اتوار، 21 فروری، 2021

گوگل

 

گوگل

گوگل  کا مطلب:

دنیا کے سب سے بڑے اور کامیاب سرچ انجن گوگل www.googl.com کے نام سے تو سب واقف ہیں لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ دراصل لفظ Google ایک ریاضیاتی اصطلاح Googol سے بنایا گیا ہے۔لفظ Googol ایک ننھے بچے کی ایجاد ہے جو مشہور ریاضی دان ایڈورڈ کاسنر کا بھتیجا تھا۔ ایڈورڈ یہ سوچ رہے تھے کہ اگر 1 کے بعد 100 صفر ہوں تو اس نمبر کا نام کیا ہونا چاہیے اور اس دوران ان کے کان میں ننھے بچے کی آواز پڑی جو ”گوگول“ سے ملتی جلتی تھی اور یوں انہوں نے اس نمبر کا نام گوگل (Googol) رکھا دیا۔ انٹرنیٹ کمپنی گوگل نے اس میں تھوڑی سی تبدیلی کرکے اسے Google بنا لیا اور یہ نام اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ یہ کمپنی کروڑوں اربوں کی تعداد میں معلومات انتہائی مربوط طریقے سے صارفین کو فراہم کرتی ہے۔

گوگل  کیا ہے؟

گوگل ایک ویب سرچ انجن ہے  جو کہ ویب پیجز کو ڈھونڈ کر  صارف  کے سامنے لاتا ہے۔دور حاضر میں  اس سرچ انجن جیسی کوئی اور ویب سائٹس   نہیں ہے کیونکہ یہ وہ واحد ذریعہ ہے کے جس کی بدولت دنیا بھر کی ویب سائٹس پر ٹریفک جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا میں موجود کسی بھی ویب سائٹس پر 80 فیصد ٹریفک سرچ انجن کے ذریعے آتا ہے۔

گوگل کب وجود میں آیا:

ویب سائٹ www.wikipedia.org کے مطابق گوگل کو سب سے پہلے 4 ستمبر 1998ءمیں اسٹینفورڈ یونیورسٹی، کیلیفورنیا، امریکہ  کے دو طالب علموں لیری پیج اور سرگئی برن سرچ انجن  کے  طور پر لے کر آئے۔گوگل  کو پہلے "بیک رب " کا نام دیا گیا ہے۔

گوگل کب اور کیسے بنا اس حوالے سے ڈیوڈ کولر نامی صاحب نے اپنی ایک مختصر یادداشت میں بیان کی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ انٹرنیٹ پر گوگل کے نام اور اس ویب سائٹ کے قیام سے متعلق بے بنیاد تحریروں کی بھرمار ہے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کے بقول ستمبر 1997 میں کیلیفورنیا کی اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے طالب علموں لیری پیج اور سرگی برن نے ایک نیا سرچ انجن ایجاد کیا تھا جو ایک منفرد طریقے پر کام کرتا تھا۔ وہ اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے کمپیوٹر سائنس ڈیپارٹمنٹ کے ایک کمرے میں دوسرے چند گریجویٹ طالب علموں کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے۔ ایک روز وہ اپنے ساتھیوں شون اینڈرسن، تمارا منزنر اور لوکاس پریرا کے ساتھ اس سوچ بچار میں مصروف تھے کہ وہ انٹرنیٹ اپنے اس نئے سرچ انجن کا نام کیا رکھیں۔ اس بارے میں سب ہی دوست سر جوڑ کر بیٹھے تھے۔ ان میں سے لیری ممکنہ ناموں کو شارٹ لسٹ کر رہے تھے جبکہ شون بھی اس عمل میں پیش پیش تھے۔لیری اور شون، وائٹ بورڈ پر منتخب موزوں ترین ناموں کو درج کر کے ان کے معنی اور مناسبت کے حوالے سے تفصیلات لکھنے میں مصروف تھے۔ اسی دوران شون نے زبانی طور پر ’’googolplex‘‘ لفظ تجویز کیا تو لیری نے فوراً ہی اسے مختصر کر کے ’’googol‘‘ کردیا جو کسی غیرمعمولی طور پر بڑے عدد کو ظاہر کرتا ہے۔ شون سے سننے میں غلطی ہوئی اور اس نے غلطی سے ڈومین نیم تلاش کرتے دوران googol کی جگہ google ٹائپ کردیا جو لیری برن، دونوں کو بہت پسند آیا۔ خوش قسمتی سے یہ ڈومین نیم دستیاب بھی تھا اس لیے چند روز بعد لیری پیج نے google.com کے نام سے ڈومین  نیم حاصل کر لیا اور یوں انٹرنیٹ کا مشہور ترین سرچ انجن ’’گوگل‘‘ وجود میں آیا۔ اس وقت بھی اگر آپ انٹرنیٹ سروس ’’ہو اِز‘‘ (Who Is) استعمال کرتے ہوئے تلاش کریں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ڈومین نیم google.com کی اوّلین رجسٹریشن 15 ستمبر 1997 کے روز کروائی گئی تھی۔

دلچسپ حقائق:

ایک دلچسپ  چیز  یہ ہے کہ 1999ء میں گوگل کو 5 کروڑ ویب پیجز کے انڈیکس بنانے میں ایک ماہ لگا تھا اور 2012 ءمیں یہی ٹاسک ایک منٹ سے بھی کم وقت میں مکمل کیا گیا۔ اسی طرح ایک سنگل گوگل سرچ کے دوران ایک ہزار کمپیوٹرز استعمال ہوتے ہیں جو صارف کو 0.2 سیکنڈز میں کوئی نہ کوئی جواب فراہم کرتے ہیں۔

امریکی جریدے فوربز کے مطابق اوسطاً گوگل 40 ہزار سرچ فی سیکنڈ کرتا ہے یعنی ایک روز میں ساڑھے تین  ارب۔

ویب سائٹwww.reviw42.com کے مطابق گوگل ستر ہزار سے زائد سرچ فی سیکنڈ  یعنی ایک دن میں پانچ ارب چالیس کروڑ۔

ویب سائٹ www.broadbandsearch.net کے مطابق سرچ کے حوالے  دوسرے سرچ انجن  کے مقابلے  میں گوگل  کا92.96 فیصد حصہ ہے۔

گوگل نے www.youtube.com کو 2006ء میں ایک ارب ساٹھ کروڑ ڈالر میں خریدا جو اب دنیا کا دوسرا بڑا سرچ انجن بن چکا ہے۔  یوٹیوب پر اب روزانہ ایک ارب  ویڈیوز دیکھی جاتی ہیں۔ 

گوگل  نے 2018ء میں اشتہار  کی مد میں 116 ارب ڈالر  سے  زائد  کا ریونیو کمایا۔

ویب سائٹwww.statista.com  کے مطابق 2020ء میں گوگل 80.5 فیصد ریونیوصرف اشتہار اور یوٹیوب سے  کمایا۔

 گوگل کے ملازمین کی تعداد پچاس ہزار سے زائد ہے۔

اس وقت گوگل کے سی ای او سندر پچائی  کا تعلق بھارت سے ہے۔ جس کی سالانہ تنخواہ دس ارب سے زائد ہے۔

گوگل کمپنی میں پرانے ملازمین کو گوگلرز کہا جاتا ہے جبکہ نئے ملازمین کو نوگلرز کہا جاتا ہے۔ دونوں ہی قسم کے ملازمین کو اپنے پالتو جانور دفتر لانے کی اجازت ہے اگر یہ جانور تربیت یافتہ ہیں اور دفتر میں گندگی نہیں کریں۔

 ذرائع: ڈی ڈبلیو ڈاٹ کام،عدنان خان،وکی پیڈیا،ڈیلی پاکستان ڈاٹ کام،بی بی سی ڈاٹ کام،ایکسپرس ڈاٹ پی کے۔



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں