اتوار، 4 جون، 2017

ضروری علم


انسان  کا علم  اللہ تعالیٰ کے  احکام  اور اس کی معرفت  کے  بارے میں ہونا چاہیے۔ضروری علم حاصل کرنا انسان پر فرض ہے  یعنی وہ علم  جو ضرورت کے وقت انسان  کے ظاہر  اور باطن  کے لیے کام  آئے۔
شرح:
حضرت سری سقطیؒ  نے اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ  جس نے  پہلے حدیث  کا علم  حاصل  کر کے  تصوف  میں قدم رکھا  اس نے فلاح پائی  اور جس نے  علم حاصل  کرنے  سےپہلے صوفی بننا چاہا اس نے اپنے آپ کو  ہلاکت میں ڈالا۔(احیا ء العلوم:ص13،ج1)
حضر ت  جنید بغدادی ؒ  فرماتے ہیں  جو علم شریعت سے آگاہ نہیں  اس کی اقتداء  نہ کریں اور  اسے اپنا پیر نہ بنائیں  کیو نکہ  ہمارا علمِ طریقت کتاب  وسنت کا پابند ہے۔ (رسالہ قشیریہ :ص24)
ضروری  علم  کی  دو قسمیں ہیں:
علم ِ  اصول اور علمِ فروع
علمِ اصول کا ظاہر یہ ہے کہ  انسان  کلمہ شہادت پڑھے ( یعنی اللہ تعالیٰ  کی وحدانیت  اور حضوراکرمﷺ کی رسالت  کی زبانی طور پر گواہی دے) اور اس  کا باطن یہ ہے  انسان اللہ تعالیٰ  کی معرفت  کے حصول  لے لیے جدو جہد کرے ۔علم ِ فروح کا ظاہر  یہ ہے کہ انسان  معاملات  میں عمل کو سرانجام  دے اور اس  کا باطن  یہ ہے  کہ اس  کے حوالے  سے اس  کی نیت ٹھیک  ہونی چاہیے۔ان میں سے  علم  کی ہر ایک شاخ  دوسری کے بغیر قائم نہیں  رہ سکتی۔حقیقت کا ظاہری حصہ  باطن  کے بغیر  منافقت شمار ہوگا  اور ظاہر کے  بغیر  باطنی حصہ  بے دینی شمار ہوگا۔باطن کے بغیر  شریعت  کے  ظاہری حصہ میں  نقص ہوگا  اور ظاہر کے بغیر(باطنی حصہ) ہوس ہوگا۔
علمِ حقیقت کے ارکان
علم حقیقت  کے تین ارکان ہیں
1)    اللہ  تعالیٰ کی  ذات ، اس  کی وحدانیت  اور کسی چیز  کے اس کے مشابہ  ہونے  کی نفی کا علم
2)    اللہ تعالیٰ  کی صفات  اور اس کے احکام  کا علم
3)    اللہ تعالیٰ  کے افعال  اور ان کی حکمت کا علم
علمِ شریعت  کےتین ارکان ہیں
کتاب، سنت اور اجماع
ذات، صفات  اور افعال کا اثبات
اللہ تعالیٰ کی ذات ، اس کی صفات  اور اس کے افعال  کے اثبات  کے علم کی دلیل اللہ تعالیٰ  کا فرمان ہے:
"تم  یہ بات جان لو  اللہ تعالیٰ  کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں ہے۔" ( محمد:19)
"تم  لوگ یہ بات جان لو  اللہ تعالیٰ  ہی تمہارا آقا ہے۔" (الانفال:40)
"کیا تم  نے اپنے پروردگار  کے بارے  میں غور نہیں کیا  کہ اس  نے کس طرح  سے سائے  کوپھیلایا ہے۔" (الفرقان:45)
"کیا وہ لو گ  اونٹ کا جائز ہ نہیں لیتے  کہ اسے  کیسے  پیدا  کیا گیا  ہے ۔" (الغاشیہ:17)
 اسی طرح  کی دیگر بہت سی آیات ہیں جو اللہ تعالیٰ کے افعال کے بارے میں  غورو فکر  کی طرف رہنمائی  کرتی ہیں تا  کہ ان کی مدد سے  انسان  اللہ تعالیٰ کی صفات  کو جان لے۔
ایمان، جہنم  سے نجات کا باعث ہے
حضور اکرمﷺ  کا فرمان عالی شان ہے کہ
"جو شخص  یہ بات  جان  لے  کہ اللہ تعالیٰ  اس کا پروردگار ہے  اور  میں اللہ تعالیٰ  کا نبی  ہوں تو اللہ تعالیٰ  اس کے گوشت  اور خون ( یعنی اس کے وجود ) کو جہنم  پرحرام قرار دیدےگا۔"
ذات پر ایمان کی وضاحت
اللہ  تعالیٰ  کی ذات کے بارے میں علم  کے لیے یہ بات شرط ہے  کہ عاقل و بالغ  انسان  یہ  بات جان لے  کہ اللہ تعالیٰ   کی ذات  ہمیشہ ہمیشہ  سے موجود ہے ، اس کی کوئی  حد اور  کوئی حدود نہیں ہے ۔ وہ مکان  اور جہت سے پاک ہے ( وہ  اپنی شان  کے لائق) عیب سے پاک ہے۔  مخلوق میں سے   کوئی بھی  اس کی مانند  نہیں  ہے ، اس کے بیوی  بچے نہیں  ہیں ،  جس  بھی چیز کا تصور آپ کے ذہن میں آسکتا ہے  وہ ان سب کو  پیدا  کرنے والا ہے ، انہیں برقرار رکھنے والا ہے  اور وہ ان کا پروردگار ہے چنانچہ قرآنِ پاک  میں ارشاد ہے کہ
"ا  س  کی مانند کی کوئی چیز  نہیں ہے اور وہ سمیع و بصیر  ہے۔"
صفات کا علم
 اس کی صفات  کا علم یہ ہے کہ آپ یہ بات جان لیں ؛ اس کی صفات  اس کی ذات کی وجہ سے موجود ہیں ، وہ اس کی ذات کا حصہ نہیں ہیں  اور اس  کی ذات کا جزو نہیں ہیں ، وہ صفات  اس  کے وجود سے  قائم ہیں  اور ذات  خود قائم و دائم  ہے  جیسے  علم، قدر ت،ارادہ، سمع، بصر، کلام ، بقاء۔
چنانچہ قرآنِ پاک میں ارشاد ہے :
"وہ ان چیزوں کا علم  رکھتا ہے  جو سینوں میں ہے ۔"(الزمر:7)
"اللہ  تعالیٰ  ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔"(آل عمران:29)
" وحی  ہے اس کے علاوہ  اور  کوئی  معبود نہیں ہے ۔"(المومن)
" وہ سمیع و بصیر ہے۔"(الشور  یٰ:11)
"جو وہ چاہتا ہے  کرتا ہے۔" (البروج:16)
" اس کا فرمان حق ہے  اور بادشاہی  اسی کے   لیے مخصوص  ہے۔" (الانعام:73)
اس کے فعل کے  اثبات  کے  بارے میں علم  سے مراد  یہ ہےکہ آپ یہ بات  جان لیں ؛اسی نے تمام مخلوق کو پیدا  کیا ہے اور ان کے  افعال  کا بھی خالق ہے ۔ ایک وقت تھا   یہ جہان موجود نہیں تھا پھر یہ اس کے فعل  کے نتیجے میں  وجود میں آیا۔ اس نے بھلائی اور برائی  کو مقرر کیا ہے ۔ وہ  نفع اور نقصان کا خالق ہے ۔ چنانچہ  اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
"اللہ  تعالیٰ ہر چیز  کا خالق ہے۔" (الزمر:62)
شریعت  کے احکام  پر اثبات  کی دلیل سے مراد یہ   ہےکہ  آپ یہ بات جان لیں ؛ اللہ تعالیٰ  کی طرف سے  ہمارے پاس  رسول  تشر یف لائے  اور  معجزوں  کے ہمراہ آئے  جو کہ عام عادت کے خلاف  تھے اور ہمارے رسول حضرت محمدﷺ سچے ہیں۔  انہیں بہت  سےمعجزات ملے  ہیں ۔ انہوں نے غیب  اور ظاہر کے بارے میں  جن چیزوں  کے بارے میں بتایا ہے  وہ سب سچی ہیں۔
شرح:
آپﷺ کے معجزات  کی تعداد   کوشمار کرنا  انتہائی دشوار ہے ۔آپﷺکی ذات ِ مقدسہ تمام انبیاء علیہ السلام  کے معجزات کا مجموعہ ہے۔آپﷺ کو  وہ معجزات دیئے گئے  جو کسی دوسرے  نبی و رسو ل  کو  نہیں دیئے گئے۔
شرعی احکام  کا ماخذ
شریعت ( کے احکام) کا سب سے پہلا  رکن اللہ تعالیٰ  کی کتاب ہے  چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
"اس میں  بعض محکم آیات ہیں ۔"(آل عمران:7)
دوسرارکن سنت  ہے چنانچہ  ارشاد ہے  کہ
"رسول  تمہیں جو دیں اسے حاصل کر لو اور جس چیز سے منع  کریں اس  سے بازآجاؤ۔" (الحشر:7)
تیسرا رکن امت کا اجماع ہے چنانچہ حضور اکرم ﷺ کا  ارشادِ مبارک  ہے  کہ
"میری امت گمراہی پر اکھٹی نہیں ہو سکتی  تم بڑی جماعت کے ساتھ رہنا۔"(المستدرک حاکم:حدیث355)
شرح : بیان  المجذوب علی کشف المحجوب
جب حضوراکرمﷺ  نے ہمیں  شریعت اور معرفت کا علم عطا فرمایا ہے اس وقت زندگی  کے دو شعبے رہے۔  ایک لوگ  وہ جو شریعت والے اور دوسرے معرفت والے۔ہمیشہ شریعت  معرفت   پر غالب رہے گی ۔ جب  شریعت  معرفت  پر غالب رہی  تب حقیقت قائم رہی اور  امت شرک  و بدعات جیسے فتنوں سے بچی رہی لیکن جب معرفت  شریعت پر غالب آ گئی  تو فتنوں  کا دور شروع ہو گیا۔ اگر شریعت  معرفت پر غالب رہے تو انسان  بہت اونچی پرواز  کرتا ہے   اگر شریعت سے نکل گیا تو  گمراہ ہو جائے گا۔جس طرح  علوم دو طرح کے ہیں اسی طرح  عالم  بھی  دو طرح کے ہیں ایک  عالم ظاہر اور ایک عالم باطن ۔ ایک  کو  اصحاب ِ شریعت  کہتے ہیں اور  ایک اصحابِ  تکوین جو اصحابِ تکوین  ہیں  ان میں رجال الغیب  ہوتے ہیں  جن کو ابدال  کہا جاتا ہے ، غوث کہا جاتا ہے ، قطب  کہا جاتا ہے ، قطب  مدار کہا جاتا ہے، قطب  عالم  کہا جاتا ہے۔






کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں