اتوار، 9 جولائی، 2017

تزکیہ نفس اور مرشد۔۔۔۔۔سیدقاسم علی شاہ


اپنی ذات کے ادھورے پن کو مکمل کرنے کے لیے جس شخص کی ضرورت ہوتی ہے وہ مرشد ہوتا ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ بچے کوماں کے پیٹ میں ایک مدت تک رکھتا ہے پھر دنیا میں لاتا ہےاسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہدایت بھی کسی سے منسوب کی ہوتی ہے یہ اس لیے ہوتا ہےکہ کہیں میرا بندہ بھٹک نہ جائے۔ انسانی نفسیات کا سب سے خوبصورت پہلویہ ہے کہ وہ صحبت سے سیکھتا ہے۔ اسی فیصد لوگوں کے مسکرانےکا اندازان کی ماں سے ملتا ہےاس پرغورکیا گیا تو پتا لگا کہ جس چہرے کو انسان سب سے زیادہ دیکھتا ہے وہ شعوری اورلاشعوری طور پرماں کا چہرہ ہوتا جس وجہ سے ماں کی مسکراہٹ بچے پرپرنٹ ہوجاتی ہے۔درحقیقت مرشد کا تعلق محبت کا تعلق ہوتا ہے اس میں جبرمیں نہیں ہوتا، یہ دل دینےوالی بات ہوتی ہے۔ کسی جگہ پر اپنی عقل کا سمندر چھوٹی سی پوٹری لگتا ہےاوراحساس ہوتا ہےکہ اس کا ویثرن مجھ سےزیادہ ہے حضرت واصف علی واصف ؒ فرماتےہیں "آپ کی زندگی میں ایک آواز ایسی ضرور ہونی چاہیے جس آوازکوبغیرتحقیق کےمان جائیں اوروہ آوازمرشد کی ہوتی ہے"۔
مرشد وہ ذات ہوتی ہے جومرید سے زیادہ مرید کے فائدے کوجانتی ہےکیونکہ جس راستے سےمرید گزرنا چاہتا ہے وہ اس راستے سے گزرچکی ہوتی ہے،حضرت واصف علی واصف ؒ فرماتے ہیں "ہرمسافرکورہبرکی ضرورت ہوتی ہے،ہر چلنے والےکورہبرکی ضرورت ہوتی ہے۔" جو ہدایت کا طالب نہیں ہےاس کورہبرکی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اگرکوئی منزل نہیں ہے تو پھرکونسااورکیسا رہبر۔ایک بندہ چوراہے پہ کھڑے بابا جی سے پوچھتا ہے کہ باباجی یہ را ستہ کہاں جاتا ہے باباجی نے پوچھا تم نےکہاں جانا ہےاس نے جواب دیا بس مجھے چلنا ہے بابا جی نے کہا کہ پھریہ نہ پوچھ یہ راستہ کہاں جاتا ہے پھرجو بھی راستہ ملتا ہےاسی راستے پر چلتے جاؤ۔
اللہ اوراللہ کاراستہ شوق کا راستہ ہے، یہ محبت کاراستہ ہےاس کی کوئی منزل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ سے محبت کا شوق اوراس کےراستے پرچلنے کا شوق بذات خود ایک منزل ہے یہ سفر نہیں ہےاور نہ ہی اس کا کوئی انجام ہے۔
چلے ہو ساتھ تو ہمت نہ ہارنا واصفؒ
کہ منزلوں کو تصورمیرے سفرمیں نہیں
ایک شخص حضوراکرم ﷺ کےعشق میں رورہا تھا اس نےاپنےمرشد سے پوچھا کیا اس کا کوئی نتیجہ ہےمرشد فرمانے لگےکہ آپ ﷺ کےعشق میں رونا تو بذات بہت بڑا نتیجہ ہے کیا تم اس کے بعد بھی کوئی اور نتیجہ لینا چاہتے ہو، لوگ تو ترستےہیں کہ ہماری زندگی کے آنسوؤں میں کوئی ایک آنسو آپﷺکی محبت کا ہو،یہ سعادت کتنی بڑی سعادت ہے کہ تمہاری آنکھ سے آپﷺکی محبت میں آنسو ٹپک رہے ہیں ۔
محبت کا معاملہ اصل میں استاداور شاگرد کامعاملہ ہوتا ہے یہ ایک پیراورمریدکا معاملہ ہوتا ہے۔ لازم نہیں ہے کہ کسی کی نصیحت سکھائے ممکن ہے کسی پروسس سے گزارا جائےاورسبق مل جائے۔ ایک مرید اپنے مرشد کے پاس آیا اورکہا کہ حضورمیری طبیعت میں گداز نہیں ہے کوئی طریقہ بتائیں تاکہ مسئلہ حل ہو جائے مرشد نے کہا اس کے لیے تمہیں ریاضت کرنی پڑے گی تمہارا مسئلہ حل ہو جائےگا اس نے پوچھا حضورمجھےکیا کرنا پڑے گا مرشد نے کہا فلاں علاقےمیں فلاں موسم میں ایک پھول کھلتا ہےاس سےدو قطرےعرق کے نکلتےہیں یہ شیشی لےجاؤ اسکو بھر کےلاؤ مرید چلا گیا اسے شیشی کو بھرنےمیں کئی سال لگ گئے جب شیشی بھرگئی تووہ خوشی سے لےکراپنےمرشد کے پاس جانے لگا لیکن ابھی چلا ہی تھا کہ ٹھوکرلگنے سے شیشی ہاتھ سےگرگئی اورساراعرق بہہ گیا مریدرونےلگ پڑا اسی دوران مرشد بھی وہاں پہنچ گئےانہوں نے پوچھا کیا معاملہ ہےاس نے جواب دیا حضورمیری سالوں کی ریاضت ضائع ہوگئی مرشد مسکرائےاورہاتھ بڑھا کراس کے چہرے سےآنسولیےاورفرمانےلگےکہ یہ آنسواس عرق سے کئی گنا قیمتی ہیں مجھے یہی چاہیے تھےاورجوگدازکامعاملہ تھاوہ دل کے ٹوٹنےکے بغیرنہیں ملنا تھا حضرت واصف علی واصفؒ فرماتےہیں "نم آنکھ خدا کی رحمت کی دلیل ہے۔ "
حضرت واصف علی واصف ؒ فرماتےہیں "رات جاگنے والا بد نصیب نہیں ہو سکتا " کسی نے پوچھا استاد جی رات جاگنے سے بد نصیبی دور ہوتی ہے تو کیا اللہ تعالیٰ کے لیےرات جاگنا ضروری ہے آپؒ نے فرمایا رات جاگنا بذات خود ایک اعزازہے کیو نکہ رات جاگنےوالا دیکھنےوالےکی نگاہ میں ہوتا ہے۔ جب کوئی خریداری کرتا ہے تووہ ذات دیکھ رہی ہوتی ہے کہ یہ اپنے معاملےمیں کتنا سچا ہےممکن ہےاس کا معاملہ صرف ایک ہی ہواوروہ یہ ہوکہ شراب پی ہولیکن اللہ تعالیٰ کے نام کوخوشبو لگا کرایمانداری سے رکھا ہواوراگلےدن دنیا کو پتا چل گیا کہ میرے بندے نےمیری تکریم کی ہےاب مجھ پرلازم ہے کہ میں اس کوعزت دوں ۔
کشف المحجوب میں ہےکہ مرشدکے پاس ان کےمرید فیض لینےکے لیےایک عرصہ سے بیٹھے ہوئے تھےلیکن انہیں کچھ نہیں ملا تھا ایک دن ایک شخص آیا اس کی مرشد کے ساتھ ایک ملاقات ہوئی اوراس کو فیض مل گیا فیض لینےکے بعد وہ چلا گیا جب مریدوں نےدیکھا توانہوں نےمرشد سے سوال کیا کہ"کیا ہم نےآپ کی خدمت نہیں کی، کیا ہم نےآپ کووضونہیں کرائے، کیا ہم نےادب نہیں کیا"مرشد نےکہا کہ" ہاں یہ سب کچھ تم لوگوں نے کیا مگرمیں کیا کروں تم گیلی لکڑیاں لےکربیٹھے ہوئے ہو جبکہ اس شخص کی لکڑیا ں خشک تھیں " خشک لکڑیاں لے کرجانے والا بذات خود محترم ہوتا ہے۔ حضرت واصف علی واصف ؒ فرماتےہیں "روحانیت میں ، خدا کےراستے میں منزل تمہارا انتظارکررہی ہوتی ہے لیکن تم منزل لینےکے لیے تیارہی نہیں ہوتے۔" جو آنکھ دیوارسے پار نہیں جا سکتی، جو سماعت کمرے سےباہر نہیں جا سکتی وہ کیا دعویٰ کرے گا کہ وہ خدا سے محبت کررہا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی نظر کرم ہے جو بندے پرپڑتی ہےاوراس کےاندریہ احسا س پیدا ہوتا ہے کہ میری اللہ تعالیٰ سے محبت ہے۔جاننے والا محبت کر سکتا ہے انجان کی محبت کیا محبت ہوگی یہ اس کا حسن خیال ہے کتھے مہرعلی ۔۔۔ کتھے تیری ثنا۔اگرزمانہ چاہےتووہ ذات کل کائنات میں نہیں سماسکتی لیکن اگرسمانے پہ آئے تو بندہ مومن کےدل میں سما جاتی ہے ۔
سچی طلب سے فاصلے ختم ہو جاتے ہیں تیرا سوسال کا پردہ ہٹ جاتا ہےاورغازی علم دین شہید ؒ امر ہوجاتا ہے۔ سچی طلب سات سوسال کے فاصلےکوختم کردیتی ہے پھرکہاں مولانارومؒ اورکہاں حضرت علامہ اقبالؒ فاصلےکے باوجود بھی بندہ فیض یافتہ ہوجاتا ہے۔ محبت میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ جسمانی موجودگی کی اہمیت ختم ہوجاتی ہےاورفاصلہ سمٹ جاتا ہے۔ اگر سچی محبت نہ ہو توبارگاہ رسالت ﷺکےپاس رہنے والاابوجہل ہی رہتا ہے جبکہ حبشہ سے آنے والے حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کا ستارہ چمک جاتا ہے حضرت علامہ اقبال ؒ فرماتےہیں
شوق تیرا اگر نہ ہو میری نمازکا امام
میراقیام بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب
ایک صحابی رضی اللہ عنہ حضوراکرمﷺ کی بارگاہ میں آئےاورعرض کی کہ یارسول اللہ ﷺمیں جہاد پہ جانا چاہتا ہوں آپﷺ نےفرمایا تمہاری ماں ہےانہوں کہاجی ہیں آپﷺ نےفرمایا اس کی خدمت کروانہوں نےاسی بات کودو تین دفعہ دہرایا جس پر حضوراکرم ﷺ نےفرمایا تیرے لیے جہاد سے افضل ماں کی خدمت ہے۔ ممکن ہے ہمیں کوئی کہےکہ راستےکا پتھرہٹا دو جبکہ ہم نے فیصلہ کیا ہو کہ ہم نے پہاڑ ہٹانا ہے،ممکن ہے کوئی کہے کہ نماز پڑھ لو جبکہ ہم نے سوچا ہوکہ ہم نےمسجد بنانی چاہیے۔ بعض اوقات جوکہہ دیا جائےاسےمن وعن قبول کرلینا چاہیےاسی میں بہتری ہوتی ہے۔سچی طلب سب سے بڑا رہبر ہےکیونکہ سچی طلب سچے رہبر تک لےجاتی ہے حضرت واصف علی واصف ؒ فرماتے ہیں "سچا مرید جھوٹے پیرکو بھی سچا کر دیتا ہے۔"
جوروحانیت لے کرآتاہےوہ ضائع نہیں جاتی کیو نکہ اس نے روحانیت کے لیےراتیں لگائی ہوتی ہیں طشت کاٹا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ پھروہ پیغام سینوں، کتابوں اور لوگوں کی گواہیوں میں زندہ رہتا ہے۔ جس رات حضور اکرم ﷺ نے تین سو تیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہما کواکھٹا کرکےدعافرمائی کہ ائے اللہ اگریہ چلےگئے تو پھرکوئی تیرا نام لیوا نہیں رہےگاوہ دعا اتنی قبول ہوئی کہ وہی تین سو تیرہ کی تعداد آج عربوں تک پہنچ چکی ہےکیونکہ فیض والامعاملہ رکتا نہیں ہے وہ فیض والا معاملہ چل پڑتا ہے۔ حضرت علی بن عثمان الحجویرؒ نے چند لوگوں کومسلمان کیا ہوگا لیکن آج انہیں کی نسلیں برصغیرمیں نظرآ رہی ہیں ۔
مدینے کےگورنرکوخواب آتا ہےکہ اس حلیے کا شخص آئے تواس کومدینےمیں داخل نہ ہونےدینا کیونکہ اس کومجھ سےاتنی محبت ہے کہ اگروہ یہاں آ گیا تو مجھےقبرسےباہرآنا پڑے گا۔حضوراکرم ﷺ آخری ایام میں مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے تھےاورآپﷺ کی آنکھوں سےآنسوبہہ رہے تھےصحابہ کرام رضی اللہ عنہما نےعرض کی یارسول اللہ ﷺ کیا وجہ ہے آپﷺ نے فرمایا" تم لوگوں نے تومجھے دیکھا ہےمگرمیں ان کو یادکرکے رورہا ہوں جنہوں نےمجھے دیکھا نہیں ہوگا لیکن وہ مجھےیادکرکے روئیں گے۔"کتاب تو شائدعلم کا مدفن ہے لیکن نگاہ مخرج ہے اس لیے فیض ایک سینے سے دوسرے سینے میں منتقل ہوتا ہے۔ دنیا میں آج تک کسی کو اتنی محبت سے یاد نہیں کیا گیا جتنا حضوراکرم ﷺ کو یادکیا گیا۔
دو شخص آپس میں باتیں کررہے تھے ایک صاحب نےدوسرے سے کہا کہ فلاں بہت بڑے بزرگ ہیں دوسرا شخص ان بزرگ کو چیک کرنے چلا گیا اورکئی دن بیٹھا رہا بیٹھنے کی وجہ سےاس کا بزرگ رابطہ ہوگیا پھراسی طرح کئی سال گزرگئے اس شخص کو پہلی باراس دن یہ احسا س ہوا کہ یہ میرےمرشد ہیں جس دن وہ مرشد شہر سے باہر گئے کیونکہ وہ دن اس کے لیے گزرانا مشکل ہوگیا اوراسے محسوس ہوا کہ میری زندگی میں کوئی کمی ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہما جب آپﷺ کی بارگاہ میں بیٹھیں ہوتےہیں توان کے ایمان کی حالت کچھ اور ہوتی ہے جب اٹھ جاتے ہیں تو ایمان کی حالت کچھ اور ہوتی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بارگاہ جہاں پر ایمان کی حالت اور ہو جائے وہاں سمت بدل جاتی ہے حضرت واصف لی واصف ؒ فرماتےہیں "دنیا دار کی مجلس میں بیٹھ کردنیا یاد آتی ہےاوراللہ والے کی مجلس میں بیٹھ کر اللہ یاد آتاہے" پھرفرمایا "جس مجلس میں تمہاری آنکھ میں نمی آ گئی وہاں پر تمہارا کوئی معاملہ ضرور ہے" کیونکہ آنسو تعلق کی علامت ہیں۔ مرشد کےساتھ محبت کا ایک وقت ہےوہ تب تک ہے جب تک تکمیل نہیں ہوجاتی۔ فیض مل جانا جدائی کی علامت ہےاور کہہ دیا جاتا ہے کہ اجمیر چلے جاؤ پھر مرید جاتے وقت یہ کہہ جاتےہیں
گنج بخش فیض عالم مظہرنورخدا
ناقصاں راں پیر کامل کاملاں رارہ رہنما
حضرت واصف علی واصف ؒ فرماتےہیں پاکستان اسی دن بن گیا تھا جس دن حضرت بابا فرید گنج شکرؒ نےاجودھن کو پاکپتن بنایا تھا ۔



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں