ِ دل کا دل اس قوم سے نہ دکھ جائے
یعنی بے ادبی۔" ادب اللہ تعالٰی
تک پہنچے کا شارٹ ترین راستہ ہے ۔
حضرت مجدد الف ثانی ؒ سے کسی
نے پوچھا کہ "حضور آپ کو اتنا بڑا قرب کا مقام کیسے مل گیا " آپؒ فرماتے
ہیں " ایک دفعہ میں بیت الخلاء گیا
وہاں میں نے مٹی کا ٹوٹا ہوا پیالہ دیکھا اس پر اللہ تعالیٰ
کا اسمِ گرامی لکھا ہوتا تھا
میرے ضمیر نے گوارا نہیں کیا میں
فوری طورپر اس
پیالے کو وہاں سے اٹھا کر لے آیا اور اس اسمِ گرامی کو دھویا، خوشبو لگائی ، پاک کیا ،
چوما اور اس کو پانی پینے کے لیے رکھ لیا
جب تک اس سے پانی پینا ممکن رہا میں پانی پیتا رہا ، جونہی
میں نے یہ عمل کیا مجھے اللہ رب العزت کی بارگا ہ سے حالتِ قیومیت عطا ہوئی کہ
"تم نے ہمارے نام کا ایسا احترام کیا ہے جیسا کسی نے نہیں
کیا تم نے حق ادا کر دیا ہے اب ہم
بھی تمہاری بزرگی اور مراتب کی بلندی کا حق ادا کریں گے ۔ "
یہ ادب کی انتہاہے
آج ہمیں ان اداؤں کو اپنانے کی ضرورت ہے ۔ آج ہم
گھروں میں قرآن ِ پاک رکھ کر بھول جاتے ہیں
کہ کہاں رکھا ہوا ہے ، کیلنڈروں پر
مقدس آیات، مزارات پر چڑھنے والی
چادریں ان کی بے ادبی ہورہی ہوتی ہے ۔ اس مجموعی بے ادبی کی وجہ سے
ہم لوگ گرفت میں ہیں اور
بے برکتی کا شکار ہیں۔ اس زمین
کی بقا کی زمانت ہی ادب ہے کیونکہ
اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ وہ قہار
ہے، ستار ہے بڑا مہربان ہے ، تما م انسانوں کا رب ہے وہ تمام تر بد
اعمالیوں کے باوجود مہلت دیتا ہے لیکن جونہی بے ادبی اور گستاخی ایک حد سے آگے بڑھتی ہے تو وہ مہلت
ختم ہو جاتی ہے۔آج ہم اپنے گھروں ،
اپنے اردگرد ، اپنے مدارس اور مساجد میں
دیکھیں جہاں کہیں بھی مقدس اوراق ملیں انہیں اٹھا کر علیحدہ محفوظ جگہ پر رکھیں
جائیں تب جا کر ہم پر
دوبارہ ولائیت راستے کھلیں گے ، تب آسمان سے برکتیں اتریں گی اور اللہ تعالیٰ کا فضل نصیب ہوگا ۔ اعلیٰ حضرت
احمد رضا خان بریلوی ؒ فرماتے ہیں
"سادہ کاغذ کا بھی ادب ہے ، خالی قلم
کابھی ادب ہے "، جو بچے سکول کے کام
کرتے ہیں والدین ان کو بتائیں کہ بیٹا
کاغذ ، کاپی ، پینسل کو پاؤں نہ
لگنے پائیں ان کا بھی ادب کریں۔
آپؒ کا لقب حافی
ہے جو ننگے پاؤں پھرنے کی وجہ سے پڑا ہے ،ایک دفعہ آپؒ ننگے پاؤں جا رہے تھے کہ کسی
نے کہا کہ" حضرت آپ ؒ جوتا کیوں نہیں پہنتے " آپؒ نے فرمایا"
میں نہیں چاہتا کہ زمین جو
اللہ تعالیٰ کا فرش ہے اس کے درمیان
میر ی جوتی حائل ہو ۔" اسی طرح
ایک دفعہ آپؒ اپنا جوتا ہاتھ میں پکڑ کر مرمت کروانے کے لیے موچی کے پاس
گئےاس وقت دکان پررش تھا جبکہ آپؒ
جلدی میں تھے آپؒ رش کو چیرتے ہوئے موچی
کے پاس گئے اور کہا " میرا تھوڑا سا کام ہے اس کو کر دو" موچی نے کہا " کیا تم
نے ایک تسمے کی خاطر اتنے لوگوں کو تکلیف دی "اس کا یہ جملہ آپ ؒ کے دل
کو لگ گیا اور آپؒ نے دوسرا جوتا
بھی اپنے پاؤں سے اتار دیا اور کہا "اگر اس وجہ سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے تو میں
قسم کھاتا ہوں میں
جوتا نہیں پہنوں گا ۔" پھر
جب تک زندہ ر ہے بغداد کی گلیوں میں ننگے پاؤں پھرتے رہے ۔
حضرت داتا گنج بخش ؒ فرماتے ہیں "مجاہدہ، مشاہدے کے
آگے ایسے ہےجیسے سمندر کے آگے قطرہ"۔حضرت بشر حافی ؒ کا مجاہدہ مشاہدے کے لیے نہیں تھا
بلکہ مجاہد ہ شکر گزاری کے لیے تھا کیونکہ آپؒ
کا اللہ تعالیٰ سے تعلق تو بن چکا تھا لیکن آپؒ تعلق کو نبھانے اور سنت رسول ﷺ کو پورا کرنے کے لیے مجاہد ہ کرتے ہیں ۔اس مجاہد ہ کا مطلب یہ
نہیں کہ بندہ منزل پر پہنچ گیا اور
اس کے اعمال ساکت ہو گئے اور عبادت کی کوئی ضرورت
نہیں بلکہ یہی تو عبادت کا اصل وقت ہوتا ہے
کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے اتنی
مہربانیاں کی ہیں وہاں نفس کو مارنے کی خاطر مجاہد
ہ نہیں
ہو سکتا۔ مجاہد ہ مشاہدے کے لیے ہوتا ہے
یعنی مجاہدہ مقدمہ ہے مشاہدے کا
لیکن آپؒ کے ہاں یہ معاملہ الٹ ہے یہاں پر مشاہدے کے بعد مجاہدہ ہے۔
حضرت بشر حافی ؒ فرماتے ہیں "جو شخص یہ چاہتا ہوکہ
دنیا اور آخرت میں اسے عزت ملے اسے تین
چیزوں سے اجتناب کرنا چاہیے ، وہ کسی سے
اپنی حاجت طلب نہ کرے ، کسی شخص کی برائی نہ کرے اور کسی شخص کی دعوت قبول نہ کرے۔"
اس کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ کی
معرفت حاصل ہو جاتی ہے اسے پھر مخلوق کی ضرورت
نہیں رہتی اور جو
شخص مخلوق کی ضرورت کو محسوس کرے اسے
معرفت نصیب نہیں ہوتی کیونکہ جب وہ
مخلوق کے سامنے اپنی ضرورت بیان کرے گا تو مخلوق کے سامنے اپنی
عاجزی پیش کرنے کی وجہ سے ذلیل وخوار ہوگا۔
برائی کے ساتھ ذکر نہ
کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کی
ان باتوں کو بیان کرنا جو اس کو ناپسند ہوں یہ غیبت کہلاتی ہے ۔ غیبت کے
متعلق قرآن مجید میں ارشادِ پاک
ہے:
"اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو ۔ کیا تم میں
کوئی یہ پسندکرےگا کہ اپنے
مرئے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے ؟تویہ تمہیں گوارا نہیں ہوگا۔
(پارہ26، الحجرات:12)"۔
برائی کے ساتھ
ذکر نہ کرنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ انسان اور فعل دونوں اللہ تعالیٰ کی مخلوق
ہیں اور مخلوق کا ذکر برائی کے ساتھ کرنے کا مطلب یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ کاذکر
برائی کےساتھ کرنا البتہ اللہ تعالیٰ نے جن کا ذکر
برائی کے ساتھ کیا ہے اس کا ذکر برائی کے
ساتھ کیا جائے گا جیسے فاسق
و فاجر اور کفار وغیرہ۔کھانے کی دعوت قبول
نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ مخلوق کے ذریعے بندے کوروزی پہنچاتا ہے تو بندے
کو چاہیے کہ وہ مخلوق کی طرف توجہ نہ دے بلکہ یہ دیکھے
کہ یہ رزق تو اللہ تعالیٰ نے
پہنچایا ہے مخلوق تو صرف وسیلہ بنی ہے جس کے ذریعے بندے تک
رزق پہنچ رہا ہو اگر وہ احسان جتائے تو پھر اس کا رزق قبول نہیں کرناچاہیے
کیونکہ روزی کے
معاملے میں کسی کا کسی پر کوئی احسان نہیں ہوتا۔ لیکن
جس کواللہ تعالیٰ نے ذریعہ
بنا کر بھیجا ہو اس کی
شکرگزاری ضرور کرنی چاہیے ۔آپؒ کا وصال
227ھ میں ہوا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں