بدھ، 7 جون، 2017

روح کیا ہے

دنیا میں بظاہر جسم کارفرما ہیں  ہاتھ ہلتےہیں ،پیر چلتے ہیں ، منہ سے  بولا جاتا ہے، آنکھیں دیکھتی ہیں  ، کانوں سے سنا جاتا ہے  لیکن حقیقت یہ نہیں ہے  حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں روح کارفرما ہے ۔ کان بھی ہوں گے لیکن سنیں گے نہیں ، آنکھیں ہوں گی لیکن دیکھیں  گی نہیں،  ہاتھ ہوں گے  لیکن  حرکت  کریں گے  نہیں ، پیر ہوں گے  لیکن   چلیں گے نہیں ، عضائے بدن تو ہوں گے  لیکن    ہوں گے خاموش  کیو نکہ  جو اصل انسانیت ہے   وہ  رو ح ہے  وہ  ہوگی تو سب چیزیں حرکت  میں آئیں گی اگر  نہیں  ہو گی   تو حرکت نہیں کریں گی۔
 روح اللہ تعالیٰ کے ایک فیصلے کانام ہے اس سے زیادہ  جانا نہیں جا سکتا ۔ انسان کے پاس  جو علم  ہے وہ بہت ہی  کم  ہے  بلکہ دیا   ہی  نہیں گیاجبکہ  روح کو سمجھنے  کےلیے  زیادہ علم چاہیے  جو  مخلوق کی شان  کے لائق نہیں ہے ۔ حضوراکرم ﷺ مدینہ منورہ سے باہر   کسی غیر آباد  جگہ  پر  صحابہ کرام رضی اللہ عنہا کے ساتھ چل رہے تھے  قریب ہی یہودی آبادی تھی ان کے مذہبی  علماء اکھٹے بیٹھے تھے  انہوں نے آپس  میں کہا  وہ  نبی   جو نبوت کا  دعویدار ہے  وہ آ رہا ہے ان سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں ان میں جو سمجھ دار  تھے انہوں نے کہا مت پوچھو ایسا نہ ہو کہ اور بے عزتی  ہو جائے  لیکن اکثر نے کہا کہ نہیں پوچھنا چاہیے  پھر انہوں نے رسول کریم ﷺ سے پوچھا تو  آپ  خاموش ہو گئے  وہ علماء گھبرا گئے اور ایک دوسرے کو کہا  ہم تو کہتے تھے   کہ مت پوچھو، اس کی وجہ یہ تھی  یونان حکماء اور فلاسفر وہ روح میں کلام کرتے تھے  جبکہ انبیاء علیہ السلام نہیں کرتے تھے   وہ اسے اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دیتے تھے ۔ کچھ دیر  بعد آپﷺ نے فرمایا "روح امر ربی ہے"۔روح وہ  امر ربی ہے  جس  کے حکم  اور پروگرام  کے ماتحت  ہمارا وجود شروع  ہوتا  ہے ۔ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ  روح کا مادہ  نور اور   یہ نور توانائی کی ایک قسم ہے  جس طرح ملائکہ  نور سے پیدا ہوئے اسی طرح روح بھی۔ سائنسی تحقیق کے مطابق  روح انسان کا وہ حصہ ہے  جس کا  موت بھی   کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔مغربی ممالک  میں  نفوس کی جو تصاویر لی گئی ہیں  ان میں  یہ ایک نوری  ہیولا کی مانند نظر آتی ہے۔
انسان کا وجود  مرکب ہے اور اس کے دوحصے ہیں ایک وجود حیوانی  ہے  اور ایک وجود روحانی  ہے۔  وجود  حیوانی جسم اور جان  پر مشتمل ہے  جبکہ وجود  روحانی   ایک  مستقل شخصیت ہے اور وہ روح  ہے ۔ جسم میں جان ایک  کیفیت  کا نام  ہے اور اس  کا جسم  سے علیحدہ  کوئی تصور  نہیں ہے  جبکہ  روح  کا  ایک اپنا مستقل وجود ہے ۔روح آسمان سے ہے جبکہ جسم زمین سے ہے ۔ روح  کی بھی آنکھیں ہیں ، کان ہیں ، عقل  ہے  جسم  کی یہ تینوں چیزیں  ان   کا تعلق  دماغ سے ہے جبکہ  روح   کی ان تینوں کا تعلق دل سے ہے۔روح دل میں رہتی ہے ، قرآن مجید  کی سورۃ حج  میں ارشاد ہے "کیا یہ لوگ زمین  میں سیر  نہیں کرتے  پھر ان کے دل    ہوتے  جن سے وہ عقل   لیتے یا کان جن سے  وہ سنتے" ، اندھی یہ آنکھیں نہیں ہوتیں   بلکہ دل  کی آنکھ اندھی ہو جاتی ہے" انسان ہونے کے ناطے  جو چیز  ہمیں دی گئی ہے وہ روح ہے ۔
جس طرح جسم   کو طاقت  کےلیے  غذا کی ضرورت  ہوتی ہے اور  وہ غذا زمین سے لی جاتی ہے ۔ روح  کو بھی طاقت  کی ضرورت ہوتی ہے  جو اسے  اللہ تعالیٰ کے کلام سے ملتی ہے ۔جسم اور روح کے روجحان    ایک دوسرے سے مختلف ہیں جسم جہاں سے آیا ہے  اسی کی طرف جھکنا چاہتا ہے  جبکہ روح اللہ تعالیٰ کا قرب چاہتی ہے۔روح ہے   لیکن اس کی تفسیر قرآن مجید  نے نہیں بتائی البتہ اشارات ہیں  وہ سوچنے  والوں کے لیے ہیں سب سے پہلے اشارہ یہ  ہے کہ روح کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات سے منسوب کیا ہے ، اللہ تعالیٰ نے فرشتوں  سے کہا   "میں سڑے  ہوئے گارے  سے خشک ہو کرکھنکھناتی ہوئی مٹی سےبشر بنانے والا ہوں ، جب میں اسے تیار کر دوں  اور پھر اپنی روح اس میں پھونک دوں  تو اسے سجدہ کرنا"   ( یہاں پہ علماء کرام  احتیاط کرتے ہیں  کہ اللہ تعالیٰ  کی شایان شان  نہیں ہے  کہ اس  میں سے  کوئی چیز نکلے )۔
 صوفیا کرام  فرماتے ہیں  کہ دنیا کی ہر مادی چیز کے ساتھ ایک غیر مادی چیز  نتھی ہوتی ہے اس غیر مادی   چیز کو جوہر کہتے ہیں روح انسان کے مادی جسم کا جوہر ہے  یہ غیر مادی جوہر جسم سے علیحدہ ہو جائے تو مادی جسم فوت ہو جاتا ہے گویا ہمارا مادی جسم  غیر مادی جوہر پر قائم ہے یہ جوہر نہیں رہے گا تو مادی جسم بھی نہیں رہے گا ۔ روح حلال ہے  اور جسم حرام، حلال نکل جائے تو جسم حرام ہو جاتا ہے اور حرام کو تدفین  کےلیے غسل بھی چاہیے  اور نمازی بھی ۔
زندگی کے جس جزو  کو  ہم حیات  کہتے ہیں  حضرت امام غزالیؒ  نے اس کا نام روح حیوانی  رکھا۔  جس  جز وکو ہم نفس  کہتےہیں   آپؒ اس کو  روح انسانی   کہتے ہیں۔  آپؒ  فرماتےہیں کہ چونکہ روح حیوانی  کا سفلی  اشیاء  سے تعلق ہے  اس لیے  علم طب  میں اس کی وضاحت  موجود ہے  اور اس کے مزاج  کو اعتدال  پر رکھنے  کےلیے علاج  مقرر ہیں  تاکہ بیماریوں سے نجات  مل سکے۔  اس کے برعکس  روح انسانی  علوی ہے  جو قلب کی حقیقت  سے تعلق رکھتی  ہے ۔
کچھ لوگوں نے روح کے متعلق  یہ فلسفہ بیان کیا  کہ   یہ ایک حرارت غریزی (خون کی گردش  سے گرمی  پیدا  ہونا )ہے  اور اس حرارت غریزی  کی وجہ سے انسان زندہ ہے ۔  کچھ لوگ کہتےہیں یہ ایک قوت نامیہ  (بڑھنے  والی )ہے۔ ہندو شاعر  برج نارائن چکبست   اس نے اس فلسفے کو  یوں بیان کیا ہے کہ  "زندگی کیا ہے  عناصر   میں ظہور  ترتیب۔۔۔ موت کیا ہے انہیں اجزاء کا پریشاں ہونا"۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا "ائے انسان   جو تیرے قریب چیز ہے اس سے محبت کرتا ہے    (یعنی دنیا سے ) اور آخر ت چونکہ تمہیں نظر نہیں آتی  اس لیے  تو اس کو چھوڑ دیتا ہے۔ "ائے  انسان وہ وقت یاد رکھ جب تیری روح نکلنے کےلیے تیر ی ہسلی  تک پہنچ جائے گی "۔
نیویارک  میں  ڈاکٹر ایل جان   نے چند ڈاکٹروں کو اپنے ساتھ  ملاکر  بارہ سو  لوگوں  پر تجربات   کیے اور یہ نتائج اخذ کیے کہ جیسے ہی انسان  فوت ہوتا ہے  اس کا وزن 67 گرام کم ہو جاتا ہے  اسی قسم کے تجربات ڈاکٹر ابراہام  نے لاس اینجلس میں کیے اور یہ نتائج اخذ کیے  کہ روح کا وزن 21 گرام ہے لیکن ان تجربات  کے باوجود  بھی یہ نہیں کہا جا سکتا  کہ اصل میں روح کا وزن  کتنا ہے۔سائنس کے  پاس اس بات کا کوئی جواب  نہیں ہے کہ انسان کہاں چلا جاتا ہے اس  کی روحیں کائنات میں گردش  کرتی رہتی ہیں  یا  کوئی نیا بدن ،  کوئی نیا جسم تلاش کر لیتی ہیں  سائنس اس  کاابھی تک  کوئی تسلی بخش جواب تلاش  نہیں کر سکی۔
روسی سائنسدان کونستییتن کروتکوف نے دعوی کیا ہے کہ اس نے مرتے ہوئے آدمی سے نکلتے ہوئے روح کی فوٹوگرافی کی ہے- اس کے مطابق نکلتی ہوئی روح روحانی سائیکل پر مشتمل ہے جسے اُس نے ”چکرا“ کا نام دیا. روحانی چکرا کا تصور پرانی انڈین تہذیب میں پایا جاتا ہے، ان کے مطابق سات روحانی چکر پوتے ہیں۔.
کروتکوف روس میں ”سینٹ پیٹرزبرگ یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، آپٹیک اینڈ میکنک“ میں پروفیسر ہے. اس نے ”جی وی سی“ نامی ایک کیمرہ بنایا جو بائیو انرجی کی پیمائش کرتا ہے. یہ ایک الیکٹرک کرنٹ کے ذریعے کام کرتا ہے جو فنگر ٹپ سے لگا کر ملی سیکنڈ سے کم وقت میں سگنل بناتے ہیں. جب الیکٹرک چارج جسم پر سے پاس کیا جاتا ہے تو ہمارا جسم ایک قسم کے ”الیکٹران کلاؤڈ“ کے ذریعے جواب دیتا ہے جو فوٹان سے بنا ہوتا ہے. فوٹان کی یہ چمک ایک خاص قسم کے آپٹیکل ”سی سی ڈی“ کیمرہ کے ذریعے Capture کیا جاتا ہے اور اس کو کمپیوٹر میں ترجمہ کیا جاتا ہے. ہر فنگر ٹپ کا Sect مختلف اعضاء اور جسمانی نظام کی نمائندگی کرتا ہے. کمپیوٹر پروگرام جسم کی تصویر بنا کر اس کے گرد Auric cloud بنا دیتے ہیں جو ہر چکر سے مطابقت رکھتی ہے.
پرانے آئرویدک انڈین میڈیسن کے مطابق فنگر ٹپ کا ہر حصہ جسم کے مختلف حصوں اور اس کے اندر نظام سے مطابق رکھتے ہیں. اس کے مطابق جسم میں سات انرجی پوائنٹ ہوتے ہیں. کروتکوف نے یہ ائیڈیا لے کر ٹیکنالوجی پہ استعمال کیا. کچھ لوگوں کی طرف سے یہ دعوی بھی کیا جاتا ہے کہ روح کا وجود ہی نہیں، لیکن کروتکوف کا تجربہ کرکے ثابت کر دیا کہ روح موجود ہے اور موت کے پیچھے کچھ نہ کچھ کارفرما ہوتا ہے۔
قرآنی تعلیمات   سے پتا چلتا ہے کہ  روحیں اس وقت بھی موجود تھیں  جب انسانی جسم کی تخلیق   نہیں  ہوئی تھی۔ جب حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی تو تمام انسانیت کی  روحیں  حضرت آدم  علیہ السلام  کے جسم میں داخل  کر دی گئیں۔  یہ جنت  کے زمانہ کی بات ہے۔   چنانچہ  قرآن مجید  میں ارشاد ہے کہ "ہم نےحکم دیا کہ تم سب یہاں  اتر جاؤ۔  پھر اگر تمہارے  پاس  میر ی طر ف سے کوئی ہدایت  آئے، تو جو میری  ہدایت کی اتباع کرے گا۔ نہ ہوگا  ان کے لیے  کوئی خوف اور نہ کوئی غم۔" (سورۃالبقرہ آیت 38)۔ یہ بھی کہاجاتا ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا  کیا گیا  تو ان کی ہتھیلی پر چھوٹے چھوٹے ذرے رکھے گئے وہ ان کی مٹھی  میں آ گئے ان میں کچھ کالے تھے ، کچھ سفید تھے،  کچھ سرخ تھے  انہیں کہا گیا یہ تمہاری آل اولاد ہے ۔سید سرفراز شاہ صاحب فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے  روحوں کو تخلیق کرنے  کے بعد  اُس آسمان پر اتارا جہاں فرشتے رہتے ہیں  وہاں پر  انہیں  فرشتوں کے نور  میں غسل  دیا گیا  اور اس کا نام روح پاکیزہ رکھا گیا۔ وہاں سے  پھر انہیں تیسرے آسمان پر اتارا گیا  اورایک بار  پھر غسل دیا گیا  جس کے بعد اس  کا نام روح متحرکہ رکھا گیا  ۔
دنیا میں روانگی کے وقت روح کو ایک ٹاسک دیا جاتا ہے کہ  جب تک یہ زمین پر  ہے اپنے خالق  کی طرف رجوع رکھے گی۔دنیا میں آنے اور  بلوغت  کی حد تک پہنچنے  کے  بعد روح اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع تو رکھتی ہے  لیکن اس طرح نہیں  جس طرح  رجوع رکھنے  کا حق ہے لیکن اللہ تعالیٰ اس سرسری  رجوع کو بھی قبول کرتا ہے  اسے رائیگاں نہیں جانے دیتا۔ اگر کوئی روح  ہمیشہ اپنے خالق سے رجوع رکھتی ہے  تو اللہ تعالیٰ اسے اپنا علم عطا  فرماتا ہے  پھر اسے دین کی سمجھ   بھی آجاتی ہے یہی وہ مقام ہوتا ہے  جس کے بارےمیں حضوراکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا"مومن کی فراست سے  ڈرو  کیونکہ  وہ اللہ تعالیٰ کے نور کی مدد سے دیکھتا ہے  (جامع ترمذی، حدیث نمبر 3052)۔"   مزید قرآن مجید میں  ارشاد ہوتا ہے "(ائے نوع انسانی )اللہ تبارک وتعالیٰ  کی  اپنے  اوپر مہربانی  یاد کرو اور اس وعد ہ پر غور کر  جس  پر تم  نے پابند  رہنے کا عہد کیا۔ اس وقت  تم سب نے یہ کہا  تھا کہ  ہم  نے اس  وعدہ  کو اچھی  طرح سن لیا  اور اطاعت کی۔ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو  (اب تم اس وعدہ  کے مطابق  اپنے رب  کے فرائض کو پورا کرو) بیشک  اللہ تعالیٰ  تمہارے دلوں  کے اندرونی  راز بھی خوب اچھی طرح  جانتا ہے ۔" (سورۃ المائدہ  آیت 7)
جب شکم مادر  میں بچے کی تخلیق شروع ہوتی ہے  اور  دل وجود میں آتا ہے  تو اس وقت روح کو آسمان سے روانہ کر دیا جاتا ہے  اور ایک فرشتہ  اس روح کو دل  کے عین وسط  میں  رکھ دیتا ہے اور  روح وہاں قید ہو جاتی ہے۔  چنانچہ حضوراکرمﷺ نے فرمایا" ماں کے پیٹ میں  بچے کے آغاز  کو جب چالیس  دن ہوتےہیں  تو اس میں روح داخل ہوتی ہے۔" پیدائش کے بعد  حالات  اعتقادات  اور اعمال  کے اثرات  کے نتیجہ میں  یہی   فطری روح، نفس  کی شکل اختیار کر لیتی ہے   جیسے بیج سےپودا اگتا ہے۔ ہمارا  مستقبل   ہماری نفس  کی اس حالت  پر منحصر ہے   جس حالت  میں اس  دنیا کو  ہم چھوڑتے ہیں۔  سائنس کہتی ہے  انسان  جب ماں کے پیٹ میں  ہوتا ہے تو ایک لوتھڑے  کی مانند ہوتا ہے  اچانک وہ سانس لیتا ہے  اور اس میں زندگی آجاتی ہے۔
جب انسان پیدا ہوتا ہے  تو یاداشت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے ۔  انسان خواہ  کہیں  کا ہو،  کسی بھی زمانہ  کا ہو اس میں اللہ تعالیٰ کی ذات  کا احساس ضرور ہوتا ہے  یہ اور بات ہے کہ   بسااوقات  ماحول  کے زیر اثر  وہ اس کا پورا ادراک  کرنے سےقاصر  ہوتا  ہے۔ کچھ  لوگ ایسے  ہوتے  ہیں  جن سے ہم کچھ لمحوں کے لیے ملتے ہیں  لیکن ایسا محسوس  ہوتا ہے  جیسے ہم پہلے ملے ہوئے ہیں  چند سیکنڈ میں ان کے ساتھ  ہماری گہری  وابستگی ہوجاتی ہے   جبکہ  کچھ ایسے لوگ ہوتےہیں جن کے ساتھ پوری زندگی گزر جاتی ہے  لیکن ان کے ساتھ دوستی نہیں ہوتی  اور کچھ ایسے لوگ ہوتےہیں  جو بہت زبردست ہوتےہیں   لیکن ہمیں انہیں دیکھتے ہی چڑ ہو جاتی ہے   اور  بغیر کسی وجہ  کے  ان کے ساتھ  نفرت کرنا شروع کر دیتےہیں  ۔ حدیث شریف  کا مفہوم ہے  کہ "اللہ تعالیٰ نے روحوں کو گروپوں  کی شکل میں پیدا کیا  "، کسی گروپ میں بیس لوگ تھے ، کسی میں تیس ،  کسی میں دو،  کسی میں سو  تھے   وہ گروپس  صدیوں ایک ساتھ رہے ہیں صدیوں ایک ساتھ رہنے کے بعد   اللہ تعالیٰ نے ان  کو پیدا  کر دیا   ان میں  کوئی آسٹریلیا میں پیدا   ہوا  ،  کوئی بھارت میں پیدا  ہوا،  کوئی پاکستان میں پیدا ہو ا،  پھر ہوتا  یہ ہے کہ جب ان کی  کہیں اچانک ملاقات ہو جاتی ہے  تو  کشش محسوس ہوتی ہے  اور وہ کشش  دوستی میں  منتقل  ہو جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے روح میں  غلط اور صحیح   کی تمیز شروع سے رکھی ہے  جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے "قسم  ہے نفس کی  اور اس کی  جس نے اسے سنوارا، اس کو صحیح اور غلط کی تمیز عطا کی ، بے شک  اس نے فلاح پائی  جس نے (اس کو نیک  کاموں سے ) سنوارا۔  اوریقینا ناکا م ہوگیا  جس نے خراب  کیا ۔" (سورۃ الشمس آیت 7 سے10)۔  اصل میں روح اللہ تعالیٰ کا ایک عطیہ ہے  جس  کا زندگی کے ساتھ تعلق ہے جب تک وہ عطیہ انسان کو نہیں ملتا  اس وقت  نہ انسان کا شعور  متحرک ہوتا ہے  اور نہ  جسم۔جب روح کو مطمئن نہیں کیا جاتا  اس وقت تک ہماری زندگی  مکمل نہیں ہوتی   اس وقت  تک ہم ایک اچھی اورخوبصورت زندگی نہیں  گزار سکتے۔ ہر وہ کام  جو مثبت ہے    اگر  اس  کو کیا جائے  تو  روح مطمئن ہو گی اور ہر  وہ کام  جو منفی ہے  اس کو جب بھی کیا جائےگا    روح بے چین ہو جائےگی ۔ مثبت کام وہ ہوتا ہے  جو دوسرے آدمی کو تکلیف نہ دے  بلکہ خوشی دے   جبکہ  منفی کام  وہ ہوتا ہے   یاہر وہ چیز جو کسی  کو تکلیف دے  منفی ہوتا ہے۔
روح کی زندگی کبھی ختم نہیں ہوتی ۔روح  جب پہلے عالم حیات میں آتی ہے ، پھر عالم برزخ میں اور پھر  عالم آخرت میں  جائے گی۔ عالم ارواح میں  روحوں نے اللہ تعالیٰ سے وعدہ کیا تھا   کہ ہم تیری عبادت کریں گے  اللہ تعالیٰ نے اس  وعدے کے ازمانے کے لیے دنیا میں بھیجا  کہ دیکھا  جائے کون  وعدہ پور ا کرتی  اور کون نہیں ۔

روح  قبض ہونے  کا عمل  اتنا تکلیف دہ نہیں ہوتا  ، ہلکی کی سنسناہٹ ہوتی ہے   اس کا آغاز  پاؤں کے انگوٹھےسے ہوتا ہے ۔ انسانی ذہن کو  یوں محسوس ہوتا ہے  جیسے  اس  کا جسم رفتہ فتہ  فضا میں بلند ہو رہا ہے  اور چاروں طرف سناٹا پھیل جاتا ہے۔   روح قبض ہونے سے قبل  جب نزع  کا عالم ہوتا ہے  اس میں کچھ لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے۔  لیکن یہ بھی  کہا جاتا ہے کہ قبض روح کے وقت  جب یہ کھینچی جاتی ہے  تو یہ ایسے ہی ہے  جیسے انسان  کا ٹنے دار  جھاڑیوں  میں  کھینچا  چلا جاتا ہوں  لیکن مو ت کے وقت  انسان کے چیخنے   چلانے  کی قوتیں جواب دے چکی ہوتی ہیں  اس لیے وہ فریاد نہیں کر سکتا۔ حضرت امام غزالی ؒ فرماتےہیں  اگر کافر  دنیا میں نیک اعمال  کرتا رہا  تو اس پر قبض روح  کا مرحلہ آسان  رہتا ہے تاکہ اس کی نیکی کا بدلہ اس کو مل جائے  اور اللہ تعالیٰ  پر آخرت  میں اس کا کوئی حق نہ رہ جائے۔ کافر ہو، مشرک ہو،بدمذہب ہو یا گناہگار ہوان کے لیے اللہ تعالیٰ  کا  قانون ہے  ان کی روح تکلیف کے ساتھ ہی نکلے گی  لیکن نیک  کے معاملے میں  دو طرح کی روایات ہیں   کہ اللہ تعالیٰ نے اس نے نیک بندے جو درجات  مقدر فرمائیں ہوئے ہیں اگر وہ اپنے ذاتی اعمال کے ذریعے ان تک پہنچ چکا ہوتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اسے موت کے وقت انتہائی آسانی عطا فرماتا  ہے اور اس کی روح ایسے نکالی جاتی ہے جیسے آٹے میں سے بال نکالا جاتا ہے،  نیک  آدمی کے اعمال چاہے کتنے ہی کثیر ہوں  لیکن اللہ تعالیٰ نے جواس کے لیے درجات مقدر فرمائے تھے وہاں تک اس کی رسائی  نہیں  ہو پا رہی توپھر اس  نیک آدمی کو بھی موت  میں تکلیف دی جاتی ہے  اور وہ اس کو تکلیف   کو محسوس کرتاہے اور اس  کی اس  تکلیف پر صبر کرنا  اور اس  تکلیف میں مبتلا ہونا اس  کو ان درجات تک پہنچا دیتا ہے  جو اللہ تعالیٰ نے اس کے  لیے مقرر فرمائے ہوتےہیں۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں