حضرت ذوالنون مصری
رحمتہ اللہ علیہ
آپؒ کا نام ثوبان اور نسل کے اعتبار سے ؒ نوبی ہیں(حبشی قبیلہ) ۔آپؒ درجہ
امامت پر فائز ، جلیل القدر محدث اور
آپؒ کا شمار حضرت امام مالک ؒکے تلامذہ
میں ہوتا ہے ۔آپؒ نے مصائب اور ملامت
کا راستہ اختیا ر کیا جس کے امام
حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ ہیں ۔
صوفی کے ہاں ملامت
کا مطلب یہ ہے شریعت مطاہر ہ کو اس طرح اختیا رکرنا اور
اس پر عمل پیرا ہونا کہ دنیا سے اس کا
کوئی اجر نہ چاہنا ۔ آپ ؒ زہد، ورا، تقویٰ
، عبادت اور معارفتِ الہی کے امام
ہیں لیکن حال یہ ہے کہ اردگرد
کسی کو خبر نہیں ہے
یعنی آپؒ نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے
تعلقات کو کسی پر
ظاہر نہیں ہونے دیا ۔ یہ کڑی حضرت اویس
قرنی رضی اللہ عنہ سے ملتی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کی بارگاہِ رسالتﷺ میں مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ خلفاءراشدین کو کہاجاتا ہے کہ ان سے جا کر اپنے
لیے اور امت کے لیے دعاکروائیں اور ادھر حال یہ ہےکہ اہل یمن
انہیں دیوانہ سمجھتے ہیں۔ اتنے بڑے محدث
ہونے کے باوجود آپؒ نے مسند بچھاکر اس طرح کام شروع نہیں کیا بلکہ اپنے کمالات
اورمقامات کومخلوق سے چھپایا اور پھر ان کااجربھی اللہ تعالیٰ ہی سے مانگا ۔اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ جو
اللہ تعالیٰ کےآگے جھکتا ہے اللہ تعالیٰ
اس کو بلندی عطا فرماتا ہے ۔ آج اگر
کسی صوفی کو پرکھنا ہو تو اس
کسوٹی اور احوال پر پرکھا جائےگا ۔جب
آپؒ کا وصال ہوا تو اس وقت آپؒ کی پیشانی پر یہ جملہ لکھا ہوا تھا :"یہ اللہ
کا دوست ہے جو اللہ کی محبت میں انتقال کر گیا اور یہ اللہ کا شہید ہے۔" اس رات ستر افراد نے حضور اکرم ﷺ کی زیارت کی آپﷺ نے
فرمایا:" خدا کا محبوب بندہ دنیا سے
رخصت ہو کر آ رہا ہے میں اس
کے استقبال کے لیے آیا ہوں "
وصال کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی شان اور عظمت
کو یوں ظاہر فرمایا کہ ہزاروں کی
تعداد میں پرندوں نے پر سے پر ملا کر آپ ؒکے جنازے پر سایہ کیے رکھا جس
کو دیکھ کراہلِ مصر بہت شرمسا ر ہوئے اور
انہوں نے اپنی کی ہوئی زیادتیوں پر
توبہ کی ۔
حضرت ذوالنون مصریؒ
فرماتےہیں :"عارف شخص کی خشیت
میں روزانہ اضافہ ہوتا رہتا ہے
کیونکہ وہ ہر گھڑی اپنے
پروردگار کے اور زیادہ قریب ہوتا چلا جاتا
ہے۔"حضرت داتا گنج بخش ؒ اس کا مطلب بیان کرتے ہوئے فرماتےہیں کہ اللہ تعالیٰ
کی قربت کی وجہ سے عارف شخص زیادہ ڈرتا ہے اور زیادہ خشوع
وخضوع کا اظہار کرتا ہے ۔جیسا کہ بعض دفعہ صحابہ
کرام رضی اللہ عنہ آپﷺ کے ظاہر ی
اور باطنی احوال کو دیکھ کر متغیر ہو
جایاکرتے تھے اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں کہ
یارسول اللہ ﷺ، آپ کیوں اتنی زحمت فرماتے ہیں ، کیوں اتنی مشقت فرماتےہیں آپﷺ جواب دیتے
کہ" جب رب تعالیٰ نے مجھ پر
اتنی نوازشا ت کی ہیں ، اتنی مہربانیاں کی ہیں تو کیا
میں اس کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ "
کیفیات ِ قرب بندے کو اس شکر گزاری اور
کمالِ خشیت کی طرف لےجاتی ہیں کہ دیکھنے
والا حیران ہو جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ
یہ کوئی گنہگار آدمی ہے ۔ وہ اس کے
رونے کو ، اس کی خشیت کو اوراس کے گڑگڑانے
کو بارگاہِ الہیٰ میں دیکھ کر یہ
نہیں سمجھ پاتا کہ
یہ کوئی بہت بڑا بزرگ ہے بلکہ اس
کو لگتا ہے کہ یہ بہت ہی گنہگار
آدمی ہے جو اپنے گناہوں کو یاد کرکے رو
رہا ہے ۔ حضرت خواجہ فرید الدین عطارؒ
فرماتے ہیں کہ "معارفت تو اس کی ذات میں فنا ہونے کا مقام ہے اور جو
فانی ہی نہیں ہوا وہ عارف کیسے
ہو سکتا ہے۔" حضرت سعدی شیرازیؒ فرماتےہیں "جب دربارِ سلطان میں
کسی کا قرب بڑھتاجاتا ہے تو وہ اتنا ہی خوفزدہ رہتاہے کہ کہیں مجھ
سے کوئی ایسا عمل نہ ہو جائے جس سے میرا بادشاہ مجھ سے ناراض نہ ہوجائے ۔"
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں منقول ہے کہ ایک دفعہ
آپؑ نے بارگاہِ رب العزت میں عرض کی:
"ائے میرے پروردگار
؛ میں تجھے کہاں تلاش کروں ؟"
اللہ تعالیٰ نے
فرمایا :ٹوٹے ہوئے دلوں میں ۔"
حضرت موسیٰ ؑ نے عرض کی : کیا میرے دل سے بھی ٹوٹا
ہو ا کوئی دل ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:" میں وہیں ہوں جہاں تم ہو ( یعنی تمہارے دل کے پاس)۔"
خشو ع و خضوع کے
بغیر معرفت کا دعویٰ کرنے والا شخص صوفی نہیں ہوتا ، جاہل ہوتا ہے۔ ارادت کی
سچائی معرفت کی حقیقت کی علامت ہے اور ارادت کی سچائی اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ ہر چیز
سے انسان کے تعلق اور نسبت کو
ختم کر دیتی ہے۔
حضرت ذوالنون مصری ؒ فرماتے ہیں :
"اللہ کی زمین
میں سچائی اللہ کی تلوار ہے یہ جس چیز پر رکھی جاتی ہے اس کوکاٹ دیتی ہے۔"
حضرت داتا گنج بخشؒ فرماتےہیں: سچائی یہ ہےکہ انسان سبب
پیدا کرنے کےوالی ذات کی طرف دیکھے ،
عالمِ اسباب کی طرف نہ دیکھے جب انسان کی
توجہ سبب کی طرف ہو جاتی ہے تو وہاں سے سچائی
کا حکم ختم ہو جاتاہے۔اسباب کو دل
سے نکال دینا اور فائدہ بخش چیز کو لے
لینا اور نگاہ اللہ تعالیٰ پر رکھنا اس کی
حدود کا خیال کرنا توکل علی اللہ کہلاتا
ہے۔
ایک دفعہ حضرت ذوالنون مصریؒ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کشتی
میں دریائے نیل میں سفر کر رہے
تھے سامنے سے ایک کشتی آرہی تھی ، دور سے
محسوس ہوا کہ وہ لوگ لہوو لعب میں
مشغول ہیں اور مستیاں کر رہے ہیں۔
یہ بات آپؒ کی مریدین کو بہت ناگوار گزری انہوں نے آپؒ سے درخواست کی :شیخ ؛ آپ دعا
کریں کہ اللہ تعالیٰ ان سب لوگوں کو غرق
کر دے تاکہ ان کی نحوست ختم ہو جائے۔آپؒ
نے دعا کےلیے ہاتھ اٹھائے اور عرض کی
:"ائے میرے معبود؛ ان لوگوں کوتونے
دنیا میں اچھی زندگی دی ہے تو
انہیں آخرت میں بھی اچھی زندگی عطا فرما۔"
آپؒ کی یہ دعا سن کر مریدین بہت حیران ہوئے ۔ جب کشتی قریب آ گئی اور اس کشتی کے
لوگوں نےآپؒ کو دیکھا تو ان پر رقت
طاری ہو گئی اور وہ رونے لگے انہوں نے اپنے موسیقی کے آلات توڑ دیئے اور توبہ
کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا
۔یہ دیکھ آپؒ نے مریدین سے فرمایا:"آخرت میں اچھی زندگی اس وقت ملتی ہے جب دنیا میں سچی توبہ نصیب ہو جائے۔ تم نے
دیکھا تمہار ا مقصد بھی حل ہو گیا اور ان
لوگوں کا فائدہ بھی ہوگیا اور کسی
کو کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔"
یہ واقعہ حضرت
ذوالنون مصری ؒ کی مخلوق پر انتہائی
شفقت پر دلالت کر تا ہےآپؒ کی یہ خوبی نبی اکرمﷺ کے ارشادات
کی پیروی کو ظاہر
کرتی ہے،آپﷺ کو کفار کی جانب سے
بہت زیادیتوں کا سامناکرنا پڑا لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ کبھی رنجیدہ اور خفا نہیں ہوئے بلکہ آپﷺ یہی ارشاد فرماتے :
"ائے اللہ: میری قوم کو ہدایت عطا کر دے کیونکہ
وہ لوگ مجھے جانتے
نہیں ہیں۔"
حضرت ذوالنون مصری
ؒ فرماتےہیں : میں ایک مرتبہ بیت المقد س سے مصرآرہا تھا ، راستےمیں، میں نے کسی کو دور
سے آتے دیکھا میرے ذہن میں یہ بات
آئی کہ
کوئی سوال کرنا چاہیے جب و ہ شخص
قریب آیا تو وہ ایک بوڑھی عورت تھی جس نے اونی جبہ پہنا ہوا تھا اور اس کے ہاتھ میں ایک عصا تھا ۔ میں نے
اس سے دریافت کیا " کہاں سے آرہی ہو ؟ اس نے جواب دیا : اللہ تعالیٰ کی طرف
سے ، میں نے دریافت کیا : کہاں جانے کا
ارادہ ہے ؟ اس نے جواب دیا: اللہ تعالیٰ
کی طرف ۔ آپؒ فرماتےہیں : میرے پاس کچھ
دینا ر تھے میں نے نکال کر اسے دینا چاہے تو اس نے
میر ی طرف ہاتھ کے اشارے سے
ناراضگی کا اظہار کرتے
ہوئے کہا :ائے ذوالنون ؛تمہارے ذہن
میں جو خیال آیا ہے یہ تمہار ی عقل کی
کمزوری کی وجہ سے ہے ، میں خدا کےلیے
کام کرتی ہوں اس کے علاوہ اور کسی سے
کچھ نہیں لیتی اس کے علاوہ کسی اور
کی عبادت نہیں کرتی۔یہ بات کہہ کر وہ بوڑھی عورت مجھ سے جدا ہو گئی۔
حضرت داتا گنج بخشؒ
اس حکایت کا لطیف نکتہ بیان کرتے
ہوئے فرماتے ہیں کہ ا س بوڑھی عورت نے یہ کہا تھا: میں اس کےلیے یہ کام کرتی
ہوں ، ا س کی یہ بات اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کی سچی محبت کی دلیل ہے ۔
کسی عارف کا قو ل
ہے کہ " میں ہر کام میں نیت
کو پسند کرتا ہوں حتیٰ کہ کھانے
پینے میں، سونے جاگنے میں اور بیت الخلاء
جانے میں ۔ جو شخص اس لیے
کھانا کھائے کہ عبادت کی قوت قائم رہے ،
جماع کرنے میں
اپنی نگاہوں کی حفاظت ہو، نیک
اولاد ہو، شریک حیات خوش ہو اور حضوراکرمﷺ کے امتیوں
اور اللہ تعالیٰ کے عبادت گزاروں
کی تعداد میں اضافہ کرنا مقصود تو
ایسے بندے کا شمار
اطاعت کرنے والوں میں
ہوگا۔
حضرت داتا گنج بخش
ؒ فرماتے ہیں کہ معاملات میں لوگوں کی دو قسمیں ہوتی ہیں :
کچھ لوگ ایسے ہیں
جو عمل کرتےہیں اور سمجھ رہے ہوتےہیں کہ وہ
خدا کےلیے عمل کر
رہےہیں حالانکہ درحقیقت
وہ اپنے لیے عمل کر رہے ہوتے ہیں، اگرچہ ان کی نفسانی خواہش اس عمل
سے تعلق نہیں رکھتی لیکن انہیں آخرت کے ثواب
کا لالچ ضرور ہوتا ہے ۔ کچھ لوگ وہ
ہوتے ہیں جن کا آخرت
کے عذاب و ثواب سے کوئی واسطہ نہیں
ہوتا اور دنیا کی نمودو نمائش
کے ساتھ بھی ان کا کوئی
واسطہ نہیں ہوتا وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کےحکم کی تکمیل کے لیے
کرتےہیں اور اللہ تعالیٰ کی محبت
اس کے حکم کی تعمیل میں اپنی غرض کو چھوڑنے
کا تقاضا کرتی ہے ۔ پہلے طبقے کے لوگ سمجھتےہیں کہ جو
کچھ آخرت کے لیے وہ کر رہےہیں وہ اللہ تعالیٰ کےلیے کر رہےہیں اور انہیں اس بات کا علم ہے
کہ اللہ تعالیٰ کی فرنبرداری
کےنتیجے میں انسان کو
اجر وثواب حاصل ہوتا ہے جو کہ گنہگار
کو حاصل نہیں ہوتا اس کی وجہ یہ ہےکہ گنا ہ کے نتیجے میں حاصل ہونےوالی لذت عارضی ہوتی ہے
اور فرمانبرداری کےنتیجے میں حاصل
ہونے والی خوشی دائمی ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے کہ :
"او جو شخص مجاہدہ کرتا ہے تو وہ اپنی ذات کے لیے ہی
مجاہد ہ کرتا ہے بے شک اللہ تعالیٰ تمام
جہانوں سے بے نیاز ہے۔"(العنکبوت:6)
اس لیے بعض لوگ عافیت کے لیے
اطاعت کرتےہیں اور سمجھتےہیں کہ ہم
اللہ تعالیٰ کے لیے ایسا کر رہےہیں لیکن محبوب کے راستے پر چلنا اور چیز
ہوتی ہے ایسے لوگوں کی
کی نگاہ کسی اور چیز کی طرف نہیں
اٹھتی ۔ علم معاملہ کی انتہاءعلم
مکاشفہ ہے جبکہ علمِ مکاشفہ اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے اور یہ وہ
نور ہے جسے اللہ تعالیٰ اس
بندے کے دل میں
ڈالتا ہے کہ جس نے عبادت و مجاہدہ
کے ذریعے اپنے باطن کو
آلائشوں سے پاک کیا ہو۔
یہ بات یاد رہنی چاہیے
کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کے
مجاہدے سے بے نیاز ہے اگر
مخلوق اس کی عباد ت نہیں کرتی تو اس سے اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان
نہیں ہوگا اگر ساری دنیا کے لوگ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جتنے عبادت گزار ہو جائیں تو اس کا ان لوگوں کو فائدہ ہوگا ، اس کا اللہ تعالیٰ کی ذات کو
کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور اگر ساری
دنیا کے لوگ فرعون کی طرح اللہ تعالیٰ کا
انکار کر دیں تو اس کا نقصان بھی انہیں
کو ہوگا ، اللہ تعالیٰ کی ذات
کو اس
کا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ جیسا کہ
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"اگر تم اچھائی
کرو گے تو تم اپنے لیے اچھائی کرو
گے اور اگر تم برائی کرو گے تو یہ بھی
تمہارے لیے ہی ہوگی۔"(بنی اسرائیل:7)
اس حقیقت سے کسی کو
انکار نہیں ہو سکتا کہ دنیا میں تھوڑی
سی زندگی گزارنے کے بعد ہر شخص نے بارہ گاہِ الہیٰ میں حاضر ہونا ہے اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے جس کے اعمال اچھے ہوں گے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سبب جنت میں
جائے گا ،اعلیٰ نعمتیں اس
کا مقدر بنیں گی جبکہ
جس کے اعمال اچھے نہیں ہوں گے وہ سزا
کا مستحق ٹھہرے گا۔نجات اسی میں ہے کہ
ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب ﷺ
کے احکامات پر عمل کریں
نیکیوں کا ذخیرہ اکھٹا کریں اور
گناہوں سے پرہیز کریں تاکہ آخرت
میں اس کی رحمت کے سبب کامیابی
نصیب ہو۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں