ہفتہ، 3 جون، 2017

لیڈرشپ

لیڈرشپ
لیڈر ویثرن سے ہے  ، سوچ سے ہے ، لیڈ کرنے سے ہے۔ لیڈرایک رول ماڈل ہوتا ہے ، ایک مثال ہوتا ہے۔ حوصلے کا نام  لیڈر شپ ہےحوصلے کے بغیر ، قیمت ادا کیے بغیر  لیڈر  بننے کی خواہش  صرف خواہش ہی ہوتی ہے ۔ کچھ  لوگ پیدائشی  لیڈر ہوتے ہیں ان  میں خداداد صلاحیتیں ہوتی ہیں بعض  کی  لیڈرشپ  مخصوص حالات میں جاگتی ہے۔ معاشرے میں   کچھ  ایسے  لوگ  ہوتے ہیں جو  معاشرے کو لے کر چلتے ہیں معاشرے  کے لوگ ان کو اپنا نمائندہ  سمجھتے ہیں ایسے لوگوں  کو لیڈرکہاجاتا ہے۔ ہر بندہ  اپنے کل   کو نہیں دیکھ سکتا  یہ  ایک  لیڈر ہوتا ہے  جو  لوگوں   کے مسائل  اور چیلنجز  کو سامنے رکھتے ہوئے  ان  کو ان کے کل کے بارے  میں  بتاتا ہے۔  جناح ؒ ایک بہت بڑا نام ہے  ان کے بارے  میں کہا جاتا ہےاگر  پاکستان کو مزید  کچھ سال  آپؒ  کی لیڈرشپ مل جاتی  تو آج پاکستان کی حالت  بہت  بہتر ہوتی ۔ لیڈر قوموں کی  زندگی  کا  اور ان کے مستقبل کا تعین کرتا ہے۔    لیڈر اور اس  کے ماننے والوں کے درمیان  ایک احساس  کا رشتہ ہوتا ہے ۔جب تک ایک  لیڈر کا  اپنے فالورز کے درمیان احساس  اورمحبت   کا رشتہ  نہیں ہوگا تب تک  وہ اچھا  لیڈر  نہیں بن  سکتا ۔ لیڈر  بنتا ہی اس وقت ہے  جب اس  کے اور  اس کے ماننے  والوں کے درمیان  احساس  کا رشتہ  قائم ہو ۔ جب تک  شخصیت  متاثر کرنے والی نہیں ہوگی اس وقت تک بندہ لیڈنہیں کر سکتا ۔ لیڈر ٹیم  کا حصہ ہوتا ہے ٹیم  اس سے متاثر  ہو کر  اس  کی پیروی کرتی  ہے ۔  غزوہ خندق کے موقع پر حضوراکرمﷺ اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کے  ساتھ مل  خند ق کھودتے  نظر آتے ہیں ۔ لیڈر  کا موٹیویٹ ہونا بہت  ضروری  ہوتا ہے  کیونکہ   اس  کی  موٹیویشن کی ٹیم  کو ضرورت  ہوتی ہے وہ  موٹیویشن   ٹیم  میں  منتقل ہوتی ہے۔ یہ لیڈر کا  جذبہ اور  جملے  ہوتے   ہیں  جو   ٹیم کو  آگ پر چلنے پر مجبو ر کرتےہیں ۔
پچھلی صدی کےشروع  کا  جو وقت  تھا  وہ  لیڈرز  کا وقت تھا قدرت کو پتا  تھاکہ اس وقت دنیا  کو لیڈرز   کی ضرورت ہے  اس لیے اس وقت  قدرت نے لیڈرز  پیدا  کیے ۔ اس وقت ہر  علاقے میں  لیڈرز  جنم  لیتے  نظر  آتے ہیں  اگر  کہیں چرچل ہے تو   کہیں پر  نپولین ہے اگر کہیں محمد علی جناحؒ  ہے  تو کہیں پر کمال اتاترک ۔  عام طور پر  جس سوسائٹی نے اٹھنا  ہوتا ہے جس  نے آگے جانا  ہوتا ہے  پہلے  اس  میں لیڈرز پیدا   ہوتے ہیں پھر سوسائٹی آگے جاتی  ہے ۔  ہر شعبے  کا ایک اپنا  لیڈر ہوتا ہے  کسی بھی  ملک کو بہتر  بنانے  کے لیے صرف ٹاپ لیڈرشپ  کا اچھا  ہونا  ہی  کافی  نہیں   ہوتا  بلکہ  ہر شعبے  میں اچھی  لیڈرشپ کی ضرورت  ہوتی  ہے جب  یہ  ہو تو پھر   قوم بھی ترقی  کرتی  ہے اور ملک بھی  ۔ کہا جاتا ہے کہ قیادت کی بہتات  قائد  کا فقدان  کر د یتی ہے ۔لیڈر شپ کے لیے بہتر ہے کہ صرف ایک بندہ ہو  جس کے زیر سایہ  سارے لوگ چلیں ۔    ایک دفعہ  قائداعظمؒ  چل رہے تھے  تو اس وقت کے بڑے  بڑے  علما ئے  کرام ان کے پیچھے پیچھے  تھے  لیاقت  علی خان نے آپؒ سے پوچھا  "یہ کیا خاص بات ہے   کہ وہ  علما ئے کرام  جن کے پیچھے زمانہ چلتا ہے وہ آپ کے   پیچھے چل رہے ہیں " قائداعظمؒ نے  جواب دیا "دیکھو  لیڈروالا کردار ہو  تو زمانہ پیچھے ہوتا ہے اگر لیڈر والا کردار نہ ہوتو پھر  بندہ   پیچھے  چلنے والا  بن جاتا ہے۔"
بعض اوقات حالات  ایسے  ہوتے   ہیں  کہ  پورا  معاشرہ  خاموش ہوتا ہے  اس وقت ایک  شخص سوچتا  کہ اگر میں  اس وقت نہ بولا  تو پھر  کوئی نہیں بولے گا ، اگر میں   اس وقت  نہ اٹھا  تو  کوئی نہیں اٹھے گا  یہ  حالات بندے  کی سوئی  ہوئی  لیڈرشپ کو جگا دیتے ہیں۔  اس  کے اٹھنے سے  پورا  معاشرہ اٹھ جاتا ہے اور کتنوں  کی زندگیاں بدل دیتا ہے ۔ کہا جا تا ہے کہ  جو لیڈر ہوتا ہے اس میں سو روحانی  بندوں  جتنی طاقت ہوتی ہے۔  لیڈ کرنے والے   کےپاس  یہ صلاحیت ہوتی ہے  کہ اس کا ایک فیصلہ زمانے کو  بدل  کر رکھ دیتا ہے ۔ تاریخ   میں دیکھا جائے   تو اگر ایک لیڈر  نے جنگ کا فیصلہ کیا  تو  کروڑوں  لوگوں    کو  اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھونا پڑ گیا۔  اگرایک  لیڈر نے   امن سے  رہنے کا فیصلہ کیا تو پوری قوم بچ گئی ۔  اگر ایک لیڈر نے فیصلہ کیا کہ ویلفیئر   اسٹیٹ  بنانی ہے   تو  پوری  قوم ویلفیئر  کی طرف چلی گئی ۔  اگر ایک لیڈر   نے فیصلہ  کیا  ہم  نے ایجو کیشنل ا سٹیٹ بنانی ہے   تو پوری  قوم ایجو کیشن  کی طرف چلی گئی۔ڈنمارک دنیا  کا ایک ایسا ملک ہے  جس میں پچھلے پچاس سال  میں  گنتی  کے لوگ  قتل ہوئے ہیں  جبکہ   ہمارے  ہاں ایک دن  میں اتنے قتل ہو جاتےہیں اس کی  وجہ یہ   ہے  کہ ان  کی لیڈرشپ نے فیصلہ کیا  کہ ہم  نےا یک ایسا ملک بنانا ہے جہاں پر امن ہوگا ۔
بعض ایسے لیڈرز ہوتے ہیں جن  کو  لوگ  قبول  نہیں کرتے تاریخ میں  ایسے  جتنے بھی  لیڈرز  گزرے  وہ  لوگوں کے انکار کے باوجود  دوبارہ اٹھے  اور انہوں نے  کام کرناشروع  کردیا ۔   درحقیقت بڑی بڑی  ناکامیوں کے بعد   کامیابی ملتی ہے اسٹیوجابز کو   کئی دفعہ  کمپنی سے نکالا گیا اور اس کے  متعلق   یہ بھی کہا گیا کہ  یہ  اس کا م کے لیے فٹ نہیں ہے   لیکن   ہر دفعہ  وہ واپس آتا اور  کام شروع  کر دیتا اور آخر کار اس نے اپنے آپ  کو منوا لیا ۔ بعض اوقات وقت  ایساہوتا ہے کہ   جس  میں بندہ اپنے آپ کو  پورا دیکھا نہیں پاتا  لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس  کی ذات  اپنے آپ  پر کھلنا شروع ہو جاتی ہے  اور  وہ فیصلہ  کرنے کے قابل ہو جاتا ۔ ناکامیوں سے کسی  کے  متعلق  یہ  فیصلہ نہیں  کیا جا سکتا  کہ اس کا  مستقبل  اچھا ہے  یا برا۔ ناکامیوں   سے  جو سبق  ملتے ہیں   اور ان سے جو بندہ  فیصلہ کرتا ہے  اس   سے پتا چلتا ہے  کہ  مستقبل اچھا  ہے یا برا۔
ایک  لیڈر کے پاس اختیارات  کا ہونا بہت ضروری ہے اگر لیڈر  سے اپنی  روٹی  ہی پوری   نہیں ہو رہی  تو  وہ  لیڈ نہیں  کر سکے گا۔  لیڈر کا مطلب ہے کہ  بند ے کو اپنے علاوہ  بھی جینا آتا ہوجوبندہ صرف اپنے لیے  ہی جی رہا  ہو وہ لیڈنہیں  کرسکتا ۔ بعض اوقات جب   لیڈ کرنے والے  کے پاس  اختیارات ہوتے  ہیں  تو وہ بائی چوائس ان اختیارات  کا غلط استعمال کرتا ہے  اس  کا  اختیارات  کو غلط استعمال کرنا کرپشن   کہلاتا ہے ۔ کرپشن ایک چوائس ہوتی ہے  اگر بندے  کی چوائس میں کرپشن ہے  تو  پھر بندہ کرپٹ ہو جاتا ہے   اور وہ کرپشن کی طرف جاتا ہے ۔  بدترین حالات  میں بھی  اچھے  کام کرنے والے  لوگ موجود ہوتےہیں ۔سخت ترین حالات میں  بھی  لوگوں نے لیڈ کیا ہے  ۔  لیڈر  کبھی  بھی حالات کے تابع  نہیں ہوتا    وقتی طور پر  تو تابع ہو سکتا ہے  لیکن ایسا نہیں ہوتا کہ ایک طویل  عرصہ حالات اس کو دبائے  رکھیں  اور  اس کی لیڈر شپ دب جائے  لیڈر جیلیں کاٹےگا،تکلیف اٹھائے گا، بھوک  برداشت کرے گا  اپنے  اہداف  پر کبھی  بھی کمپرومائز  نہیں  کرےگا۔
آج  گورنمنٹ  سیکٹرز میں  لیڈر شپ پڑھائی  جار ہی ہے  لیکن  یہ  یاد رہے کہ  لیڈرشپ پڑھنے  سے لیڈر نہیں بنا جاتا۔   ایک  لیڈر  میں لیڈر والی صفات  پہلے سے موجود ہوتی ہیں نیلسن  مینڈیلا  کودیکھا جائے تو پتا چلے گا کہ  وہ  پیدا  ہوا تو لیڈر تھا  ۔اس کی قربانیوں ، ویثرن اور اس کی صلاحیتوں نے اسے  قومی سطح سے  بین الاقوامی  سطح  کا لیڈر بنا دیا۔  پڑھانے  سے یہ ضرور ہوتا ہے  کہ سوئی  ہوئی لیڈر شپ  جاگ جاتی ہے   کیونکہ بعض  لوگوں میں لیڈروالی  صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں جو ٹرنینگ  سے جاگ جاتی  ہیں ۔ لیڈ کر نے والے  لوگوں کے ساتھ  رہ رہ  کر بھی  لیڈر شپ  والی صلاحیتیں جاگ جاتی ہیں، لیڈر والاحوصلہ  پیدا ہو جاتا ہے، لیڈکرنا سمجھ آجاتا  ہے۔  لیڈرشپ کے بھی وائرس ہوتے ہیں جو ایک سے دوسرے کو لگ جاتےہیں ۔
اگر  کسی   جگہ  ایک   ہی پائے  کے  دو لیڈر ہوں   اور  لوگوں کو کسی  ایک کا انتخاب  کرنا پڑے  تو  اس کا  آسان حل یہ ہے کہ  دونوں کا بیک گروانڈ  دیکھا جائے۔  جس نے ماضی  میں کوئی فیصلہ نہ  کیا ہو ، حوصلہ  اورظرف   نہ  ہو،بڑا دل نہ ہو، برداشت نہ ہو ،  منظم کرنے کی صلاحیت  نہ ہو  تو ان صورتوں  میں ا  س کو لیڈر والا  کردار  نہیں دینا چاہیے ۔اکبر  کو چھوٹی عمر  میں ہی  بادشاہت  مل  گئی تھی   لیکن وہ سمجھ  گیا  کہ  میں تو اس  کو نہیں چلا سکوں گا  کیونکہ  میرے پاس نہ توتعلیم  ہے اور نہ تجربہ اس  کا حل  اس نے یہ  نکالا کہ اس نے نورتن  (نو ہیرے) رکھ  لیے ۔آج  اگر کسی کو لیڈر  شپ  کی  آفر  ہو  اور اس  کو چلانے  میں مسائل  درپش ہوں تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی  مرکزی   ٹیم  میں انتہائی  قابل   لوگ شامل کرے ایسا کرنے سے  اس کی  لیڈر شپ چل جائے گی ۔ جس  کو  محسوس   ہو کہ  وہ لیڈر ہے  اور وہ ٹیم بنا کر اس  کو لیڈ کر سکتا ہے  اسے چاہیے  کہ   وہ اپنی صلاحیت  کو پالش کرے  اور پالش  کرنے کے   لیےکسی گرو  کو ،  کسی  منٹور  کو یاکسی  ٹاپ کے لیڈر کو تلاش کرے ۔ جس  کو محسوس  ہو   کہ  میں لیڈر  ہوں  اسے چاہیے  کہ وہ   کام تلاش کرے   جس میں  ساری  صلاحیتیں   کا م میں آسکیں  اگر  وہ  کام  تلاش کر لیتا ہے  اور  اس کو ہدف  بنا لیتا ہے  تو پھر اس کے لیے صلاحیتوں کو استعمال کرنا بڑا آسان ہو جائےگا۔اگر وہ ایسا نہیں  کرتا  تو  پھر وقت کے ساتھ ساتھ اس  کی لیڈرشپ ماند پڑتی   جائے گی ۔
لیڈر شپ  میں کمیونیکیشن  کا  کردار بہت اہم ہوتا ہے ۔  کمیونیکیشن میں  دو چیزیں  ہوتی ہے  ایک  وہ بات چیت  جو پبلک  کے ساتھ ہوتی ہےجبکہ  دوسری   وہ بات چیت  جو وہ اپنے ساتھ کرتا ہے  ۔ لیڈر  کی اپنے ساتھ بات چیت کا معیار بتاتا ہے  کہ وہ کتنا بڑا لیڈر ہے۔جو بندہ شرمیلا ہو  ، جو نادوسروں کے ساتھ بات چیت  کر سکے  اور نہ  ہی اپنے ساتھ  کر سکے  ایسے شخص  کے لیے  لیڈر  بننا بہت  مشکل ہوتا ہے ۔ لیڈر اپنے  وقت  کو  تین حصوں میں تقسیم کرتا ہے  ایک حصے  میں  اس  کے مالی  معاملات  ہوتے ہیں،  دوسرے  میں    کوالٹی  ہوتی  ہے جبکہ تیسرے  حصے میں  تعلقات   ہوتےہیں لیکن ان  کے باوجود  لیڈر  کا ہر دن بدلتا رہتا  ہے  اسے ہر دن  نئے چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے۔ جو شخص   شرمیلا ہوتا ہے  وہ  اپنا حق نہیں مانگ سکتاجب  وہ خود اپنا حق نہیں مانگ سکتا  تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ  وہ دوسروں کے  لیے  حق مانگ سکے جو   خود کو لیڈ  نہیں  کر سکتا  تو  کس طرح ممکن ہے کہ  وہ دوسروں کو لیڈ کر سکے ۔ا یک ایسا بندہ جس  کو علم نہیں ہے  کہ میں نے کیسے  چلنا ہے ، کیسے اہداف کو حاصل کرنا ہے  وہ کبھی بھی  یہ نہیں  کر سکتا  کہ  وہ اپنے وقت کو تین حصوں میں تقسیم کر تے ہوئے   کسی جگہ پر پہنچ جائے ۔
لیڈرز میں بھی  بہت ساری  غلطیاں  ہوتی  ہیں  ان میں  جلد بازی  بہت اہم ہے  لیڈر ز یہ غلطی بہت زیادہ  کرتےہیں ۔ انسان  ویسے  ہی جلد باز ہے  لیکن اگر یہ جلد بازی  لیڈر  میں آجائے تو  اس  کے بڑے برے نتائج نکلتے ہیں  کیونکہ  لیڈرز  کے  فیصلوں  کے  نتائج سالوں بعد آنے  ہوتےہیں ۔ یہ اقبالؒ اور جناح ؒ  کا ویثرن  ہی تھا  جس  کی وجہ سے آج  ہم ایک آزاد ملک میں سانس لے رہے  ہیں ۔ایک لیڈر کو جلد باز نہیں  ہونا چاہیے  اس  میں  صبر و تحمل ہونا چاہیے  یہ صبر وتحمل  ہی  انسان کو آگے لے کر جاتا ہے ۔ جلد بازی کے علاوہ برداشت بہت اہم  ہے کیونکہ برداشت ایک ایسی چیز ہے  جو  اہل بنا دیتی ہے اور پھر  بندہ نااہل  کو برداشت   کرنے  کے قابل ہو جاتا ہے ۔ جو بندہ    ایک جملے پر اپنے عہدہ چھوڑ دے   وہ لیڈر نہیں  ہوتا لیڈر کو تو سو باتوں کا  سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ تاریخ میں  کسی بھی شعبے  کے  لیڈر کو دیکھا جائے تو  پتا چلتا ہے کہ  اس نے  کتنے  چیلنجز کا سامنا کیا مگر ان  کے  باوجود انہوں نے ہمت نہیں ہاری  اور منزل  پر پہنچ کر  ہی دم لیا۔
آج  کی جدید ٹیکنالوجی  لیڈرشپ پر  اثر انداز ہو رہی  ہے اس  نے لیڈرشپ کو  مشکل بنا دیا ہے کیونکہ آج  لوگ اتنے سادہ  نہیں رہے ۔ آج  عوام کی  سوچ  میڈیا  کے ذریعے بنتی ہے۔ آج اخبار پڑھنے والوں کی  تعدا د زیادہ ہوگئی ہے۔ آج ٹی وی کے سامنے بیٹھنے  والوں  کی تعداد زیادہ ہو گئی ہے۔آج کے نوجوان   کوسارے ایشوز  کا پتا  ہے ۔ ایک لیڈر  نے خود ہی اپنے آپ کو چیک اینڈ بیلنس   کرنا ہوتا ہے   اگر  وہ نہیں کرتا  تو اس  کی پیروی  کرنے والے چیک اینڈ بیلنس  کرنا شروع کر دیتےہیں ۔آج کی  عوام کو پتا ہے  کہ  کون  کونسے  مسائل ہیں  اور  یہ کس طرح حل ہو سکتے  ہیں  اور لیڈر ز ان کے حوالے سے کیا کام  کر رہےہیں ۔
ا گر  معاشرے  میں ایک بھی چیز  تیز بھاگنے والی آ گئی  تو  لیڈر کو  بھی تیز بھاگنا پڑے گا  تبی  جاکر  لیڈرشپ قائم رہ پائے گی۔




1 تبصرہ: